کتنا اور کس طرح کا قرض زکوٰۃ میں مانع ہوتا ہے؟

کتنا اور کس طرح کا قرض زکوٰۃ میں مانع ہوتا ہے؟

مانعِ زکوۃ قرض

زکتنا قرضہ ہو کہ جس کی بنا پر آدمی پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی ہر آدمی پر کچھ تو کچھ قرضہ ہوتا ہی ہے۔

لآدمی کے پاس زکوۃ واجب ہونے والا جو مال ہے، اس کی مجموعی مقدار میں سے اس کا جتنا بھی قرضہ ہے وضع(کم)کیاجائے اس کے بعد جو مال بچ گیا وہ مقدارِ نصاب یا زیادہ ہے، تواس کی زکوۃ ادا کی جائے۔

قرضِ حسنہ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟

ز جو روپیہ کسی کو قرضِ حسنہ دیا اُس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟

لوصول ہونے کے بعد اُس روپئے کی زکوٰۃ دی جائے گی، اگر وصول ہونے سے قبل زکوٰۃ دے دے تو یہ بھی درست ہے۔ (فتاوی دارالعلوم ۶/۴۵بحوالۂ شامی ۲/۱۲)

قرض کی زکوۃ قرض دینے والے پر یا لینے والے پر

ززید نے بکر کو ایک لاکھ روپیہ قرض دیا، بکرنے یہ رقم اپنی ضرورت پر خرچ کردی، اور چار سال تک قرض دَہندہ کو لوٹا نہیں سکا، کیازید کی اِس رقم پر جو کہ اُس کے پاس نقد کی صورت میں نہ تو زید کے پاس موجود ہے نہ بکرکے پاس، کیا اِس صورت میں اُس رقم پر زکوۃ واجب ہے؟ اور اگر ہے تو اُس کی ادائیگی کی ذمہ داری کس پرہے؟ زید پر یا بکر پر؟

لزید نے جو رقم بکرکو بطورِ قرض دی ہے اُس کی زکوۃ زید پر واجب ہے، چاہے تو ابھی دے دے اور چاہے تو قرض وصول ہونے کے بعد گذشتہ سالوں کی ادا کردے۔

سونا ادھار خریدنے پر زکوٰۃ

ززید نے بکر کے پاس سے کچھ سونا یعنی بقدرِ نصاب یا اس سے زائد ادھار لیا، سونا تو زید کی ملکیت میں آچکاہے، تو اب حولانِ حول کے بعد زکوٰۃ کس پر واجب ہوگی؟ آیا زید پر یا بکر پر؟ اور کیا یہ خرید وفروخت بھی صحیح ہے یا نہیں؟ اور صحیح نہ ہونے کی صورت میں زید کیا کرے؟ وضاحت کے ساتھ جواب تحریر فرمائیں۔

لیہ خرید وفروخت اگر روپیوں کے عوض ہوئی ہے تو درست ہے اور جب وہ سونا زید کی ملکیت میں آچکا ہے تو اس کی زکوٰۃ بھی زید پر ہی واجب ہوگی، البتہ اگر زید مقروض ہے اور قرض کی ادائیگی کے لیے نقد رقم نہیں ہے تو اتنی مقدار اس سونے کی قیمت میں سے کم کی جاوے گی اور بقیہ سونے پر شریعتِ مطہرہ کے مقرر فرمودہ قانون کے مطابق زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (تکملہ فتح الملھم۱/۵۸۹)

قسط وار وصولی کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی

زایک آدمی نے ایک زمین بیچی۔ جس آدمی کو زمین دی، وہ قسط وار اس کی قیمت ادا کرتا ہے، جس آدمی نے زمین بیچی ہے اس نے ایک دن مقرر کررکھا ہے زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے، (صاحب نصاب آدمی ہے) اب جب وہ دن آیا تو اس کی زمین کی کل قیمت کی وصولیابی نہیں ہوئی تھی، جب زکوٰۃ ادا کرے گا تو صرف اتنے حصے کی ادا کرے گا جو وصول ہوچکا، یا ابھی جو رقم آنی باقی ہے اس کی بھی زکوٰۃ ادا کرے گا؟

لجو رقم ابھی تک وصول نہیں ہوئی ہے اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی اس وقت واجب نہیں ہے، بلکہ جب وہ وصول ہوگی اس وقت گذشتہ تمام مدت کی زکوٰۃ ادا کرے گا۔ وتجب عند قبض أربعین درھما من الدین القوی، کقرض، وبدل مال تجارة، فکلما قبض أربعین درھما یلزمه درھم، وعند قبض مأتین منه لغیرھا أي من بدل مال لغیر تجارة، وھو المتوسط کثمن سائمة وعبید خدمة و نحوھما مما ھو مشغول بحوائجه الأصلیة، کطعام وشراب واملاك ویعتبر مامضی من الحول قبل القبض في الأصح۔ (درمختار)

سکیورٹی ڈپازٹ پر زکوٰۃ نہیں

ز شہر بمبئی میں کرایہ پر گھر لینے کی صورت میں کرایہ کے ساتھ ڈپازٹ لینے کا رواج عام ہے اور اب تو بغیر ڈپازٹ کے گھر ملنا دشوار ہو گیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ ایک بیوہ عورت ہے جس کے پاس ذاتی ملکیت کا مکان بھی نہیں ہے، وہ خود ڈپازٹ مع کرایہ دے کر رہتی ہے، نیز گھر میں کوئی کمانے والا بھی نہیں ہے، خود محنت کرکے کرایہ ادا کرتی ہے اور گھر کا گزران چلاتی ہے، تو کیا اِس کی ڈپازٹ کی رقم پر زکوٰۃ آئے گی؟ کیوںکہ اگر وہ ڈپازٹ کی رقم سے زکوٰۃ ادا کرے گی تو ایک وقت آئے گا کہ ڈپازٹ کی رقم ختم ہو جائے گی اور وہ بالکل بے گھر ہو جائے گی، تو کیا اِس کی ڈپازٹ کی رقم ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہوگی؟

لڈپازٹ کی رقم بحکمِ رہن ہے اور رہن کی زکوٰۃ نہ راہن پر واجب ہے نہ مرتہن پر۔ وہ واپس کر دی جائے گی تب بھی رہن (گذشتہ ایام) کی زکوٰۃ مالک کے ذمہ واجب نہ ہوگی۔ (ازفتاویٰ محمودیہ ۱۷/ ۱۲۰،۱۲۱) ’اسلامک فقہ اکیڈمی کے اہم فقہی فیصلوں‘ میں ہے: کرایہ دار کی طرف سے مالکِ دکان ومکان وغیرہ کو پیشگی دی گئی ضَمانت کی رقم (Security Deposit) پر زکوٰۃ کرایہ دار کے ذمہ واجب نہیں ہوگی۔ (ص:۴۷)٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here