صفوں کو درست رکھو، تمھارے دلوں میں اختلاف نہیں ہوگا!
ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
صفوں کو درست کرنے کے معنی ایک تو یہ ہو سکتے ہیں کہ انسان اجتماعی مفاد کے لیے نظریاتی اختلافات کے باوجود آپس میں مل جل کر رہے اور اتحاد کی فضا کو قائم رکھے۔دوسرے اور عام معنی اس کے یہ ہیں کہ جماعت کی نماز میں مل مل کر اور کندھے سے کنگھا ملا کر اس طرح کھڑا ہوا جائے کہ درمیان میں خالی جگہ باقی نہ رہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس ظاہری معنی میں صفوں کی درستگی کے اہتمام کی تاکید بھی اصلاً اُس پہلے معنی میں صفوں کے درستگی کی خاطر کی گئی ہے۔پر افسوس اس میں کوتاہی اس قدر عام ہے کہ اللہ کی پناہ!
بعض لوگ ایسی بے توجہی و بے رغبتی کے ساتھ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں کہ انھیں نہ صفوں کے اتصال کا خیال ہوتا ہے اور ان کی درستگی کا۔ جب کہ صفوں کی درستگی نماز کی صحت میں داخل ہے۔ بعض حضرات اس طرف توجہ دلائے جانے کو عار محسوس کرتے ہیں تو بعض ائمہ بھی اس جانب ویسی توجہ نہیں دیتے، جیسی دینی چاہیے- اقامت سے قبل یا بعد رسمی سے چند جملے دوہرا دیے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دی-اُنھیں اس کی پروا نہیں کہ پیچھے جو لوگ صفوں کو درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں،وہ بھی اُن کے اس عمل کے بعد جلد از جلد نماز شروع کرنے کے فراق میں لگ جائیں گے۔ پھر عام دنوں میں تو روزانہ کے نمازی ہوتے ہیں، جو کسی حد تک اس مسئلے سے واقف ہوتے ہیں اور کسی درجے میں اس کا اہتمام کر بھی لیتے ہیں، لیکن جمعہ، عیدین اور رمضان کے دنوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی مسجد آتے ہیں، جنھیں اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے ائمہ کو بھی چاہیے کہ صفوں کی درستگی پر توجہ مبذول رکھیں اور نمازیوں کو بھی چاہیے کہ اس بارے میں جب کوئی بات کہی جائے تو نرمی کےساتھ اس پر عمل کریں۔ رسول اللہﷺ نے قولی و فعلی طور پر صفوں کو درست کرنے کی بہت تاکید اور اس کی اہمیت ارشاد فرمائی ہے۔ مختصراً چند باتیں عرض کی جاتی ہیں۔
صفوں کی درستگی کی اہمیت
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ إِقَامَةُ الصَّفِّ ۔ صفوں کو سیدھا کرنا نماز کو پورا کرنے میں شامل ہے۔(ترمذی) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے:أَنَّ رَسُولَ اللّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ سَوُّوا صُفُوفَكُمْ لَا تَخْتَلِفُ قُلُوبُكُمْ، قَالَ وَكَانَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ أَوْ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ.حضرت نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:صفوں کو درست رکھو، تمھارے دلوں میں اختلاف نہیں ہوگا، نیز فرمایا: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے پہلی صف یا پہلی صفوں والوں پر رحمت نازل کرتے ہیں۔ (دارمی)
صفوں کو درست کرنے کی فضیلت
حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں،حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:ثَلَاثَۃٌ یَضْحَکُ اﷲِ اِلَیْھِمُ الرَّجُلُ اِذَا قَامَ بِاللَّیْلِ یُصَلِّی وَالْقَوْمُ اِذَا صَفُّوْا فِی الصَّلٰوۃِ وَالْقَوْمُ اِذَا صَفُّوْا فِیْ قِتَالِ الْعُدُوِّ. تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی طرف (دیکھ کر) اللہ جل شانہ ہنستا ہے (یعنی ان سے خوش ہوتا ہے)؛ (١) وہ شخص جو رات کو تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے (٢) وہ لوگ جو نماز پڑھنے کے لیے اپنی صفوں کو درست کرتے ہیں (٣) وہ لوگ جو دشمنوں سے لڑنے کے لیے صف بندی کرتے ہیں۔(مشکوٰۃ)
رسول اللہﷺ کی تاکید
حضرت انس روایت کرتے ہیں: أَنّ النَّبِيَّ ﷺ، قَالَ:أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنِّي أَرَاكُمْ خَلْفَ ظَهْرِي. رسول اللہﷺنے فرمایا: صفوں کو درست کرو، میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے (بھی دیکھتا) ہوں۔ (بخاری، مسلم)حضرت انس ہی سے ایک روایت میں آیا ہے: أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّهِ ﷺ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي. ایک مرتبہ نماز قائم کی گئی تو رسول اللہﷺنے اپنا چہرہ ہماری طرف کرکے فرمایا: تم لوگ اپنی صفوں کو درست کرلو اور مل کر کھڑے رہو، اس لیے کہ میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔(بخاری) یہی حضرت انس روایت کرتے ہیں:عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي، وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ.حضرت نبی کریمﷺ نےفرمایا: اپنی صفوں کو درست کرلیا کرو کیوں کہ میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص اپنا شانہ اپنے پاس والے کے شانے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ (بخاری)نیز بُشیر بن یسار روایت کرتے ہیں:عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا أَنْكَرْتَ مِنَّا مُنْذُ يَوْمِ عَهِدْتَ رَسُولَ اللّهِ ﷺ، قَالَ: مَا أَنْكَرْتُ شَيْئًا، إِلَّا أَنَّكُمْ لَا تُقِيمُونَ الصُّفُوفَ۔حضرت انس بن مالک جب مدینہ آئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ نے ہم میں کون سی بات اس کے خلاف پائی جو آپ نے رسول اللہﷺ کے زمانے میں دیکھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے سوائے اس کے کوئی چیز خلاف نہیں پائی کہ تم صفیں درست نہیں کرتے ہو۔ (بخاری)
رسول اللہﷺ کا معمول
حضرت انس سے مروی ہے:إِنَّ رَسُولَ اللّهِ ﷺ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ أَخَذَهُ بِيَمِينِهِ ثُمَّ الْتَفَتَ، فَقَالَ: اعْتَدِلُوا سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ أَخَذَهُ بِيَسَارِهِ، فَقَالَ: اعْتَدِلُوا سَوُّوا صُفُوفَكُمْ.رسول اللہﷺجب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ایک لکڑی کو داہنے ہاتھ میں لے کر التفات کرتے ہوئے فرماتے: سیدھے ہوجاؤ اور صفوں کو برابر کرو! پھر (اس لکڑی کو) بائیں ہاتھ میں لیتے اور فرماتے: سیدھے ہوجاؤ اور صفوں کو درست کرو۔(ابوداود) نعمان بن بشیر کے الفاظ یہ ہیں: كَانَ رَسُولُ اللّهِ ﷺ يُسَوِّي صُفُوفَنَا، فَخَرَجَ يَوْمًا فَرَأَى رَجُلًا خَارِجًا صَدْرُهُ عَنِ الْقَوْمِ، فَقَالَ: لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ۔رسول اللہﷺہماری صفوں کو درست فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نکلے تو آپ نے ایک شخص کو دیکھا، اس کا سینہ صف سے آگے بڑھا ہوا تھا، آپﷺنے فرمایا: تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا۔(ترمذی، بخاری)
خلفاے راشدین کا اہتمام
ترمذی شریف میں ہے:عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُوَكِّلُ رِجَالًا بِإِقَامَةِ الصُّفُوفِ فَلَا يُكَبِّرُ حَتَّى يُخْبَرَ أَنَّ الصُّفُوفَ قَدِ اسْتَوَتْ، وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانَ أَنَّهُمَا كَانَا يَتَعَاهَدَانِ ذَلِكَ وَيَقُولَانِ: اسْتَوُوا، وَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ: تَقَدَّمْ يَا فُلَانُ تَأَخَّرْ يَا فُلَانُ۔حضرت عمر ایک آدمی کو صفیں سیدھی کرنے کے لیے مقرر کرتے تھے اور اس وقت تک تکبیر نہ کہتے، جب تک انھیں بتا نہ دیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہوگئی ہیں۔ حضرت علی اور عثمان ؆بھی ایسا ہی کرتے اور فرمایا کرتے؛ برابر ہوجاؤ !نیز حضرت علی فرمایا کرتے تھے: اے فلاں آگے ہوجاؤ، اے فلاں پیچھے ہوجاؤ۔(ترمذی)
صفوں کی درستگی کیوں اور کیسے؟
حضرت ابن عمر ؆سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنَّمَا تَصُفُّونَ بِصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللّهُ۔ صفیں درست رکھا کرو کیوں کہ تمھاری صفیں ملائکہ کی صفوں کے مشابہہ ہوتی ہیں۔ کندھے ملالیا کرو، درمیان میں خلا کو پُر کرلیا کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجایا کرو اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑا کرو! جو شخص صف کو جوڑتا ہے اللہ اسے جوڑتا ہے اور جو شخص صف کو توڑتا ہے اللہ اسے توڑ دیتا ہے۔ (مسند احمد)
امام کی ذمہ داری
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر مدرس حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری فرماتے ہیں کہ صفیں سیدھی رکھنا ضروری ہے اور صفیں سیدھی کرنے کی ذمـے داری امام کی ہے۔ اگر امام کی بے توجہی سے صفوں میں خرابی رہی تو قیامت کے دن وہ ماخوذ ہوگا۔ خود نبی کریم ﷺ اس کا پورا اہتمام کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب مسجدِ نبوی میں نمازی زیادہ ہو گئے اور تنہا امام کے بس میں صفیں سیدھی کرانا نہ رہا، تو انھوں نے چند حضرات کو یہ ذمـے داری سونپی، وہ لوگ صفیں سیدھی کرتے تھے ۔(تحفۃ الالمعی)مفتیِ گجرات حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاجپوری تحریر فرماتے ہیں کہ صفوں کی درستگی میں اگر خلل ہو تو امام کی ذمّے داری ہے کہ صفیں درست کرائے۔ پچھلی صفوں کو درست کرنے کے لیے اگر کسی شخص کو مقرر کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو امام کسی کو بھی مقرر کر سکتا ہے اور صفوں کی درستگی تک نماز شروع کرنے میں تاخیر کر سکتا ہے۔۔۔امام کو چاہیے کہ مقتدیوں کو امر کرے کہ ایک دوسرے سے ملے رہیں اور دو شخصوں کے بیچ جگہ کو بند کر دیں اور اپنے شانوں کو برابر رکھیں۔(فتاویٰ رحیمیہ مخرج کراچی ،ملخصاً)یعنی کم از کم صفوں کو درست کرنے کے لیے اعلان کرنا اور اپنی جگہ کھڑے ہو کر کے پہلی صف کی دائیں اور بائیں طرف دیکھ کر نگرانی کرنا امام کی ذمہ داری ہے اور امام کے اعلان کے بعد ہر ہر صف کے مقتدیوں کو اپنی اپنی صف کو درست کرنا خود مقتدیوں کی ذمہ داری ہے او رامام کے اعلان کے بعد جو مقتدی آگے پیچھے ہو کر کے کھڑے ہوں گے، وہ خود گنہ گارہوں گے اور امام کے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔(فتاویٰ قاسمیہ)
اختلاف کا باعث
حضرت ابو مسعود روایت کرتے ہیں:کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَمْسَحُ مَنَاکِبَنَا فِی الصَّلاَۃِ وَیَقُولُ: اسْتَوُوا، وَلاَ تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُکُمْ، لِیَلِیَنِّی مِنْکُمْ أُولُوا الأَحْلاَمِ وَالنُّہَی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: فَأَنْتُمُ الْیَوْمَ أَشَدُّ اخْتِلاَفًا.رسول اللہ ﷺنماز میں ہمارے کندھوں کو ہاتھ لگا کر صفیں درست کرتے اور فرماتے کہ صفیں سیدھی رکھو! آگے پیچھے مت کھڑے ہو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا۔ تم میں سے عقل و دانش والے لوگ نماز میں میرے قریب کھڑے ہوں،پھر ان کے بعد وہ کھڑے ہوں جو سمجھ میں ان سے کم ہیں۔حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ آج تمھارا تنازیادہ اختلاف صفیں سیدھی نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔(مسلم)
صفیں درست نہ کرنے پر وعید
حضرت نعمان بن بشیرسے روایت ہے:سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ ﷺ يَقُولُ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَکُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللّهُ بَيْنَ وُجُوهِکُمْ.میں نے رسول اللہ ﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:اپنی صفوں کو درست رکھا کرو ورنہ اللہ تمھارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا۔ (مسلم، بخاری)
٭٭٭٭