کسی دوسرے محلّے، بستی یا شہر میں اعتکاف
ندیم احمد انصاری
اعتکاف کہاں کیا جائے اس کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میںمرقوم ہےکہ سب سے افضل یہ ہے کہ مسجدِ حرام میں اعتکاف کرے، اس کے بعد مسجدِ نبو ی میں، اس کے بعد بیت المقدس میں، ان تینوں مساجد کے بعد کسی جامع مسجد میں اور اس کے بعد اپنے محلّے کی مسجد میں، ہاں عورت مسجدِ بیت یا گھر کا کوئی حصہ متعین کرکے اس میں اعتکاف کرے گی۔
وأفضل الاعتکاف ما کان فی المسجد الحرام ثم فی مسجد النبی علیہ الصلاۃ والسلام ثم فی بیت المقدس ثم فی الجامع ثم فیما کان أہلہ أکثرو أوفر کذا فی التبیین ، والمرأۃ تعتکف فی مسجد بیتہا اذا اعتکف فی مسجد بیتہا ،فتلک البقعۃ فی حقہا کمسجد ۔(ہندیہ، خانیہ)
لیکن یہ مسئلہ محض افضل و غیر افضل کا ہے، جائز اور نا جائز کا نہیں، نیز اس کا تعلق عام حالات سے ہے، جب کہ دیگر کوئی عارضہ یا مصلحت و حکمت درپیش نہ ہو، ورنہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی دوسرے محلّے، بستی یا شہر میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے اور بعض افراد جو ایسا کرنے والوں پر سخت اعتراضات کرتے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں، کتبِ معتبرہ کے مطابق ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر خاص دینی فوائد کے پیشِ نظر کسی دوسرے محلّے، بستی یا شہر میں اعتکاف کیا جائے تو مزید ثواب کی امید ہے۔ان شاء اللہ
علما نے صراحت کی ہے کہ آبادی میں ہر محلّے میں کم از کم ایک آدمی کا اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، جس کو سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ کہا جاتا ہے، یہ ذمّے داری ہر اہلِ مسجد پر ہے، لہٰذا محلّے والوں میں سے ایک دو آدمی اعتکاف کر لیں تو سب کے اوپر سے یہ ذمّے داری پوری ہو جاتی ہے اور اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش اور اس میں عبادت کی غرض سے کیا جاتا ہے، جس میں اخلاص کی ضرورت ہے، دنیوی اغراض و مقاصد کے لیے اپنی مسجد چھوڑ کر کسی دوسری مسجد میں اعتکاف کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ اپنی ہی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے، البتہ دینی اغراض کی بنا پر دوسری مسجد میں اعتکاف کے لیے منتقل ہو تو یہ جائز بھی ہے اور زیادہ فضیلت کا باعث بھی، مثلاً وہاں عوام کو وعظ اور دعوت و تبلیغ کرنا مقصود ہو، تو ایسی صورت میں اعتکاف کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا ثواب بھی ملے گا۔ (فتاویٰ قاسمیہ)
اسی طرح کہیں اگر علمِ دین سیکھنے سیکھانے کا اہتمام ہو تو اس مسجد میں اعتکاف کرنا اپنی مسجد میں اعتکاف کرنے سے زیادہ ثواب کا باعث ہوگا، جیسا کہ نماز پڑھنے کے متعلق علما نے لکھا ہے کہ اپنے استاد کی مسجد اس مسجد سے جو قدیم یا بڑی یا قریب ہو افضل ہے، کیوں کہ اس میں دو ثواب ہیں؛ ایک جماعت کا، دوسرے تحصیلِ علم کا۔ (عمدۃ الفقہ)
اللہ رحم کرے! اس کے باوجود کچھ لوگ مسائل سے ناواقفیت کی بنیاد پر کسی دوسری بستی میں اعتکاف کرنے والے کو روکنے تک کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ کسی مسلمان کو کسی مسجد میں بلاوجہِ شرعی اعتکاف سے روکنے کی اجازت نہیں اگر کوئی محض عناداً کسی کو روکے تو اس کی طرف التفات کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ وہ روکنے والا جاہل و نامعقول ہے۔ (مستفاد از فتاویٰ محمودیہ)البتہ جو شخص جس محلّے کی مسجد میں اعتکاف کرے گا، اس کے ذریعے اس مسجد سے متعلق سنتِ اعتکاف ادا ہو گی۔(ایضاً) فتاویٰ دارالعلوم میں ہے کہ فقہا کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس گاؤں کے لوگوں سے (ذمہ) ساقط ہوگا جس میں معتکف نے اعتکاف کیا، اس لیے کہ اعتکاف علی الاشہر سنتِ کفایہ ہے، جس کا تعلق ہر بستی کے لوگوں کے ساتھ ہے، پس جیسے کہ ترک سے وہی لوگ مسئی (گنہگار)ہوں گے، اسی طرح ادا سے وہی لوگ بری بھی ہوں گے۔ وفی جامع الرموز: وقیل سنۃ علی الکفایۃ حتی لو ترک فی بدلۃ لاساؤاہ، اھ(164)۔ظاہر ہے کہ اس عبارت میں اساءت (گناہ) کا تعلق اہلِ بلدہ کے ترکِ اعتکاف کے ساتھ قرار نہیں دیا گیا،بلکہ متروک فی البلدہ ہو جانے سے اہلِ بلدہ کو مسئی قرار دیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ اگر اجنبی آدمی بھی معتکف ہو جائے تو اس صورت میں بھی اعتکاف کا متروک فی البدہ ہونا صادق نہیں آتا، جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اہلِ بلدہ سے سنت ادا ہوجائے گی۔
مختصر یہ کہ عام حالات میں ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا فضل ہے جہاں جمعے کی نماز ہوتی ہو، تاکہ جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر نہ جانا پڑے اور یہ مسجد محلّے اور اپنے شہر میں ہو تو بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے دوسرے محلّے کی مسجد میں یا کسی دوسرے شہر میں جا کر اعتکاف کیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔(کتاب المسائل)