Baat aur amal me farq rakhne wale logo ki bahot sakht mazammat ki gayi hai

 

بات اور عمل میں فرق رکھنے والے لوگوں کی بہت سخت مذمت کی گئی ہے

مولانا شاہد معین قاسمی

اٹھائیسویں پارے میں سورہ ٔ مجادلہ کی آیت :۴؍ تک مسئلہ ٔ ظہار کا بیان ہے جس کا خلا صہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنی بیوی کو اپنے اوپر ہمیشہ کے لئے حرام عورت(جیسے ماںبہن بیٹی وغیرہ) کے بدن کے کسی ایسے حصے کی طرح بتلا ئے جس کی طرف سخت ضرورت کے بغیر دیکھنا جائز نہ ہوجیسے پیٹھ ،پیٹ اور ران وغیرہ تو ایسا کرنے سے اس کی بیوی ہمیشہ کے لئے حرام نہیںہوجاتی بلکہ صرف کفارے سے پہلے پہلے دونوں کا جسمانی تعلق کرنا حرام ہوتاہے۔ جب کہ اسلام سے پہلے ایسا کہنے سے اس کی بیوی ٹھیک ایسے ہی ہمیشہ کے لئے حرام مان لی جاتی تھی جیسے کسی کی حقیقی اور مجازی ماں بیٹی اس کے لئے کبھی جائز نہیں ہوتی۔ اس طرح کا ایک واقعہ یہ ہو ا کہ حضرت اوس بن صامت نے غصے میںاپنی بیوی سے یہ کہدیا کہ تم میری ماں کی پُشت کی طرح ہو(کہ جیسے وہ حرام ہے تم بھی میرے لئے حرام ہوگئی )ان کی بیوی خولہ بہت پر یشان ہوئیں اور پریشانی کے عالم میں محسن ِانسانیت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں چوں کہ اسلام میںاس رسم کے خلاف ابھی کوئی حکم نہیں آیاتھا،اس لئے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری سمجھ سے تو طلاق ہوگئی یہ سنکر وہ مزید پریشان ہوئیں اور کہنے لگیں کہ جب میرے شوہر طلاق کالفظ زبان پہ نہیں لائے تو طلا ق کیسے ہوجائیگی ؟ پھر پریشانی یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں تو بس اللہ تعالی سے ہی شکایت کرتی ہوںاس کے بعدیہ آیتیں نازل ہوئیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ وہ میر ی ماں ہے،، جھوٹ اور نامناسب بات ہے اصل ماں تو وہی ہیں جنہوں نے لوگوں کو اپنے پیٹوں سے جنا۔توبہ کرنے سے اس غلطی کی معافی ہوجائیگی اور ساتھ ہی اگر کفارہ اد ا کردے تو دونوں میاں بیوی ہونے کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں کفارے یہ ہے کہ:ا۔ملنے سے پہلے پہلے ایک غلام کو آزاد کرائے ۔۲۔اگر اس کی صلاحیت نہو تو پھر دوماہ مسلسل روزے رکھے۔ ۳۔اگر اس کی بھی گنجائش نہ رکھتاہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ بلاشبہ یہ حکم حضرت اوس بن صامت اور ان کی بیوی کے لئے رحمت بنکر اترا۔آیت: ۵،۶؍ میں اللہ تبارک وتعالی نے اللہ اور رسول ﷺکے احکام کو ماننے کی بجائے بحث کرنیو الوں کو سخت اور بہت ہی رسواکن عذاب سے ڈرایا ہے۔آیت: ۷،۸؍میں اللہ تبارک وتعالی نے منافقوں کی چند شرارتوں کی طرف اشارہ کرکے انہیں دردناک عذاب سے ڈرایا ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینے کے منافق اور اسی طرح بنی قریضہ اور بنی بنو نضیر کے یہودی جو آس پاس میں رہتے تھے مسلمانوں کو پریشان کر نے کے لئے ان لوگوں کو دکھا دکھا کردوچار جگہوں پہ الگ بیٹھ جاتے اور کاناپھونسی کرتے تھے اتنا ہی نہیں بل کہ آنکھو ں اور بھؤں سے مسلمانوں کی طرف اشارہ بھی کرتے جس سے مسلمانو ں کے دل دُکھتے اور وہ اس لئے پریشان ہوتے کہ ان پہ ہر وقت حملے کا خطر ہ رہتاتھا توشک ہوتا کہ یہ لوگ کیا منصوبہ بنارہے ہیں حضور ﷺ نے انہیں منع بھی فرمایا لیکن وہ اپنی بری حرکت سے باز نہیں آئے اس کے ساتھ ہی ایک بدقسمتی کاکا م یہ بھی کر تے کہ حضور ﷺ کو اسلامی سلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،، کی بجائے یا تو انعم صباحا کہتے یا اس سے بھی گھناؤنا جملہ السام علیکم کہتے ۔
مجلس میں بیٹھنے کا طریقہ:
آیت :۹؍سے ۱۱؍تک میں اللہ تبارک وتعالی نے حضور ﷺ کی مجلس میں منافقین کی شرارت کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کو خاص طور سے نبی ﷺ اور کسی بڑے بزرگ کی علمی ودینی مجلس میں بیٹھنے کا ادب اور طریقہ بتلایا ہے کہ اگرمجلس میں لوگ زیادہ ہوجائیں تو پہلے سے بیٹھے لوگوں کو چاہئے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے بھی جگہ بنادیں اور اگر کسی وجہ سے بڑے بزرگ کچھ لوگوں سے مجلس سے اٹھ جانے کے لئے کہیں تو ان کا کہنا مان کراٹھ بھی جا ئیں اور مجلس کو کامیاب بنانے میں تعاون بھی کریں ساتھ ہی علم والوں کے درجوں کو بیان کرکے اشارۃً یہ بھی فرمادیا کہ نبیﷺ اوردیگر دینی مجلسوں کے اصل حقدار وہ لوگ ہیں جو دین اور اس کا علم سیکھنا چاہتے ہیں ( اورچوں کہ آپ ﷺ کی مجلس علمی اور دینی مجلس ہو ا کرتی تھی اس لئے اس کی طر ف اشا رہ کیا گیا یعنی جیسی مجلس تھی ویسے ہی لوگوں کو مجلس کا مستحق بتلایا گیا جس سے یہ عام حکم معلوم ہواکہ جس مجلس کا جو مو ضوع ہوگا اور اس کے لئے جو لوگ مفید ہوںگے ان کاخاص لحاظ کیا جانا چاہئے پہلے سے ان کے لئے سیٹیں مخصوص(Reserved) ہوں تو اور اچھا ہے ان سیٹوں پہ دوسرے لوگوں کو ہرگز نہیں بیٹھناچاہئے اور اگر سیٹیں محفوظ نہیں کی جاسکیں اور وہ لوگ دیر سے پہنچے تو دوسرے عام لوگوں کو انہیں بہر حال جگہ دینی چاہئے !عام طورپہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی پروگرام ہوتاہے تو اس میں بہت بڑا اسٹیج اس لئے بنتا ہے کہ اکثر لوگ خاص اسٹیج پہ ہی بیٹھنا چاہتے ہیں جس سے انتظام میںمالی اور دوسری بھی بہت ساری پریشانیاں آ تی ہیںا س لئے تما م بڑی شخصیات کو ہمیشہ ذہنی طور پہ آمادہ رہناچاہئے کہ جب تک ان کا اسٹیج پہ رہنا پروگرام کی ضرورت نہ ہو اس وقت تک عام سیٹوں پہ ہی بیٹھیں یہاں تک کہ اگر پروگرام چلانے والا یا ا س کی دعوت دینے والا ہمیںدعوتِ اسٹیج دیتا ہو تو بھی ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم نیچے ہی بیٹھیں کیوں کہ دعوتِ اسٹیج دینا پروگرام چلانے والے یا داعی کا اپنا کام ہوتاہے اس لئے وہ تو درخواست کریںگے ہی لیکن ہمیں بس ان کا شکریہ ادا کرکے دوسرے لوگوں کو مو قع دینا چاہئے ۔اسی طرح ہم میں سے اسٹیج سے نیچے کے لوگوں سے ایک بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم جہاں پہنچکر کھڑے یا بیٹھ جاتے ہیں وہاں سے کسی بھی حال میں اٹھنے یا الگ ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے چاہے پروگرام کامیاب ہو یا ناکام بلاشبہ ان سب اعمال کے قرآنی تعلیم کے خلاف ہونے کا ڈر ہے ) منافقین یہی کام کرتے تھے کہ حضور ﷺ کی مجلسوں میں جاکر پہلے سے بیٹھ جاتے اوربعد میں آنے والوں کے لئے کوئی گنجائش نہ نکالتے۔ اور یہ لوگ ایسا اس لیے کرتے تاکہ مسلمان نبی ﷺ کی باتوں کو کم سے کم سنیں اور نبی ﷺ سے استفادے کا انہیں زیادہ موقع نہ مل سکے جس کی اصل غرض دینِ اسلام کی اشاعت و پھیلا ؤ کو روکنا تھی۔
بہر حال !یہ حکم عام ہے ہر طرح کی مجلس کے لئے چنانچہ حضرت تھانوی ؒ تحریر فرماتے ہیں:اور یہ حکم غیر رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی عام ہے کذا فی الروح پس صاحب مجلس کو ضرورت کے وقت اس بات کی اجازت ہے کہ کسی شخص کو اٹھ جانے کے لئے کہدے البتہ آنے والے کو چاہئے کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے جیسا کہ حدیث میں ہے رواہ الشیخان،،۔(بخاری شریف کی ایک حدیث ا س طرح بھی نقل کی جاتی ہے کہ تین لوگ آئے اور ان میں سے ایک وہ بھی تھا جس نے یہ دیکھکر کہ مجلس میں جگہ نہیں ہے ایک کونے میں بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے اس کی تعریف فرمائی۔)اس موقع پہ دو باتیں اور بھی ذہن میں رکھنے کی ہیں کہ جن لوگوں کو باضابطہ طور پہ دعوت ِاسٹیج دی جائے انہیں وقت پہ پہنچنا چاہئے کیوں کہ بہت سارے پروگراموں میں اسٹیج پہ زیادہ دیر تک زیادہ جگہ خالی ہونے کی وجہ سے پروگرام کچھ پھیکا سا لگتاہے عام سامعین یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں تو پہلے بلالیا گیا اور یہ اہم لوگ آئے نہیں جسے پروگرام کے منعقد کرنے والے برداشت نہیں کرپاتے اور دوسرے لوگوں کو یہ خودہی اسٹیج پہ بیٹھا لیتے ہیں ایسے میں جب بعد میں یہ مدعوین حضرات تشریف لاتے ہیں تو پھر پریشانی سہ گنی بڑ ھ جاتی ہے۔ (مفسرینؒ کے مطابق اس سلسلے میں ایک خاص واقعہ یہ پیش آیا کہ آپ ﷺ مسجدکے صفے میں تشریف رکھتے تھے یہ جگہ پہلے سے لوگوں سے پُر ہوچکی تھی بعض اکابر صحابہ جو بدر میں شریک ہونے کی وجہ سے زیادہ قابل احترام تھے بعد میں تشریف لائے اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے رہے اور اس وقت تو نبی ﷺ نے پہلے تو عام حکم فرمایا کہ بھائی سب لوگ ذرا جگہ بنالیں اور انہیں جگہ دیدیں اور کچھ حضرات صحابہؓ کو اس لئے اٹھ جانے کے لیے بھی فرمایا کہ ان کے اٹھ جانے کی وجہ سے ان کا کوئی بڑا نقصان نہیںتھا پھر یہ آیت نازل ہوئی۔)
نبی سے سرگوشی سے پہلے صدقے کا حکم:
آیت :۱۲،۱۳؍ میں مسلمانوں کو دیئے گئے ایک حکم کا تذکرہ ہے جو بعد میں ان سے ختم کردیا گیا تھاوہ یہ کہ مسلمان آپ ﷺ سے بات کرنے سے پہلے صدقہ پیش کیا کریں ۔ ہوایہ تھا کہ منا فقین آپ ﷺ کے پا س پہنچ جاتے اور دیر تک آپ ﷺ کے قریب ہو کر آپ سے باتیںکرتیں ان کا مقصد آپ سے کچھ سیکھنا نہیں ہو تا وہ صرف اس لئے ایسا کرتے تا کہ آپ ﷺ بھی پریشان ہوں اورساتھ ہی مسلمانوں کو بھی دین سیکھنے کا کم سے کم موقع مل سکے۔آپ ﷺ سے کہتے کہ کچھ راز کی باتیں کرنی ہیں اور آپ کے کان کے قریب ہوکرادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتیں۔چوں کہ آپ ﷺ بڑے اخلا ق والے تھے اس لئے آپ ان کی یہ شرارتیں بھی برداشت کر جاتے اور ان کی بے معنی باتوں کو بھی سنتے رہتے ۔اللہ تبارک وتعالی نے یہ فرمایا کہ اب نبی سے کچھ مخفی باتیں کرنے سے پہلے ہی صدقہ نکالنا پڑے گا۔ پھر کیا ہوا پہلے جب مفت میں آپ ﷺ کوپریشان کرنے کا موقع ملاتھا تو بھگائے نہیں بھگاتے تھے اور جب پیسے دینے پڑے تو خود ہی کھسکنے لگے اور ان کی شرارت کم ہوگئی لیکن اس کہ وجہ سے کچھ کمزور مسلمان بھی تکلیف میں پڑگئے اس لئے بعد میں صدقے کا یہ حکم ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد سورت کے اخیر تک دوچیزوں کو بیان کیا گیاہے ایک تو ان منافقین کی دوسری بری عادت کو بیان کیا گیا کہ یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں اور دوسری قوموں کو دھوکہ دیتے اور پریشان کیا کرتے تھے دوسر ے مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے دین کے لئے اپنے کسی بھی قریب سے قریب رشتہ داروں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔
یہودیوں کا اپنے ہی ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنا :سورہ ٔ حشر میں پہلے بنونضیر کے یہودیوں کی مسلسل غداریوں اور شرارتوں کے بدلے آپ ﷺ کے ذریعے انہیں تباہ کئے جانے کا تذکرہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شروع دن سے ہی آپ ﷺ نے بنو نضیر اور بنو قریضہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ نہ تو ہم ایک دوسرکے خلاف لڑیں گے اور نہ ہی لڑنے والوں کا کسی بھی طرح سے ساتھ دیںگے لیکن ان لوگوں نے ایک دن بھی اس کا خیا ل نہیں کیا یہاں تک کہ ایک موقع سے آپ ﷺ ان کے پاس گئے تو ان لوگوں نے بظاہر تو آپ کا اکرام کیا لیکن اندر اندر آپ ﷺکے قتل کا ارادہ بنا لیا اس طرح کہ انہوں نے آپ ﷺ کو ایک دیوار سے قریب کر کے بٹھا دیا اور آپس میں یہ مشورہ کیا کہ ہم اوپر سے اِن پہ ایک بھاری پتھر گرادیتے ہیں بس یہیں ختم ہوجائیں گے لیکن اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ان کی اس غداری کی اطلاع دیتے ہوئے یہ حکم دیا کہ آپ وہاں سے فور واپس چلے جائیں اور ان غداروں کی خبر لیں ۔ آپ ﷺ نے پہلے تو انہیں دس روز کی مہلت دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ اپنا سارا سامان لیکر بس مدینہ خالی کردو لیکن انہوں نے ہر حال میں اللہ کے نبی کے ساتھ لڑائی کی ہی با ت کی اور آپﷺ کی اس شریفانہ پیشکش کو یکسر ٹھکڑا دیا پھر آپ ﷺ نے جاکر انہیں گھیر لیا لیکن وہ اپنے اپنے قلعوں میں بند ہو گئے اور نکل نہیں رہے تھے تب آپ ﷺ نے مجبور ہوکر ان کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کاحکم دیا جب یہ تنگ ہو کر نکلے تو آپ ﷺنے فرمایاکہ یہاں سے اپنا جتنا سامان لیکر نکلنا چاہو نکل جاؤ لیکن ہتھیار نہ لیجانا اب انہوں نے کمال یہ کیا کہ یہ خودہی اپنے گھروں کی چوکھٹ ،بازو اور کڑیا ں تک نکالنے لگے اور گھروں کو برباد کرنے لگے تاکہ مسلمان ان کا صحیح فائدہ نہ اٹھاسکیں۔اس سورت کے شروع میں ان واقعات کا تذکرہ فرما کر مسلمانوں سے یہ کہاگیا ہے کہ یہ سب اللہ تعالی نے کروا یا یہ تمہارے بس کا نہیں تھا اللہ نے ہی تمہاری مدد کی۔پھر فَی کے مصارف بیان کئے جو اسلامی جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی ایک قسم ہے۔اس کے بعد سورت کے اخیر تک مسلمانوں کی خصوصیت بیان فرمائی کہ وہ اپنے بھائیوں کی ضرورت کالحاظ اپنے سے زیادہ کرتے ہیںدوسری بات یہ بیان فرمائی کہ یہ منافقین اپنے بھائیوںکو مدد کا یقین دلاتے ہیں لیکن یہ ایسانہ کرپاتے ہیں اور نہ کرپائیں گے۔بل کہ مسلمانوں کا رعب ان میں ڈالدیا جائے گااور بڑی عجیب بات یہ بتلائی کہ اصل کے اعتبار سے باطل آپس میں ایک دوسرے سے بہت ہی زیادہ بٹے ہوئے ہیں مسلمانوں کو وہ بہت ہی متحداور ایک نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل ایک دوسرے سے ٹوٹے ہوئے رہتے ہیں پھر اللہ تبارک وتعالی کی بڑی بڑی صفتوں کو بیان کرتے ہوئے ا یمان والوں کو آخرت کی فکر دلائی گئی ہے۔ ا س کے بعد پارے کے اخیر تک کے مضامین کچھ اس طرح ہیں کہ سورۂ ممتحنہ میں مسلمانوں کے غیر مسلمین کے ساتھ تعلقات کے ضابطے کی تفصیلات بتاتے ہوئے نبی کریم ﷺ کومسلمانوں کیلئے بہترین نمونہ بیان کیاگیا ہے سورۂ صف میں بات اور عمل میں فرق رکھنے والے لوگوں کی بہت سخت مذمت کی گئی ہے آپ ﷺ کا دوسری کتابوں اور دوسرے نبیوں کے ذریعے تصدیق کیا جانا بتلایا گیا ہے اللہ کے دین کا ہر حال میں غالب رہنا بیان کیاگیا ہے اور نبیﷺ کی مدد کی صحابہؓ کو ویسے ہی نصیحت کی گئی ہے جیسے عیسیؑ کے خاص ماننے والو ں نے ان کی مدد کی تھی ۔سورہ ٔجمعہ میں ضروری عبادات سے فراغت کے بعد رزق کی تلاش کو بہتر بتلایا گیا ہے ،سورہ ٔ منافقین میں منافقوں کی عام شرارت کے ساتھ ساتھ ایک جنگ میں مُہاجر اور انصار صحابہ میں لڑائی کرانے کی ناکام سازش کا تذکر ہ فرمایاگیا ہے ،سورہ ٔ تغابن میں اللہ کی قدرتوں کا بیان ہے اور توحید کی دعوت دی گئی ہے ،سورہ ٔ طلاق میں اسلام میں طلاق کا نظام بیان فرماتے ہوے یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی رشتہ نقصان دہ ہورہاہو تو رشتہ توڑدینا چاہئے اور اللہ پر بھروسہ کرکے دوسرے شریک حیات کو ڈھونڈنا چاہئے جب کہ سورہ ٔ تحریم میں آپ ﷺ کے شہد نہ پینے کی قسم کے واقعہ کو بیان فرمایاگیا ہے ، مسلمانوں کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ(نافرمان) انسان اور پتھر جہنم کا ایندھن بنیں گے، حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیویوں کے بارے میںیہ کہاگیا ہے کہ نبی کی بیوی ہوکر بھی یہ ہدایت سے محروم رہیں اور حضرت مریمؑ(جو حضرت عیسی کی ماں تھیں) اور آسیہ (جو فرعو ن کی بیوی تھیں )کی تعریف کی گئی ہے۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here