عمرہ؛ فضائل و مسائل اور مسنون طریقہ

عمرہ؛ فضائل و مسائل اور مسنون طریقہ

ندیم احمد انصاری

(اسلامی اسکالر و صحافی)

عمرہ کے معنی لغت میں مطلق زیارت کے ہیں اور اصطلاح میں میقات یا حِلّ سے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف اور صفاو مروہ کی سعی کرنے کو ’عمرہ‘ کہتے ہیں، عمرہ کو حج اصغر بھی کہتے ہیں۔ (معلم الحجاج: ۲۰۳)

عمرے کا حکم

عمرہ کرنا فرض یا واجب نہیں بلکہ صحیح قول کے مطابق زندگی بھرمیں ایک مرتبہ عمرہ کرنا، حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے، جب کہ راہِ خرچ اور تندرستی وغیرہ، جو شرائط حج کے فرض ہونے کے ہیں، وہ عمرہ کے وقت بھی مکمل طور پر پائے جائیں اور بعض کے نزدیک عمرہ واجب ہے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک فرض ہے اور ایک بار سے زیادہ سب کے نزدیک مستحب ہے اور عمرہ کے لیے وقت اور مہینہ یا دن کی کوئی تخصیص نہیں، پورے سال میں جب چاہے عمرہ کرسکتے ہیں، البتہ ایامِ حج میں حج کے ارکان کی ادائیگی میں مشغول رہنا لازم ہوتا ہے، اس لیے ان ایام میں عمرہ ممنوع ہے۔ (ماخوذاز زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک:۲۷۳-۲۷۲)

عمرےکے فضائل

عمرہ کے فضائل بھی احادیث میں کثرت سے وارد ہوئے ہیں، یہاں چند روایات کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے،حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

  عمرہ کرنا واجب تو نہیں لیکن تمھارے لیے عمرہ کرنا بہتر (سنت) ہے۔ (احمد: ۱۴۴۵۰)

حج اور عمرہ مسلسل کرنا، فقرو فاقہ اور گناہوں کو ایسے دور کردیتا ہے، جیسے آگ کی بھٹی، لوہے، سونے اور چاندی سے میل کو دور کردیتی ہے۔ (احمد: ۳۶۶۹)

رمضان المبارک کا ایک عمرہ، اجرو ثواب میں ایک حج کے برابر ہوتا ہے۔ (ترمذی: ۹۳۹ )

عمرہ اور حج میں فرق

عمرہ کے شرائط مثل شرائطِ حج کے ہیں اور اس کے احرام کے احکام بھی مثل حج کے احرام کے ہیں، جو چیزیں حج میں حرام و مکروہ اور مسنون و مباح ہیں وہ یہاں بھی ہیں، البتہ چند امور مختلف ہیں، جیسے:

(۱) حج کے لیے ایک خاص وقت متعین ہے، جب کہ عمرہ تمام سال میں ہوسکتا ہے، صرف پانچ روز یعنی نویں ذی الحجہ سے تیرھویں ذی الحجہ تک ، عمرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

  (۲) حج فرض ہے، عمرہ فرض نہیں۔

  (۳) حج فوت ہو جاتا ہے، عمرہ فوت نہیں ہوتا۔

(۴) حج میں وقوفِ عرفہ اور وقوفِ مزدلفہ اور نمازوں کو اکٹھا پڑھنا اور خطبہ ہے، عمرہ میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔

(۵) حج میں طوافِ قدوم اور طوافِ وداع ہوتا ہے، عمرہ میں یہ دونوں نہیں ہیں۔

(۶) عمرہ فاسد کرنے سے یا جنابت کی حالت میں طواف کرنے سے بکری وغیرہ ذبح کرنا کافی ہے اور حج میں کافی نہیں۔

  (۷) عمرہ کی میقات تمام لوگوں کے لیے حِلّ ہے، بخلاف حج کے کہ حج میں اہلِ مکہ کی میقات حرم ہے اور آفاقی جب باہر سے آئے تو وہ اپنی میقات سے احرام باندھ کر آئے گا ۔

(۸) عمرہ میں طواف کے وقت تلبیہ موقوف کیا جاتا ہے اور حج میں جمرۂ اخریٰ کی رمی شروع کرنے کے وقت تلبیہ موقوف کیا جاتا ہے۔ (معلم الحجاج: ۲۰۴ بترمیم)

عمرہ کے فرائض

عمرہ کے دو فرائض ہیں:

(۱) طواف

(۲) احرام ۔

  عمرہ کے احرام میں بھی حج کے احرام کی طرح نیت اور تلبیہ دونوں فرض ہیں اور طواف میں صرف نیت فرض ہے۔ (مستفاد ازعمدۃ الفقہ: ۴؍۳۱۴-۳۱۳)

عمرہ کے واجبات

عمرہ کے واجبات دو ہیں:

(۱) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا

(۲) سر کے بالوں کا حلق یا قصر کروانا۔ (ایضاً)

افعالِ عمرہ میں ترتیب

عمرہ کے افعال میں ترتیب لازم ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ طوافِ عمرہ کو عمرہ کی سعی پر مقدم کرنا صحتِ سعی کے لیے شرط ہے، لہٰذا اگر پہلے سعی کرلی جائے، اس کے بعد طواف کیا جائے تو سعی صحیح ہی نہ ہوگی اور نہ ہی دَم دینا کافی ہوگا بلکہ طواف کے بعد دوبارہ سعی کرنا لازم ہوگا اور سعی اور حلق کے درمیان ترتیب قائم رکھنا واجب ہے، شرط نہیں یعنی پہلے سعی کی جائے اس کے بعد حلق یا قصر کرنا واجب ہے۔ اس کے بر عکس اگر طوافِ عمرہ کے بعد پہلے حلق یا قصر کرے گا اور اس کے بعد سعی کرے گا تو دَم دینا لازم ہو جائے گا اور ترتیب کے ساتھ دو بارہ دونوں کا اعادہ لازم نہ ہوگا۔ (انوارِ مناسک: ۳۱۲)

مکمل ومسنون طریقہ

عمرہ کے لیے میقات سے مثلِ احرامِ حج کے عمرہ کا احرام باندھے اور احرام کے محرمات و مکروہات سے بچے اور مکہ مکرمہ میں باب السّلام سے داخل ہو اور بعض نے کہا کہ باب العمرہ سے داخل ہو اور پھر رمل و اضطباع کے ساتھ طواف کرے اور جب حجرِاسود کا اوّل استلام کرے تو تلبیہ موقوف کردے اور طواف کے بعد دوگانہ طواف پڑھ کر حجراسود کا استلام کرکے باب الصفا سے نکل کر مثل حج کے سعی کرے اور سعی ختم کرکے مروہ پر حجامت بنواکر حلال ہوجائے اور سعی کے بعد دو رکعت مطاف کے کنارے پر پڑھے، بس عمرہ مکمل ہوگیا۔ (معلم الحجاج: ۲۰۴)

(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here