اُم الخیر حضرت رابعہ بصریہؒ اور ان کے بعض حالات و واقعات

ندیم احمد انصاری

            ہمارے معاشرے کا ایک عام مسئلہ یہ ہے کہ ہم جن حضرات کو اپنا بڑا مانتے ہیں، ان کی تعلیمات ہی نہیں ان کے حالات تک سے ناواقف ہوتے ہیں۔ حضرت رابعہ بصریہ رحمہ اللہ علیہا کا شمار بھی ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا ہے۔ ان کا نام تو اکثر کہا اور سنا جاتا ہے، لیکن عوام تو عوام، خواص میں بھی اکثر ان کے حالات سے واقفیت نہیں رکھتے۔ اس لیے اپنے ایک عزیز شاگرد کے توجہ دلانے پر اس نیک ہستی سے متعلق یہ چند سطریں سپردِ قلم کر رہا ہوں۔اُردو زبان میں تفصیل کے دیکھیے حافظ ناصر محمود کی تالیف:حضرت رابعہ بصریؒ۔

حضرت رابعہ بصریہؒ اور محبتِ الٰہی

            حضرت رابعہ بصریہؒبڑے اونچے درجے کی تابعیہ ہیں۔تابعی وہ شخص کہلاتا ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی کو ایمان کی حالت میں دیکھا ہو اور اسی حالت پر اس کا انتقال ہوا ہو،چاہے یہ ملاقات کثیر مدت کے لیے ہو، یا قلیل۔صحابی اور تابعی دونوں طبقات کے بارے رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:طُوْبَىٰ لِـمَنْ رَآنِيْ وَآمَنَ بِيْ ، وَطُوْبَىٰ لِـمَنْ رَأَىٰ مَنْ رَآنِيْ ۔اُس کے لیے خوش خبری ہے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، اور اُس کے لیے بھی خوش خبری ہے جس نے اُسےدیکھا، جس نے مجھے دیکھا۔(طبرانی صغیر، حاکم)

حضرت رابعہ بصریہؒ کا مقام

            شیخ فرید الدین عطارؒ نے اپنی کتاب -تذکرۃ الاولیا- میں لکھا ہے کہ حضرت رابعہ بصریہؒ ایک پردہ نشین مخدومہ اور خلوص کا پیکر تھیں۔ عشقِ الٰہی کی آگ میں جلنے والی یہ خاتون مریمِ ثانی تھی۔ ۔۔حضرت رابعہ بصریہؒ کا یہ مقام تھا کہ حضرت خواجہ حسن بصریؒ کی مجلسِ وعظ میں اگر آپؒ نہ ہوتیں، تو حضرت خواجہ صاحبؒ وعظ نہیں فرمایا کرتے تھے۔

            خواتین میں جو اولیاء اللہ گزری ہیں ان میں ان کا بڑا اونچا مقام ہے۔ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی تو اس موقع پر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے معاف فرمائیے گا،اللہ تعالیٰ کی محبت میرے دل میں اتنی زیادہ پیوست ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں اتنی زیادہ مستغرق رہتی ہوں کہ اس کی وجہ سے اکثر و بیش تر اوقات میں میرا آپ کی طرف دھیان نہیں جاتا اور آپ کی محبت مجھے اپنے دل میں زیادہ محسوس نہیں ہوتی، جتنی محبت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ تم جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں مستغرق رہتی ہو، وہ بھی میری ہی محبت ہے، لہٰذا اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ (اصلاحی مجالس)

ولادت

            حضرت رابعہ بصریہؒ کا مقام تصوف میں جس قدر بلند ہے، اسی قدر ان کی زندگی کے حالات و واقعات پردۂ اخفا میں ہیں۔ یہ حیرت انگیز اتفاق ہے کہ قدیم تذکرہ نگاروں نے آپ کے سنِ پیدائش کا ذکر نہیں کیا، البتہ دورِ جدید کے تذکرہ نگاروں نے تحقیق کے بعد آپ کی ولادت 97ھ لکھی ہے ۔آپ کے والد کا نام شیخ اسماعیلؒ تھا، جو اگرچہ دنیوی مال و دولت سے محروم تھے، لیکن قناعت کی دولت سے مالا مال تھے۔ آپ چوں کہ خود متقی و پرہیزگار تھے، لہٰذا آپ کو دولتِ دنیوی سے محرورمی پر نہ کوئی شکوہ تھا، نہ شکایت۔ آپ پیکرِ تسلیم و رضا تھے، ہر حال میں اللہ کے شکر گزار اور توکل و قناعت کی دولت پر خوش۔ حضرت رابعہ بصریہؒ کی پیدائش سے پہلے شیخ اسماعیلؒ کے یہاں تین بیٹیاں تھیں، چوں کہ آپ اُن کے بعد پیدا ہوئیں، اس لیے آپ کا نام رابعہ رکھ دیا گیا۔ عربی زبان میں رابعہ چوتھی کو کہتے ہیں۔

وفات

            جس طرح آپؒ کے سالِ ولادت سے متعلق مورخین اور تذکرہ نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے، اسی طرح سالِ وفات سے متعلق بھی ان کے اقوال مختلف ہیں۔ بہت سے مصنفین نے تو ان کی تاریخِ وفات کا ذکر تک نہیں کیا، البتہ ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ نے طویل عمر پائی۔ آپ کی زندگی چوں کہ ریاضت و مجاہدات سے بھر پور تھی، اس لیے اپنے دَور میں آپ کو -اُم الخیر- کے لقب سے پکارا گیا۔ڈاکٹر مارگریٹ سمتھ، ابنِ خلکانؒ، ابنِ عساکرؒ اور ابن عماد حنبلیؒ کے مطابق حضرت رابعہ بصریہؒ کا سالِ وفات 185ھ بمطابق 801ء ہے۔ آپؒ نے بصرہ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں، جب کہ بعض مورخین کے مطابق آپ کی رحلت کا سال 180ھ ہے۔

قبر مبارک

            حضرت رابعہ بصریہؒ کا مزار مبارک بصرہ میں ہی ہے۔ مشہور سیاح ابنِ بطوطہ کی شہادت بھی یہی ہے، البتہ دو دوسری دو قبریں بھی آپؒ کے نام سے مشہور ہیں، جن میں سے ایک بیت المقدس کے قرب و جوار میں اور دوسری دمشق میں محلۂ قمریہ میں واقع ہے، جو کہ دراصل آپ کی ہم نام عابدہ زاہدہ خواتین رابعہ بدویہؒ اور رابعہ شامیہؒ کی قبریں ہیں۔

منکر نکیر سے سوال و جواب

            حضرت رابعہ بصریہؒ کا ایک واقعہ (یوں مشہور ہے) کہ جب ان کا انتقال ہوا اور قبر میں فرشتوں نے سوال کیا کہ من ربک؟ وما دینک؟ (تمھارا رب کون ہے؟ تمھارا دین کیا ہے؟) تو انھوں نے فرمایاکہ تمھارے سوال کا جواب تو میں بعد میں دوں گی، پہلے تم میرے سوال کا جواب دو کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ انھوں نے کہا: آسمان سے۔ پوچھا: آسمان و زمین میں کتنا فاصلہ ہے؟ کہا پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ فرمایا: تم خدا کو نہیں بھولے؟ کیوں کہ بہت دور سے آ رہے ہو۔ فرشتوں نے کہا: ہم تو خدا تعالیٰ کو نہیں بھولے۔ فرمایا: جب تم اتنی دور سے چل کر بھی نہیں بھولے تو کیا تمھارا گمان ہے کہ رابعہ زمین سے چار گز نیچے آکر خدا تعالیٰ کو بھول گئی ہوگی، حالاں کہ زمین پر ایک ساعت بھی اس سے غافل نہیں رہی۔ یہ سن کر فرشتے متعجب رہ گئے۔یہ مقامِ ناز ہے، جس کے آگے فرشتے بھی نہیں چل سکتے۔(خطبات حکیم الامت)

 ایک عجیب کرامت اور اس کا مطلب

            حضرت رابعہ بصریہؒکی کرامات میں یہ روایت اکثر بیان کی جاتی ہے کہ جب وہ حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئیں تو کچھ فاصلے پر کعبہ ان کے استقبال کے لیے گیا۔ اس وقت ایک بزرگ طواف کی غرض سے حرم میں پہنچے تو کعبے کو وہاں نہ پایا۔یہ روایت حدیث شریف کی روایت نہیں، جس کے لیے سندِ متصل تلاش کرکے بتایا جا سکے، نہ اس کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ عوام کے سامنے ایسی باتیں تقریر میں بیان کرنا، ان کو پریشانی میں مبتلا کرنا ہے۔ جب تک وہ حقیقت نہیں سمجھیں گے پریشان رہیں گے اور ہر ایک میں حقیقت سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔ کعبۃ اللہ تجلی گاہ ہے، وہ مخصوص تجلی جب کسی اور جانب ہوتی ہے تو بعض اہلِ کشف کہتے ہیں کہ کعبۃ اللہ اپنی جگہ پر موجود نہیں یعنی اس کی مخصوص تجلی نہیں رہی، کسی اور جگہ ہے۔(مستفاد از فتاویٰ محمودیہ مخرج)

٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here