ظلم اور برائی کے خلاف ہماری ذمّے داریاں

 

مولانا ندیم احمد انصاری

ظلم وہ تاریکی ہے جس سے دنیا کی اچھائیاں ڈھانپ دی جاتی ہیں۔ اس لیے سماج کے ہر فرد کی ذمّے داری ہے کہ وہ حتی المقدور اس سیاہ چادر کو چاک کرنے کی سعی کرے ۔ ظلم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائے بلکہ اسے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہے ، ورنہ قیامت میں ماخوذ ہوگا۔ مسلمانوں پر دینی اعتبار سے بھی یہ فریضہ عائد ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ جو بڑا ستّار و غفّار ہے ، وہ ظلم کو نہایت ناپسند کرتا ہے اور ہر ایک باضمیر کو جھنجوڑ کر کہتا ہے :لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْئِِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ،وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے ، الّا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا، ہر بات جانتا ہے ۔(النساء)ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺکا فرمانِ عالی شان وارد ہوا ہے کہ تمھارا دنیا میں کسی حق گوئی کی وجہ سے – جس سے باطل کو ہٹائے یا کسی حق کی مدد کرنے کی غرض سے – ٹھہرنا، میرے ساتھ ہجرت کرنے سے افضل ہے ۔(کنزالعمال)

ظالم اور مظلوم کی مدد کرو

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے ظالم یا مظلوم بھائی کی مدد کرو! لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے ، لیکن ظالم کی کس طرح مدد کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اس کو ظلم سے روکواور)اس کا ہاتھ پکڑ لو ۔(بخاری)

مظلوم کی مدد کا صلہ

ایک حدیث میں ہے کہ حضرت داؤدؑ نے اپنی مناجات میں عرض کیا: اے میرے رب ! آپ کا کون سا بندہ آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ، تاکہ میں آپ کی محبت کی وجہ سے اس سے محبت کروں ؟ فرمایا گیا : داؤد ! میرا وہ بندہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے جس کا دل اور ہتھیلیاں صاف ہوں! جو کسی سے برائی نہ کرے ! چغل خوری نہ کرے ! پہاڑ تو ٹل جائیں، لیکن وہ نہ ٹلے ! اس نے مجھ سے اور میرے چاہنے والوں سے محبت کی اور بندوں کے دل میں میری محبت پیدا کی!انھوں نے عرض کیا: اے میرے رب ! آپ جانتے ہیں کہ میں آپ سے اور آپ کے چاہنے والوں سے محبت کرتا ہوں، تو آپ کی محبت آپ کے بندوں میں کیسے پیدا کروں ؟ فرمایا گیا : انھیں میرے انعام و اکرام اور میری آزمائش یاد دلاؤ! اے داؤد ! جو بندہ کسی مظلوم کی مدد کرتا یا اس کی داد رسی کے لیے اس کے ساتھ چلتا ہے ، جس دن (یعنی قیامت میں سب کے ) قدم لڑکھڑائیں گے ، میں اسے ثابت قدم رکھوں گا۔(کنزالعمال)

ہر ممکن کوشش ضرور کرے

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے رودکے ، اور اگر ایسا بھی نہ کرسکے تو دل میں برا جانے ۔ اور یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے ۔(ترمذی)

مظلوم کی بد دعاسے بچو

اکثر ظالم طاقت ور اور مظلوم کمزور ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ اپنے اوپر ہوئے ظلم کا بدلہ نہیں لینے سے قاصر رہتا ہے ۔ اس وقت اس کے دل سے جو آہ نکلتی ہے، وہ آسمانوں کو چیر کر اللہ تک پہنچتی ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں،رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: مظلوم کی دعا سے بچنا، کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔(ترمذی) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی؛ روزے دار کی افطار کے وقت، عادل باد شاہ کی اور مظلوم کی۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی بد دعا کو بادلوں سے بھی اوپر اٹھاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری عزت کی قسم ! میں ضرور تمھاری مدد کروں گا، اگرچہ تھوڑی دیر سے سہی۔(ترمذی)ایک حدیث میں ہے کہ جب کسی بندے پر ظلم ہوتا اور وہ خود انتقام نہ لے سکے اور نہ اس کا کوئی مددگار ہو، پھر وہ آسمان کی طرف نظر اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کو پکارے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میں حاضر ہوں! میں جلد یا بہ دیر تیری مددکروں گا۔(کنزالعمال)

اتنا تو ضرور کرے

اصل تو یہی ہے کہ ظلم کو روکنے کی کوشش کی جائے ، ورنہ اتنا تو ضرور کرے کہ خود کوئی برائی اور ظلم کرنے سے رُکا رہے ۔ سعید بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ اشعری اپنے والد سے ،وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان کے لیے صدقہ لازم ہے ! لوگوں نے پوچھا: اگر اس کے پاس کچھ نہ ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے ہاتھ سے کام کرے ، اس سے اپنی ذات کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے ! لوگوں نے پوچھا :اگر اس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو یا یہ کہا کہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا :کسی ضرورت مند مظلوم کی مدد کرے ! لوگوں نے پوچھا: اگر یہ بھی نہ کیا تو؟ آپﷺ نے فرمایا: اچھی باتوں کا حکم دے (خیر یا معروف کا لفظ فرمایا)! کسی نے پوچھا :اگر یہ بھی نہ کیا تو؟ آپﷺ نے فرمایا : برائی سے رکا رہے کہ یہی اس کی طرف سے صدقہ ہے ۔(بخاری)

حلفِ فضول

اس مادّی دور میں کسی کی مدد کرنے کے بجائے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میں کسی کے بیچ میں کیوں پڑوں؟ میں کیوں کسی سے برائی لوں؟ سبب یہ ہے کہ مظلوم کی مدد کرنے پر ملنے والا ثواب ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اور آخرت کا ہمیں استحضار نہیں۔ ایسے میں ہمیں حلفِ فضول کو یاد کرنا چاہیے کہ زمانۂ جاہلیت میں بنو مطلب وغیرہ نے اس کا کتنا اہتمام کیا۔ رسول اللہ ﷺ بھی باوجود صغر سنی کے اس میں شریک ہوئے ! حضرت طلحہ بن عبداللہ بن جدعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ﷺنے فرمایا : میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حلف (معاہدے) میں شریک ہوا۔ اگر مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تو میں انھیں پسند نہ کرتا۔ اگر مجھے اسلام کی موجودگی میں بھی بلایا جائے تو میں قبول کروں گا۔ قتیبی کہتے ہیں : حلف کا سبب قریشیوں کا حرم میں ایک دوسرے پر ظلم کرنا تھا۔ عبداللہ بن جدعان اور زبیر بن عبدالمطلب اس ظلم کے خلاف مدد کرتے ہوئے اور ظالم کے ظلم کو جو وہ مظلوم پر کرتے تھے ، روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ ان دونوں کی مدد کے لیے بنو ہاشم اور قریش کے بعض قبائل شریک ہوئے ۔ شیخ ابن اسحاق کہتے ہیں : اس معاہدے میں یہ قبائل شامل تھے ؛ بنی ہاشم بن عبد مناف، بنی مطلب بن عبدمناف، بنی اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی، بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تمیم بن مرّہ۔ قتیبی کہتے ہیں : ان سب نے عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حلف اٹھایا اور اس کا نام حلفِ فضول رکھا۔ ان دنوں مکّے میں جرہم قبیلے کی حکومت تھی، جو عدل و انصاف کرتے تھے ۔ طاقت ور سے غریب کا حق لے کردیتے تھے اور غریب کے لیے رہائش کا اہتمام کرتے تھے ۔ ان ناداروں کے لیے جرہم قبیلے سے بعض لوگ کھڑے ہوئے جن کا نام فضل بن حارث، فضل بن وداعہ اور فضیل بن فضالہ تھا۔۔۔ نبیﷺ فرمایا کرتے تھے ۔ مجھے پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑوں، اگرچہ مجھے سرخ اونٹ دیے جائیں۔ (سنن کبریٰ بیہقی)

٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here