ندیم احمد انصاری
وعدہ نبھانا شریفوں کی نشانی اور اسلامی خصلت جب کہ وعدہ خلافی منافقوں کی علامت ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں وعدہ خلافی اس قدر عام ہوتی جا رہی ہے کہ اسے بُرا ہی نہیں سمجھا جاتا۔اگر کوئی اس کی برائی اور شناعت بیان کرے تو اُس شخص سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ گناہ کرنا ایک جرم ہے، لیکن گناہ کرتے ہوئے اسے گناہ ہی نہ سمجھنا دوہرا جرم ہے۔آج عوام و خواص سب اس برائی کا شکار نظر آتے ہیں۔ کہنے کے لیے کوئی بات کہہ دی، پھر سامنے والا کتنی ہی شدت کے ساتھ انتظار کرتا رہے، انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ توجہ دلائے جانے پر ان کے چہروں پر شرم کے آثار تک محسوس نہیں ہوتے۔ بہ وقتِ گفتگو یا ملاقات زندگی میں مشغولیت کا ایسا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے گویا آدھی کائنات یہ اکیلے چلا رہے ہیں۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ اگر آپ دنیوی مشاغل میں گھرے ہوئے ہیں تو سامنے والا کسی دوسروی دنیا سے تو آیا نہیں، وہ خالی بیٹھا ہوا آپ کا انتظار کیوں کرتا رہے؟
اسلام میں وعدہ نبھانے کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور وعدہ خلافی کو منافقت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں توحید کا کلمہ پڑھ لینے سے آدمی کو مسلمان سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے وہ یہ وعدہ کرتا ہے کہ اب وہ صرف اللہ تعالیٰ کو عبادت کے لائق اور حضرت محمدﷺ کو اللہ کا رسول مانے گا۔اس وعدے کا لحاظ کرتے ہوئے اس کا نام مسلمانوں میں شمار کیا جانے لگتا ہے۔ اس لیے وعدے کو حتی المقدور پوراکرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔اس دور میں ترسیل و ابلاغ کے جدید ذرائع نے اس مسئلے کو نہایت آسان کر دیا ہے۔ مثلاًآپ نے کسی سے ملاقات یا بات کا وعدہ کیا، لیکن اس کے بعد ایسا عذر پیش آگیا کہ آپ اس وعدے کو پورا کرنے پر قدرت نہیں رکھتے، تو کیا مشکل ہے کہ طے شدہ وقت آنے سے قبل اسے مطلع کرکے معافی تلافی کر لیں۔ لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا، کیوں کہ دلوں میں اس کی تکلیف اور اللہ کے حضور حاضری کا احساس کمزور ہو گیا ہے۔
ہمارا واسطہ لکھے پڑھے طبقے سے زیادہ پڑتا ہے۔ اس طبقے میں وعدہ خلافی کا چلن عروج پر ہے۔توجہ دلاؤ تو ہزار تاویلیں کرتے ہیں۔ زیادہ کہو تو بُرے بنو۔ بڑے بدتمیز قرار دیتے ہیں تو ہم جولی اور چھوٹے متکبر۔ ایک صاحب نے ہم سے ایک کام کے لیے ایک ہفتے کا وعدہ کیا۔ ہم نے ان کی گراں قدر مشغولی کا لحاظ کرتے ہوئے ایک ماہ تک صبر و تحمل کیا۔ جب کام نہ بن سکا تو انھیں توجہ دلائی۔ انھوں نے پھر ایک ہفتے کے لیے کہا۔ تالاب میں رہ کر مگر سے بیر تو درست نہیں۔تقریباً دو مہینے پورے ہو رہے ہیں، لیکن نتیجہ صِفر۔ ایسے ایک نہیںدرجنوں واقعات ہیں، جن کا بیان کرنا مقصود نہیں۔کمال یہ ہے کہ جب ان کی باری آتی ہے تو یہ وعدہ پورا نہ کرنے والے بھی چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی وعدہ خلافی نہ کی جائے۔ایسے لوگ چلا چلا کر حکومت سے وعدہ خلافی کے شکوے کرتے ہیں، کیا ان کی یہ آواز کچھ اثر رکھتی ہے؟ مشہور حدیث ہے- جیسے تمھار اعمال ہوں گے، ویسے تمھارے عمّال (حکمراں) ہوں گے۔
وعدہ پورا کرنا چاہیے
اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ وعدہ ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔ سیرتِ نبوی کا ایک مشہور واقعہ ہے۔حضرت عبداللہ بن ابو حمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے آپ کی بعثت سے قبل کوئی چیز خریدی۔ اس کی کچھ قیمت میرے ذمے واجب الادا تھی۔ میں نے آپﷺ سے وعدہ کرلیا کہ کل آپ کو یہیں اسی جگہ لا کردوں گا۔ پھر میں بھول گیا۔ تین روز کے بعد مجھے یاد آیا تو میں دوڑ کر آیا، تو دیکھا کہ آپﷺ اپنی اسی جگہ (موعد) پر موجود ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اے جوان تو نے مجھ پر بڑی مشقت ڈال دی، میں یہاں پر تین روز سے تیرے انتظار میں ہوں۔(ابوداؤد)
وعدہ خلافی منافق کی نشانی
وعدہ خلافی کو منافق کی علامت بتایا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔(بخاری) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: چار باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار کی ایک بات ہو اس میں ایک بات نفاق کی ہے، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ نہ دے۔ (وہ چار باتیں یہ ہیں) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب لڑے تو بےہودگی کرے۔(بخاری)
وعدہ خلافی پر وعید
وعدہ خلافی پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی، کسی عصبیت کی بنا پر غصہ کرتے ہوئے عصبیت کی طرف بلایا یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا، کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔(مسلم)
جنگ میں بھی وعدہ خلافی نہ کی جائے
عام حالات ہی میں نہیں، عین جنگ کے موقع پر بھی رسول اللہ ﷺ نے وعدہ خلافی سے روکا ہے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جہاد کے موقع پر ) تم ان سے اللہ کا نام لے کر لڑو اور جو اللہ کے ساتھ کفر کرے اس کو قتل کر ڈالو، لیکن وعدہ خلافی مت کرو اور نہ مالِ غنیمت میں چوری کرو اور نہ مثلہ کرواور نہ بچوں کو قتل کرو۔(ابوداؤد)
اگر وعدہ پورا نہ کیا جا سکے
اگر وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا کرنے سے واقعی معذور ہو تو بات دوسری ہے۔ حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت وعدہ نبھانے کی ہو، پھر وہ کسی مجبوری کی بنا پر وعدہ نبھا نہ سکے اور مقررہ وقت پر نہ آئے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔(اس صورت میں اسے اطلاع دے دینی اور معافی مانگ لینی چاہیے)۔(ابوداؤد)
ایسا وعدہ نہ کیا جائے، جسے پورا نہ کر سکے
بہتر یہ ہے کہ وعدہ کرتے وقت دیکھ لیا جائے کہ اس کو پورا کرنے کی سکت رکھتا ہے یا نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو، مزاح نہ کرو اور نہ ہی اس سے ایسا وعدہ کروجسے تم پورا نہ کرسکو۔(ترمذی)
٭٭٭٭