ماتحتوں اور ملازموں کے ساتھ انصاف سے کام لیں

اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسانوں کو معاش کمانا پڑتا ہے۔ اس کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔ بعض لوگوں کو وراثت میں اتنا مال مل جاتا ہےکہ اسے سنبھالنا ہی ان کے لیے کافی ہو۔ بعض لوگ معاش حاصل کرنے کے لیے تجارت کر لیتے ہیں۔ بعض لوگوں کو مزدوری وغیرہ کرکے کام چلانا پڑتا ہے۔ لیکن فی زمانہ ایسے لوگوں کا بڑا استحصال کیا جاتا ہے۔ ان سے کام پورا لیا جاتا ہے، لیکن مزدوری کبھی تو دی ہی نہیں جاتی اور کبھی طے شدہ یا مناسب اجرت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ایسا کرنے والوں کو شاید اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کا احساس نہیں رہتا۔کیوں کہ حدیثِ قدسی ہے،حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا،اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہےکہ میں قیامت کے دن تین آدمیوں کا دشمن ہوں گا؛ ایک وہ جو میرا نام لے کر عہد کرے پھر توڑ دے، دوسرے وہ شخص جس نے کسی آزاد کو (غلام کی طرح) بیچ دیا اور اس کی قیمت کھائی، تیسرے وہ شخص جس نے کسی مزدور کو کام پر لگایا (اس نے) کام پورا کیا، لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔(بخاری )دنیا میں تو ملازم اور مزدور کمزور ہوتے ہیں، اس لیے اپنا حق وصول نہیں کر پاتے، لیکن اللہ تعالیٰ قیامت میں ان کا پورا پورا بدلہ انھیں دلوائیں گے۔ اس حدیث میں اسی کی یقین دہانی کراوائی گئی ہے۔

اجرت اور مزدوری دنیے میں تاخیر نہ کرو

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تم کسی سے مزدوری کرانا چاہو تو اس کی مزدوری ادا کردو۔(نسائی)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔ ‏‏‏‏‏‏(ابن ماجہ)ایک حدیث میں حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مزدور کو اس کی مزدوری دے دیا کرو، کیوں کہ اللہ کا مزدور رسوا نہیں ہوتا۔(مسند احمد)گویا تم اِس دنیا میں اس کی مزدوری نہیں دوگے تو اُس دنیا میں ضرور دینی پڑے گی۔

اپنے ہاتھ سے کمانے کی فضیلت

ترقی یافتہ دور میں مال و دولت چند لوگوں میں سمٹ گئی ہے، اس لیے مزدوری اور نوکری کا رواج زیادہ عام ہو گیا ہے۔مزدوری اور نوکری کرنا کوئی عیب نہیں۔ حضرت ابوبردہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے حضرت نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ سب سے افضل کمائی کون سی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: نیک تجارت اور انسان کا اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنا۔(مسند احمد)ایک اور حدیث میں اپنے ہاتھ سے کمانے کی فضیلت بیان کرتے ہوئےرسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مرد نے اپنے ہاتھ کی مزدوری سے زیادہ پاکیزہ کمائی نہیں حاصل کی اور مرد اپنے اوپر، اپنی اہلیہ پر، اپنے بچوں پر اور اپنے خادم پر جو بھی خرچ کرے، وہ صدقہ ہے۔(ابن ماجہ)

مزدوری اور وقت طے ہونا چاہیے

جس شخص نے کسی مزدور کو اجرت پر رکھا، اس کی مدت تو بیان کردی لیکن کام نہیں بیان کیا تو گو کہ یہ جائز ہے،لیکن بہتر یہ ہے کہ کاموں کی وضاحت کرکے مزدوری طے کی جائے، تاکہ آگے چل کر کوئی تکرار نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیبؑ کے واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:ان (بیٹیوں)کے ابّا نے کہا : میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک سے تمھارا نکاح کردوں۔ بہ شرط یہ کہ تم آٹھ سال تک اجرت پر میرے پاس کام کرو۔ پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ تمھارا اپنا فیصلہ ہوگا۔ اور میرا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ تم پر مشقت ڈالوں۔ ان شاء اللہ تم مجھے ان لوگوں میں سے پاؤ گے جو بھلائی کا معاملہ کرتے ہیں۔ (القصص)(بخاری، بَابُ: مَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَبَيَّنَ لَهُ الأَجَلَ وَلَمْ يُبَيِّنِ الْعَمَلَ) اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتےتھے کہ مزدور سے مزدوری مقرر کیے بغیر کام کرائیں۔ (نسائی)

جس کی ما تحتی میں کچھ لوگ ہوں

مزدوری اور ملازمت میں ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی ایک کی ماتحتی میں ایک یا زیادہ لوگ کام کرتے ہیں۔ بعض دفع حکومت، کمپنی، ادارہ یا مالک اپنے ملازموں یا مزدوروں کو اتنا تنگ نہیں کرتے جتنا یہ شخص انھیں پریشان کرتا ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اکثر تکبّر کی بنا پر ایسا کیا جاتا ہے۔ اگر ماتحتوں کو بھی اپنی طرح ہی سمجھا جائے تو یہ صورتِ حال پیدا نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، اس سے تم مسلمان ہوجاؤ گے۔(ترمذی)جو لوگ ایسا نہیں کرتے، وہ سخت خسارے میں ہوں گے۔ طبرانی کبیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ کوئی آدمی جو دس (یا کچھ) آدمیوں کا والی ہو، قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ گردن میں بندھے ہوں گے، یہاں تک کہ اس کے اور اس کے ماتحتوں کے درمیان فیصلہ ہو۔(کنز العمال)

ماتحتوں کے ساتھ ناانصافی کا انجام

بعض لوگ اپنے ماتحتوں کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ کرتے ہیں۔ صلاحیت کے بجائے کسی تعلق وغیرہ کی بنا پر بعض کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں اور عدل و انصاف کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ جب کہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن عدل پسند لوگ رحمٰن کے دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے۔۔۔اور عدل پسند میں اپنےاہل و عیال ، اپنی اولاد اور اپنے ماتحتوں پر عدل کرنے والے تمام لوگ شامل ہیں۔(کنزالعمال)

نا اہل کو عہدہ سپرد کرنے والا لعنت کا مستحق

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(مسلمانو) یقیناً اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔ (النساء)معلوم ہوا کہ عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں۔ ان کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے۔ بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدےکے لیے اپنے دایرۂ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔۔۔بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا، حالاں کہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدے کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی۔(معارف القرآن)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here