دارالعلوم وقف دیوبند کا فیصلہ وقت کی اہم ضرورت
مدرسوں میں عصری تعلیم کی شمولیت کئی مسائل کو حل کرے گی
ندیم احمد انصاری
(ڈیریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
اطلاع کے مطابق گذشتہ دنوں دارالعلوم وقف دیوبند نے مجلسِ مشاورت کے اجلاس میں دیگر تعلیمی ترقیات کے ساتھ ملک کے تعلیمی اسٹرکچرNational Curricular Frameworkکے معیار کو سامنے رکھ کر انگریزی، ہندی، حساب اورسوشل سائنس جیسے معاصر علوم پر مشتمل کورس کو نصاب کا لازمی جزو بنانے کا فیصلہ کیااور کہا کہ اس سے درسِ نظامی کی تکمیل کے ساتھ عصری درس گاہوں تک رسائی آسان ہوگی۔موجودہ حالات میں ہمارے یہاں یا تو ایسے ادارے ہونے چاہئیں جو مسلمانوں کے زیرِ انتظام ہوں اور ان کے نصابِ تعلیم میں اس بات کا خصوصی لحاظ رکھا جائے کہ وہ اسلامی شریعت کے موافق ہوں، جس میں وسعتِ ظرفی سے تو کام لیا جائے ، لیکن بے جا اباحیت پسندی کی راہ نہ اختیار کی جائے ،یا دینی مدارس میں ہی عصری علوم کو شامل کرنے کی فکر کی جانی چاہیے۔اس لیے کہ ملک میں حکومتی سطح پر تعلیم کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ ہر ایک کو قومی دھارے سے جڑنا اور ہر طالبِ علم کے لیے او (o) لیول کرنا لازم ہے۔ اس کے پیشِ نطر ہمیں جلد از جلد ایک مشترکہ لائحۂ عمل تیار کرنا ہی ہوگا، جس میں پیش رفت کرتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند کا یہ فیصلہ وقت کی اہم ترین ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
علوم کی دینی اور عصری خانوں میں تقسیم سے قطعِ نظر اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ اس مادّی دنیا میں جینے کے لیے ہر ایک کو معاش کی ضرورت پڑتی ہے اور فی زمانہ عزت کے ساتھ کسبِ حلال بغیر عصری تعلیم کے بہت مشکل ہے۔ شریعت کی رو سے ہر مسلمان مرد و عورت پر دین کا ضروری علم حاصل کرنا فرضِ عین اور اس میں مہارت پیدا کرنا فرضِ کفایہ ہے، لیکن دنیوی یا عصری علوم حاصل کرنا کوئی گناہ نہیں، بلکہ فی نفسہٖ جائز و مباح ہے ۔حدیثِ پاک میں آیا ہے: قال رسول اللّٰہ ﷺ: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔اولاد کو اتنی دینی تعلیم دینا تو فرض ہے جس سے وہ اپنے فرائض بجا طور پر ادا کرسکیں۔ (ابن ماجہ) اُس کے آگے عصری یا دنیوی تعلیم دینا مباح ہے ۔ فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ رقم طراز ہیں کہ اگر اس کا مقصد ملی و قومی مفاد ہو، تومستحسن ہے۔ البتہ شریعت کی پابندی بہ ہر حال ضروری ہے کہ اسلامی تشخص کی حفاظت کے ساتھ دنیوی ترقیات حاصل کرنی چاہئیں۔(مستفاد از فتاویٰ محمودیہ، ڈابھیل)مفتیِ اعظم ہندحضرت مولانا کفایت اللہ دہلویؒ تحریر فرماتے ہیںکہ شرعی فرائض و واجبات کا علم حاصل کرنا فرض ہے ، خواہ وہ علوم عبادات و معاملات سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ وہ معاشرت اور تہذیب و تمدن سے، اور مستحبات کا علم مستحب اور مباحات کا علم مباح (ہے)۔ (کفایت المفتی)
فی زمانہ چوں کہ عصری علوم کا رشتہ معاشیات، سیاسیات اور سماجیات سے جوڑ دیا گیا ہے، اس لیے اس کا حصول بھی لازم و ضروری ہو گیا ہے۔مانا کہ علوم کی اصل غرض و غایت خدا کی رضا ہے، جس کے پیشِ نظر عصری علوم کو قوم و ملت کی خدمت کی نیت سے حاصل کرنا بھی کارِ ثواب قرار دیا جا سکتا ہے۔ جیسے کوئی ڈاکٹری کی تعلیم اس نیت سے حاصل کرے کہ مریضوں کی خدمت کرے گا، تو وہ بھی عند اللہ ماجور ہوگا۔ اسکول و کالج کی خطر ناکی و زہر ناکی کے باوجود اس زمانے میں اس تعلیم سے بالکلیہ صرفِ نظر ممکن نہیں، اور اگر ایسی تعلیم کا انتظام دینی مدارس میں ہی ہو جائے تو سونے پر سہاگا ہے۔ اس لیے کہ انسان کی سماجی اور عمرانی زندگی کے انتظام کے لیے عصری علوم سے واقفیت ناگزیر ہے ، جس سے آنکھیں موندیں رکھنا خود کو زمانے سے پیچھے دھکیلنے کے مترادف اور دورِ حاضر میں اپنی اولاد کو دینی و عصری ہر دو علوم سے آراستہ کرنے کی فکر کرنا لازم ہے۔ اس لیے کہ ریاضی،زبان،سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ وغیرہ وغیرہ، سب ہماری ضرورتیں ہیں، جن کے بغیر سوسائٹی کا نظام بگڑ سکتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ عصری علوم ہماری دینی یا دنیوی زندگی کی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے،اس لیے کہ اس تعلیم کی تمام تر افادیت و ضرورت فقط اس فانی دنیا تک محدو د ہےاور ہمارے عقیدے کے مطابق اس دنیا کی زندگی عارضی و محدود جب کہ آنے والی زندگی ابدی اور حقیقی ہے ۔انسان کی جب تک سانسیں جاری ہیں، ڈاکٹر اس کے گرد موجود رہیں گے ، متعلقہ مشینیں بھی کام میں لائی جائیں گی، لیکن تارِ دم ٹوٹتے ہی ڈاکٹر اور مشینیں وغیرہ سب یہ کہہ کر کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے ، اپنا دامن جھاڑ لیں گے ۔آگے ضرورت پڑے گی تو دینی علوم کی کہ کس طرح میت کو کفنایا جائے؟ کس طرح دفنایا جائے؟ اور آگے کی منزلوں میں آسانی کے لیے کیا کچھ کیا جائے؟گویا جہاں عصری علوم نے ساتھ چھوڑ دیا، دینی علوم اس سے آگے تک جائیں گے۔ مختصر یہ کہ محسوسات، مشاہدات اور معقولات سے بہت آگے روحانیات اور وجدانیات انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں اور ان دونوں کے تناسب کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے: وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔اور ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار برس کے برابر ہوتا ہے، جو تم گنتے ہو۔ (الحج)ایک مقام پر فرمایا:کَاَنَّھُمْ یَوْمَ یَرَوْنَھَا لَمْ یَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحَاھَا۔ جس دن اس (قیامت) کو دیکھ لیں گے (تو کہیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے ۔(النازعات)اس لیے زندگی کی ضروریات کا تعین اور اس کے لیے وقت مختص کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔خود لفظِ ضرورت ، ضرر(بمعنی نقصان) سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے -انسان کا وہ بنیادی تقاضا اور مسئلہ جس کے حل ہوئے بغیر انسان نقصان میں مبتلا ہو جاتا ہو اور انسان ،انسانی زندگی باقی نہ رکھ سکتا ہو- اس کوضرورت کہا جاتا ہے اور اس کا ایک محدود دائرہ ہے۔
اس لیے اگر مسلمانوں میں دینی حمیت و غیرت باقی ہے تو انھیں چاہیے کہ عصری علوم میں خود کفیل ہوں، نہ کہ اسے بالکلیہ ترک کر دیں یا ترک کر دینے کا مشورہ دیں۔یہ وقت کی ضرورت ہے جسے قبول نہ کرنا نقصان دہ ثابت ہوگا۔اور اس کام کو قومی بلکہ بین الاقوامی پیمانے پر کیا جائے ۔نیز اس معرکے کو سر کرنے کا حوصلہ صرف علما ہی دکھا سکتے ہیں، کیوں کہ عوام کا اعتماد آج بھی اُن پر ہے ، اور انھیں کی چشم و ابرو کے وہ منتظر ہیں۔ اس وقت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک جس راہ پر گام زن اور جن مسائل سے دو چار ہیں، اس میں سربراہی کے فرائض وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو جدید عصری علوم سے واقف ہوں۔ اگر اس میدان میں ہم نے اپنا حصہ پیش نہیں کیا تو پھر کسی خیر کی تمنا کرنا بے سود ہے۔
٭٭٭٭