مفتی ندیم احمد انصاری
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و ارادے کے بغیر اس کائنات میں کچھ بھی رونما نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے باوجود زندگی کے سردوگرم حالات اور گوناگوں اتار چڑھاؤ کے باعث بعض اوقات انسان ٹوٹ سا جاتا ہے۔ اس غم و ہمّ سے راحت بلکہ نجات دلانے کے لیے تقدیر و تفویض کے نکات سمجھائے گئے ہیں۔ مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود بندہ جب اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن قایم رکھتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات اس کے سپرد کردیتا ہے تو مسائل خود حل ہونے لگتےہیں۔ اگر بالفرض اِس دنیا میں مسائل حل نہ بھی ہوں تو اُس دنیا میں اس پر اجر و ثواب ضرور ملتا ہے اور ربِ ذوالجلال اس سے راضی ہوتا ہے۔لیکن یہ مسائل عموماً مرشدِ کامل کی رہبری کے بغیر سمجھ میں نہیں آتے۔
مومن کے لیے اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنا دین کا ستون اور ایک عظیم دِلی عبادت ہے، اس کے بغیر بندے کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ نے بندوں کو بندوں سے حسنِ ظن رکھنے اور بدظنی سے بچنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔[الحجرات] جب مخلوق سے حسنِ ظن کی تاکید کی گئی ہے تو اس خالق سے کیوں اچھا گمان نہ رکھا جائے جو رحمن و رحیم ہے۔
قرآنی ارشادات
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تو وہ بے شک اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ [البقرۃ] اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنا مومن کا وصف بتایا گیا ہے۔ایک مقام پر فرمایا:کہہ دیجیے کہ میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کی فراوانی کردیتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگی کردیتا ہے،اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ اور چیز دے دیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ [سبا] جب سب کچھ عطا کرنے والی ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے، تو ہمیں اسی پر بھروسا کرنا اور اس سے حسنِ ظن رکھنا ضروری ٹھہرا۔ایک مقام پر فرمایا گیا: شیطان تمھیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمھیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔ [البقرۃ] اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنے کی تعلیم دی گئی۔سورۂ حجر میں آیا ہے:(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے) کہا : اپنے پروردگار کی رحمت سے گم راہوں کے سوا کون ناامید ہوسکتا ہے ؟ [الحجر]
حضورﷺ کی تعلیم
غارِ حِرا میں جب حضرت ابوبکرؓ نے اپنے تفکرات کا اظہار کیا تو حضرت نبی کریم ﷺ نے یارِغار کواللہ پر حسنِ ظن رکھنے کی ہی ترغیب دی تھی۔ حضرت انسؓسے روایت ہے، حضرت ابوبکرؓکہتے ہیں کہ میں نے غار کے قیام میں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر کوئی شخص ان میں سے اپنے قدموں کی طرف نظر کرےگا تو بےشک ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابوبکرؓ! ان دو کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔[بخاری] نیز حضرت جابرؓسے روایت ہےکہ میں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے آپ کی وفات سے تین دن پہلے سنا، آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس سے پہلے نہ مرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے حسنِ ظن رکھتا ہو۔[مسلم]
اللہ سے حسنِ ظن رکھنا بہترین عبادت
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنا اللہ کی بہترین عبادت ہے۔[ترمذی]
اچھے گمان سے اچھے عمل کی توفیق
حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: بے شک مومن اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہے تو عمل بھی اچھا کرتا ہے، اور منافق اپنے رب کے ساتھ برا گمان رکھتا ہے تو عمل بھی برا کرتا ہے۔[مصنف ابن ابی شیبہ] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع سے پڑھتے ہیں ، جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔[البقرۃ]
دیکھ لے کیا تمنّا کر رہا ہے
مومن کو چاہیے کہ نیکی کرتا رہے، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین، اس سے حسنِ ظن رکھے اور اسی سے نیک تمنائیں وابستہ کرے۔ حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓاپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ دیکھ لے کہ وہ کیا تمنا کررہا ہے، کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی تمناؤں میں سے کیا لکھ دیا جاتا ہے۔ [ترمذی]
بندے کے گمان کے موافق معاملہ
’بخاری شریف‘ میں ہے: حضرت ابوہریرہؓسے روایت، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا(یعنی یہ حدیثِ قدسی ہے کہ): میں اپنے بندے کے اس گمان کے نزدیک ہوتا ہوں جو میرے متعلق کرتا ہے۔[بخاری]
’بخاری شریف‘ میں تفصیلی حدیث اس طرح مذکور ہے: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو میرے متعلق وہ رکھتا ہے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے مجمع میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں ایک گز اس کے قریب ہوتا ہوں، اگر وہ ایک گز میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو گز اس کے قریب ہوتا ہوں، اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔[بخاری]
’ترمذی شریف‘ میں ہے: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔[ترمذی]
’دارمی‘ میں ہے: حضرت واثلہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوتاہوں، وہ میرے بارے میں جو چاہے گمان رکھے۔[دارمی]
اللہ سے حسنِ ظن کی برکت سے مغفرت
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے:اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، وہ جب اس کے کنارے پہنچا تو مڑ کر دیکھا اور کہنے لگا: اللہ کی قسم ! اے میرے رب میرا تو آپ کے بارے میں اچھا گمان ہے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسے واپس لاؤ، اس واسطے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ویساہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔[کنزالعمال]
اللہ سے حسنِ ظن کی توفیق کی دعا بھی مانگے
امام اوزاعیؒ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے:أللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ التَّوْفِيقَ لِمَحَابِّكَ مِنَ الأَعْمَالِ، وَصِدْقَ التَّوَكُّلِ عَلَيْكَ، وَحُسْنَ الظَّنِّ بِكَ: اے اللہ ! میں آپ سے آپ کے محبوب اعمال کی توفیق، آپ کی ذات پر سچا توکل اور آپ کے ساتھ حسنِ ظن کا سوال کرتا ہوں۔[کنزالعمال]
اللہ کے ساتھ ہمیشہ حسنِ ظن رکھے
خلاصہ یہ کہ مومن پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن رکھے، اور خاص طور پر مصیبت اور موت کے وقت۔ حطاب نے کہا: قریب المرگ لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا مستحب ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا گو کہ موت اور مرض کے وقت مؤکد ہوتا ہے، مگر ہر مکلّف کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمیشہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے۔[الموسوعۃ الفقہيۃ الکویتیۃ]