Answer for please furnish sharai proofs for qurbani being wajib on whom as per hanafi masalak preferably from qurn hadis or practies of sahaba karam.thanks

     
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    قربانی ہر اس مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، مرد وعورت پر واجب ہے، جس کی مِلک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت کا مال، اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو، خواہ یہ مال سونا چاندی اور زیوارت کی شکل میں ہو یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا اس مکان کے علاوہ کوئی مکان یا پلاٹ وغیرہ کی شکل میں۔۔۔ جس میں یہ رہتا ہے۔(الدر المختار: ۹/۳۷۹،خلاصہ الفتاویٰ: ۴/۳۰۹)خیال رہے کہ قربانی صاحب نصاب پر زکوٰۃ کی طرح ہر سال واجب ہوتی ہے، لیکن اس میں زکوٰۃ کی طرح نصاب پر سال گزرنا ضروری نہیں۔ (شامی: ۹/۳۷۹) نیز ٹی وی، وی سی آر جیسی خرافات، کپڑوں کے تین جوڑوں سے زائد لباس اور وہ تمام اشیاء جو محض زیب وزینت یا نمود ونمائش کے لیے گھروں میں رکھی رہتی ہیں، اور سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوتیں۔۔۔ زائد از ضرورت ہیں، اس لیے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔ (احسن الفتاویٰ:۷/۵۰۸)
    بریلوی مکتب فکرکے علماء بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں، ان کی معتبر ترین کتاب بہارِ شریعت (۳/۶۸۵) اور قانونِ شریعت(۱/۲۳۵) پر اسی طرح مذکور ہے۔
    قربانی کا وجوب احادیث مبارکہ سے
    ترمذی میں روایت ہے:ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا: کیا قربانی واجب ہے؟ آپؓ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں نے کی ہے۔ اس نے پھر سوال کیا: یہ واجب ہے یا نہیں؟ آپؓ نے جواباً ارشاد فرمایا: تو سمجھتا نہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں نے بھی قربانی کی ہے۔(سنن الترمذی:۱۵۰۶)
    حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی فرماتے ہیں:مطلب آپؓ کا یہ تھا کہ تم اس بحث میں مت پڑو کہ اصطلاحاً قربانی واجب ہے یا سنت یا فرض۔ لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قربانی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی قربانی کی ہے، تمہیں بھی کرنی چاہیے۔(درسِ ترمذی: ۲/ ۱۶۰)
    غرض آپؓ نے قربانی پر لفظ ’واجب‘ کے اطلاق سے احتراز کیا، کیونکہ دورِ اول میں واجب بمعنی فرض استعمال کیا جاتا تھا اور قربانی کی فرضیت کا کوئی بھی قائل نہیں، البتہ ابن عمرؓ نے اس کے تاکیدی حکم ہونے کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبتِ تامہ کے ساتھ قربانی کی ہے اور صحابہؓ کا بھی یہی معمول تھا، اس لیے قربانی کا ترک کرنا بھی جائز نہیں۔ (تحفۃ الالمعی: ۴/ ۴۳۹)
    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک طرح سے واجب ہونے کی علامت بتادی کہ میں اگر اس کو واجب کہہ دوں تو تم واجب اور فرض میں فرق نہیں سمجھوگے، بلکہ اس کو فرض ہی سمجھ لوگے۔ اس لیے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قربانی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی کی ہے، اس لیے تمہیں بھی کرنی چاہیے۔ گویا کہ ایک طرح سے قربانی کو واجب ہی کہہ دیا۔ لہٰذا یہ حدیث اس بارے میں حنفیہ کی دلیل ہے کہ قربانی واجب ہے۔ (درسِ ترمذی: ۲/۱۶۱)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے جواب سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آپؓ نے وجوب پر رہنمائی کا ارادہ فرمایا، اس لیے کہ سائل نے وجوب ہی کے بارے میں سوال کیا تھا، اگر قربانی واجب نہ ہوتی تو آپؓ وجوب کی نفی فرمادیتے، لیکن بجائے نفی کے آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی عمل پر پابندی کا ذکر فرمایا اور یہ وجوب پر واضح دلالت کرتا ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ آپؓ نے صراحتاً وجوب کے متعلق کیوں نہیں فرمایا، تو وہ اس لیے تاکہ کسی کا گمان فرضیت کی طرف نہ جائے۔ (تکملہ فتح الملہم: ۹/۴۵۷)
    رسول اللہ ﷺ کا دائمی عمل
    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال برابر قربانی کرتے تھے۔(ترمذی: ۱۵۰۷،جامع الاصول: ۱۶۲۵)شارحِ مشکوٰۃ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام پر مداومت کرنا اور اس کا ترک بالکل ثابت نہ ہونا، وجوب کی دلیل ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۳/۵۷۷)
    قربانی ہر سال واجب ہے
    حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ہم لوگ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! بے شک ہر اہل خانہ پر ہر سال قربانی لازم ہے۔(ابن ماجۃ: ۳۱۲۵، ابوداؤد: ۲۷۸۸، ترمذی: ۱۵۱۸، مسند احمد: ۱۷۴۳۲) واضح رہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ ہر صاحبِ نصاب کے ذمہ الگ الگ قربانی واجب ہے، ایک بکری سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوسکتی۔ حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ ’’قربانی‘‘ ایک عبادت ہے اور عبادت ہر ایک انسان پر الگ الگ فرض ہوتی ہے۔ عبادت میں ایک آدمی دوسرے کی طرف سے قائم مقامی نہیں کرسکتا۔ جس طرح زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب پر الگ الگ فرض ہے، اسی طرح قربانی بھی ہر ایک پر الگ الگ واجب ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قربانی الگ فرماتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک قربانی سب کی طرف سے کافی نہیں۔ (درسِ ترمذی: ۲/۱۵۹)
    ازواجِ مطہرات کی طرف سے قربانی
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم(حجۃ الوداع کے موقع پر) تشریف لائے۔ آپؓ مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقامِ سرف میں حائضہ ہوگئی تھیں۔۔۔ اس وقت آپؓ رورہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ کیا تمہیں حیض کا خون آنے لگا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ تم حاجیوں کی طرح اعمالِ حج کرلو، صرف طوافِ کعبہ مت کرنا۔ پھر جب ہم منیٰ میں تھے تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔‘‘(بخاری: ۵۵۴۸، راجع: ۲۹۴، أخرجہ مسلم: ۱۲۱۱)
    ایک اہم سوال وجواب
    فتاویٰ رحیمیہ میں قربانی کے وجوب کے سلسلہ میں ایک اچھا سوال وجواب ہے، موقع کی مناسبت سے اسے بھی یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
    سوال: ایک صاحب کا قول ہے کہ ’’قربانی واجب نہیں، محض سنت ہے‘‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جو کوئی ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور اس کا ارادہ قربانی کا ہو، تو وہ اپنے بال، ناخن، تاوقت یہ کہ قربانی کرلے۔۔۔ نہ کاٹے۔ ’قصد وارادہ ہو‘ یہ لفظ بتلاتا ہے کہ قربانی واجب نہیں صرف سنت ہے۔ کیا یہ دلیل برابر (درست) ہے؟
    جواب: قربانی محض سنت نہیں، واجب ہے۔ سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو صاحبِ نصاب مستطیع ہو (یعنی قربانی کی استطاعت رکھتا ہو) اور قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ (ابن ماجۃ: ۲۳۲) یعنی جو کشائش پائے اور قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے پاس (بھی) نہ پھٹکے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی واجب ہے۔ باقی رہا یہ کہ حدیث شریف میں لفظ ’’اراد‘‘ آیا ہے، تو یہ ایک محاورہ ہے، اور عام بول چال ہے۔ (یہ وجوب کے خلاف نہیں) حج کے لیے بھی یہ لفظ آیا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’من أراد الحج فلیتعجل‘‘۔ یعنی ’’جو حج کا ارادہ کرے، تو چاہیے ک جلدی کرے‘‘۔ (مشکاۃ، ص: ۲۲۲) تو کیا حج بھی سنت ہے؟ فرض نہیں؟ خلاصہ یہ کہ قربانی واجب ہے، محض سنت نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱۰/۳۶ ترتیب صالح)
    اللّٰہم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ