Tasawwuf aur Islami Tasawwuf ko samajhne ki zaroorat hai By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

image

!تصوف اور اسلامی تصوف کو سمجھنے کی ضرورت ہے

مولانا ندیم احمد انصاری(ممبئی)

’بین الاقوامی صوفی کانفرنس‘ کے نام سے گذشتہ دنوں ہندستان میں ایک بڑا پروگرام کیا گیا، جس میں ’تصوف‘ کے حوالے سے بہت سی باتیں اخبارات کی سُرخیاں بنیں، جب کہ یہ کانفرنس مختلف حوالوں سے چرچہ میں رہی، جس کا اختتام 20مارچ 2016ء کو 25نکاتی اعلامیے پر ہوا۔ ہمیں اس موقع پر اس کانفرنس کی تردید میں کچھ عرض کرنا ہے نہ تائید میں، بلکہ اس وقت ہمارا مقصد فی نفسہ ’تصوف‘ کے حوالے سے چند باتیں پیش کرنا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کے اکثر مسلمان صوفی و تصوف کی اصطلاح تک سے واقف نہیں،ایسے میں اندیشہ ہے کہ یہ چیز ان کے لیے مزید تشویش ناک ثابت ہو۔
تصوف کے متعلق اور تصوف کی راہ سے جتنی غلطیاں، غلط فہمیاں بلکہ طرح طرح کی گم راہیاں امت میں پھیلی ہیں،فِرق اسلامیہ اور علومِ اسلامیہ میں شاید ہی کسی فرقے یا کسی علم و فن کی راہ سے یا اس کے متعلق پھیلی ہوں۔ بدعات و خرافات، اباحت و الحاد، کفر و شرک تک کی کوئی شکل مشکل ہی سے بچی ہوگی جس کو کوئی نہ کوئی داخلِ تصوف بلکہ عینِ تصوف نہ جانتا ہے، اسی بنا پر بہت سے اکابرِ اسلام تصوف کے سرے سے منکر ہو گئے یا اس کو سراپا ضلالت قرار دے دیا۔ بات یہ ہے کہ کسی شے کے کمال کا تعلق ہمیشہ اس کے ظاہر سے زیادہ باطن، کم سے زیادہ کیف، قشر سے زیادہ مغز یا جسم سے زیادہ جان اور صورت سے زیادہ معنی سے ہوتا ہے، ساتھ ہی جس شے میں جتنا زیادہ کیف و بطون ہوتا ہے اتنی ہی اس کی نسبت غلطیاں اور گمراہیاں زیادہ راہ پا جاتی ہیں، پھر ظاہر ہے کہ جس غلطی و گُم راہی کو دین ہی نہیں کمالِ دین سمجھ لیا جائے، اس کی جڑ کتنی گہری ہوگی اور اس کا استیصال کتنا دشوار ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ تصوف کی راہ سے شرک و الحاد تک کی جو گم راہیاں مسلمانوں میں جڑ پکڑ گئیں، ان کو چوں کہ عین دین یقین کیا جانے لگا، اس لیے ان اک ازالہ آسان نہیں رہا۔
مستشرقین نے اسلامی علوم اور اسلامی تعلیمات کی اصل شکل و صورت کو بڑی چالاکی سے مسخ کرنے کی طرف خاص توجہ دی، اسی طرح انھوں نے اسلامی تصوف کو بھی مسخ کرنے پر بڑی کوششیں کیں، ان کا علمی تعاقب اصحابِ قلم اور اصحابِ قلوب نے خوب کیا ہے اور ان مخلصانہ کاوشوں کی بہ دولت اسلامی علوم و فنون کی اصل شبیہ آج تک موجود ہے۔ تصوف کی دو تعبیریں کی جا سکتی ہیں؛ ایک اثبات اور دوسرے نفی۔ اثباتی پہلو میں بدعات و رسومات سے مکمل اجتناب پایا جاتا ہے اور اس میں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے مکمل وابستگی اور وارفتگی نمایاں ہوتی ہے اور دوسرا پہلو نفی کا ہے جس میں بدعات اور خرافات مشرکانہ کردار نمایاں ہوتے ہیں۔ تعبیرِ دوم کی ابتدا مستشرقین نے کی ہے، سادہ لوح مسلمان تعبیرِ دوم سے متاثر ہوکر تصوف کی تمام تعلیمات کے یک سر انکار بلکہ مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں، جو کہ درست نہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ تصوف کو بعض نا واقفوں نے ظاہر شریعت کا مخالف نہیں تو علاحدہ ضرور بنا دیا ہے یہ تو غلو ہے یا جہل۔ حقیقی تصوف کو جس کا دوسرا نام ’احسان‘ ہے، حضرت جبرئیل علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی حقیقت لوگوں کے سامنے دریافت کرکے یہ واضح کر دیا کہ یہ شریعت ہی کی روح اور مغز ہے اور حضرت جبرئیل ؑ کے اس سوال پر کہ احسان کیا چیز ہے، سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک ارشاد نے؛أن تبعد اللّٰہ کأنک تراہ، الحدیث،( تو اللہ کی عبادت ایسی کرے گویا اس کو دیکھ رہا ہے)، احسان کے معنی اور تصوف کی حقیقت واضح کر دی۔ عنوانات تو اس کے جو بھی اختیار کر لیے جائیں لیکن مرجع سب کا یہی حقیقت ہے، نیز اس کے بعد جو چیزیں ذکر و شغل، مجاہدات و ریاضات یہ حضرات تجویز کرتے ہیں، وہ حقیقت میں سب علاج ہیں۔
واضح رہے کہ ان حقایق کے ابتدائی علَم بردار اور جن کی زندگی ان حقایق کی سچّی تصویر تھی وہ ان اصطلاحات سے نا آشنا تھے، انھوں نے ان حقایق کو سمجھانے اور ذہن نشین کرنے کے لیے دوسرے ہی الفاظ، طریقے اور اسالیب استعمال کیے تھے۔ صَرف، نحو، قواعدِ زبان، علوم و بلاغت سے لے کر حقیقت و معرفت، اصلاحِ باطن، تزکیۂ نفس تک جس کی تاریخ دیکھی جائے اور اس فن کے متقدمین اور متاخرین کا مقابلہ کیا جائے، یہ حقیقت سب جگہ نظر آئے گی کہ متقدمین وسائل پر حاکم، متاخرین ان کے محکوم، محققین حقایق کے داعی و مبلّغ اور غیر محقق پیر و اصطلاحات کے پرستار اور ان کے اسیر و گرفتار ہیں۔ یہ مقاصدِ عالیہ دینیات اور اخلاقیات اور علوم و فنون کا ایک ایسا المیہ اور ان کے طالبین کے لیے امتحان و آزمائش کا ایسا مرحلہ ہے جو ہر دَور میں پیش آیا ہے۔تصوف کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جہاں تک اس کے مقصد و حقیقت کا تعلق ہے وہ ایک متفق علیہ اور بدیہی حقیقت ہے لیکن اس کو انھیں دو چیزوں نے نقصان پہنچایا کہ ایک وسائل کے بارے میں غلو اور افراط سے کام لینا، دوسرے اصطلاح پر غیر ضروری حد تک زور دینا اور اس پر بے جا اصرار کرنا۔ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اخلاص و اخلاق ضروری ہے یا نہیں؟ فضائل سے آراستہ ہونا اور رذائل سے پاک ہونا اور دوسرے اخلاقِ ذمیمہ سے نجات پانا ، نفسِ امارہ کی شدید گرفت سے خلاصی پانا کسی درجے میں ضروری یا مستحسن ہے یا نہیں؟۔۔۔تو ہر سلیم الفطرت انسان اور خاص طور پر وہ مسلمان جس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹّی بندھی ہوئی نہیں ہے، یہی جواب دے گا کہ یہ چیزیں صرف مستحسن نہیںبلکہ شرعاً مطلوب ہیں اور سارا قرآن اور حدیث کے دفتر اس کی ترغیب و تاکید سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اگر کہا جائے کہ انھیں صفات کے حصول کا ذریعہ وہ طریقِ عمل ہے جس کو بعد کی صدیوں میں ’تصوف‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تو اس کے سُنتے ہی بعض لوگوں کی پیشانی پر شکن پڑ جاے گی، اس لیے کہ اس اصطلاح سے ان کو وحشت اور اس کے بعض برخود غلط علَم برداروں اور دعوے داروں کے متعلق ان کے تجربات نہایت تلخ ہیں۔ ان کے حافظے میں اس وقت وہ واقعات اُبھرتے ہیں جو ان کو معاملہ کرنے پر یا اُن کو قریب سے دیکھنے پر اُن کے ساتھ پیش آئے، لیکن یہ صرف تصوف ہی نہیں ہر علم و فن، ہر اصلاحی دعوت اور ہر نیک مقصد کا حال ہے کہ اُس کے حاملین و عاملین میں اور اس کے داعیوں اور دعوے داروں میں اصل و مصنوعی، محقق و غیر محقق، پختہ و خام، یہاں تک کہ صادق و منافق پائے جاتے ہیں اور ان دونوں نمونوں کی موجودگی سے کوئی حقیقت پسند انسان بھی اس ضرورت کا منکر اور سرے سے اس فن کا مخالف نہیں بن جاتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ زندگی اور اسوۂ حسنہ کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں مندرجۂ ذیل تین شعبے دریافت ہوتے ہیں؛ایمان، اعمالِ صالحہ، روحانی و قلبی صفات و کیفیات اور تزکیۂ اخلاق۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات تو ان تینوں شعبوں کی یکساں طور پر جامع تھی اور کسی درجے میں ایسی ہی جامعیت اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی حاصل تھی لیکن بعد کے قَرنوں میں زیادہ تر ایسا ہوا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر وارثین و نائبین اگرچے ذاتی طور پر کم و بیش ان تینوں شعبوں کے حامل اور جامع ہوتے تھے لیکن اپنی صلاحیت و استعداد اور ذوق یا ماحول کے مطابق انھوںنے کسی ایک شعبے کی خدمت سے اپنا خاص تعلق رکھا اور بے شک بعد کے ان قرنوں میں دین کا پھیلاؤ جس درجے پڑھ گیا تھا اور جو حالات پیدا ہو گئے تھے، اُن میں ایسا ہونا ناگزیر بھی تھا۔ اس مُحدث اور تقسیمِ عمل نے خواصِ امت میں ائمۂ عقائد، فقہا اور صوفیا کے الگ الگ طبقے پیدا کیے۔ پس جس طرح ائمۂ عقائد اور فقہا نے خصوصیت کے ساتھ دین کے پہلے دو شعبوں کی حفاظت اور تنقیح و تفصیل کی، اسی طرح حضراتِ صوفیا نے دین کے تیسرے اہم شعبے کی خدمت و حفاظت اور اس باب میں آں حضرت کی نمایندگی و نیابت کی،پس سلوک و تصوف کی اصل غرض و غایت اور صوفیاے کرام کی مساعی کا اصل نصب العین در اصل دین کا یہی تیسرا شعبہ ہے۔
دراصل انسان قلب و قالب یعنی باطن و ظاہر کے مجموعے کا نام ہے۔ قرآن و سنت نے جو انسان کی صلاح و فلاح کا مکمل نظام بتلایا ہے اس کے احکام دونوں سے متعلق ہیں، سہولت کے لیے ظاہری اعضاے انسانی سے متعلق احکام؛ عبادت، نکاح و طلاق اور معاملات کو علمِ فقہ میں مدون کر دیا گیا ہے اور باطن یعنی قلب و روح سے تعلق رکھنے والے احکام؛ اعتقادات و اخلاق کو علمِ عقائد اور علمِ تصوف میں الگ الگ جمع کر دیا گیا ہے اور در حقیقت یہ سب کتاب و سنت کی ہی تعلیمات کے مختلف شعبے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے الگ بھی اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ہاتھ الگ عضو ہے، پاؤں الگ، آنکھ اور چیز ہے ناک اور ، قلب، جگر، معدہ، آنتیں سب الگ الگ اعضا ہیں، لیکن مجموعۂ انسانیت کی تکمیل ان سب کے مجموعے سے ہوتی ہے، ان میں سے کسی ایک کو لے کر دوسرے سے استغنا نہیں ہو سکتا، نہ ایک کا وجود دوسرے کے لیے منافی ہے، نہ ایک کا عمل دوسرے کے عمل سے ٹکراتا ہے۔اسی طرح عقائد، فقہ، تصوف بلا شبہ الگ الگ علوم و فنون ہیں، مگر انسانِ کامل یا مومن و مسلم ان سب کے مجموعے ہی سے بنتا ہے۔ قرآن و سنت کی پیروی سب پر عمل کرنے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، ان میں سے صرف کسی ایک حصے کو لے کر دوسرے سے استغنا ایسا ہی مہلک ہے جیسے کانوں کی حفاظت کریں اور آنکھوں کو ضایع کر دیں۔ فقہ کو تصوف کے خلاف یا تصوف کو فقہ کے خلاف سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے آنکھوں کو کانوں کے خلاف سمجھنا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے فرمایا:’’شریعت بغیر طریقت (یعنی تصوف) کے نرا فلسفہ ہے اور طریقت بغیر شریعت کے زندقہ والحاد۔‘‘حضرت شاہ صاحبؒ نے اس ایک جملے میںان تمام علوم و فنون کی پوری حقیقت کھول دی ہے کہ شریعت یعنی ظاہری اعمال کا علم تو بہت سے منافقین کو بھی تھا اور آج بھی سیکڑوں یہودی، نصرانی اور لا مذہب، دہریے، مستشرقین ان علومِ اسلامیہ کے بڑے محقق اور جاننے والے موجود ہیں، مگر وہ نرا فلسفہ ہے، دین نہیں۔ دین جب ہوگا، جب کہ اس کے احکام کے حق ہونے کا اعتقاد بھی ہو اور ان کے احکامِ ظاہرہ و باطنہ پر عمل بھی۔ اس لیے صرف علومِ ظاہرہ کی فن دانی اور تحقیقِ مباحث نہ کوئی دینی کمال ہے، نہ اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کوئی حقیقت ہے۔ اسی طرح طریقت و تصوف کا نام لے کر جو کوئی شریعت کے خلاف چلتا ہے، وہ ایک زندقہ و الحاد اور قرآن و سنت کی تحریف ہے۔اللہ ہم سب کی مکمل حفاظت فرمائے۔آمین

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here