پیغمبرِ اسلامﷺ کی شان میں گستاخیاں آخر کیوں کی جاتی ہیں؟
ندیم احمد انصاری
(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
انسانیت کی سب سے محترم شخصیت۔۔محسن انسانیت حضرت محمدﷺ۔۔ جن کا احترام ان کے ماننے والوں ہی کے نزدیک نہیں، غیر جانب دار یا انصاف پسند مستشرقین کے ہاں بھی مسلّم ہے؛ نہیں معلوم آخر کیوں بعض نا ہنجار اور اسلام و مسلمانوں کو دیکھ کر پیچ و تاب کھانے والوں نے آپﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنا اپنا شیوع بنا رکھا ہے، جب کہ رسول اللہﷺ نے اپنے متبعین کو بھی اغیار کے مطابق قابل احترام سمجھے جانے والوں کی شان میں گستاخیاں کرنے سے روکا تھا۔ آج اس اخلاق و وفا کے پیکر کی تضحیک کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہیں، جن کے ناموس کی حفاظت خود اللہ سبحانہ و تعالی کررہا ہے۔ہمارے عقیدے کے مطابق خلاصۂ کائنات، افضل المخلوقات، ختم الرسل، سید الانبیاء، سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، محبت، اطاعت اور احترام ایمان کا لازمی جزو ہے، جب تک مسلمان اپنے اہل و عیال سے زیادہ بلکہ اپنی جان سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ کرے، اُس کا ایمان درجۂ کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔ آپﷺ سے محبت کے بغیر ایمان کا دعویٰ باطل و مردود ہے،اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ اللہ تعالی نے اس کا خوب انتظام فرمایا ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہےلیکن گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی رسول اللہﷺ کی شان میں ادنیٰ گستاخی برداشت نہیں کر سکتا، خواہ یہ گستاخی صراحتاً ہو یا کنایۃً، مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر ہمیشہ ایسے ہرمردود و مکروہ فعل کی ہمیشہ مزاحمت کرتا ہے ۔ رسول اللہﷺ کی شان میں ادنیٰ گستاخی، خواہ کسی نوعیت کی ہو، مسلمانوں کے لیے نا قابل برداشت ہے۔ اس کے باوجود کبھی ڈنمارک تو کبھی ناروے اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک میں رحمۃ للعالمینﷺ کے خاکے بنا کر رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخیاں کی جاتی رہتی ہیں، جو کہ خلاصۂ کائنات کی تضحیک و تنقیص کی ناپاک کوشش ہے۔ مغربی اقوام کا یہ شنیع فعل باربار عالمِ اسلام کے جذبات کو مجروح کرتا ہے،اُنھیں تکلیف پہنچاتا ہے، پھر آخر کیوں اس قبیح فعل پر سختی سے پابندی عائد نہیں کی جاتی۔ جب سیکولر ملکوں میں کسی عام انسان کی عزت کو تحفظ حاصل ہے کہ کوئی اس پر ہتک آمیزی کی کوشش نہیں کرسکتاتو کروڑوں بلکہ اربوں کے دلوں میں بسنے والی اس قدر محترم شخصیت کے لیے عزت کاتحفظ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اقوام متحدہ کے ۱۹۴۸ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دفعہ ۱۸
کے مطابق ’’ہر انسان کو خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق‘‘ دیا گیا ہےتو کیا اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایک یا چند افراد ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کے لیے آزاد ہیں؟ آخر کیوں وقتاً فوقتاً رسول اللہﷺ کے ناموس پر ضرب لگائی جاتی اور آپﷺ کے مقامِ عالی پر رکیک حملوں کی کوشش کی جاتی ہے؟
حال ہی میں پیرس میں اہانت رسولﷺ کی مرتکب ہفت روزہ اخبار چارلی ہیبڈو کے دفتر پر جو حملے ہوئے ہیں، لوگ اس کی تو باتیں کر رہے ہیںلیکن یہ جس عمل کا رد عمل ہے، اس سےصَرف نظر کی جا رہی ہے۔ ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ آخر ایسا دو غلا پن کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ اب تک گو کہ یہ متحقق نہیں ہو پا یا ہےلیکن جیسا کہ مغربی اقوام کا وطیرہ ہے، مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، حالاں کہ بعض دوسری باتیں بھی کہی گئی گئی ہیں۔ جمعرات کو خبر موصول ہوئی کہ دفتر پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کر لی گئی ہے، جو تیں ہیں اور ان میں سےایک نے خود سپردگی کردی، جب کہ دیگر دو کی تیزی سے تلاش جاری ہے۔ پولیس نے انھیں خطرناک دہشت گرد بتایا ہے۔ اس دوران فرانس میں ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی کے مظاہرے ہو رہے ہیں، وہیں دوسری طرف مساجد پر حملے بھی کیے جا رہے ہیںبلکہ مسلم آبادیوں میں توڑ پھوڑ کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔
قطعِ نظر محض اس حالیہ واقعہ کے اس شنیع عمل پر رد عمل کے طور پر ایک مناسب حکمتِ عملی کے تحت پُر زور کوشش کی جانی لازمی ہے، سیکولرزم کے پس پردہ ایسی ناپاک کوششوں کو جواز فراہم کرنا کسی طور مناسب نہیں، اگر سیکولرزم واقعی اسی طرح انسان کو بے مہار چھوڑ دینے کا قائل ہےتو کل کوئی انسان اس کا فائدہ اٹھا کر کسی کی ماں کی برہنہ تصویر کو سر عام کسی شرم ناک فعل کا مرتکب دکھا سکتا ہے، کسی کی بہن اور بیٹی کی عزت کو اس آزادی کی آڑ میں بھرے بازار نیلام کر سکتا ہے۔۔کیا کوئی بھی عقل مند ایسے سیکولرزم کو برداشت کرسکتا ہے؟ اگر نہیں تو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے رگ و پے میں جس رحمۃ للعالمینﷺ کی محبت خون کی طرح گردش کرتی ہے، بار بار اُس عظیم و برتر ہستی کو کیوں نشانے پر لیا جاتا ہے، کیوں اُس کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں، کیوں اُس سے منسوب کارٹون بنائے جاتے ہیں، کیوں اُس کے نام پر خاکے تراشے جاتے ہیں؟ جن ملکوں میں وقتی وزیرِ اعظم کی شان میں گستاخی کرنا جرم ہے، وہاں کیوں سید الکل فی الکل کی شان میں گستاخیاں روا رکھی جاتی ہیں؟
عامۃً ایسے کارٹون بنانے والے اسے تفریح کا ذریعہ بتاتے ہیںتو ہمیں بتائیے کہ کیا کروڑں لوگوں کی دل آزاری کرکے چند لوگوں کی تفریح طبع کا یوں سامان کرنا کسی طرح جائز ہو سکتا ہے، کیا مذہبی شخصیات کی اس طرح ہتک آمیزی کے سوا آپ کے پاس تفریحِ طبع کا کوئی اور سامان نہیں ہے۔ یہ سب تو کہنے کی باتیں ہیں، ورنہ صحیح یہ ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر ، ایک منصوبے کے تحت کیا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر اس پر کوئی رد عمل ظاہر کرتا ہےتو اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے، جب آپ اپنے عمل میں آزاد ہیںتو وہ اپنے رد عمل میں کیوں آزاد نہیں؟ یہ چند ضروری باتیں اسی آزادی کے تحت رقم کی جا رہی ہیں، جس آزادی کے تحت آپ غیر ضروری باتوں کو فروغ دے کر فضا کو مسموم بنانے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم تو اس سب کے بعد بھی یہی کہیں گے کہ اسلام کسی مسلمان کو محض جذباتی ہوکر بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں دیتالیکن اس موقع پر مناسب رد عمل ظاہر ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام کبھی بے قابو ہوکر سرکاری و غیر سرکاری املاک کو ضائع کرنے، دکانوں و مکانوں کو آگ لگانے اورکاروں و موٹر سائیکلوں کو جلا ڈالنے کا روادار نہیںلیکن اس طرح کی ناپاک حرکت کرنے والوں کی حد درجہ حوصلہ شکنی کرنی بھی ضروری ہے، تاکہ آئندہ کوئی ایسی شنیع حرکت نہ کر سکے۔
واضح رہے! رسول اللہﷺ کی حیثیت اسلام میں محض پیام بر کی نہیں، بلکہ مخدوم و مطاع کی ہے۔ خالق پر ایمان لانا، اس کی عبادت کرنا اور اس کے ہاں قرب جوئی حاصل کرنا ،اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک رسول اللہﷺ پر ایمان نہ لایا جائے، آپﷺ کی اطاعت نہ کی جائے اور آپﷺ کا قرب نہ حاصل کیا جائے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نےفرمایا”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی، لہٰذا اگر قرآن حجت ہے اور بلا ریب وشک حجت ہےتو پھر اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپﷺ نے جو بھی کہا ،جو بھی کیا ، وہ حق ہے، دین ہےاور نیکی ہے، اس لیے کہ آپﷺ کی زندگی مکمل تفسیرِ کلامِ ربانی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ۔(الاحزاب:۲۰)
اللہ کا رسول تمھارے لیے نمونۂ عمل ہے، یہی نہیں بلکہ آپﷺ کو بارگاہِ رب العزت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام عطا ہوا ہے، جس کے آگے تمام رفعتیں سرنگوں ہیں ۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت دنیا کے نقشے سے جہاں مسلمانوں کے وجود تک کو ختم کرنے کی بہیمانہ کوششیں کی جا ر ہی ہیں، وہیں مسلمانوں کا ایمانی وجود بھی سخت امتحان سے دو چار ہے اور ایک عرصے سے مسلمانوں کے ایک کے بعد ایک امتحان لیے جا رہے ہیں، کبھی ان پر آگ وبارود برسا کر ان کی دین پر استقامت کا امتحان لیا جاتاہےتو کبھی شعائرِ اسلام ، مقدس مقامات کے خلاف اہانت کرکے مسلمانوں کی دینی حمیت اور اسلامی غیرت کو للکارا جاتاہے۔ظاہر ہے کہ ان تمام مراحل میں امت مسلمہ کو سست اور غافل پاکر دشمنانِ اسلام اور شیطان لعین؛ دونوں کی ذریت رسول اللہﷺ کے نام لیواؤں پر پے در پے حملے کیے جا رہی ہے ۔ یہ بھی مسلمانوں کی ایمانی غیرت ودینی حمیت کا گویا امتحان ہی ہے کہ ایک بار پھر خلاصئہ کائنات، محسنِ انسانیت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کا گھناؤنا ارتکاب کیا گیا! دل اسی لیے اور دکھتا ہے کہ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں، بلکہ بار بار خبثِ باطن کااسی طرح برملا مظاہرہ کیا جاتا ہےلیکن ۶۰
کے قریب اسلامی ممالک اور ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں سے سوائے چند مقامات اور مخصوص اشخاص کے، کسی کی طرف سے کوئی مثبت ومؤثر رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا، حالاں کہ اس قسم کی گستاخانہ حرکت اگر کوئی انسان ہماری اپنی ذات، ہمارے والدین اور ہمارے عزیزوں میں سے کسی کے خلاف کرتاتو ہمارے جذبات میں لازماً ارتعاش آجاتا، ہم اس کے در پہ ہو جاتے، اب سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہمیں ہماری جانیں ،عزیز واقارب اور دنیوی مال ومتاع محسنِ انسانیت ﷺ سے زیادہ عزیز ہوچکے ہیں؟ اگریہ حقیقت ہے تو ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا ہوگا کیوں کہ اگر ایسا ہو گیاتو پھر ہمیں دنیا میں مظلومیت، مقہوریت اور مذلت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم ایمان کی سلامتی،کامیابی اور آخرت کے عذاب سے حفاظت چاہتے ہیںتو ہمیں اتباعِ رسول اور محبتِ رسولﷺ کا سچا وپکا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور یہ سچا وپکا راستہ وہی ہے، جو منشاے خداوندی کے مطابق حضور ﷺکے طرزِ عمل اور آپ ﷺکے دین کی عملی تصویر یعنی صحابہ کرامؓسے میل ومناسبت رکھتا ہو۔اس لیے کہ یوں تو پورا قرآن مجید حرمتِ رسول اللہ ﷺکا بیان ہے، کیوں کہ آپ ﷺکی حرمت وتقدس کے بغیر قرآن مجید کی حرمت وتقدس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جب کہ قرآن مجید میں بطور خاص دو درجن سے زائد آیاتِ مبارکہ ایسی وارد ہوئی ہیں ،جن میں آپﷺ کی حرمت وتقدس کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے اور آپ ﷺکی بے ادبی،گستاخی اور ایذا رسانی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
جس طرح کسی ملک میں وہاں کے وزیرِ اعظم کی ہتک آمیزی جرم تصور کی جاتی ہے، اسی طرح ہم اپنی حکومتِ وقت اور اقوام متحدہ سے یہ عرض کرتے ہیں کہ وہ ملکی وبین الاقوامی سطح پرانبیاےکرام علیہم السلام، اسلام کی محترم شخصیات اور شعائر ِاسلام کی توہین کرنے والوں کے خلاف ہرممکن اقدام اور اپنی حیثیت کے مطابق بھر پور کردار ادا کرے۔ہم کسی کا بے جا خون بہانے کو جرمِ عظیم سمجھتے ہیں، اسلام کسی قسم کی دہشت گردی کا روادار نہیںلیکن شان رسولﷺ میں گستاخی کرنے والوں کو بھی حکومت کی جانب سے سزا دی جانی چاہیے۔ایسے موقع پر عالمی عدالت میں ، ایسے مجرموں کو بین الاقوامی مجرم ثابت کرتے ہوئے ان پر لگام لگانا از بس ضروری ہے،اگر ایسا نہ ہو سکے تو جن ممالک کے باشندے اس گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوں،ان ممالک پر سفارتی دباؤ ڈالتے ہوئے انھیں سے ان مجرموں کی سر کوبی کروائی جانی چاہیے۔یا ان مجرموں کی تحویل کے لیے حتی الامکان کوشش کی جانی چاہیے تاکہ قیامت کے روز احکم الحاکمین کی عدالت میں انسانیت ہمارے حق میں گواہ بن سکے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی پر مقدور بھر ایمانی قوت اوردینی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کیا تھا اور ہم اس قسم کے واقعات سے ناخوش اور آزردہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب ﷺ کا حقیقی عشق ومحبت نصیب فرمائے۔آمین