Zalzala khuda ki tambeeh, Nadeem Ahmed Ansari

zalzala

زلزلہ؛ خدا کی تنبیہ!

ندیم احمد انصاری

(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

(۲۵

اپریل ۲۰۱۵ء کو) تادمِ تحریر دہلی سمیت پورے شمالی ہندوستان اور نیپال میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ جن میں دہلی کے علاوہ اتر پردیش، اتراکھنڈ، راجستھان، مدھیہ پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور آسام بھی شامل ہیں۔ کاٹھنمڈو میں سب سے تیززلزلہ آیا ہے اور نیپال میں کچھ گھروں کے خراب ہونے کی خبر ملی ہے۔پہلا جھٹکا ۱۱ بج کر ۴۱ منٹ پر محسوس کیا گیا، جب کہ ۱۲ بج کر ۱۹ منٹ پر دوسری بار جھٹکے محسوس کیےگئے۔نیپال اور بھارت میں زلزلے کے شدید جھٹکوں کے نتیجے میں متعدد ہلاکتوں اور مالی نقصانات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویٹ سائٹس پر قدیم مندروں اور دیگر عمارتوں کی تباہی کی تصاویر جاری کی جارہی ہیں۔امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر ۷.۹ رِکارڈ کی گئی ہے اور اس کا مرکز نیپال کے ضلع کاسکی کے ہیڈکواٹر پوکھرا کے مشرق میں ۸۰ کلومیٹر دور کا علاقہ بتایا جا رہا ہے،یہ علاقہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے مغرب میں واقع ہے۔ سوشل میڈیا پر نیپال سے منہدم عمارتوں کی تصاویر ڈالی جا رہی ہیں تاہم نقصانات کی مجموعی تصاویر سامنے نہیں آئی ہے،نیپال کے ایئر پورٹ کو پروازوں کے لیے بند کر دیا گيا ہے۔

نیپال کے علاوہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔نیپال ریڈیو نے لوگوں سے گھروں سے باہر رہنے کی اپیل کی ہے کیوں کہ مزید جھٹکوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں، ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جب کہ سرکاری ہیلی کاپٹر فضا میں پرواز کر رہے ہیں۔زلزلے کے جھٹکے پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی محسوس کیے گئے ہیں۔ نیپال سے ملحق بھارتی ریاستوں میں دو بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے اور دہلی کے کناٹ پلیس میں لوگ اونچی عمارتوں کو چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے، تاہم مضمون کو آخری صورت دینے تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

بھارتی رکن پارلیمان اور بی جے پی کے رہنما راجیو پرتاپ روڈھی نے کہا ہے کہ بہار کے سیتا مڑھی ضلعے میں دو افراد کی موت ہو گئی ہے جب کہ بہار میں حفاظتی اقدام کے تحت بجلی کی فراہمی منقطع کر دی گئی ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی ضلعے میں دو افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ جب کہ بہار کے مغربی چمارن کے بیتیا شہر سے ایک شخص کے دیوار کی زد میں آجانے سے موت کی خبر موصول ہوئی ہے۔

یہ جھٹکے مختصر وقت کے تھے لیکن ان سے انسان کو اپنی عاجزی کا ایک مرتبہ پھر احساس ضرور ہوا کہ وہ کیا کچھ منصوبہ بندی کرتا ہے، اور اللہ کس طرح اپنے منصوبے کے تحت سب کچھ لمحے بھر میں تہ وبالا کردیتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ زلزلہ کائنات کا ایک طبعی واقعہ یا حادثہ ہےلیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ جواب صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیبی نظام چلا رکھا ہے، اس میں کوئی بھی واقعہ یوں ہی رونما نہیں ہوتابلکہ اس کے کچھ اسباب وعوامل ہوتے ہیںاور پھر جو اللہ اپنے بندوں پر نہایت رحیم وکریم ہے، آخر کوئی تو بات ہے کہ اپنے جلال کا مظاہرہ کرتا ہے اور آنِ واحد میں سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اللہ کی ذات تاثیر وتاثر سے پاک ہے، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں، اس کی ذات وراء الوراء ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔۔۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ اللہ کے اس غیبی نظام میں انسان کے اچھے اور برے اعمال پر ہی تمام احوال مرتب ہوتے ہیں۔

قرآن مجید میں فرمایا گیا:

مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآَمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا۔

اگر تم لوگ اللہ کے شکر گزار ہواور اس پر ایمان لے آئوتو اللہ تعالیٰ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا؟ (النساء: ۱۴۷)

اس سے یہ بھی اشارہ مل گیا کہ کوئی وجہ ضرور ہے کہ اس طرح کی آفات آتی ہیں اور انسان کی عقلیں حیران وپریشان ہوکر رہ جاتی ہیں۔

بشیر ونذیر حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جب مالِ غنیمت کو اپنی جاگیر سمجھا جانے لگے، امانت کو مالِ غنیمت بنالیا جائے، زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھا جانے لگے، علم کا حصول دین کی خاطر نہ ہو، آدمی اپنی بیوی کا اطاعت گزار اور ماں کا نافرمان ہوجائے، دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور کرے، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں، بددین لوگ قبیلے کے سردار بن جائیں، کمینے اور ذلیل لوگ قوم کے ذمّے دار ہوجائیں، کسی شخص کی عزت اس کے شر سے ڈرتے ہوئے کی جانے لگے، گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کے سامان رواج پاجائیں، شراب پی جانے لگے اور بعد میں آنے والے لوگ امت میں پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں‘ اس وقت سرخ آندھی، زلزلے، زمین میں دھنس جانے، چہرے مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کا انتظار کرنا!(ترمذی: ۲۲۱۱)

اس حدیث میں بالکل واضح طور پر بتلادیا گیا کہ وہ کیا اسباب وعوامل ہیں، جو خدا کے غضب کا باعث بنتے ہیں،آپ نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اس حدیث کا کون سا جملہ ہے جس کی تعبیر نہیں ہو چکی؟آج ہندوستان سمیت دنیا بھر کے جو حالات ہیں، وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں، پھر کیوں یہ زلزلے نہ آئیں؟ جو لوگ اپنے بول وچن سے دنیا کو مسخر کرنے کی باتیں کرتے ہیں، وہ سامنے آئیں اور ان مصیبتوں کو روک کر دکھائیں!

بات دراصل یہ ہے کہ زلزلہ یا اس قسم کا کوئی بھی عذاب اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ ہوتی ہے، اگر انسان اس سے سبق حاصل کرےاور اپنے اعمال کی اصلاح کرلے اور توبہ کرلے تو ٹھیک، ورنہ خیال رہے کہ اگر آج یہ حادثہ ہمارے دیگر بھائیوں کے ساتھ پیش آیا ہے، کل ہمارے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے، ویسے بھی سمجھدار انسان وہ نہیں، جو آفت آجانے پر پریشان حال مارا مارا پھرےبلکہ سمجھ دار وعقل مند وہ ہے، جو آفات کو اپنے آس پاس بھی پھٹکنے نہ دے اور ان کے اسباب کا ہی خاتمہ کر دے۔

یہ بھی ایک لطیفہ ہے جو کہ شیطان انسان کو سمجھاتا ہے کہ ایک تیرے سدھرنے سے کیا ہوگا؟ تیرے علاوہ بھی تجھ جیسوں کی کمی نہیں۔ان سے ہم عرض کرنا چاہیں گے؛ معاشرہ اور سماج افراد سے ہی تشکیل پاتا ہے، اگر ہم ذاتی طور پر کم از کم اپنی ہی اصلاح کرلیں اور ہر آدمی صرف اپنی اصلاح کی ہی کوشش کرلےتو پورا معاشرہ صالح ونیک ہوجائے گا اور اگر ہم دوسروں کے باعث یہ سوچ کرکہ میں اکیلے ہی تو یہ کام کررہا ہوں، اسی طرح اپنی زندگی بسر کرتا رہے تو ہماری مثال اس کہانی کے کرداروں کی سی ہوگی، جو عموماً تمام بچوں کو ابتدائی نصاب میں پڑھائی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ محل کے باہر حوض میں، رات کے اندھیرے میں سب لوگ ایک ایک لوٹا دودھ لا کر ڈالیں، ایک نے سوچا کہ سب ہی دودھ ڈالیںگے اگر رات کے اندھیرے میں میں اکیلا ایک لوٹا دودھ کے بجائے پانی ڈال دوںتو کیا حرج ہے؟ ایک نے سوچا تو سب نے اسی طرح سوچا۔ نتیجۃً صبح پورا حوض پانی سے بھرا ہوا تھا لیکن افسوس! ایسی کہانیوں سے بھی ہم منفی نتیجہ ہی اخذ کرتے ہیں۔

بات یہ چل رہی تھی کہ زلزلے یا اس قسم کی دیگر آفات، جو اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوتی ہیں اور جن سے ہمیں سبق حاصل کرنا اور اپنی زندگی میں صالح انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرنا چاہیےتاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ہر طرح محفوظ رہ سکیں۔اس لیے کہ یہ اللہ کی تدبیریں ہیں جو انسانوں کی تدبیروں پر ہمیشہ غالب آتی ہیں اور اپنے زعم میں بڑے بڑوں کو تہ و بالا کر دیتی ہیں۔زمین کے ذرا سے ٹکڑوں پر فخر کرنے والے، عالی شان محلوں کے تعمیر کرنے والے، بہت سا مال و زر جمع کرنے والے جب خود اپنے جمع کیے ہوئے مال کے نیچے دب کر ہی دفن ہو جاتے ہیں، اس وقت ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا، خدا کرے زمین کے نیچے جانے سے پہلے پہلے زمین کے اوپر بسنے والے ہوش کے ناخن لیں!

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here