نوٹ بندی اور زمینی حقائق
اندھیر نگری، چوپٹ راجا!
ندیم احمد انصاری
8نومبر 2016ء کے بعد سے پورے ہندوستان میں جو افرا تفری مچی ہوئی ہے اور معاشی و اقتصادی اعتبار سے جن حالات کا عوام کو سامنا ہے، اس میں گویا سماج و معاشرت کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔مودی جی نے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ پر ایمرجنسی بریک لگاتے ہوئے جس طرح ملک میں بدلاؤ لانے وغیرہ کی بات کی، اس میں وہ اور ان کے بھگت بہت سے زمینی حقائق کو فراموش کر گئے، شکر ہے اپوذیشن میں سے بعض لوگوں نے اس جانب توجہ مبذول کی ہے۔افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کرکہ کالےدھن کو امیروں سے نکالنے کے نام پر غریب عوام کے خون پسینے کو بلا سوچے سمجھے بینک کی قطاروں میں بہایا جا رہا ہے اور اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ان قطاروں کے سبب سیکڑوں افراد بیمار اور درجنوں موت کے گھاٹ بھی اتر گئے ہیں، جس کی حکومت کو شاید کوئی فکر ہے نہ پروا۔ اس سلگتے موضوع پر گذشتہ ہفتے بھی ہمارا کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، لیکن اس پر ہم نے خود بینکوں میں جاکر حالات کا مطالعہ کرنے کو ترجیح دی اور اب چند سطریں نذرِ قارئین کر رہے ہیں۔
اس وقت تقریباً پورے ملک میں جو مدّا زیرِ بحث ہے،وہ ہے ’نوٹوں کی تبدیلی‘کا، جس کی وجہ ظاہر ہے کہ اس کا تعلق ہر ایک شہری سے ہے، جنھیں چند بے ایمان اور کرپٹ مال داروں کے نام پر بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، اس لیے کہ بہت تلاش کرنے کے باوجود ایساکوئی فرد ہمیں بینک کی قطاروں میں نظر نہیں آیا جس کے چہرے بشرے سے اس کےکروڑ پتی ہونے کا غالب گمان ہو سکے،جس کی دو ہی وجہیں ہماری ناقص فہم میں آئیں؛ اول انھیں پہلے سے اس کا علم تھا اس لیے انھوں نے حفظِ ما تقدم میں پوری تیاری کر لی، دوم ان کی اتنی مضبوط سیٹنگ کہیں نہ کہیں موجود ہے کہ ان سب جنجال میں پڑنے کی انھیں چنداں ضرورت نہیں۔ویسے بھی ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی جی کے مایکے میں یہ خبر باقاعدہ اخبارات میں چھ مہینے قبل ہی شایع ہو چکی تھی۔
خیر! اس موضوع پر دیگر ماہرین کی آرا پڑھی جا سکتی ہیں،اس وقت ہمارا مقصد اس پہلو سے گفتگو کرنا ہے کہ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ اقدام انتہائی جلد بازی میں لیا گیا ہے، جس میں حکومت مناسب متبادل انتظامات کرنے میں ناکام رہی ہے اور مناسب متبادل پیش کرنے سے قبل اس طرح کے ایمرجنسی بریک سے سب سے زیادہ اثر طبقۂ عوام پر پڑا ہے۔اگر کسی درجے میں اس اقدام کو درست ٹھہرانے کی کوشش کی ہی جائے تو بھی یہ ضروری تھا کہ مناسب متبادل کا انتظام پہلے کیا جائے، جب کہ حال یہ ہے کہ دس بارہ دنوں بعد بھی ممبئی جیسے ترقی یافتہ شہروں میں کہیں اے ٹی ایم بند نظر آ رہے ہیں تو کہیں بینک سے رقم ندارد ہے۔حد تو یہ ہے کہ کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے رہنے کے بعد پچاس ساٹھ سال کے بوڑھوں کو یہ جواب دے کر لوٹایا جا رہا ہے کہ بینک میں رقم ختم ہو گئی۔علاوہ ازیں اکثر بینکوں میں خواتین و مرد کی کوئی علیحدہ لائن نہیں، سینیر سٹیزن اور معذور افراد کے لیے کوئی معقول انتظام نہیں اور غیر پڑھے لکھے افراد کی کوئی مدد کرنے والا نہیں، جب کہ دو چار ہزار کے نوٹوں کی تبدیلی کے لیے بھی انھیں مستقل فارم وغیرہ کی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کہیں سے بینک کی قطاروں میں کھڑے رہنے والوں کی موت کی خبریں آ رہی ہیں تو کہیں ان حالات سے پریشان لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہیںاور بعض خبروں کے مطابق پولیس بھی انتظامات کے نام پر قطار میں کھڑے عوام پر اپنے رعب کی لاٹھیاں چلا رہی ہے،اس پر زندگی میں پہلی دفعہ کام کرنے والے بینک ورکروں اور بابوؤں کے نخرے مستزاد ہیں۔ ان سب کے بعد تو زبان سے بس یہی جملہ نکلتا ہے ’’اندھیر نگری چوپٹ راجا‘‘۔
محنت عوام کرے!
پیسے عوام کمائے!
تمام اشیا پر ٹیکس عوام ادا کرے!
اس کے بعد بھی بینکوں کے سامنے بھیک مانگنے کے لیے عوام کو کھڑا ہونا پڑے!
یہ چند وہ جملے ہیں جو آج کل زبان زد خاص و عام ہے۔
ویسے ایک خاص بات مدِ نظر رہے کہ بینک کا اسٹاف اےسی کیبن میں بیٹھ کر چند گھنٹے کام کر رہا ہے اور عوام سردی گرمی جھیلتے ہوئے دن و رات قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہے، اس کے باوجود عوام سے کوئی ہم دردی جتانے والا موجود نہیں، ان کے بیٹھنے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ان کے لیے پینے کے پانی وغیرکا، گویا انسان نہ ہوئے گائے بیل ہو گئے کہ گھنٹوں کھونٹے سے بندھے رہیں۔دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ اکثر بینکوں میں رقم نہ ہونے وغیرہ کا عذر کرکے قبل از وقت اور تقریباً تمام بینکوں میں متعینہ وقت پر بینکیں بند کر دی جا رہی ہیں، جب کہ خبروں میں اس بات کا اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ بینکوں کے کام کرنے کے اوقات میں اضافہ کیا گیا ہے وغیرہ۔واضح کر دیں کہ ہمیں بینک کے اسٹاف سے قطعاً کوئی خصومت نہیں، ہمارا خطاب حکومت و انتظامیہ سے ہے، جس نے بنا تیاری کےاتنا بڑا قدم اٹھانے کی ہمت کی اور یہ نہ سوچا کہ ہندوستان میں آج بھی بہت بڑی تعداد غریب عوام کی ہے، جنھیں اپنا نام پتا لکھنا تک نہیں آتا، وہ محنت مزدوری کرکے کچھ تھوڑا بہت جوڑ پاتے ہیں اور بینک وغیرہ کے چکّر کاٹنے کے بہ جائے دامے درہمے اپنے پاس محفوظ رکھنے میں عافیت محسوس کرتے اور عامیانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ان حالات میں بیمار و لاچار افراد کی حالات تو دیگر گوں ہے، جنھیں باوجود متعدد عوارض کے علاج و معالجے کے لیے نئی کرنسی مہیا نہیں ہو پا رہی ہے اور باوجود اعلانات کے ان سے پرانے نوٹ لینے کو اسپتال و میڈیکل والے تیار نہیں، نیز تیمار داروں کی قلت بھی ان حالات میں ایک مسئلہ بن گیا ہے، جب کہ ہمارے آس پاس ایسے مریض بھی موجود رہتے ہیں جو از خود بدن پر بیٹھی مکھی اڑانے سے بھی قاصر ہیں۔کُل ملا کر حالات کچھ ایسے ہیں کہ عوام تذبذب میں مبتلا ہے کہ محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کمائے یا سب کچھ بالاے طاق رکھ کر بینکوں کی قطاروںمیں کھڑے ہو کر ماضی میںخون پسینہ بہا کر کمائے ہوئےپیسوں کی حفاظت کا انتظام کرے۔
رہے مودی جی کے جذباتی بیانات وغیرہ‘ جس میں انھوں نے اپنی جان کے خطرے اور پچاس دنوں تک عوام سے ساتھ کی اپیل کی، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پردھان سیوک جی غریب عوام پچاس دن تک آپ کی اس ایمرجنسی کی مار جھیل کر زندہ بچیں گے تب ہی تو آپ کا ساتھ دیں پائیںگے، اس وقت محض جذبات کا مظاہرہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ عوام کی تکلیف کو سمجھنے اور اسے دور کرنے کی کوشش کیجیے۔آپ تو حکومت میں آنے کے لیے بیرون ملک سے کالا دھن لانے کی بات کیا کرتے تھے، اس میں کامیاب نہ ہوئے تو کم از کم عوام کی محنت کی کمائی کو تو کالے دھن کا نام دے کر بدنام نہ کیجیے!کالے دھن کو نکالنے کی بات بہت خوب لیکن اس کے لیے ایسی تدبیریں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جو کار گر بھی ہو اور جن کا اثر عوام کی زندگی پر کم پڑ ے یا بالکل نہ پڑے، اس لیے کہ ہندوستان کے سوا سو کروڑ میں سے اکثر عوام وہ ہے، جن کی زندگی آپ کے اس فرمان سے مفلوج سی ہو کر رہ گئی ہے۔بہ قول آپ کےآپ پردھان منتری نہیں، پردھان سیوک ہیں، تو عوام کو مشکلوں سے نکالنا آپ کا پرم دھرم ہونا چاہیے نہ کہ انھیں مشکلوں میں مبتلا کرنا۔کتنی عجیب بات ہے کہ آپردھان سیوک تو دس دس لاکھ سے سوٹ پہنے اور عوام کو دو ڈھائی لاکھ روپئے پاس نہیں رکھنے کی اجازت نہ ہو!پھر یہ بھی تو سوچیے کہ آپ کے راج میں پانچ سو روپئے میں آتا کیا ہے، جو آدمی سو پچاس کے نوٹوں کو لے کر سنبھال کر رکھے؟ دو ڈھائی کلو دال کی قیمت ہی اتنی ہے کہ ہر آدمی کو پانچ سو اور ہزار کا نوٹ لینا دینا لازمی ہے، پھر آپ کے چشمِ زدن کے اشارے پر جو دس بیس کے نوٹ کی گڈیاں عوام کے ہاتھوں میں پکڑائی جا رہی ہیں انسان اپنا دوسرا بوجھ اٹھائے کہ ان نوٹوں کو سنبھالے؟ رہا آپ کا برہماستر یعنی ’دو ہزار کا نوٹ‘ اس کو قبول کرنے کی بازار میں طاقت و استطاعت پیدا کرنا بھی آپ ہی کی ذمّے داری ہے!یہ ایک عام آدمی کی پردھان سیوک سے چند صاف صاف باتیں ہیں، امید کہ گراں خاطر نہ ہوں گی!