Ilm-e-deen ki qadr-p-qeemat aur farziyat, Nadeem Ahmed Ansari, (Al Falah Islamic Foundation, India)

ilm-ki-farziyat

علمِ دین کی قدر و قیمت اور فرضیت!

ندیم احمد انصاری

(الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

علم کی فضیلت بیان کرنے کا یہ موقع نہیں، اس مختصر مضمون کے ذریعے علم کی قدر و قیمت اور مقام پر ضمناً روشنی ڈال کر اس کی ضرورت و اہمیت پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ نیز مجتہدین و محدثین کے نزدیک علم کا کیا مقام و مرتبہ ہے اور ہر مسلمان کو کس درجے اس کے حصول میں تگ و دو کرنا ضروری ہے ۔ اس لیے کہ فی زمانہ علم بے زاری ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہے اور ستم تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو خدا سے جانب متوجہ کیا ہے ، انھیں بھی علم بے زاری کی فہمائش کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نفع دینے والا علم اور دین کی صحیح سمجھ عنایت فرمائے ۔ آمین

قول و عمل کا درجہ علم کے بعد

علمِ دین کی قدر و قیمت کا اندازہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اس طرزِ عمل سے کیجیے ؛ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ ایمان کے بغیر کسی چیز کا اعتبار نہیں، کیوں کہ ایمان ہی اصل بنیادی شئے ہے ۔ اس لیے امام بخاری نے سب سے پہلے اپنی ’صحیح‘ میں اسی کو ذکر فرمایا اور ایمان کا مبدأ وحی ہے ، اس لیے بالکل شروع میں وحی کا باب منعقد فرمایا۔ ایمان کے بعد سب سے اہم درجہ صلوٰۃ کا ہے ، لہٰذا اسی کو ذکر کرنا چاہیے تھا لیکن ان تمام کا محتاج الیہ علم ہے ، اس لیے وحی کے بعد علم کو بیان فرمایا ہے ۔نیز ’کتاب العلم‘ میں بھی مستقل باب قائم کیا ہے ’العلم قبل القول والعمل‘ یعنی علم قول اور عمل سے پہلے ہے اور علم سیکھنا، وعظ اور عمل کرنے سے مقدم ہے ۔ شارحِ بخاری علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے ذیعے امام بخاری رحمہ اللہ تعلّم کی ترغیب دے رہے ہیں اور علم کی اہمیت بیان فرما رہے ہیں اور یہ بتلا رہے ہیں کہ اعمال خواہ کتنے ہی اہم ہوں، خواہ ایمان کا جز ہی کیوں نہ ہوں، لیکن علم ان سب پر مقدم ہے ۔(تقریرِ بخاری بتغیر)

شارحِ بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چوں کہ حدیث پاک میں ایسے علم پر وعید آئی ہے جس پر عمل نہ کیا جائے اور حدیث میں آیا ہے کہ بہ نسبت جاہل کے عالم کو دو گنی سزا عمل نہ کرنے پر ملے گی تو اس سے وہم ہوتا تھا کہ علم کو نہ سیکھنا ہی اچھا ہے ، تو امام بخاری رحمہ اللہ اس باب سے یہ وہم دفع فرما رہے ہیں کہ ایسا نہ سوچے بلکہ آدمی علم پہلے حاصل کر لے ، اس کے بعد عمل کا درجہ ہے ، کیوں کہ زمانۂ علم میں تعلّم میں مشغولیت ہوتی ہے ، عمل نہیں کر سکتا، تو یہ عمل نہ کرنا اس وعید میں داخل نہیں۔ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اختلاف کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بہ قدرِ ضرورت علم حاصل کرنے کے بعد اس کے لیے کیا چیز مناسب ہے آیا علم یا عبادت؟ آگے فرماتے ہیں: لقول اللہ عز و جل: فاعلم أنہ لا الٰہ الا اللہ۔ اس سے بھی یہ بات ثابت کی کہ پہلے علم ہے ، اس کے بعد قول ہے ، کیوں کہ خود خدا کا پاک ارشاد ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کو جان لو اور یہ کلمۂ علم اس کے بعد فرماتے ہیں: فاستغفر لذنبک یعنی اس علم کے بعد اب یہ عمل ہے کہ استغفار کرو۔(ایضاً)

علم کی فرضیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔(ابن ماجہ) یہ حدیث متعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہے اور بعض علما نے اس کی تحسین بھی کی ہے ، جب کہ اسحاق بن راہویہ کا کہنا ہے کہ علم سیکھنا واجب ہے ، مگر اس تعلق سے جو حدیث مروی ہے وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں، البتہ معنی کے اعتبار سے درست ہے ۔(حاشیۃ جامع بیان العلم و فضلہ)

یہ بھی ظاہر ہے کہ اس حدیث میں علم سے مراد علمِ دین ہی ہے ، دنیوی علم و فنون عام دنیا کے کاروبار کی طرح انسان کے لیے ضروری سہی، مگر ان کے وہ فضائل نہیں۔پھر علمِ دین ایک علم نہیں، بہت سے علوم کو پورا مشتمل ایک جامع نظام ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت اس پر قادر نہیں کہ ان سب علوم کو پورا حاصل کرسکے ، اس لیے حدیثِ مذکورہ میں جو ہر مسلمان پر فرض فرمایا ہے اس سے مراد علمِ دین کا صرف وہ حصہ ہے جس کے بغیر آدمی نہ فرائض ادا کرسکتا ہے نہ حرام چیزوں سے بچ سکتا ہے ۔ جو ایمان و اسلام کے لیے ضروری ہے ۔(معارف القرآن)

فرض و واجب علم

فرض یا واجب علم سے مراد ایمانی اور دینی فرائض و ضروریات کا وہ علم ہے جس سے خالی رہ کر کوئی مسلمان اپنے دین، ا یمان اور آخرت کو نہیں پاسکتا۔ مثلاً :ایک شخص نیا نیا مسلمان ہو تو سب سے پہلے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ جان لے کہ اس کا خالق کو ن ہے ؟ معبود کون ہے ؟ اس کے صفات کیا ہیں؟ نبی اور رسول کون ہے ؟ اور دیگر وہ چیزیں کیا ہیں جن کو جانے اور مانے بغیر کسی کا ایمان صحیح نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ان باتوں کو نہیں جانتا تو چاہے دنیا والوں کی نظر میں وہ مسلمان کہلائے لیکن حقیقت میں اسے مومن اور مسلمان نہیں کہہ سکتے ؛ جب کہ اس کو ان باتوں کا علم ہی نہیں جو کسی شخص کے ایمان و اسلام کی اساس اور بنیاد ہیں۔ پھر ایمان کی ان بنیادی باتوں کا علم حاصل کرنے کے بعد جب عملی فرائض کا وقت آئے گا تو ان فرائض کے احکام کا جاننا اس کے لیے ضروری ہوگا، یہی حکم نماز، روزہ، زکوۃ، حج، نکاح، طلاق، حیض، نفاس اور خریدو فروخت وغیرہ وغیرہ کا ہے ۔ غرض یہ کہ مسلمان ہونے کے بعد اس کے سامنے جو مرحلہ اور جو جو بات پیش آئے گی اس کے شرعی حکم کا جاننا اور ضروری تفصیلات کا علم حاصل کرنا اس پر فرض ہوگا اور اگر وہ دین کا اتنا علم حاصل نہیں کرے گا تو سخت گنہ گار ہوگا۔(تعلیم المتعلم)

فرضِ عین و فرضِ کفایہ

بعض علما نے اس بحث کو سمجھنے کے لیے کہ آخر کس قدر علم حاصل کرنا کسی مسلمان پر فرض ہے ، علم کی دو قسمیں بیان کی ہیں:(۱)فرضِ عین(۲)فرضِ کفایہ۔جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے :(مفہوم)ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ جہاد کے لیے نکلا کرے ، تاکہ جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے محنت کریں اور جب ان کی قوم کے لوگ جو جہاد میں گئے ہیں ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو متنبہ کریں، تاکہ وہ گناہوں سے بچ کر رہیں۔(التوبہ: 122)اس آیت میں خصوصیت سے اس (علم) کے فرض ہونے کا اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ جہاد جیسے اہم فرض میں بھی اس فرض کو چھوڑنا نہیں، جس کی صورت یہ ہے کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جہاد کے لیے نکلے اور باقی لوگ علمِ دین حاصل کرنے میں لگیں، پھر یہ علمِ دین حاصل کرکے جہاد میں جانے والے مسلمانوں کو اور دوسرے لوگوں کو علمِ دین سکھائیں۔(معارف القرآن)

فرضِ عین و کفایہ کی تشریح

حضرت مولانا عبد الحئی کفلیتوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ فرضِ عین تو پاکی و ناپاکی کے مسائل اور نماز، روزہ وغیرہ اس عبادت کے احکام کا معلوم کرنا ہے ‘ جو مکلف پر واجب ہے ، اور خرید و فروخت و کرایہ وغیرہ ان معاملات کے احکام کا معلوم کرنا ہے جن کی مکلف کو اکثر حاجت پیش آتی ہے اور تم کو معلوم ہے کہ بہت سے مسلمان ایسے ہیں کہ ان پر نماز، رزہ، حج، زکوٰۃ فرض ہے اور بیع و رہن وغیرہ معاملات کرنے کا بہ کثرت ان کو اتفاق ہوتا ہے ، مگر ان کو معلوم نہیں کہ ان کے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟ جن کا پورا کرنا ان کا فرض ہے ۔ لہٰذا اپنے فریضے کو ترک کرنے کا ان پر گناہ ہوتا ہے اور ان کی کمائی صاف ستھری نہیں ہوتی، کیوں کہ انھیں یہی معلوم نہیں کہ کون سی صورت معاملے کو فاسد کرتی ہے اور کون سی صورت اس کی اصلاح کرتی ہے ۔اب رہا فرضِ کفایہ‘ سو وہ علم کا اتنا حاصل کرنا ہے کہ اجتہاد اور فتویٰ دینے کے مرتبے پر پہنچ جائے اور جب کسی شہر کے سارے مسلمان اس درجے کا علم سیکھنے بھی اٹھ کھڑے ہوں گے اور اتنا علم حاصل کر لیں گے کہ فتوے کے درجے پر پہنچ جائیں تو اہلِ شہر سے فرض ساقط ہو جائے گا۔(الجواہر الزواہر)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here