دین پر قائم رہنے میں پریشانیاں آئیں گی، اللہ تعالیٰ ان میں آپ کے لیے کافی ہوں گے
مولانا شاہد معین قاسمی
اکیسویں پارے میں سورہ ٔ عنکبوت کے اخیر تک اللہ تبارک وتعالی نے مجموعی طور پہ آخرت کی اہمیت بیان فرمائی ہے اور دنیا کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ یہ چند دنوں کا کھیل کو د ہے ۔اس سلسلے میں جن خاص چیزوں کا بیان ہے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو اہل کتاب کے سامنے دین کی بات اچھے سے اچھے انداز میں پیش کرنا چاہئے اور ساتھ ہی انہیں ان باتوں میں نہیںجھٹلانا چاہئے جو اسلا م کے اصول سے نہ ٹکڑ اتے ہوں بلکہ ان کا یہ عقیدہونا چاہئے کہ جو چیزیں پہلے کے انبیا پہ اللہ تعالی کی طرف سے اتری تھیں وہ سب برحق تھیں۔( صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ اہل کتاب تورات وانجیل کو ان کی اصلی زبان عبرانی میں پڑھتے تھے اور مسلمانوں کو ان کا ترجمہ عربی زبان میں سناتے تھے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کواس کے متعلق یہ ہدایت دی کہ تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بل کہ یوں کہو آمنا بالذی انزل الینا و انزل ا لیکم یعنی ہم مجموعی طو رپہ اس وحی پہ ایمان لاتے ہیںجو ہمارے اور تمہارے انبیا پہ نازل ہوئی اورجو تفصیلات تم بتلاتے ہو وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد نہیں اس لیے ہم اس کی تصدیق و تکذیب سے اجتناب کرتے ہیں ۔ از: معارف القرآن)دوسری بات یہ بتلائی کہ محمد ﷺ جنہوں نے کہیں بھی تعلیم حاصل نہیںکی تھی بالکل ہی پڑھنا لکھنا نہیںجانتے تھے ان کا قرآن کو پیش کرنا یہ قرآن کے برحق اور اللہ کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے(یہ مضمون سورۂ اعراف، آیت: ۱۵۷؍میں بھی گذر چکا ہے) پھربھی اگر کوئی نہیں مانتا تو بس اتنا کہدیں کہ اللہ قرآن کے برحق ہونے اور میرے نبی ہونے کے گواہ ہیں،چوتھی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر انسان کو کسی جگہ رہکر اسلام پے عمل کرنا مشکل ہورہا ہو تو اسے اس جگہ کو چھوڑدینا چاہئے اور دوسری کسی ایسی جگہ جانا چاہئے جہاںصرف اللہ ہی کی عبادت کرسکے ۔ساتھ ہی اس سلسلے میں جتنے وساوس اور رکاوٹیں ایک انسان کے ذہن میں آسکتی تھیں ان سب کے بارے میں تعیین کے ساتھ یہ کہدیاگیا کہ یہ سب روکاٹیں وہمی ہیں۔ پہلا وسوسہ جو خاص طور سے اس وقت کے کچھ لوگوں کو پیدا ہو سکتاتھا وہ یہ کہ اگر ہم ھجرت کریں گے توہمارے یہاں کے دشمن راستہ روک کر ہمارا مقابلہ کریںگے اور ہمیں قتل بھی کرسکتے ہیں اس کا جوا ب اللہ تعالی نے یہ مرحمت فرمایا کہ موت تو دنیا میں کہیں بھی آئے گی لیکن اگر اللہ کی راہ میں موت آگئی تو ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت ہوگی ۔ دوسرا وسوسہ عام طورپہ یہ ہوتاہے کہ دوسری نئی جگہ میں رزق کا مسئلہ کیسے حل ہوگا اپنی پہلی جگہ میں مختلف ذرائع سے رزق کا مسئلہ حل ہوجاتاہے،اس کا جواب عنایت فرماتے ہوئے رب رزاق نے فرمایا کہ رزق دینے والے تو اللہ تعالی ہیںیہ جتنے ذرائع تمہارے پاس ہیں اگر اللہ تعالی نہ چاہیں تو یہ سب ختم ہوجائیں گے اور مزید فرمایا کہ بے شمار پرندے وہ ہیں جو اپنا رزق جمع کرکے نہیں رکھتے اور نہ ان کے پاس رزق کے جمع کرنے کے ذرائع ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی ہی انہیں بھی اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں( اور یہی حقیقت بھی ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں میں صرف ایک جانور چیونٹی اور چوہا ایسے جانور ہیں جو اپنی غذا کے ا پنی بِلو ں میں جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں چیونٹی جاڑے کے موسم میں باہر نہیں آتی اس لیے گرمی کے دنوں میں اپنی خوراک جمع کرتی ہے اور مشہور ہے کہ پرندوں میں صرف عقعق نامی کوا اپنی غذا اپنے گھونسلے میں جمع کرتاہے مگر وہ بھی بعد میں بھول جاتاہے کہ اس نے کہاں رکھا تھا ) یہ آیات بلاشبہ آپ ﷺ کے زمانے میں ھجرت سے متعلق ہیں لیکن ا س سے بہت سے دوسرے مضامین اشارۃً نکلتے ہیںجو قیامت تک مسلمانوں کی راہنمائی کرتے رہیں گے ان مضامین سے پہلے ہم اس بات کا اعادہ کرلیں کہ آپ ﷺ اورمسلمانوں کو اسلام کے شروع میں جن پریشانیوں کا سامنا رہا ہے وہ محتاج بیان نہیں ہیںکہ مسلمان اپنے دین اور دنیا دونوں اعتبار سے مجبور ہوگئے تھے ان کے دشمن نہ انہیں دین پہ عمل کرنے دے رہے تھے اور نہ دنیا بنانے دے رہے تھے انہیں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کے مظالم سے دوچار کیا گیا تھا اورایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ ان کے اجتماعی بائیکا ٹ کے ذریعے ان کے اجتماعی خاتمے کا بھی سامان کردیاگیا اور یہ سب کے سب شعب ابی طالب میں جا کرمحصور ہوگئے جہاں ایک مدت کے بعد کھانے پینے کی چیزیں بھی ختم ہوگئی تھیں لیکن جب ان لوگوں نے ہجرت کی تو ہجرت کے پہلے ہی دن سے اس کے خوش کن نتائج سامنے آنے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسے مستقل اور خود مختار حکومت کے باشندے ہوگئے جسے آنکھ دکھانا اس وقت کی دوسری بڑی بڑی سے حکمومتوں کے لیے بھی آسان نہیں رہ گیا تھا یعنی ھجرت مصائب سے نکلنے اور تاریخ ساز و بے مثال کامرانیوں کے حصول کا ذریعہ بنی ۔ اب اس زمانے میں بہت سے بھائیوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ پہلے سے جس جگہ آباد کام کررہے ہوتے ہیں وہاں ان کے لیے معاش حاصل نہیں ہوتا یا بمشکل مگر بہت ہی تھوڑا حاصل ہوتاہے پہلے سے موجود ذریعۂ معاش کے مواقع وہاں ختم ہوجاتے ہیں یا یہ کہ ذریعہ ٔ معاش بھی ہوتا ہے اور بسہولت حصولِ معاش بھی لیکن وہاں رہائش کی وجہ سے دوسرے مسائل اس قدر پیدا ہوجاتے ہیں کہ آمدنی کا بہت ہی تھوڑا حصہ بچ پاتاہے یا بالکل ہی نہیں بچتا پھرا یسے میں ہمیں اس شہر کو چھوڑ دینا چاہیے اور کسی دوسرے ایسے شہر میں جانا چاہیے جہاں ذریعہ ٔ معاش بھی ہو ،معاش کا حصول بھی خوب ممکن ہو اور ساتھ ہی اس کی بچت بھی۔ ایسے ہی اگر کسی کام یا پیشے میں اپنی ترقی نہیں ہورہی اور اپنی تمام ترممکنہ تدبیروں کو آزمایہ جاچکاہے تو پھر اس کام کو چھوڑ کر دوسرے ایسے کام کو اختیار کر نا چاہیے جس میں معاش کامسئلہ حل ہوتا نظر آتاہوکیوں جس طر اللہ تعالی کی زمین بڑی وسیع ہے جس کی وجہ سے اس جگہ کا چھوڑنا ضروری ہے جس میں رہ کردینی ترقی مشکل ہے اسی طرح اللہ تعالی کے پیدا کردہ ذرائع معاش بھی بہت ہیں اسی طرح ہر وہ عمل یا ذریعہ ٔ معاش جسے اپنانے سے دین کا نقصان ہوتا ہو اسے چھوڑدینا چاہئے اور یہ کبھی نہ سوچنا چاہئے کہ رز ق میں تنگی ہو جائیگی یا دنیوی ترقی رک جائیگی البتہ اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ جب تک دوسرا حلال ذریعہ ٔ معاش یقینی نہ ہوجائے اس وقت تک اپنی ضرورت کے بقدر بادل نخواستہ اسی ذریعے سے فائدہ اٹھائے اور حلال کی فکر وتلاش میں ڈھنگ اور دل سے لگا رہے۔یہی حکم تعلیمی میدانوں کا بھی ہوگا کہ اگر ہم کسی موضوع میں ناکام نظر آتے ہیں اور بڑی محنتوں کے بعد بھی ہمیں خاطر خواہ کامیابھی حاصل نہیں ہوتی تو ہمیںاپنا موضوع بدل دینا چاہئے خلاصہ یہ کہ ھجرت کی ان آیات میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کی ھجرت کے ساتھ ایک کام سے دوسرے کام ،ایک علمی میدان وموضوع سے دوسرے علمی موضوع اور ذریعۂ معاش کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ ھجرت اور حرام ذریعۂ معاش سے حلال ذریعۂ معاش کی ھجرت بھی شامل ہوگی۔ پانچویں چیز جو اس سور ت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ اللہ تبارک وتعالی نے آخرت کی فکر دِلاتے ہوئے اہل مکہ کو ایک احسان یاد دلایا ہے کہ اللہ تعالی نے مکہ کو امن والی جگہ بنادی جس کے چاروں طرف لوگوں کو لوٹا جارہاتھا اور ان کے امن وامان کو غارت کیا جاتارہا لیکن مکے میں ایسا نہیں ہوتا وہاں لوگ بڑے ہی امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں کم ازکم اسی نعمت خداوندی اور بڑے احسان کا لحاظ کرکے اللہ کے صحیح دین کو قبول کرلینا چاہئے ۔
سورۂ ٔروم کی شروع کی تین آیتوں میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کا خلاصہ بخاری ومسلم کے حوالے سے علامہ بن کثیر نے یو ں بیان کیا ہے کہ جب سابور شاہ فارس نے شام وجزیرے کے آس پاس کے شہر فتح کرلئے تو یہ آیتیں اتریں اس وقت ہر قل شاہ روم مجبور ہوکرقسطنطنیہ میں بند ہو گیا تھا کافی مدت تک محاصرہ رہا آخر کا ر اس نے سابور سے فتح کئے ہوئے علاقوں کو چھین لیا اس وقت مکہ کے مشرکوں نے صحابہ ٔکرام سے کہا کہ تم اور عیسائی دونوں ہی اہل کتا ب ہواور ہم ان پڑھ ہیں ہمارے بھائی پارسی تمہارے بھائی رومیوں پہ غالب آگئے اگر ہماری اور تمہاری لڑائی بھی چھڑجائے تو یقینا ہم بھی تم کو مار بھگائیں گے اس وقت یہ آتیں اتریں حضر ت ابوبکرؓ نے اہل مکہ سے جاکر کہا کہ آج تم اپنے بھائیوں کے ہمارے بھائیوں پے غلبے سے اترارہے ہو؟اتراؤ مت !اللہ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی نہیں فرمائیں گے اللہ کی قسم رومی پارسیوں پہ غالب آجائیں گے اس با ت کی ہمیں ہمارے محبوب نبی نے خبر دی ہے ۔ابی بن خلف نے کہا تم جھوٹے ہو حضرت صدیق ؓنے فرمایا چوں کہ تم جھوٹے ہو اسلئے مجھے جھوٹا سمجھ رہے ہو ابی بن خلف نے کہا میں دس دس اونٹوں کی شرط لگاتا ہوں اگر رومی پارسیوں پہ غالب آگئے تو میں دس اونٹ دیدوںگااور اگر تین سالوںتک فارس ہی غالب رہے تو تمہیں دینے پڑجائیں گے پھر ابوبکر نے رحمت عالم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے یہ نہیں بتایا تھا بلکہ بضعہ تین سے نو تک کے لئے بولا جاتاہے جاؤ مال بٹرھا دواور مدت بھی بڑھادوحضر ت ابوبکر اُبیَ کے پاس گئے اس نے دیکھتے ہی کہنا شروع کردیا کہ شائد تم اپنے کئے پہ شرمندہ ہو۔فرمایا نہیں !آؤ اونٹ بھی بڑھادیں اور مدت بھی! آخر نوسال کی مدت اور سو اونٹ کردیئے گئے ابی نے کہا مجھے منظور ہے اور نوسا ل سے پہلے ہی رومی پارسیوں پہ غالب آگئے اور ابوبکر نے سو اونٹ اصول کرلئے۔ اس کے بعد آ سمان وزمین کی بناوٹ،ہر اعتبار سے مضبوط اس سے پہلے کی قوموں کی نافرمانی کے انجام میں غور وفکر کا حکم دیتے ہوئے قیامت کے روز اللہ کے منکر کو ہونے والی پریشانیوں کا بیان ہے جب کہ ایمان والوں کے بارے میں یہ کہاگیا ہے کہ و ہ لوگ جنت میں مزے سے رہیں گے پھر یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی مردے سے زندے اور زندے سے مردے کو پیدا کرتے اور نکالتے ہیں اور تم لوگ بھی قیامت کے روز اپنی قبروں سے نکالے جاؤگے اور ساتھ ہی خاص نشانیا ں بھی بیان فرما ئی گئی ہیں جیسے انسانوں کو مٹی سے پیدا کرنا ،ان کے لئے اپنے لوگوں سے زندگی کاساتھی بنانا،آسمان وزمین کا پیدا کر نا ،دنیا جہان کے تما م انسانوں کے رنگ،زبان اور لہجوں کا الگ الگ بنانا،رات میں نیند پوری کرنے اور دن میں اللہ کی نعمت یعنی رزق کی تلاش کا موقع دینا،بجلی دکھانا ،پانی کو برسانا،اس کے ذریعے بنجر زمین کو آباد کرنا اور آسمان وزمین کا ان کے حکم سے باقی رہنا۔اس کے بعد شرک کے غلط ہونے کی عقلی دلیل یہ بیان فرمائی کہ جس طر ح ایک انسان اپنے ایک غلام کے بارے میں یہ برداشت نہیں کرتا کہ وہ اس کے مال میں حصہ دار بنے اور اس کے مال میں سے بانٹ لے کیوں کہ حقیقت میں وہ اس کا شریک نہیں ہے تو پھر اللہ تعالی کے پیدا کئے ہوئے انسان ،یاجنات یا کوئی دوسری مخلو ق اللہ کے اختیار ،حکومت اور عبادت میں کیسے شریک ہو سکتی ہے۔آیت: ۳۰،۳۱،۳۲؍ میں دین ابراہیم ؑپہ چلنے اور دین میں اختلاف نہ کرنے کاحکم دیاگیاہے۔آیت: ۳۳سے ۳۷؍تک اپنی قدرتوں اور نشانیوں کو بیان فرمایاہے۔آیت :۳۸ سے ۴۰؍ تک قریبی رشتہ داروں سمیت دوسرے حقد اروں کو بھی حق دینے کا حکم فرماتے ہوئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ حق والوں کو حق دینے سے رزق اور مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ مال ملنا اور اس کاکم یا زیا دہ ہونا یہ سب اللہ کی قدر ت میں ہے۔آیت: ۴۱ سے ۴۵؍ تک یہ اعلان فرما یا گیا ہے کہ انسانوں کو جتنی بھی مصیبتیں آتی ہیں وہ انسانوں کے برے کاموں کی وجہ سے آتی ہیں اس لئے مصیبتوں سے جھٹکارے اور پریشانیوں کے حل کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ اللہ کی نافرمانی سے بچا جائے پھر اگر کوئی ظاہر ی سبب بھی نظر آرہا ہے تو اسے بھی دور کیا جائے ۔آج کل پوری دنیا میں جوکچھ بھی ہورہاہے سب کا حل یہی ہے کہ انسا ن اللہ کے صحیح دین کو قبول کرکے اللہ کے حکموں پے مضبوطی سے عمل کریں۔آیت: ۴۶ ؍سے سور ت کے اخیر تک اپنی مختلف قدرتوں کو بیان کرتے ہوئے باری تعالی نے ایمان کی اہمیت بیان فرمائی اور ہٹ دھرم قسم کے لوگوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ ان کو نصیحت کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردے کو آوز دیناساتھ ہی اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کو صبر کی تلقین بھی فرمائی گئی ہے ۔
سورہ ٔ لقمان کی شروع کی پانچ آیتو ں میں یہ بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم ان لوگوں کیلئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے جو نماز پڑھتے ،زکات دیتے اورآخرت پہ یقین رکھتے ہیں اوروہی لوگ صحیح معنوں میں اپنے رب کی طرف سے ہدایت والے اور کامیاب ہیں ۔اس کے برخلا ف آیت: ۶، ۷؍ میں قرآن پاک کوچھوڑ کرہر اس عمل میں لگنے کو تباہی بتلایا گیاہے جو اللہ کی یاد سے غافل کردے جیسا کہ بیہقی کے حوالے سے درمنثور میںنقل کیاگیا ہے اور صاحب روح المعانی نے بیان کیا کہ نضر بن حارث نامی ایک مالدار کافر فارس جاتا اوروہاں سے عجم کے بادشاہوں کے قصوں کی کتابیںخرید لاتا اور مکے میںقریش کے لوگوں سے یہ کہتا کہ محمدﷺ تم لوگوں کو عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیںمیں توتمہیں رستم ،اسفندیار اور اکاسرہ کے قصے سناتا ہوںکچھ لوگ اس کی باتوں میں آجاتے اور قرآن پاک کو چھوڑ کر یہی قصے سنتے ۔اسی طرح اس نے ایک گانے والی لونڈی خریدتھی جب یہ کسی کو دیکھتا کہ وہ اسلام سے قریب ہورہاہے تواسے اپنی لونڈی کے پاس لیجاتا اور کہتا اسے کھلاؤ پلاؤ او ر گانا سنو یہ اس سے بہتر ہے جس کی طر ف محمد( ﷺ) تمہیں بلاتے ہیں ۔اس میں لہوالحدیث سے مراد گانا ہے اور ہر اس کام کا حکم وہی ہو گا جواللہ کی یاد سے غافل کردے ۔آیت: ۱۰،۱۱؍ میں ا پنی خدائی کی دلیل یوں بیان فرمائی کہ اللہ تبارک وتعالی نے تو آسمانوں کو بغیر کسی چھت کے ہی پیدا کیا ،زمین میں کیلے گاڑدیئے تاکہ زمین ڈانوا ڈول نہ ہو،اس میں ہر طرح کے جاندارکو پھیلا دیا ،اور آسمان سے بارش اتار کر اس میں ہر طر ح کی عمدہ چیزیں اگائیںیہ تو میں نے پیدا کیا تمہارے معبودوں نے کیا پیداکیا وہ بتاؤ!طے ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی نے کچھ بھی پید انہیں کیا تو پھر کسی کی عبادت کرنا ظلم و انصاف کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟
اسلام میں ادنی درجے کی دہشت گردی بھی جائز نہیں :آیت :۱۳ ؍ میںپہلے تو اللہ تعالی نے حضرت داؤد کے زمانے کے بزرگ حضرت لقمان حکیم کی وہ نصیحت نقل کی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی کہ بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہر انا کیوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہر انا بہت بڑا ظلم ہے۔ پھر آیت: ۱۴سے ۱۵؍ تک ماں باپ کی اہم اور بڑی قربانیوںکو بیان کر کے ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم فرماتے ہوئے یہ بھی بیان کردیا کہ ماں باپ کی فرماں برداری اور ان کی اطاعت اتنی ہی کی جا ئے گی جتنی اللہ تعالی کو پسند ہو اگر ماں باپ کسی بھی ایسی بات کا حکم دیں جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہوتو پھر اسے نہیں مانا جائے گا۔ اور ایک دوسری بات یہ بھی بیان فرمائی کہ نیک لوگوں کی صحبت میں رہنا چاہیے ۔آیت: ۱۶ سے ۱۹؍ تک میں حضرت لقمان حکیم کی نصیحت کاباقی حصہ نقل کیا گیاہے جس میں اللہ کی قدرت کو بیان کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور وہ بھی کسی چٹان میں ہو یا آسما ن وزمین میں ،اللہ تعالی اسے ضرور لائیں گے کوئی بھی گنا ہ اللہ سے چھپ نہیں سکتا اللہ کی نظر بہت ہی گہری ہے اور اللہ تعالی کی جانکاری میں ہر چیز ہے بیٹے نماز قائم کرنا ،اچھے کاموں کا حکم کرنا ،برے کاموں سے روکنا اور اس راستے میں جو بھی پریشانیاں ہو ںانہیںصبر کے ساتھ برداشت کرنا یہ بہت ہی بڑا کام ہے نہ تو لوگوں کے سامنے چہرہ بگاڑنا اور نہ ہی زمین پہ اکڑ کرچلنا کیوں کہ اللہ تعالی کسی بھی تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے ،چلنے میں بیچ کی رفتا ر اپنا نا اور اپنی آواز کو پست رکھنا آواز کی بلندی بڑائی کی چیز نہیںکیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو گدھا سب سے زیا دہ بزرگ اور محترم ہوتا۔ اگر ہم حضرت لقمان کی نصیحت والی اِن آیات میں غور کریں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ اسلام ادنی درجے کی دہشت گردی کو بھی برداشت نہیں کرتا…!! آیت:۲۰؍سے سورت کی اخیر تک اللہ تبارک وتعالی نے اپنی بڑی بڑی نعمتوں میں سے کچھ کو شمار کراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی نشانیا ںاور نعمتیں اتنی ہیں کہ اگر دنیا کے سارے سمندروں کی روشنائی اور تمام درختوں کے قلم بنا لیے جائیں تو بھی ان کی نعمتوں اور ان کی کمال والی صفتوں کو شمار نہیں کیا جاسکتااسی کے ساتھ کچھ چیزوں کے بارے میں اپنے علم کے خاص ہونے کو بیان فرمایا کہ :اللہ ہی کو معلوم ہے کہ قیامت کا واقعی وقت کیا ہے ۔وہی بارش برساتے ہیں۔ماں کے پیٹ میں کیا ہے اسے بھی وہی جانتے ہیں۔کون انسان کل کیاکمائے گا وہ بھی اللہ ہی کو معلوم ہے۔اور کسی کی موت کہاں ہوگی اس کی بھی خبر صر ف اور صرف اللہ ہی کو ہے۔اور اللہ تعالی بڑے جانکار اور علم والے ہیں۔ سورہ ٔ الم سجدہ میں اللہ تبارک وتعالی نے تین باتوں کا بیان فرمایا ہے :اپنی قدرت وطاقت اور انعامات ۔جنتیوں کی ایک خاصییت یعنی راتوں کو بستر سے الگ رہکر اللہ کی عبادت کرنا۔جہنمیوں کا دردناک عذاب۔
سورہ ٔ احزاب کی شروع کی آیتوں میں پہلے تو نبی ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ آپ کو کافر وں یامنافقوں سے متاثر ہوکر ان کی پیروی کرنے کی ضرور ت نہیںہے اللہ تعالی نے جو دین آپ کو عطا فرمایا ہے وہ آپ کے لئے سب کچھ ہے دین پر قائم رہنے میں پریشانیا ں آئیں گی اللہ تعالی ان میں آپ کے لیئے کافی ہوںگے اس لئے آپ کو اللہ تعالی پے بھروسہ کرنا ہے اس کے بعد آیت :۴،۵؍ میں تین باتیں بتلائی گئی ہیں : ٭ایک تو یہ کہ کسی بھی انسا ن کے پاس چاہے وہ جتنا بھی ذہین ہو ایک ہی دل ہوتاہے نہ کہ دو۔٭دوسری بات یہ بتلائی گئی ہے کہ اپنی بیوی کوصرف زبان سے ماں کہدینے سے وہ ماں کے حکم میں نہیں ہوجاتی بل کہ وہ بیوی ہی رہتی ہے ۔٭کسی کو بیٹے کے طور پے پال لینے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور اس کے احکام بیٹے جیسے نہیں ہوجاتے ۔جب کہ آیت: ۶؍ میں محسن انسانیت ﷺکے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ چوں کہ مسلمانوں کی خیر خواہی خود ان کی ذات سے زیادہ کرتے ہیں اورانہیں خو د ان کی ذات سے زیا دہ فائدہ پہنچاتے ہیں اس لئے مسلمانوں کے لئے نبی ﷺ کی ذات بھی خود ان کی اپنی ذات سے بھی زیا دہ قابل احترام اور عزیز ہونی چاہئے ۔اور آ پ ﷺ کی طرح آپ کی بیویاں بھی مسلمانوں کے لئے ماں کا درجہ رکھتی ہیں اور جس طریقے سے ماں سے نکاح جائز نہیں ہے اسی طر ح کسی مسلمان کے لیے آپ ﷺ کی کسی بھی بیوی سے نکاح جائز نہیں ہے ۔آیت: ۷؍ میں نبی آخر الزماں سمیت تمام انبیا سے لیے گئے خدائی وعدے کا یبان ہے۔
غزوہ ٔ احزاب :آیت: ۸ سے ۲۷؍ تک غزوہ احزاب کا بیان ہے جو اس طرح ہوا کہ جب بنو نضیر کو ان کی مستقل عہد شکنیوں اور پے درپے شرارتوں کی وجہ سے مدینے سے نکالدیا گیا تو وہ سن چار یا پانچ ہجری میں تما عرب کے قبیلوں کو جمع کرکے دس سے بارہ ہزار لوگوں کے ساتھ مدینے پر حملہ کے لئے آگئے آپ ﷺ نے مدینے کے اردگرد خندق کھودواکر تین ہزار کے لشکر کے ساتھ ان لوگو ں کا سامنا کیا دور دور سے تھوڑی بہت لڑائی بھی ہوتی رہی اور ایک ماہ تک ان لوگوں نے مدینے کا گھیر اؤکیا پھر اللہ کا کرنا ایساہوا کہ ایک آندھی کے ذریعے ان کی ہمت توڑدی اور یہ سب بکھر گئے۔اور چوںکہ اس کے اصل سبب یہودی تھے اورانہوں نے معاہدے کو توڑاتھا اس لئے اللہ کے نبی ﷺ نے احزاب سے واپسی کے فورا بعد ان کا گھیراؤ کیا یہ لو گ اپنے قلعوں میں بند ہوگئے جب ۲۰؍۲۵؍ روز کے بعد تھک مارکر اپنے قلعوں سے نکلے تو بعض قید کرلئے گئے اور بعض قتل کئے گئے۔ اللہ تعالی نے ان آیا ت میں ایک طر ف مسلمانوں کی مدد کرکے انہیں اس سب سے بڑے حملے سے بچانے کے لئے اپنی طرف سے ا ختیار کئے گئے طریقوں پر احسان جتلایا ہے تو دوسری طرف منافقوں کی اس جنگ میں شرارت اور ان کی طرف سے کئے گئے چند بے ہودہ سوالات کے جوابات بھی دئے ہیں اور سور ت ختم ہونے سے پہلے یہ بتلایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالی کے حکم سے اپنی بیویو ں کو اپنی زوجیت میں رہنے اور اس سے نکل جانے کا اختیا ر دیا تھا۔ ��