Darul Uloom Deoband ke faisle ko samajhne ki koshish karien

دارالعلوم دیوبند کےفیصلے کو سمجھنے کی کوشش کریں!
ندیم احمد انصاری

دارالعلوم دیوبند جو کہ ایشیا کی سب سے بڑی دینی درس گاہ ہے، جسے تقریباً ڈیڑھ سو سال تک علماے ربانین کی جماعت نے اپنے خونِ جگر سے سینچا اور ایک تناور درخت بنایا ہے، آج تمام عالَم میں اپنے معتدل مزاجی کے باعث مشہور و معروف ہے، یہی وجہ ہے کہ مشہور مفکر و فلسفی شاعر علامہ اقبال نے دیوبندیت کو ہر حق پسند کا مسلک قرار دیا تھا۔ دارالعلوم دیوبند نے ہمیشہ امت میں کی خدمت و رہ نمائی کا فریضہ پوری تن دہی کے ساتھ انجام دیا ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ کچھ تو بات تھی کہ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی نے دورۂ ہند کے دوران دیوبند حاضری پر فرمایا تھا کہ دنیا بھر کے دارالعلوم اور یونیورسٹیاں دیکھی ہیں، جو اپنے زمین اور استاذہ و طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے دارالعلوم دیوبند سے وسیع ہیں، لیکن وہ روحانیت اور وہ للہیت جو یہاں دیکھنے کو ملتی ہے، کہیں نظر نہیں آتی، بہ قول ظفرؔبجنوری ؎دارالعلوم دیوبند جو کہ ایشیا کی سب سے بڑی دینی درس گاہ ہے، جسے تقریباً ڈیڑھ سو سال تک علماے ربانین کی جماعت نے اپنے خونِ جگر سے سینچا اور ایک تناور درخت بنایا ہے، آج تمام عالَم میں اپنے معتدل مزاجی کے باعث مشہور و معروف ہے، یہی وجہ ہے کہ مشہور مفکر و فلسفی شاعر علامہ اقبال نے دیوبندیت کو ہر حق پسند کا مسلک قرار دیا تھا۔ دارالعلوم دیوبند نے ہمیشہ امت میں کی خدمت و رہ نمائی کا فریضہ پوری تن دہی کے ساتھ انجام دیا ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ کچھ تو بات تھی کہ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی نے دورۂ ہند کے دوران دیوبند حاضری پر فرمایا تھا کہ دنیا بھر کے دارالعلوم اور یونیورسٹیاں دیکھی ہیں، جو اپنے زمین اور استاذہ و طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے دارالعلوم دیوبند سے وسیع ہیں، لیکن وہ روحانیت اور وہ للہیت جو یہاں دیکھنے کو ملتی ہے، کہیں نظر نہیں آتی، بہ قول ظفرؔبجنوری ؎خود ساقیِ کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاںتاریخ مرتَّب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں دارالعلوم دیوبند نے امت کو جو کچھ دیا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، شہادت کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس وقت زمین کے تقریباً ہر خطے اور جزیرے پر دارالعلوم کا بہ واسطہ یا بلا واسطہ فیض پہنچ رہا ہے، جو عند اللہ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ پورے ہندستان میں مکاتب، مدارس اور مساجد کی آباد کاری اسی کی مرہونِ منت ہے۔ دارالعلوم نے ہی دنیا کو امامِ مجاہدِ آزادی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی،امام الحدیث علامہ انور شاہ کشمیری،قائدِ اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور داعیِ کبیر مولانا محمد الیاس جیسی نابغۂ روزگار شخصیتیں دی ہیں، جن کے نام و کام کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس بزمِ جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تکہیں عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک اس تمہید کے بعد مختصراً عرض یہ کرنا ہے کہ 10اگست 2017ء کو جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ دارالعلوم دیوبند کے اہتمام میں منعقد اساتذہ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے– دارالعلوم کی چہار دیواری کے اندر جماعتِ تبلیغ کی مکمل سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے–چو طرفہ بحثوں اور تبصروں کا بازار گرم ہو گیا۔سوشل میڈیا مفکرین بھی حرکت میں آگئے اور جی بھر کے دل پھپولے پھوڑے، جب کہ اس خبر کے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی موجود تھی کہ یہ فیصلہ جماعتِ تبلیغ کی مخالفت میں نہیںبلکہ دارالعلوم کو انتشار سے بچانے اور اس کے تحفظ کے لیے لیا گیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی کا دو ٹوک بیان آیا کہ ہمارے اکابرین نے دنیا میں جو انقلابی کام کیے ہیں، ان میں سے ایک انقلابی کام جماعتِ تبلیغ بھی ہے،لیکن اکابرین کا اس میں اختلاف رہا ہے کہ طالبِ علم زمانۂ طالبِ علمی میں دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں مشغول رہے یا نہیں؟ اور خود جمعیۃ علماے ہند کے قومی صدر ہونے کے باوجود انھوں نے کہا کہ ہم بھی اس شخص کی مخالفت کرتے ہیں جو طلبہ کے لیے جمعیت کی ممبر سازی کرتا ہے، ہم نے کبھی طلبہ کے درمیان جمعیت کی ممبر سازی نہیں کی، تاکہ وہ جس مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں اسی میں منہمک رہیں، دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہوکر اپنی استعداد خراب نہ کرلیں، باقی تبلیغی جماعت کے ساتھ دارالعلوم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ نیز انھوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جماعتِ تبلیغ میں پھوٹ پڑ گئی، دونوں فریق کے درمیان مصالحت کی بھی کوشش کی گئی، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا، جماعت دو حصوں میں بٹی اور بٹ کر انتہائی متشدد ہوگئی،اس تشدد اور غلو پسندی کی آنچ دارالعلوم کے اندر بھی پہنچ سکتی ہے،اسی لیے دارالعلوم کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ دارالعلوم کی حفاظت کی خاطر تبلیغی جماعت کی مکمل سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی جائے۔ بات بالکل صاف تھی اور فیصلہ اپنی جگہ موزوں، لیکن بدخواہوں نے رائی کا پربت بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دارالعلوم دیوبند کے فیصلے کی تائید کرنے والوں کو جماعت مخالف اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو دارالعلوم مخالف ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور کی جا رہی ہے، بعض نے تو قیاس مع الفارق اور چھوٹا منہ، بڑی بات کے طور پر یہ تک کہا کہ جمعیۃ بھی تو دو ہو ہیں، دارالعلوم کو اس پر بھی مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے، جب کہ جمعیۃ کے قومی صدر پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ان کی طرف سے دارالعلوم کے طلبہ میں ممبر سازی کے لیے کوئی مہم نہیں چلائی جاتی۔ پھر یہ کہ جب یہ دارالعلوم جیسی عظیم الشان تعلیم گاہ کا نجی معاملہ ہے، جسے خود انھوں نے انتظامی امور پر محمول کیا ہے، تو آخر کیوں اسے جماعت مخالفت پر چسپاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ خدارا دارالعلوم کے اس وقتی فیصلے کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور جو سبب اس فیصلے کا ہوا، اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش و دعا کریں۔ دارالعلوم ہو یا جماعتِ تبلیغ یا جمعیۃ علماے ہند، یہ سب ہمارے اکابرین کے جاری کردہ وہ چشمۂ فیض ہیں جن کی امت کو فی زمانہ پہلے سے زیادہ ضرورت ہے،ہوش کے ناخن لیجیے! یہ وقت آپس میں دست و گریباں ہونے کا نہیں بلکہ ایک ہونے کا ہے، خیال رہے باطل گھات لگائے بیٹھا ہے۔ خدارا فقرے کسنے کے بجائے دارالعلوم دیوبند کے اس اہم فیصلے کو سمجھنے کی کوشش کریں!نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والوتمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here