Sharayi halala par etiraaz ki gunjaish nahi

شرعی حلالہ پر اعتراض کی گنجائش نہیں!
ندیم احمد انصاری

آج تک اور ٹی وی ٹوڈے نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا ہے،جس میں بعض نام نہاد مولوی نما افراد کو پیسے لے کر حلالہ کی بکنگ کرتے ہوے دکھایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے نازک وقت میں اسلام کو بدنام کرنے والوں کی کوئی بھی بد بختی گمراہ کن ہے، اس لیے ان عناصر کو پنپنے دینا معاشرے کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوگا۔ باشعور مسلمانوں کو چاہیے کہ اس طرح کی ذلیل حرکت کرنے والوں کے خلاف اقدام کریں اور قانون کے دایرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن کوشش اس کے ازالے کی کی جائے۔ اول تو اسٹنگ آپریشنوں کی پوری جانچ پڑتال ہو کہ آیا اس گھناؤنی حرکت کو آگ میں گھی کے طور پر تو استعمال نہیں کیا جا رہا، اس لیے کہ جن کے یہاں نیوگ جیسی پرتھا موجود ہے وہ بھی اس معاملے میں لب کشائی کرنے پر آمادہ ہیں، اور اگر واقعی اس طرح کوئی حلالہ سینٹر کھول کر بیٹھ گیا ہے تو ضرور اس کی بخیہ اکھیڑنی چاہیے۔ ویسے بھی پچھلے کچھ وقت سے خاص طور پر اسلامی نظام کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت بہت کچھ کیا جا رہااور سیدھے سادے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کے نورانی چہرے کو مسخ کرنے قبیح کوششیں کی جا رہی ہیں، ایسے میں عین ممکن ہے کہ ان آپریشنوں میں کچھ کا کچھ دکھایا گیا ہو، لیکن اگر اس میں ذرا بھی سچائی ہے تو اس کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ عام طور سے طلاقِ ثلاثہ کے ساتھ حلالہ کی من مانی تشریح کرکے اسے بد نام کرنے کی کوشش کرنا بد خواہوں کا پرا شیوہ ہے،جس میں انھیں کام یابی اس لیے ملتی ہے کہ خود مسلمان اپنے مکمل نظام سے کم واقف ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ موقع کی مناسبت سے اس پر بھی مختصراً روشنی ڈال دی جائے۔ آج تک اور ٹی وی ٹوڈے نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا ہے،جس میں بعض نام نہاد مولوی نما افراد کو پیسے لے کر حلالہ کی بکنگ کرتے ہوے دکھایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے نازک وقت میں اسلام کو بدنام کرنے والوں کی کوئی بھی بد بختی گمراہ کن ہے، اس لیے ان عناصر کو پنپنے دینا معاشرے کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوگا۔ باشعور مسلمانوں کو چاہیے کہ اس طرح کی ذلیل حرکت کرنے والوں کے خلاف اقدام کریں اور قانون کے دایرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن کوشش اس کے ازالے کی کی جائے۔ اول تو اسٹنگ آپریشنوں کی پوری جانچ پڑتال ہو کہ آیا اس گھناؤنی حرکت کو آگ میں گھی کے طور پر تو استعمال نہیں کیا جا رہا، اس لیے کہ جن کے یہاں نیوگ جیسی پرتھا موجود ہے وہ بھی اس معاملے میں لب کشائی کرنے پر آمادہ ہیں، اور اگر واقعی اس طرح کوئی حلالہ سینٹر کھول کر بیٹھ گیا ہے تو ضرور اس کی بخیہ اکھیڑنی چاہیے۔ ویسے بھی پچھلے کچھ وقت سے خاص طور پر اسلامی نظام کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت بہت کچھ کیا جا رہااور سیدھے سادے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کے نورانی چہرے کو مسخ کرنے قبیح کوششیں کی جا رہی ہیں، ایسے میں عین ممکن ہے کہ ان آپریشنوں میں کچھ کا کچھ دکھایا گیا ہو، لیکن اگر اس میں ذرا بھی سچائی ہے تو اس کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ عام طور سے طلاقِ ثلاثہ کے ساتھ حلالہ کی من مانی تشریح کرکے اسے بد نام کرنے کی کوشش کرنا بد خواہوں کا پرا شیوہ ہے،جس میں انھیں کام یابی اس لیے ملتی ہے کہ خود مسلمان اپنے مکمل نظام سے کم واقف ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ موقع کی مناسبت سے اس پر بھی مختصراً روشنی ڈال دی جائے۔ واضح رہے کہ میاں بیوی دونوں میں مکمل علیحدگی ہونے کے بعد عورت عدت گزارے یعنی اگر حیض آتا ہے تو تین حیض اور اگر حیض نہیں آتا تو تین مہینے اور اگر حاملہ ہے تو بچّے کی ولادت تک، اس کے بعد اس عورت کا کسی دوسرے مرد سے بلا کسی پیشگی شرط کے، گواہوں کی موجودگی میں، مہرِ شرعی کے ساتھ نکاحِ صحیح ہو، اور وہ دونوں باقاعدہ میاں بیوی کے طرح رہیں، شوہر اپنی اس بیوی سے صحبت (وطی) بھی کرے۔ اس کے بعد اس شوہر کا انتقال ہو جائےیا وہ اپنی مرضی سے اپنی بیوی کو طلاق دے دے، اس طلاق کے بعد عورت اس کی عدت بھی پوری گزارے،تب جا کر پہلے والے شوہر کا نکاح اس عورت سے ہوسکتا ہے، اس کو شرعی حلالہ کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس میں دوسرے مرد کے ساتھ پہلے سے کوئی شرط کرنا کہ تونکاح کے بعد وطی کرکے طلاق دے کر علیحدہ کردے،سخت گناہ ہے، ایسی شرط کرنے والے اور اسے منظور کرنے والے دونوں لوگوں پرحدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔حتی کہ علما نے لکھا ہے کہ ایسے نکاح کی حرمت اور موردِ لعنت ہونے کےلیے شرطِ تحلیل کی تصریح ضروری نہیں،بلکہ ایک دوسرے کی نیت کا علم بھی بہ قاعدۂ ’المعروف کالمشروط‘ اسی میں داخل ہے۔(احسن الفتاویٰ:5/155)یعنی پیشگی طے شدہ پروگرام کے تحت حلالے کی غرض سے نکاح کرنا شرعاً جائز نہیں،ہاں بغیر حلالے کی غرض کے دوسرا شوہر اتفاقاً طلاق دے دے تو عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوسکتی ہے۔فقیہِ تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ بعضے لوگ بیوی کو تین طلاقیں دے کر پھر اس کو نکاح میں داخل سمجھتے ہیں، یابلا حلالہ اس سے تجدید ِنکاح کرلیتے ہیں، بعض کو بعض روایات سے شبہ ہوگیا ہے، لیکن یہ مسئلہ اپنے مقام پر حل ہوچکا ہے کہ تین طلاق خواہ مجتمعا (ایک ساتھ اکٹھی) دے، خواہ متفرقاً، تینوں واقع ہوجاتی ہیں، گو ایک جلسے میں ایسا کرنا معصیت (گناہ) ہے، لیکن طلاقِ مغلّظہ ہوجائے گی اور بدونِ حلالہ، نکاحِ جدید درست نہ ہوگا۔(اصلاحِ انقلابِ امت)عقل میں آنے والی بھی بات ہے کہ جس طرح بندوق کی گولی خواہ جان بوجھ کر داغی گئی ہو، یا غلطی سے لگ گئی ہو، کم از کم زخمی تو کر ہی دیتی ہے۔ حلالہ کی ضرورت اور اس کا ثبوت خود قرآن مجیدمیں موجود ہے، ارشاد فرمایا گیا:فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِن بَّعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ۔پس اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) کے لیے حلال نہ ہوگی۔(البقرۃ:230) شرعی حلالہ میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کا مقصد بے راہ روی کو عام کرنا نہیں، بلکہ عورت کی اجڑی ہوئی زندگی کو سنوارنے کا ایک اور موقع فراہم کرنا ہے، جس میں عقل والوں کے لیے ادنیٰ اعتراض کی گنجائش نہیں، ہاں جن کی عقلوں پر دشمنی یا تعصب کے پردے پڑے ہوئے ہوں یا جو علم کے نور سے بے بہرہ ہوں، ان سے ایسے نازک مسائل میں بحث کرنا لاحاصل ہے[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here