Aaiye hum apne saaf dilon se achche amaal karien aur bure amaal se bachen

 آئیے ہم اپنے صاف دلوں سے اچھے اعمال کریں اور برے اعمال سے بچیں
مولانا شاہد معین قاسمی

آٹھویں پارے کے شروع کی آیتوں(سورہ ٔ انعام کی آیت: ۱۱۱سے ۱۱۷؍ تک)میں اللہ کے نبی ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ جو لو گ نشانیوں کی فرمائش کررہے ہیں وہ اس لئے نہیں تاکہ ان کو یقین ہوجائے بل کہ صرف پریشان کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں ورنہ اگر ہم فرشتوں کو بھی ان کے پاس بھیجدیں اور مردے بھی زندہ ہو کر ان سے بات کرلیں بل کہ جتنی بھی چھپی ہو ئی چیز یں ہیں سب کو ان کے سامنے لاکر رکھدیں پھر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں مگر یہ کہ اللہ تعالی ہی تو فیق دید یں۔آپ کو گھبر انے کی ضرور ت اس لئے بھی نہیں ہے کہ اس سے پہلے کے تمام نبیوں سے دشمنی کرنے والے لو گ بھی رہے ہیں جو ایک دوسرے سے بڑی چکنی چپڑی با تیں کرتے تھے ۔جب ان کا مقصد ایمان لانا ہے ہی نہیں تو معجزہ دکھا نا بے فائدہ ہے ۔اگر زبردستی ایمان قبول کروانا ہوتاتو سب سے زیادہ طا قتور اللہ تعالی ہی ہیںاللہ تعالی اپنی طاقت سے دنیا جہان کے تمام کے تمام انسان کو ہی مسلمان بنادیتے۔ آپ ان سے یہ کہدیجیے کہ تم جو مجھ سے دلیل اور فیصلہ کرنے والے کا مطالبہ کررہے ہو تواللہ تبار ک وتعالی نے تو پہلے ہی میر ے حق ہونے کا فیصلہ فرمادیاہے پھر کیا کوئی فیصلہ کرنے والا اللہ تعالی سے بھی بڑا ہوسکتاہے ؟اگرآ پ ان میں سے زیادہ لوگوں کی سننااور ماننا شرو ع کردیںگے تو یہ آپ ہی کو صحیح راستے سے ہٹادیں گے ۔قرآن کریم کی اس آیت سے صاف پتہ چلتاہے کہ کسی کی اصلاح کرنے اور اسے دین پہ لانے کی حرص میں (اسے اپنے سے مانو س کرنے کے لئے ہی سہی) اس کے برے کامو ں اور بری عادتوں میں اس کا ساتھ نہیں دیاجائے گا ورنہ اس کی تو بہرحال اصلاح نہیں ہوگی البتہ یہ اصلاح کرنے والا خو دہی گمر اہ ہوجائے گا۔ اس کے بعدآیت:۱۱۸سے ۱۲۱ ؍تک جن جانوروں کو اللہ تبارک وتعالی نے حلال قرار دیا ہے انہیں کسی انسان یا قوم کے حرام سمجھنے کی وجہ سے نہ کھانے سے مسلمانوں کو منع کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے حرام جانوروں کی فہرست تمہیں بتلادی ہے اب باقی جتنے بھی جانور ہیں انہیں بلا کسی شک وشبہ کے کھانا ہے اور اکثر لوگ اپنی خواہش کو بڑھاوا دینے کے لئے دوسرے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔آیت: ۱۲۲؍ میں یہ کہا گیا ہے کہ اسلام سے پہلے ایک انسان مردہ ہوتا ہے اسلا م قبول کرنے کی وجہ سے اس میں زندگی پید ا ہوتی ہے ۔ لہذاجو اسلام قبول نہیں کرتے وہ مردہ کے مردہ ہی رہ جاتے ہیں۔
آیت :۱۲۳ ؍سے۱۲۵؍تک اللہ کے نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ ہر زمانے میں مالدار قسم کے لو گ ہی حق کا انکا ر کرتے رہے ہیںجس سے خود انہی کا نقصان ہو اہے نہ کہ حق کا ۔ابو جہل نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ محمد(ﷺ ) کے خاندان سے ہم نے ہر میدان میں مقابلہ کیا ہے اور کبھی ان سے پیچھے نہیں رہے لیکن اب ان کے خاندان کے لوگ کہررہے ہیں کہ ان میں ایک نبی آگیا ہے اس لیے ہم ان کامقابلہ نہیں کرسکتے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک خود ہمارے پاس ایسی وحی نہ آنے لگے جیسی محمد کے پاس آتی ہے اسو قت تک ہم محمد کا اتباع نہیں کرسکتے ۔اللہ تبارک وتعالی نے ان آیتو ں میں یہ جواب دیا کہ نبوت اور وحی میری طرف سے انعام ہے اسے کوئی کسی سے چھین سکتا ہے اور نہ ہی اپنی زبردستی کی محنت سے حاصل کرسکتا ہے بل کہ اللہ تعالی ہی جسے مناسب سمجھتے ہیں اسے عطا کردیتے ہیں اور جو لوگ حسد میں کسی نبی کو نہیں مانیں گے اور ان کے لائے ہوئے دین پہ عمل نہیں کریں گے انہیں اللہ کی طرف سے مار پڑے گی وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہی ذلیل ورسو ا ہوںگے جسے اللہ تعالی ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کے سینے کو اسلام کی سمجھ کے لئے کھول دیتے ہیں اور جسے ہدایت دینا نہیں چاہتے اس کے لئے اسلام کو اتنا مشکل کردیتے ہیں جتنامشکل کسی انسان کے لئے آسمان پہ جاناہے۔
حضرت عبدللہ ابن مسعود ؓفرماتے ہیںکہ جب یہ آیت نازل ہوئی توصحابہ ٔ کرام ؓ نے آپ ﷺ سے شرح صدر یعنی اسلام کے لیے سینہ کھول دیئے جانے کی تفسیر پوچھی آپ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالی مؤمن کے دل میں ایک روشنی ڈالدیتے ہیں جسے اس کا دل حق بات کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے کھل جاتاہے وہ حق کو قبول کرنے لگتااور جو حق نہ ہو اس سے نفرت کرنے لگتاہے اس پے صحابہ ٔ کرام ؓ نے یہ پوچھاکہ کیا کوئی نشانی ہوتی ہے جس سے اس شخص کو جاناجاسکے جسے اللہ تعالی یہ صلاحیت دیدیتے ہیں؟ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ہاں! نشانی یہ ہے کہ اس کی ساری خواہشیں آخرت اور اس کی نعمتوں کے لیے ہوتی ہیںوہ دنیا کی بے جاخواہشوں اور لذتوں سے گھبرانے لگتاہے اور موت کے آنے سے پہلے ہی اس کی تیاری کرنے لگتاہے( مستدرک ،بیہقی فی شعب الایمان ، عبدالرزاق اور ابن جریر بحوالہ ابن کثیر وغیرہ) اسی طرح امام کلبی ؒنے فرمایا کہ,,اس کے دل کے تنگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں حق اور بھلائی کے لیے کوئی راستہ نہیں ،، یہ مضمون حضرت عمرفاروقؓ سے بھی نقل کیا جاتاہے جب کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب وہ حق سنتاہے تواس کا دل گھبرانے لگتاہے لیکن جب وہ کفر وشرک کی باتیں سنتا ہے تواس کا دل لگنا شروع ہوجاتاہے ۔
سچ ہے کہ اس آیت کے ترجمے اور تفسیر کو جان کر بڑی خوشی ہورہی ہے کہ اللہ تعالی نے محض اپنے فضل وکرم سے اپنی اس پاک آیت کے ذریعے ایک بہت بڑی گمراہی کا دروازہ بندکردینا چاہا جس میں آج بھی ہمارے کچھ بھائی غیر شعوری طور پے مبتلا نظر آتے ہیںجو یقینا مسلمان ہوتے ہیں اور اگرچے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی نیت پے حملے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور میں ذاتی طور پے بھی اسے صحیح نہیں مانتا( جب تک کہ خارج میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو) لیکن ڈر ضرور لگتاہے کہ ایسے کچھ بھائی کہیں عملی گمر اہی کے تو شکار نہیں ہوگئے ؟!اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ عملی گمراہی کہیں خدا نہ خواستہ انہیں عقیدے کی گمراہی میں تو مبتلا نہیں کردے گی ؟! یہ کچھ بھائی وہ ہیں جو اسلام کے احکام اور شعائر کی غیر شعوری طور پے ہی سہی بے حرمتی کر جا تے ہیں فرائض جیسے ان کے نزدیک اسلام کا حصہ ہی نہوںسنن ومستحبات تو شائد تھی ہیں خاص نبی ﷺ صحابہ ٔ کرام اور الیا ء اللہ کے ساتھ جب ان سے یہ کہاجاتا ہے کہ نماز پڑھیں رمضان کے روزے رکھیں غیر محرم کے ساتھ میل جول نہ رکھیں ، غیر اللہ کی عبادت میں کسی بھی طرح کی شرکت نہ کریں ،شعائر کفر کی کسی بھی طرح تعظیم نہ کریں ، اپنی ز بان کے استعمال میں احتیاط برتیں ،لوگوں سے سخت کلامی کی بجائے ان سے عام حالتوں میں مسکرا کر ملیں،تو وہ فورا یہ جوا ب دیتے ہیں,, ہمارے دل میں کچھ نہیں ہوتا ہمارے دل صاف ہیں چاہے ہم جتنا بھی سخت بولیںاور آدمی کا بس دل ہی تو صاف ہونا چاہیے دین کا تعلق تو اصل دل سے ہی ہے اگر ہم دل سے اسلام کو چاہتے ہیںتو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ہم کفر کی مجلسوں میں شریک ضرور ہوتے ہیں لیکن ہمارا دین اسلام ہی ہے ہم تو اسی کو برحق مانتے ہیں اوریہ ہم جانتے ہیں اور ہمار ا اللہ جانتاہے اور ماشاء اللہ ہمار ے دل میں جو اسلام ہے وہ اتنا کمزور نہیں ہے کہ کفر کی مجلسوں میں صرف شرکت یا پو جاپاٹ کی چیزوں کو اپنے گھروں میں رکھنے سے وہ خطرے میں پڑجائے گایا ختم ہوجائے گا ساتھ ہی یہ بھی کہدیتے ہیں کہ جناب! بہت سے لوگ نماز پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں حج کرتے ہیں انسانوں سے خندہ پیشانی سے مل تے ہیں اور لو گوں کی مدد بھی کرتے ہیںلیکن بات یہ ہے کہ ان کے دل اتنے صاف نہیں ہوتے،،۔مجھے ذاتی طور پے بھی ایسے دوستوں سے گفتگو کا سابقہ ہواہے جو اس طرح کا نظر یہ رکھتے ہیں اور انتہائی سادگی،بے باکی و بے تکلفی کے مالک اور بہت ہی بھولے بھالے معلوم ہوتے ہیں میں ان کے بھولے پن اوربے باکی کو ہزار بار سلام بھی کرتاہوں اور جہاں تک دل کی صفائی کوا ولین ترجیح دینے کی بات ہے تومیں اس سوچ کا بھی تہ دل سے بار بار خیرمقدم کرتاہوں تاہم بڑے ٹھنڈے اور صاف دل سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نیت کی درستگی اور دل کی صفائی کو اولین ترجیح تو ضرور دی جائیگی اسے اول تو سمجھا جائے گا کہ یہی بخاری شریف کی پہلی حدیث بھی ہے لیکن اسے ,اول وآخر، دونوںسمجھ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے وہ اعمال کے ثواب کے لیے یقینا لازمی شرط ہے لیکن خودا عمال نہیں ۔ الحمدللہ !اللہ کے فضل سے جب ہم نے پہلے ( یعنی دل کی صفائی اور نیت کی درستگی کے ) زینے پے قدم رکھدیا ہے توہمیں دوسرے( یعنی اچھے اعمال سے عملی محبت اور برے اعمال سے ایسی ہی نفرت کے) زینوں پے بھی رواں دواںاور ٹھوس قدم رکھ کر منزل تک پہنچنے میں اب ذرا بھی دیرنہیں کرنی چاہیے !میں اس سچائی کا برملا اظہار کردینا چاہتاہوں کے جب ہمارے دل صاف ہیں تو ہمارے اعمال ان لوگوں کے اعمال سے بدرجہا بہتر اور اللہ کے نزدیک بے حد زیادہ مقبول ہوںگے جن کی نیت درست نہیں ہوتی اور ان کے دل ناصاف ہوتے ہیںتو پھر ہم بھلا ان سے عمل میں کیوں پیچھے رہیں؟ اگر کسی عمارت کی بنیادیں اور ستون خوب مضبوط بنائے گئے لیکن ان کے ساتھ خود عمارت کبھی بنائی ہی نہیں گئی نہ دیواریں قائم کی گئیں اور نہ چھت بنائی گئی اور عمارت کے لیے دوسری مفید چیزوں کا اہتما م کیا گیا تو کیا ان بنیادوں اور ستونوںکا فائدہ ناقص نہیں رہ جائے گا؟ بل کہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود ایسی بنیادیں بھی خراب ہونے لگتی ہیں چناں چہ ہم نے بارہا یہ مشاہد ہ کیا ہو گا کہ بعض عمارتوں کی مضبوط جڑیں بنائی گئیں ، اس کے لیے طاقتور ستون کھڑے کیے گئے اور پھر کسی وجہ سے ایک لمبے عرصے تک اس پے عمار ت نہیں بنائی گئی تو رفتہ رفتہ ان بنیادوں اور ستونوں کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا سمنٹ اور ریت میں خراش آئی ،وہ سب جھڑ نے لگے ،اینٹیں اکھڑنا شروع ہوئیں اور ستونوں سے چھڑیں مڑنے لگیں۔ آیئے ہم اپنے صاف دلوں سے اچھے اعمال کریں اور برے اعمال سے بچیں اپنی درست نیت اور صاف دل کی مضبوط جڑوں اور طاقتورستونوں پے اعمال کی دلکش اور پرشکوہ عمار ت کھڑی کریں کہ ہمارے رب کا ہم سے یہی مطالبہ ، پیارے نبی کی یہی تعلیم اور سچے کلام پاک کا یہی سچا پیغام ہے۔
اس آیت اور اس کے شان نزول سے دوسری بات یہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اگر کوئی انسان کسی دوسرے کی خوبی سے اس لئے فائدہ نہیں اٹھا تا کہ وہ خوبی خود اس میں یا اس کے خاندان یا رشتہ داروں میں سے کسی میں نہیں پائی جاتی تو یہ اللہ تعالی کی نظر میں بہت ہی بڑا جرم ہے چاہے وہ خوبی نبوت کی ہو، دین کے علم کی ہو ،لوگوںکودینی رہنمائی کی ہو یا کوئی دنیوی خوبی…ایسا کرنے والا نہ تو اس خوبی کو اپنے اند رپید اکر سکے گا اور نہ ہی کسی سے چھین سکے گا ۔ہا ں! اس کی برکات سے ضرورمحروم رہے گا ۔
آیت: ۱۲۶سے ۱۳۵؍تک یہ فرمایاگیا ہے کہ آپ کے رب کا اتارا ہو اراستہ ہی صحیح اور سیدھا راستہ ہے پھر یہ فرمایاگیا ہے کہ محشر کے میدان میںانسان وجنات کے شیطانوں سے سوال وجواب کے بعد جہنم کو ان کا ٹھکانہ بنادیا جائے گا۔ اور یہ بتلا یاگیا ہے کہ جس طرح دنیا میں گمراہی کے لحاظ سے ان کا آپس میں تعلق تھا ویسے ہی آخرت میں بھی ان کو قریب قریب رکھا جائے گا ۔ ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالی کا پوری دنیا کے لوگوں اور ان کی عبادت سے بے نیاز ہونا اور بہت رحمت والا ہو نا بیا ن کیا گیا ہے اور یہ کہاگیا ہے کہ اگر اللہ تعالی چاہیں تو تمہیں ختم کردیں اور دوسری قوم کو پید اکردیں جیسا کہ تم کو دوسروں کے بعد پید اکیا اور پھر قیامت کے دن کا یقینی ہونا بتلایا گیاہے ۔آیت:۱۳۶؍ میں اللہ تبارک وتعالی نے مکہ کے مشرکین کی ایک خاص عجیب بری عادت کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ لوگ کھیتوں سے غلہ لانے کے بعد ایک حصہ اپنے لئے ،دوسرا بتوں کے لئے اور تیسرا اللہ تبارک وتعالی کے لئے مقرر کرتے تھے بتوں والا حصہ بت خانے والوں کو اور اللہ تعالی کا حصہ غریبوں کودیتے لیکن اگر کبھی غلہ کم نکلتا تو اللہ تعالی کا حصہ ختم کردیتے اور کہدیتے کہ اللہ تعالی ہماری چیزوںکے محتاج نہیں ہیں اسی طرح اگر کبھی دھوکے سے بتوں یاا ن کے حصے میں سے کوئی چیز اللہ تعالی کے حصے میں مل جاتی تو اسے نکال لیتے لیکن اگر اللہ تعالی کے حصے میں سے ان کے یا بتوں کے حصے میں چلی جاتی تو کہد یتے کہ اللہ کے پا س کیا کمی ہے اور اسے نہ نکا لتے ۔پھر آیت :۱۴۰ ؍تک ان کے اپنے بچوں کو قتل کرنے ، خود سے اپنے اوپر چیزوں کو حرام کرنے، کسی جانور کو عورتوں کے لئے حرام کردینے اور مردوں کے لئے جائز رکھنے کی مذمت بیا ن کی گئی ہے جس کا سلسلہ آیت: ۱۵۲؍تک چلا ہے اور اس میں کئی قسم کے پھل پھول اور جانوروںکی پیدائش کا ذکر کر کے اخیر میں حرام چیزوں کی ایک لسٹ دیدی گئی ہے کہ بس یہی چیزیں اللہ تبارک وتعالی نے حرام کی ہیں باقی چیزوں کو حرام کرنا خد ائی میں شریک ہونے کے برابر ہے۔اللہ تبارک وتعالی نے جس سختی سے حلال چیزوں کو حرام کرنے سے منع فرمایا ہے اس سے قرآن اور اسلام کے مزاج کا صاف اند ازہ ہو جا تا ہے کہ اسلام انسانوں کو دنیا یا آخرت کی نعمتوں سے محروم کر نے والا مذہب نہیں ہے بل کہ ان لوگو ں کو اپنے او پر ظلم کرنے والا اور ناسمجھ قرار دیتاہے جو اللہ کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور حلال چیزوں کو اپنے حق میں حرام مان لیتے ہیں یعنی اسلام ایسے لوگوںسے اپنی براء ت کا اظہار کرتاہے چاہے ایسا کرنے والا کوئی بھی ہو خود نبی ﷺ کو بھی اس سے منع کیا گیاہے (جس کی تفصیل انشاء اللہ ۲۸؍ویں پارے کی تفسیر میں سورہ ٔ تحریم کے اندر آئے گی) ۔
اس کے بعد آیت :۱۵۷ ؍ تک میں ان لوگوں سے یہ فرمایا جاراہاہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے پہلے بھی کتابیں اتاری تھیں اور ان کے احکام کے بارے میں تمہیں علم بھی ہے اور قرآن بھی اتاردیا ہے تاکہ قیامت کے روز تم یہ نہ کہہ سکو کہ پہلی والی کتاب توہم تک پہنچی نہیں اور بعد میں کوئی دوسری کتاب آئی نہیں تو پھرہم کیسے اسلام قبول کرتے ۔ا س کے بعد سورہ ٔ انعام کے ختم ہونے تک ایک تو دین کو باٹنے اور اس میں اختلاف پید اکرنے کی مذمت بیا ن کی گئی ہے اور آپ علیہ السلام کی زبانی یہ اعلان کر وا دیاگیا ہے کہ دین تو بس وہی ہے جسے اللہ تبارک وتعالی نے مجھے دیا ہے اور میری زندگی کا ہر لمحہ اور ہر کام بس اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی ہوگا۔اور جو ایسا نہیں کرے گاا س کا ذمہ دار وہ خو دہی ہو گا نہ کہ کوئی دوسر ا۔ پھر یہ کہاگیا کہ تمہیں پہلے لوگو ں کی جگہ لایا جانا اور تمکو الگ الگ حیثیت کا بنانا اللہ تبارک وتعالی کی قدرت کی نشانی ہے۔
سورۂ اعراف میںشروع سورت سے لیکر آیت :۲۷؍تک قرآن پاک کو ماننے کا حکم دیاگیا ہے ،قیامت کے روز اچھے بر ے اعمال کے تولے جانے کاتذ کرہ اور انسا نو ںکے زمین میں بسائے جانے اور ان کے لئے رزق کے ذرائع پیدا کیے جانے کے بیان کے ساتھ ہی حضرت آدم ؑ کی پیدائش ،فر شتوں سے ان کاسجدہ کر وا نے کے بعدانہیں جنت میں بسانے اور شیطان کے دھوکے میں آکر اجتہادی غلطی سے اللہ کے حکم کے خلاف کرجانے سے جنتی لباس کا ان سے الگ ہو جانے اور ان کے جنت سے دنیا میں بھجدیئے جانے کا پورا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ،جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے حکم کے خلاف کسی بھی بڑے سے بڑے خیر خوا ہ کی بات ماننا ،ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں یقینا یہ اللہ کا بڑ احسان ہے کہ انہوں نے یہ حقیقت انسانی تاریخ کے شروع میں ہی ہمیں سمجھادی لیکن ہم ہیں کہ سمجھ کر بھی ناسمجھی میں مبتلا ہیں اور ایک خاص اور بہت ہی اہم بات جو اس واقعے سے بالکل دودوچار کی طرح واضح ہوجاتی ہے وہ یہ کہ آج کل انسانوں کے اندر کم اور تنگ لباس پہننے کا جو رواج چل پڑا ہے وہ ترقی یا ترقی کی پہچان نہیں ہوسکتی بل وہ گمراہی کی سزا اورانسانی شرافت کو نہ پہچاننے کا شرمناک ،ناقابلِ تلافی اور اللہ کے نظام کو بدلنے کا ناقابلِ معافی عذاب ہی ہوگا !!!یہ قصہ تفصیل کے ساتھ ۱۶؍ویں پارے میں بھی آئے گا ۔پھر آیت :۳۴؍ تک خاص طورسے لباس کی اہمیت اور اس کے دو بنیادی مقاصد( خوبصورتی اور پردہ) بیان کئے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ لبا س کا نہ ہونا ،کم ،تنگ اور چھوٹا ہونا یہ ترقی نہیں بل کہ اللہ کا عذاب ہے ۔اسی طرح ان لوگوں کا سختی سے جو اب دیا گیا ہے جو لبا س یا اللہ کی دوسری نعمت سے فائدہ اٹھا نے کو دنیاداری بتلاتے یا سمجھتے ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے تو صرف بے شرمی و بے حیا ئی کی چیزوں کو ہی حرام قر اردیاہے نہ کہ زینت کی چیزوں کو بل کہ زینت کی چیزوں کو تو انہوں نے اسی لیے پید اکیا ہے تاکہ اللہ کے بندے ان سے اپنے بدن اور اپنی چیزوںکو خوبصورت بنائیں اور اپنے خالق کا شکر ادا کریں ۔
جہنمیوں اور جنتیوں کا مکالمہ:
آیت: ۴۳؍ تک نہ ماننے والوں کا جہنمی ہونا بتلایا گیا اور کہا گیا ہے کہ جہنمی جہنم میں ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور یہاں تک کہ اس میں بعد میں ڈالے جانے والے لوگ اللہ تعالی سے ،اِن پہلے ڈالے جا نے والے ان لوگوں کے بارے میں جو کفر کے کاموں میں دوسرے لوگوں کے راہنما یا سردار بنتے تھے یہ کہیں گے کہ اِن لوگوں نے ہی ہمیں گمراہ کیا تھا اس لیے ان لوگوں کا عذاب بڑھادیا جائے لیکن جواب ملے گا کہ ہر ایک کا عذا ب( سختی کے لحاظ سے )دوگنا ہی ہے اور کفر کے کاموں پے لوگوں کو ابھار نے والے
اِن کی راہنمائی کرنے والے ان بعد میں آنے والوں سے کہیں گے کہ تمہیں ہمارے مقابلے میں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اور جنتی لوگوں کے بارے میں یہ اعلان ہو جائے گا کہ تم ہمیشہ کے لئے جنت کے مالک بنا دیئے گئے ۔پھر جنتی لوگ جہنمیوں سے کہیںگے کہ ہمارے رب نے جنت دیکر اپنا وعدہ پورا کردیا اور جنت وجہنم کے پیچ ایک دیوار ہوگی جس کی وجہ سے جنت و دوزخ میں سے کسی کا بھی اثر دوسرے تک نہیں پہنچے گا ۔اس دیوار یا اس کے اوپر کے حصے کانام اعراف ہے جس پے وہ لوگ ہوں گے جن کے اچھے اور برے دونوں طر ح کے اعمال برابر ہوں گے یہ لو گ اس جگہ سے جنتیوں کو بھی دیکھیں گے اور جہنمیوں کو بھی جنتیوں کودیکھ کر انہیں سلام کریں گے اور اللہ سے دعا کریںگے کہ ائے اللہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرما اورجہنمیوں کو دیکھ کر جہنم سے پناہ مانگیں گے اوران سے کہیں گے کہ کیا تمہاری جماعت اور تمہاری بڑائی نے تمکو نہیں بچایا ؟ اسی طرح جہنمی لوگ جنت والوں سے کہیں گے کہ خدا کے واسطے تھوڑا پانی ہی ہمارے اوپر ڈالد و یا اللہ تعالی نے جو تمکو دے رکھا ہے اس میں سے دیدو جنتیوں کاجواب یہ ہوگا کہ اللہ کی طرف سے دینے کی اجازت نہیں ہے۔پھر پارے کے اخیرتک اللہ تعالی کی قدرتوں خاص طور سے چھ دنوں میں آسمان وزمین کے پیدا کئے جانے اور حضرت نوح، عاد، صالح اور شعیب علیہم السلام کی مختصر
تاریخ کا بیان ہے جس میں دعوت کے میدان میں انبیا ؑکی بے مثال ثبات قدمی ،قابل رشک دانشمندی اور بے پناہ خود اعتمادی کا تذ کرہ ہے جس کا مطالبہ ہرداعی و مصلح شخص اور قوم کے لیے بے حد مفید ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here