Aligarh Muslim University Aqleeti kirdaar ma’mla, Nadeem Ahmed Ansari

image

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار معاملہ

ندیم احمد انصاری(ممبئی)

وطنِ عزیز ہندوستان، جس کی اصل رنگا رنگی کثرت میں وحدت ہے، جس کے آئین میں مختلف مذاہب کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں، جس کے نشو و نما میں مختلف مذاہب کی اعلیٰ شخصیات کا خون پڑا ہے، آج اس ملک میں معدودے چند افراد نے ایسے رنگ بکھیرے ہیں جس سے آنکھیں خیرہ نہیں اندھی ہو جاتی ہیں، وہ ہے آپسی دشمنی اور فرقہ واریت کا سیاہ و زہریلا رنگ۔ گذشتہ چند مہینوں میں ملک کے حالات الگ ہی ڈگر پر چل رہے ہیں، جس کے باعث ہر درد مند دل رکھنے والے ہندو و مسلم کو فکر دامن گیر ہے، اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی وطن پرست اپنے آشیاں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہر شہری ملک میں امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کا آرزومند ہے لیکن کیا کیجیے مختلف النوع مسائل  کھڑے کر اور گڑے مُردے اُکھاڑ کر بعض لوگوں نے ملک کی فضا کو آلودہ کر رکھا ہے۔ من جملہ ان مسائل کے ایک نیا ایشو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار معاملہ ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق مرکزی حکومت کے موقف نے یونیورسٹی سے وابستہ دانشوروں کے علاوہ مسلم طبقےکو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔ مرکزی حکومت کے ذریعے اپنے نظریے اور ارادے کے اظہار پر ایک طرف سیاسی ، سماجی اور تعلیمی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی ہے، دوسری طرف علیگ برادری نے بھی سخت ردِّعمل کا اظہار کیا ہے ۔مودی حکومت کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز، مسلم اور غیر مسلم لیڈروں نے بھی قانونی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب نریندر مودی کا سامنا مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے سے ہوگا ، جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری اور ممتاز قانون داں بختیار یوسف نےالٰہ آباد میں کہا کہ یونیورسٹی کے اقلیتی کر دار کے تحفظ کے لیے ایسو سی ایشن تمام قانونی پہلوؤں پر غور کر رہی ہے ۔انھوں نے کہا کہ جس طرح اے ایم یو کے اقلیتی کر دار کی قانونی لڑائی الٰہ آباد ہائی کورٹ میں لڑی گئی تھی ، اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی یہ قانونی لڑائی لڑی جاےگی ۔معاملہ در اصل یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے بروز پیر،11 جنوری کو سپریم کورٹ میں یہ کہا تھا کہ اس کے نزدیک مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور یہ کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابق یو پی اے حکومت نے جو اپیل دایَرکی تھی اس کو واپس لے گی جس میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ مسلم یونیورسٹی ایکٹ 1981 ءکے بہ موجب اقلیتی ادارہ ہے۔ریاستی بی جے پی بھی مرکزی حکومت کے موقف کی تائید کرتی نظر آرہی ہے۔وجے بہادر پاٹھک نے لکھنؤ میں بیان دیتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی ملک کے وسائل پر سب کا یکساں حق مانتی ہے، اس لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی کردار دینے کے حق میں نہیں ہے، یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ ان سے کوئی حق مانگا نہیں جا رہا ہے بلکہ اپنے حق کو باقی رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اتنا ہی نہیں انھوں نے سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے ملک کے وسائل پر اقلیتوں کے حق سے متعلق بیان پر بھی تنقید کی۔
ان حالات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت دراصل آرایس ایس یا اس جیسی دیگر اقلیت مخالفوں کی طرح نہیں چاہتی کہ آئین کی دفعات 30-29 پر عمل باقی رہے، جس کے باعث اقلیتوں کے تعلیمی و ثقافتی اداروں کو آئین کی رو سے تحفظ حاصل ہے۔ قارئین کی تفہیم و تشفّی کے لیے ہم ’بھارت کے آئین‘ سے متذکرہ دفعات بھی نقل کردیتے ہیں:
’’اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ:29(1)بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقے کو، جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو، اس کو محفوظ رکھنے کا حق ہوگا۔(2)کسی شہری کو ایسے تعلیمی ادارے میں جس کو مملکت چلاتی ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو، داخلے سے محض مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں سے کسی کی بنا پر انکار نہیں کیا جاے گا۔ اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق:30(1)تمام اقلیتوں کو، خواہ وہ مذہب کی بنا پر ہوں یا زبان کی، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔ (2)مملکت تعلیمی اداروں کو امداد عطا کرنے میں کسی تعلیمی ادارےکے خلاف اس بنا پر امیتاز نہ برتے گی کہ وہ کسی اقلیت کے زیرِ انتظام ہے، خواہ وہ اقلیت مذہب کی بنا پر ہو یا زبان کی(بنا پر)۔‘‘(بھارت کا آئین:53یکم جولائی 2013ء تک ترمیم شُدہ)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں اس سے قبل 1981 ءمیں بھی پارلیمنٹ میںجو ایکٹ منظورکیا گیا تھا،جسے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ایک نفری بنچ نے کالعدم قرار دیا تھااور ہائی کورٹ کا فیصلہ نافذ ہونے سے روک کر سپریم کورٹ نےیونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو برقراررکھا تھااورجس کے پیش نظر آج تک یونیورسٹی میں داخلے جاری ہیں۔ویسے بھی اس وقت پدماندگی کے لحاظ سے ملک میں مسلمانوں کی جو حالت ہے، اس کے چلتے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو دیگر یونیوسرسٹیوں سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔رہی یہ بات کہ چوں کہ یونیورسٹی پارلیمنٹ کے منظورشدہ ایکٹ کے تحت چلائی جارہی ہے اور اس کے مصارف بھی حکومت برداشت کر رہی ہے، اس لیے اس کے اقلیتی کردار کو ختم کیا جانا چاہیے، یہ عقل میں نہ آنے والی اور بے تُکی بات ہے، اس لیے کہ یہ حقوق تو خود آئینِ ہند کے فراہم کردہ ہیں، جیسا کہ سطورِ بالا میں مذکور ہوا۔ دوسری بات یہ کہ اس کا خرچ اگر حکومت برداشت کرتی ہے تو اوروں کی طرح اقلیت کے افراد سے بھی ٹیکس وغیرہ لے کر اسے حاصل کر لیتی ہے، حکومت اپنی خزانۂ خاص سے تو یہ صَرفہ برداشت نہیںکرتی ہے!
دانشور وں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنا مودی حکومت کی ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ جب کہ اے ایم یو کورٹ ممبران کا کہنا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اب اپنی لڑائی دو محاذوں پر لڑنی ہوگی؛ ایک عدالتی اور دوسرا سیاسی ۔ دریں اثنا اے ایم یو کورٹ کے ممبر ڈاکٹر معراج الدین نے وائس چانسلر سے کورٹ کی میٹنگ بلانے کی اپیل کی ہے۔اس موقع پر جمعیت علماےہند کا یہ کہنا بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے متعلقہ بیان کے بعد نہ صرف ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس‘ نعرے کی قلعی کھل گئی ہے بلکہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تعلق سے مودی حکومت کی ’نیّت اور نیتی‘ بھی واضح ہو گئی ہے ۔ مولانا ارشد مدنی کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے جو کہ ہمارا بھی مطالبہ ہے کہ ایک سیکولر ملک کی حکومت سے اس طرح کے رویے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ حکومت کے اس رویے سے مسلمانوں میں شدید بے چینی اور اضطرب ہے کیوں کہ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت سب پر عیاں ہے، اس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی، اس کا نظم اور تمام ذمّے داریاں بھی مسلمانوں نے ہی اداکیں، اس کے علاوہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہونے کی تمام شرائط کو بھی پورا کرتی ہے ۔(www.afif.in)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here