اعمال کے دیکھنے میں اس بات کا لحاظ نہیں کیا جائے گا کہ کس کے اعمال کتنے ہیں
مولانا شاہد معین قاسمی
انتیسویں پارے کے سورہ ٔملک میں باری تعالی نے انسان کی زندگی کا مقصد بیان فرماتے ہوئے زندگی کواپنے مقصد سے ہٹانے والوں کے لئے جہنم کے بہت ہی سخت عذاب کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی مختلف انداز سے اپنی عجیب و غریب قدرتو ں کا بھی تذکرہ فرمایا۔ اور ایک خاص بات یہ بیا ن فرمائی کہ زندگی اور موت کا جو نظام ہم نے بنایا ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہو تے ہیں اور کچھ لوگ مرتے ہیں تو یہ صرف اس لئے ہے تا کہ رہنے والے جانے والوں کی موت سے عبرت حاصل کریں اوراپنی آخرت کو یا د کرکے اس کی خوب خوب تیاری کریں اور پیارے اللہ تعالی کی بنائی ہوئی پیاری جنت میں داخل ہوجائیں (ورنہ تو اللہ تعالی جنہوں نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائی ہیں ان کے لئے مثال کے طور پہ سات سوہزار زمینوں کا بنانا ان سات سے کہیں زیادہ آسان تھا اور حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑسے لیکر قیامت تک کے آنے والے تمام انسانوں کو ایک ہی وقت میں بسا کر سب کو ایک ہی وقت رزق فراہم کر نا بے حدآسان تھا وہ سب کو ایک ہی مرتبہ پیدا کرکے اورایک ہی مرتبہ عمل کا موقع دیکر قیامت قائم کرسکتے تھے) اسی طرح دوسری بات یہ ہے کہ اعمال کے دیکھنے میں اس بات کا لحاظ نہیں کیا جائے گا کہ کس کے اعمال کتنے ہیں بلکہ اس کا لحاظ کیا جائے گا کہ کس کے اعمال اللہ کی نظر میں کتنے اچھے ہیں اعمال کی اچھائی سے ان کی قیمت بڑھے گی ان میں موجود اخلاص اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ان کا ثواب بڑھے گا۔(لیکن خوب واضح رہے کہ جو عبادات فرض ، واجب یاسنت مؤکدہ ہیں انہیں اخلاص کے ساتھ ادا کرنے کے لیے ان کی تعدادمیں کمی کر نے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائیگی بل کہ انہیں اللہ تعالی اور رسول ﷺ کی طرف سے متعین کردہ تعدادوں میں ادا کرتے ہوئے ہی ان میں اخلاص پیدا کی جائیگی ان میں زیادہ سے زیادہ ثواب لینے کے لیے ان کی تعداد میں اضافہ کا بھی حق نہیں ہے اگر ایسا کیا گیا تویہ اعمال سِرے سے ہی قبول نہ ہوں گے!) یہ صراحت تو دینی اعمال کے بارے میں ہے ساتھ ہی اس میں اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیوی اعمال میں بھی مسلمانوں کو یہی معیار اپنانا چاہئے کہ جو بھی کام کیا جائے اسے حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی ہو کیوں نہ ہوں یعنی قرآن کریم کی تعلیم یہ ہوگی کہ ایک مسلمان جو بھی کام کرے اس کی مقدار (quantity )کو دیکھ کر نہ کرے بل کہ اس کے حسن(quility) پہ نظر رکھے۔ اسی طرح ایک مسلمان بہت سارے کام نہ کرکے ایک ہی دو کام کرے لیکن اس طرح کہ ان کی افادیت کا عام و خاص کو کھلا احساس ہو مثال کے طور پہ اگر ہم تعلیم کے میدان میں زبانوں کو سیکھنا چاہیں تو ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم کئی ساری زبانیں نہ سیکھ کر ایک ہی دو سیکھیں لیکن ان میں اتنی مہارت پیدا کرلیں کہ جب ہم ان میں بولیں یا لکھیں تو پڑھنے اورسننے والے کے لئے ہماری گفتگواور تحریر(overwhelming and captivating ) مسحور کن ہو اورہمارا یک دو زبانیں جاننا دوسرے لوگوں کی دسیوں زبا نوں پہ بھاری ہو اسی طرح ہم بہت سے مختلف علوم نہ سیکھ کر صرف ایک دوہی علوم میں تخصص پیدا کریں اور ان میں اس قدر حسن پید ا کریں کہ دوسرے وہ لوگ جو دسیوں علوم کے جاننے والے ہوں ہم پہ رشک (envy)کرنے لگیں۔
سورہ ٔ قلم میں سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالی نے دنیا کے سب سے عقلمند اور سب سے ہوشیار انسان پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے بارے میں قسم کھا کر فرمایا کہ وہ مجنوں نہیں ہیں بل کہ اخلاق (characters)اور عقل سلیم(common decency) کے (On the highest standard )) اعلی درجے پہ فائز ہیں ،تکبر کی مذمت بیان کی، غیبت اور چغلخوری سے بڑی سختی سے منع کرتے ہوئے اسے بدترین عمل فرمایا غریبوں اور مسکینوں پہ خرچ سے ڈڑنے کا دردناک نتیجہ بیان فرمانے کے لئے ایک واقعے کا ذکر فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :صنعا شہر میں چند بھائیوں کا ایک بڑا ہی ہرابھر ا باغ تھا ان سے پہلے ان کابا پ باغ کی ہر چیز میں سے فقیروں کے لئے نکالتاتھا لیکن باپ کے مرنے کے بعد ایک بھائی کے علاوہ سب نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں فقیر وں کو نہیں دینا ہے(اور چوں کہ ہرزمانہ کی عادت ہے کہ ) اکثر کھیت کاٹتے اور پھل توڑتے وقت وہاں بھی فقیر ومحتاج پہنچ جاتے ہیں اس لئے ان لوگوں نے فقیر وں سے بچنے کی تدبیر یہ اپنائی کہ بس ہم سب صبح سویرے ہی جاکر باغ کے پھل ٹوڑلیں گے تا کہ انہیں پتہ ہی نہ چل سکے۔ اور وہ چپکے چپکے صبح کو نکلے لیکن جب پہنچے تو کچھ اور ہی دیکھا کہ باغ بالکل ہی جل چکا ہے اور بھونسا بھونسا ہوگیا ہے شروع میں انہیں سمجھ میں آیا کہ وہ راستہ بھول کر کسی دوسرے کہ باغ میں آگئے ہیں لیکن جب ا ن کے بھائی نے کہا کہ میںنے توپہلے ہی کہدیاتھا ناکہ فقیروں اور محتاجوں کو نہ دینے سے نقصان ہوتا ہے ؟اللہ تعالی نے وہی کردکھایا ۔اس وقت ان لوگوں کو اپنے اس برے ارادے پر شرمندگی ہوئی انہوں نے توبہ کیا اور پھر بعد میں اللہ تبارک وتعالی نے اسی میں خوب برکت دی ۔ساتھ ہی اس سورت کے آدھے حصے میںجنت کی نعمتوں اورجہنم کی سزاؤں کا بیان ہے۔
سورہ ٔ حاقہ میں پچھلے انبیا ء کی امتوں کو ہونے والے عذاب کی طرف اشارے ہیں اور ساتھ ہی حساب کے بعد داہنے ہاتھ میں نامۂ اعمال ملنے والوں کی بے انتہا خوشی اور بائیں ہاتھ میں ملنے والوں کی بڑی بے چینی کی حالت بیان کی گئی ہے۔سورۂ معارج میں بھی اللہ تبارک وتعالی نے مکمل طور پر قیامت کے دن کے بارے میںہی بیان فرمایا ہے جس میں ایک خاص با ت یہ بیان فرمائی کہ اس دن کا منظر اتنا خطرنا ک ہو گا کہ ہر گنہگار یہی سمجھے گا کہ اگر اس کے بچے، بیوی ،پورے خاندان کے لوگ بل کہ اگر ساری دنیا اس کی ہوتی اور اللہ تعالی کچھ لیکر اس کا عذاب معاف کردیتے تو وہ ایسا کرلیتا۔انسانوں کی ایک دوسری بری عادت یہ بیان فرمائی گئی کہ جب انسان کا کوئی نقصان ہوتاہے تو وہ ایک دم سے گھبر اجاتاہے اور اگرکوئی نعمت ملتی ہے تو وہ بخیل بن جاتا ہے ۔سورہ ٔ نوح میں اللہ تبارک وتعالی نے مکمل طورپہ حضرت نوح ؑ کاقصہ بیان کیا جس میں اللہ تعالی کی حضور میں حضر ت نوح کی شکایت کا بھی ذکر ہے کہ انہوں نے کہا کہ اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو آپ کی نعمتوں کا حوالہ اور وعدہ دیکر رات ودن دعوت دی لیکن جتنی ہی دعوت دی انہوں نے اتنا ہی دین سے انکار کیا۔سورہ ٔ جن میںاللہ تعالی نے جنوں کے اسلام لانے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس کا خلاصہ (تفسیر حقانی کے مطابق)بخاری و مسلم سمیت دوسری حدیث کی کتا بوں میں کچھ اس طرح ہیکہ جب اللہ کے نبی مکہ والوں کو دعوت دیتے دیتے کچھ ناامید سے ہوگئے تو آپ نے سوچا کہ مکہ کے باہر کے لوگوں کو بھی دعوت دینی چاہئے اس کے لئے آ پ ﷺ نے طائف کا سفر کیا وہاں کے لوگوں نے آپ کی گستاخی کرکے آپ کو شہر سے نکالدیا آپ ﷺ نے وہاں سے عکاظ (جہاںبڑے بڑے بازار وغیرہ لگا کر تے تھے) کی طرف نکلے اور راستے میںنخلہ نام کی ایک جگہ میں ٹھہر گئے اور صبح فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھا نے کے لئے کھڑے ہوئے تو نصیبین کے نوجنات جو یہ معلوم کرنے کے لئے نکلے تھے کہ اب ان پہ آسمان کی خبر یں پہنچنا کیو ں بند ہوگئیںان کا گذر اس جگہ سے بھی ہو ا اور آ پﷺ قرآن پاک کی تلاوت فرمارہے تھے یہ سنکر بہت ہی تعجب میں پڑگئے اب اورزیادہ دھیا ن سے سننے لگے جب سن چکے تو کہنے لگے خداکی قسم اسی وجہ سے ہمارے پاس اوپر کی خبریں نہیں پہنچ پاتیں اور یہ لوگ مسلمان بھی ہوگئے اور جا کر اپنی قوم کو بھی دعوت دی۔ اور ساتھ ہی نبی ﷺ کی نبوت اور آپ کے اختیارات سے متعلق بھی کچھ چیزیں بیان فرمائی ہیں۔
سورہ ٔ مزمل میں پوری سورت کو پڑھنے کے بعد آپ ﷺ کے اللہ کی نظرمیں محبوب ہونے کا تھوڑاسااندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کو آپ ﷺ کتنے محبوب تھے؟ اپنے لاڈلے نبی ﷺ کو کمبل اوڑھنے والے کے لفظ سے یاد کرتے ہوئے اللہ پاک نے اس سورت کو شروع کیا ،قرآن کریم کو اس کے قواعد اور حقوق کا خیال کرتے ہوئے پڑھنے کا حکم دیا،تہجد کی اہمیت بیان فر ما ئی قرآن پاک کوجھٹلانے والے کو بہت ہی سخت عذاب سے ڈرایا،قیامت سے پہلے پہاڑوں کے تباہ ہونے کی حالت بیان فرمائی ، یہ بھی بیان فرمایاکہ اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے بچے بھی بوڑھے کی طرح ہوجائیں گے،صحابہ کرام کی الگ الگ جماعتوں کی ان کے الگ الگ کاموں کی وجہ سے تعریف فرمائی،(جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو مختلف میدانو ں میں کا م کرنا چاہئے اور کسی بھی اچھے میدان میں کام کرنے والے کی تعریف کرنی چاہئے )آپ ﷺ کی رات میں عبادت کو پیا ر بھرے انداز میں سراہااور اخیر میں یہ بیان کیاکہ جو کچھ بھی مسلمان خرچ کرتے ہیں وہ انہیں قیامت کے روز جمع ہواملے گا۔
سورہ ٔ مدثر کی شروع کی آیتوں میں آپ ﷺ کو دعوت کے کام کو کرنے ،اللہ کی تعریف ،کپڑوں اور بدن کی صفائی کے خوب خوب اہتمام اور احسان نہ جتلانے کے حکم کے ساتھ ہی جہنم کے بڑے ہی خطرناک عذاب کو خو ب کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے ۔اس سورت میں آیت:۱۱ ؍سے آیت: ۲۶ ؍کے آگے تک آیات اللہ تعالی نے ولید بن مغیرہ کی شرارتوں کے جواب میں اتاری ہیں جو بڑ اہی مالدار تھا کچھ مفسرین نے اس کی سالانہ آمدنی اُس زمانے میں ایک کروڑ دینار سے زائد بتلائی ہے یہ عرب کا سردار بھی مانا جاتاتھا دوسرے لوگ تو اسے ریحانہ ٔ قریش کہتے اور یہ خود اپنے آپ کو وحید ابن الوحید کہتا تھا (یعنی اپنے باپ کو بھی یکتا مانتا اور خود اپنی ذات کو بھی یکتا مانتا) تفسیر ِقرطبی کے مطابق جب سورۂ مؤ من کی شروع کی تین آیتیں اتریں تو رسول اللہ ﷺ ان کی تلاوت فرمارہے تھے اِس نے جب یہ آتیں سنیں تو وہ بے ساختہ ان کے کلام الہی ماننے پہ مجبور ہوگیا اور بول اٹھا کہ خدا کی قسم! میں نے محمد ﷺ سے ایسا کلام سنا ہے جونہ کسی انسان کا کلام ہوسکتا ہے اور نہ کسی جنات کا اس میں بڑی مٹھاس ہے اور اس پر خاص رونق ہے اس کے اوپر کا حصہ پھل دینے والا اور نیچے کا حصہ پانی جاری کرنے والا ہے وہ بلا شبہ سب سے بالا وبلند ہو کر رہے گا اس پہ کوئی غالب نہیں ہوسکتا یہ بشر کا کلام نہیں ہے،، پھر کیا تھا؟! عرب کے سب سے بڑے سردار کی یہ بات سننی تھی کہ ان میں جیسے زلزلہ آگیا ہو وہ سب اسلام کی طر ف جھکنے لگے قریش کے کافرسرداروں کو فکرہوئی اور جمع ہوکر مشورہ کرنے لگے ابوجہل نے کہا فکر نہ کرو ابھی جاتاہوں اسے ٹھیک کروں گا۔وہ ولید کے پاس چہرہ بگاڑ کر پہنچا ولید نے کہا کیا بات ہے کیوں غمگین نظر آتے ہو ابو جہل نے کہا غمگین ہونے کی بات ہی ہے یہ سب لوگ تم کو چند ہ کر کے کھلاتے پلاتے تھے لیکن اب انہیں یہ معلوم ہوا کہ اسی کام کے لئے تم محمدﷺ کے پاس بھی جانے لگے ہو اور ابو قحافہ(ابوبکرؓ) کے یہاں بھی چکرلگانے لگے ہو وہ تمہیں مال دیا کرتے ہیں اور تم ان کی خوشامد میں ان کی بھی تعریف کرتے ہو وہ جو کلام پیش کرتے ہیں تم اسے اچھا بتلاتے ہو ۔ولید کو اس لئے غصہ آیا کہ (اسے غصہ دلانے کے لئے ہی) اس کے بارے میں ابوجہل نے دوجھوٹی باتیں کہیں پہلی بات تو یہ کہی کہ قریش اس کے سامان ِ زندگی کا نظم کرتے ہیں دوسری بات اس نے یہ کہی کہ محمد(ﷺ) کی تعریف بھی اس نے اسی لئے شروع کردی کہ وہ اس کے کھانے پینے کا نظم کرتے ہیں بہرحال ولید کو بہت شرم آئی وہ تکبر میں بولا: میں محمد(ﷺ) اور ان کے ساتھیوں کے ٹکڑوں کا محتاج ہوں؟ کیا تمہیں میرے مال ودولت کی کثرت معلوم نہیں؟ لات وعز ی کی قسم میں ان لو گوں کا ہر گزمحتاج نہیں ہوں لیکن تم جو یہ بات کہتے ہو کہ محمد(ﷺ )مجنوں ہے تو یہ بات اتنی غلط ہے جس کا کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا کیا تم میں سے کسی نے انہیں مجنونانہ کام کرتے دیکھا ہے؟ ابوجہل نے اقرار کیا کہ خداکی قسم کبھی ایسا کام کرتے نہیں دیکھا پھر ولید نے کہا تم انہیں شاعر کہتے ہو کیا تم لوگوں نے کبھی انہیں شعر کہتے ہوئے سناہے ا بو جہل نے کہا خدا کی قسم نہیں ہم نے کبھی انہیں شعر کہتے نہیں سنا پھر ولید نے کہاتم لوگ انہیں جھوٹا کہتے ہو کیا تم نے عمر بھر میں انکی کسی بات کو جھوٹ پایا؟ابوجہل نے کہا خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں پایا ولید نے پھر پوچھا تم انہیںکاہن کہتے ہو تو کیا تم نے کبھی ان کے حالات یاکلمات ایسے سنے جو کاہنوں جیسے ہوں؟ ہم تو کاہنوں کی باتوں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں ان کا کلا م کہانت نہیں ہوسکتاپھر ابوجہل نے کہا خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہوسکتے ۔،،اور پورے قریش میں آپ ﷺ صادق الامین سے مشہور تھے ابوجہل نے یہ سب تو اقرار کرلیا لیکن پھر پریشانی یہ بڑھی ہوئی ہے کہ آخر کیا کہہ کر لوگوں کو اسلام سے روکا جائے اس لئے اس نے خود ولید سے ہی پوچھا کہ پھر تم ہی بتاؤ محمد(ﷺ ) کو کیا کہاجائے اس پہ پہلے تو اس نے اپنے دل میں سوچا پھر ابوجہل کی طرف دیکھا اور منھ بسور کرکہا انہیں (محمدﷺکو) کاہن،مجنون ،شاعر یا جھوٹا تو نہیں کہہ سکتے لیکن اگر انہیں جادوگر کہو تو چل جائے گا اسے خوب معلوم تھا کہ حضور ﷺ جادو گر نہیں ہیں لیکن اس نے یہ سوچا کہ جس طرح جادوگر کی باتوں کا یہ اثرہوتاہے کہ اس کے ذریعے سے میاں بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کے درمیان جھگڑا لگادیا جاتاہے اسی طر ح حضور ﷺ کی باتوں کی وجہ سے یہاں بہت سے میاں بیوی اور دوسرے رشتہ داروں میں جھگڑا لگ گیا ہے کہ ایمان والے اپنے غیر ایمان والے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں سے علاحدہ ہوجاتے ہیں اور اعمال میں ان سے اختلاف کرتے ہیں۔بہرحال اللہ تعالی نے یہ فرما یا کہ اس متکبر کو میں ضرور جہنم میں ڈالوں گا اور پھر جہنم کی ہولناکی کو بیان فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس کے ۱۹؍ داروغہ ہوںگے لیکن جب ابوجہل نے یہ سنا کہ جہنم کے ۱۹؍ فرشتے ہیں تو قریشی نوجوانوں کو متوجہ کرکے کہنے لگا کہ محمد( ﷺ) کے ساتھی تو بس ۱۹؍ ہیں اس کی تمہیں کیا فکر ہوسکتی ہے یا جیسا کہ بیہقی نے بیان کیا ہے ایک قریشی غیر مسلم نے کہا کہ اے قریش ان ۱۹؍ فرشتوں کے لئے بس میں کافی ہوں میں اپنے داہنے بازو سے ۱۰؍ کو اور بائیں سے ۹؍کودفع کرکے ان ۱۹؍کا کام تمام کردوں گاتواللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ کے لشکر کی تعد اد تو صرف انہیں کو معلوم ہے اور یہ جو ۱۹؍ فرشتے ہیں یہ تو ان کے ذمہ داران ہیں ۔ اس کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنتی لوگ جہنمیو ں سے پوچھیں گے کہ جہنم میں کیسے داخل ہوگئے؟ تو وہ کہیںگے کہ ہم نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلا تے تھے بلکہ ہم بھی باتیں بنانے والوں کے ساتھ لگ جاتے تھے اور قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے۔(یہاں بھی ایک بات یہ معلوم ہوئی جو قرآن پاک کے سورہ ٔنساء میں بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ جس طرح ایک مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کوئی بھی غلط بات اپنی زبان پہ لائے، حق کو چھپائے یا اس کا مذاق اڑائے اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ غلط بات کرنے والوں کے ساتھ ان کی مجلس میں بیٹھے ۔بلا شبہ اس سے اسلام کا مزاج معلوم ہوتاہے کہ ا سے باطل چیزوں اور کرپشن سے کس قدر نفرت ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اس کے ارتکاب سے منع کرتا ہے بل کہ باطل اور داغی لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی باتوں کو سننے سے بھی منع کرتا ہے کیوں کہ ایک انسان کسی بات کی مجلس میں شریک ہو کر یا اسے بار بار سنکر بھی اس سے اس درجے متاثر ہو تا ہے کہ وہ خود بھی اسے کرنے لگتاہے )سورہ ٔ قیامۃ میں بھی اللہ تعالی نے قیامت سے پہلے اور بعد میں رونما ہونے والے بڑی ہولناک باتوں کو بیان فرماگیا ہے ،قرآن کریم کے بارے میں حضور ﷺسے یہ فرمایاکہ آ پ اسے یاد کرنے اور محفوظ کرنے لئے پریشانی میں نہ پڑیں اس کا جمع کرنا اور محفوظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے ہم آپ کو اسے بھولنے نہیں دیںگے۔ ساتھ ہی انسا ن کی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ انسان مَنِی کے حصے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔سورۂ دہر کی ابتدا ہی اس بیان سے ہوئی کہ انسان کچھ بھی نہیں تھا ہم نے اسے مَنِی کے مادے سے پیداکیااور اس کے بعد اسے بے شمار نعمتیں دیں پھر یہ بتلایاگیا کہ انسان دوجماعتوں میں بٹ گئے ایک جماعت تو ناشکری کرنے والوں کی ہوگئی اور دوسری جماعت شکر کرنے والوں کی پھر شکر کرنے والوں کے ان انعامات کو بیان فرمایا جو انہیں جنت میں ملیں گے جو بڑے ہی مزے دار ہیں ۔ سورہ ٔ مرسلات میں بھی اللہ پاک نے قیامت سے پہلے اور قیامت کے روز ہونے والے بہت ہی خطرناک واقعات کو بیان فرمایا۔
��