Bihar me Qurbani se sailaab zada afraad ki zindagi me bahaar ki ramaq paida karien

بِہار میںقربانی سے سیلاب زدہ افراد کی زندگی میں بَہار کی رمق پیدا کریں!
ندیم احمد انصاری

کئی ہفتوں سے بہار کے متعدد اضلاع میں سیلاب کی جو صورتِ حال ہے ، اس سے ہر با خبر شخص واقف ہے ۔ بعض احباب جو متاثرہ افراد کی خدمت اور باز آباد کاری میں لگے ہوئے ہیں، وہ مسلسل وہاں کی خبریں بہم پہنچا رہے ہیں۔ سچ پوچھیے تو اس پَل پَل کی خبر کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ ہونا چاہیے کہ ہم ان مصیبت زدہ افراد کے لیے دعا گو ہوں اور ان کی ہر ممکن مدد کے لیے آگے آئیں، یہ اور بات ہے کہ دنیا پرستی نے ایسے نازک حالات میں بھی ہمیں سیلفی اور فُڈ کِٹ کی تصویر کشی میں اس قدر مشغول کر رکھا ہے کہ کبھی خیال ہوتا ہے کہ بے چارہ خدا سے عوض پانے کے لیے ایویڈنس جمع کر رہا ہے ۔ خدا کرے کہ ہاتفِ غیبی سے یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تجھے اخبار میں چھپنا مقصود تھا، وہ ہو چکا، جا پَرے لگ۔ معاملہ صرف اتنا بھی ہوتا تو اور بات تھی، لیکن اگر یہ کہہ دیا گیا کہ تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، وہ تو دنیا میں کہا جا چکا،لیکن تونے نیکی جتا کر جو گناہ کیا ہے ، اب اس کی سزا بھگت، تو کیا بنے گی؟ اللہ کی پناہ!اس تمہید سے ہمارا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری یا کسی کی ذات کو نشانہ بنانا نہیں، البتہ اس جانب توجہ مبذول کرانا ضرور ہے کہ کہیں ہم نیکی برباد اور گناہ لازم تو نہیں کر رہے ! فقط ۔کئی ہفتوں سے بہار کے متعدد اضلاع میں سیلاب کی جو صورتِ حال ہے ، اس سے ہر با خبر شخص واقف ہے ۔ بعض احباب جو متاثرہ افراد کی خدمت اور باز آباد کاری میں لگے ہوئے ہیں، وہ مسلسل وہاں کی خبریں بہم پہنچا رہے ہیں۔ سچ پوچھیے تو اس پَل پَل کی خبر کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ ہونا چاہیے کہ ہم ان مصیبت زدہ افراد کے لیے دعا گو ہوں اور ان کی ہر ممکن مدد کے لیے آگے آئیں، یہ اور بات ہے کہ دنیا پرستی نے ایسے نازک حالات میں بھی ہمیں سیلفی اور فُڈ کِٹ کی تصویر کشی میں اس قدر مشغول کر رکھا ہے کہ کبھی خیال ہوتا ہے کہ بے چارہ خدا سے عوض پانے کے لیے ایویڈنس جمع کر رہا ہے ۔ خدا کرے کہ ہاتفِ غیبی سے یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تجھے اخبار میں چھپنا مقصود تھا، وہ ہو چکا، جا پَرے لگ۔ معاملہ صرف اتنا بھی ہوتا تو اور بات تھی، لیکن اگر یہ کہہ دیا گیا کہ تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، وہ تو دنیا میں کہا جا چکا،لیکن تونے نیکی جتا کر جو گناہ کیا ہے ، اب اس کی سزا بھگت، تو کیا بنے گی؟ اللہ کی پناہ!اس تمہید سے ہمارا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری یا کسی کی ذات کو نشانہ بنانا نہیں، البتہ اس جانب توجہ مبذول کرانا ضرور ہے کہ کہیں ہم نیکی برباد اور گناہ لازم تو نہیں کر رہے ! فقط ۔ خیر! اس وقت کاغذ سیاہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عید الاضحی قریب ہے ، جس میں ہر صاحبِ نصاب مسلمان مرد و عورت پر قربانی واجب ہوتی ہے اور الحمد للہ مسلمان بڑھ چڑھ کر اس فریضے کو ادا کرتے ہیں۔ چھوٹی عمر سے ہم یہ بھی دیکھتے آئے ہیں کہ عید الاضحی کے موقع پر مختلف مدارس کے سفیر مختلف شہروں میں تشریف لے جاتے ہیں اور قربانی کے لیے رقم جمع کرتے ہیں، جو چاہتا ہے ان سے قربانی کی رسید وصول کر انھیں ادا کر دیتا ہے ، جس سے پہلے اور بعد عام طور سے آپس میں ان کا کوئی رابطہ نہیں رہتا۔قربانی میں شرکت کو لے کر یہ اور اس طرح کے کچھ اور مسائل ہیں، جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، لیکن یہ ان مسائل کے بیان کا موقع نہیں، اس موضوع پر مدلل و مختصر رسالہ بہ نام قربانی میں شرکت کے اہم مسائل ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے ، جو حضرات چاہیں https://afif.in/ پر اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ مدرسوں میں اس طرح کی قربانی کی ترغیب دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس سے آپ کا ثواب دوہرا ہوجائے گا؛ ایک قربانی کا، دوسرا مہمانانِ رسول کی خدمت کا۔ اصول کی رعایت کے ساتھ اگر یہ قربانیاں کی جائیں تو اس میں کوئی اشکال نہیں، لیکن تکلیف تب ہوتی ہے جب اخبارات میں بعض فراڈ سفیروں کی تصویریں چھپتی ہیں، ہمارا ایقان ہے کہ چند ٹکوں میں اس نازیبا حرکت کے مرتکب کو دو گناہ ہوں گے ؛ایک دھوکا دہی کا، دوسرا مسلمان کے فریضے کو ضایع کرنے کا۔اس تفصیل کے بعد عرض یہ کرنا ہے کہ جس طرح مدرسوں میں قربانی سے دوہرے ثواب کی امید ہے ، اسی طرح موجودہ حالات میں سیلاب زدہ افراد کے درمیان قربانیاں کرنا بھی دوہرے ثواب اور اجر کا باعث ہوگا، ان شاء اللہ۔ ایک قربانی کا، دوسرے دوسرے انسانیت کے کام آنے کا۔ البتہ یہ خیال رہے کہ قربانی کے لیے جسے وکیل بنایا جائے وہ قابلِ اعتماد افراد ہوں۔ اگر آپ کو اس کی امانت و دیانت پر بھروسا ہے رقم اس کے حوالے کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں، اگر ایسا نہیں تو آپ کی قربانی ہی قربان ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اس وقت بہار کے متعدد اضلاع اور ملک کے جن حصوں میں بھی سیلاب کی زد میں آئے ہوئے ہیں، آپ اپنی قربانی ان کے درمیان کرکے دوہرے اجر کے مستحق بن سکتے ہیں، ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ جن کا کُل متاعِ زندگی سیلاب کی نذر ہو گیا، ان کے حق میں اس کام کی بہت اہمیت نہیں، لیکن جو بہت کچھ نہیں کر سکتا کیا وہ کچھ بھی نہ کرے ؟اگر نیت درست اور اخلاص کامل ہو تو خدا کی ذات سے اجرِ عظیم کی امید ہے ۔ یہ واضح کر دیں کہ ان مصیبت زدہ افراد میں گوشت کی تقسیم کے لیے مسلم و غیر مسلم میں تفریق کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔اس لیے کہ مسلمانوں کے لیے اپنے قریبی اور پڑوسی یا کسی دوسرے کافر کو کھانے یاکپڑے وغیرہ کچھ دینا جائز ہے ، اگرچہ قربانی کا گوشت ہی کیوں نہ ہو، اوراگر وہ فقیر ہوں تو ان کو نفلی صدقہ بھی دیا جا سکتا ہے ، صلہ رحمی اور پڑوسی کے حق کی ادایگی اور دلوں کی تالیف کے لیے ایسا کرنے میں مزید ثواب کی امید ہے ۔باری تعالیٰ ارشاد ہے : اور اگر وہ تم پر یہ زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو (خدائی میں) شریک قرار دو جس کی تمھارے پاس کوئی دلیل نہیں تو ان کی بات مت مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے رہو، اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگا رکھی ہو، پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے ، اس وقت میں تمھیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ (لقمان:15) نیز فرمایا:اللہ تمھیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی، اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو، یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔(ممتحنہ:8)اور سیرتِ پاک میں حضرت نبی کریمﷺسے ثابت ہے کہ آپ نے اسماء بنت ابو بکر کو اپنی ماں کے ساتھ? صلہ رحمی کرنے حکم دیا، اور وہ اس وقت کافرہ تھی،نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے قریبی کافر کو ایک جوڑا تحفہ میں دیا، وغیرہ وغیرہ۔ عام قربانی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ عید الاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے ، یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا جاتا ہے ، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)تو اندازہ کیجیے کہ جس قربانی میں خدا کی مخلوق کی حاجت براری اور تالیفِ قلب کی نیت بھی شامل ہو اس کی کیا فضیلت ہوگی!رابطہ:09022278319

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here