Deen-e-islam kisi bhi qaum ka mohtaj nahi

 

دینِ اسلام کسی بھی قوم کا محتاج نہیں

مولانا شاہد معین قاسمی

چھبیسویںپارے کے شروع میں یعنی سورہ ٔ احقاف آیت :۶؍تک اللہ تعالی یہ بیان فرماتے ہوئے کہ ہم نے زمین وآسمان کو بہت ہی اچھے انداز سے اور انتہائی حکمت کے ساتھ بنایااپنے لاڈلے نبیﷺ سے یہ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے علاوہ کی عبادت کرتے ہیں آپ ان سے پوچھیںکہ انہو ں نے کون سی زمین پیدا کی ہے یا آسمانوں کے پیدا کرنے میں ان کا کیا حصہ ہے ؟ذرا بتائیں !طے ہے کہ انہوں نے کچھ پھی پید ا نہیں کیا ۔پھر کیا کسی کتاب میںجو اللہ تعالی کی طرف سے اتری ہو کہیں لکھا ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک بنانا چاہیے اگر ایسا ہے تووہ کتاب لاکر دکھا دو۔ اگر پوری آسمانی کتا ب نہیں تو کوئی ایسا مضمون جوشرک کی اجازت دیتی ہو کسی نبی سے نقل کیا گیا ہو تو وہی بتلادو اس کے بعدیہ فرمایاگیا کہ سب سے بڑا گمراہ وہ انسا ن ہے جواللہ کے علاوہ ان لوگوں سے مانگتاہے جو قیامت تک بھی ان کی کچھ بھی سننے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی ضرور ت پوری کرسکتے ہیں اور قیامت کے دن یہ ان کاساتھ کیادیںکہ ِان عبادت کرنے والوںکے دشمن بن جائیں اور یہ بھی کہدیں گے کہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے ۔جب کہ آیت :۷سے ۱۱؍تک میں اللہ تبارک تعالی نے قرآن کریم کو جا دو کہنے والے یا نبی ﷺ کی طرف سے گھڑی ہوئی کتا ب کہنے والوں کے بارے میں نبی ﷺ کو یہ فرمایاکہ آپ ان سے کہدیجیے کہ اگر میں نے یہ گھڑلی ہے تو( جیسا کہ اللہ کا قانون ہے کہ کسی بھی گھڑ نے والوں کو وہ معاف نہیں کرتے )مجھ پہ ابتک عذاب آگیا ہوتالیکن تم دیکھ رہے ہو کہ وہ میر ی مدد کررہے ہیں میرے نبی ہونے کی گواہی دے رہے ہیں تو پھر میں گھڑنے والا کیسے ہوسکتا ہوں۔اسی طریقے سے نبی ﷺ پر انسان ہونے کااعتراض کرنے والوں کے متعلق اللہ پاک نبی ٔ پاک ﷺ کو یہ بتلارہے ہیں کہ آپ یہ فرمادیں کہ انسان ہونے کے لحاظ سے میں کوئی نیا اور الگ قسم کانبی نہیں ہوں بل کہ جتنے بھی نبی آئے وہ سارے کے سار ے ہی انسا ن تھے سب ہی انسانی ضرورتیں رکھتے تھے اوریہ بھی جان لوکہ دنیا میںمیرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کیاہوگا وہ بھی میں نہیں جانتااور ذرایہ بھی تو سوچو کہ اگر یہ کتا ب اللہ کی طر ف سے ہوئی اور تم نے اس کاانکار کردیا ہے حالاں کہ بنی اسرائیل کے گواہ نے پچھلی کتا بوں کے مطالعے سے اس کتا ب کے برحق ہونے کی گواہی بھی دیدی اور اس پہ ایمان لاکر ا س کااعلان بھی کردیا ہے پھر بھی اسے تم نہیںمانو تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤ گے اپنے ہی اوپر ظلم کرنے والوں میں بن جاؤگے۔آیت :۱۴؍ تک قر آن کریم پہ ہی اعترض کا جو اب دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم پچھلی کتابو ں کی تصدیق کرتی ہے ساتھ ہی ایمان لاکر اس پہ جمنے والوں کو بلا خوف وخطر جنت میںداخل ہونے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔اس کے بعد آیت: ۱۶؍تک ماں باپ کے ساتھ اچھے برتاؤ کرنے کو عجیب اندا ز سے بیان کیا گیا ہے کہ ماں کے احسانات خاص طور سے حمل ،ا س کی پیدائش پھر دودھ پلانے کی مشقت کا ذکر فرما کر یہ بتلایا گیا ہے کہ جب انسان اپنے با پ ماں کے احسان اور تربیت کے نتیجے میں پل بڑھکر تیار ہوتاہے اور پھر اپنی عمر کے ۴۰؍ سال کوپہنچ جاتاہے تواس میں کافی ہوشیاری آجاتی ہے وہ نہ صرف اللہ سے شکرادا کرنے کی توفیق مانگتاہے بل کہ اپنی اولاد کی بھی فکر کرنے لگتا ہے اس طرح کے انسا ن اس لائق ہیں کہ ہم ان کے اچھے اعمال کو قبول کریں اور ان کے گناہوں کو معاف کرکے انہیں جنت میں داخل کردیں(اکثر وہ لوگ جو اپنی جوانی اور شروع کی عمر میں اللہ کے دین پہ مکمل طور پہ چلنا چاہتے ہیں اپنی قوم اور انسانیت کی بھلائی کے لئے بڑے بڑے کام کی فکر کرتے ہیں مگر انہیں وہ کامیابی نہیں مل پاتی جو ملنی چاہئے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے دل کسی بھی وقت اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوںاور ان پہ ہر وقت روحانیت چھا ئی رہے لیکن ایساہو نہیں پا تا … قر آن کریم کی اس آیت میں ان لو گوں کے لئے تسلی کا بڑا سامان ہے کہ انہیں اپنی کوشش میں ناکامی سے پریشان یامایوس نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ شروع کی عمر میں غلطیوں کا ہو جانا یاکوششوں کا ناکام ہونا فطر ی اور اللہ کی طرف سے مصلحت ہے ایک وقت آئے گا کہ ایسے فکر مند لوگ اپنی عبادتوں میں پختہ اور کامل ہوجائیں گے اور ایسا بھی ہوگا کہ یہ اپنی کوششوں میں خود اپنی توقع سے بھی زیادہ کامیاب ہوتے نظر آئیں گے ) آیت: ۱۷ سے ۱۹؍ تک ان لوگوں کی سخت مذمت کی گئی ہے جو دین کے بارے میں ماں باپ کی نصیحت قبول نہیں کرتے۔آیت: ۲۰سے ۲۵؍ تک اہل مکہ کو جہنم کے سخت عذاب سے ڈرایا گیا ہے جب کہ آیت :۲۶سے ۲۸؍ تک میں ان سے یہ کہاگیا ہے کہ تم سے پہلے لوگوں کو( جیسے قوم ثمود اور عاد ) جن کو تم سے کہیں زیادہ طاقت اور مال سے نواز ا تھا لیکن انہیں بھی نافرمانی اور ہٹ دھرمی پہ ہلاک کردیا تو تم کوہلاک کرنے پہ کیوں قدرت نہیں ہوگی ۔ آیت: ۲۹؍ سے سورت کے اخیر تک جناتوں کے اسلام لانے کا تذکرہ فرما کر مکہ کے نہ ماننے والوں سے یہ کہاگیا ہے کہ تم لو گ کیا ہو تم سے بہت زیادہ طاقتور مخلو ق بھی اللہ کے صحیح دین کوقبول کر چکی ہے اور پھر آپ ﷺ کو نہ ماننے والوں کی طرف سے پہنچائی جانے والی اذیتوں پہ صبرکی تلقین کی گئی ہے ۔سورہ ٔ محمد میں مجموعی طور پہ ایمان کی قیمت اور کفر کے نقصانات بیان کئے گئے ہیں جنت کی دلچسپ نعمتوں اور جہنم کے دردناک عذاب کے تذکرے کے ساتھ ہی مسلمانوں سے لڑنے والی قوم کو اس وقت تک قتل کے ذریعے سزا دینے کی ترغیب دلائی گئی ہے جب تک کہ وہ لڑائی ختم کرنے کے لئے تیار نہ ہوجائے اور لڑائی میں گرفتا ر ہونے والے لوگوں کو چھوڑنے اورنہ چھوڑنے کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ساتھ ہی اس وقت کے غیر ایمان والوں سے یہ کہا گیا ہے کہ جس طر ح ہم نے اس سے پہلے انکار کرنے والوںکو تباہ کیا ہے اگر تم بھی نہیں مانوگے تو تمہیں بھی تباہ کریں گے جب کہ اللہ کی طرف سے جنگ کا حکم آنے کے بعد منافقوں کی بدن چوری کی مذمت کے ساتھ ہی اپنے خاندان کے لوگو ں اور رشتہ داروں سے دنیا کے لئے تعلقات خر اب کر نے والوں پر لعنت بھیجتے ہوئے یہ فرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کو اندھا اور بہر ا بنادیتے ہیں جس کے نتیجے میں اچھی چیزوں کو دیکھ یا سن کر غور کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ سورت کے ختم ہونے سے پہلے پہلے تین اہم باتیں بتلائی گئیںپہلی بات تویہ ہے کہ چاہے حالات بظاہر کتنے بھی بگڑ گئے ہوں اور ترقی اور کامیا بی کے اسباب کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں لیکن اگر مسلمان اللہ کے حکموں پر چلنے والے ہوں تو انہیں کو ئی بھی شکست نہیں دے سکتا لڑائی کے دوران اگرچہ ان کے پا س سامان و ہتھیا ر کم ہوں پھر بھی دشمنوں سے صلح کی پیش کش کی بجائے ایمان کے تقاضوں کو پوراکر تے ہوئے ہمت و حوصلہ کے ساتھ اپنے دشمن سے مقابلہ کرتے رہنا چاہئے پھر تو دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان وہ جنگ بھی جیت لیں گے جن میں وہ اپنے کو کمزور اور ہارتے دیکھ رہے تھے ۔خو ب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ آیت اگر چہ براہ راست جسمانی لڑائی اور جنگ کے بارے میں ہے لیکن اصل چیز اسلام اور مسلمانوں کی بلندی یا پستی ہے ا س لئے آیت کا عام مطلب یہ ہوگا کہ ہر وہ چیز اور کام جس کا تعلق قوم کی بلند ی اور مضبوطی سے ہو اگر مسلمان شریعت پہ چلتے ہوئے اس کے لیے محنت کریںگے تو بہر حال کامیابی ان کی قدم بوسی کرے گی ۔آخری آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے ایک چونکا دینے والے ضابطے کا اعلان فرمایا کہ دین اسلام کسی بھی قوم کا محتاج نہیں ہے اگر اس قوم نے جس کے سامنے اسلام پیش کیا گیا اس نے اسے قبول ہی نہیں کیا یا قبول کرکے اس کے تقاضوں کو پوارا نہیںکیا تو اللہ تبارک وتعالی دوسری قوم کو اسلام دیدیں گے جو اسلام کی قدر کرے گی اور اس کے تقاضوں پہ پوری ا ترے گی اورچوں کہ اسلام دنیا کی سب سے بڑی خیر اور اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اللہ نے نافرمان قوموں کی جگہ فرماں برداروں کو لا کھڑ اکیا ۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو بھی خیر کا کام کسی قوم کو دیا جائے گا اگر وہ اسے نہیں لے گی یا لیکر اس کا حق ادا نہیں کرے گی تو وہ کار خیر اس کے ہاتھوں سے نکل کر دوسرے ہاتھوں میں آجائے گا چاہے اس کار خیر کا تعلق جس میدان سے بھی ہو۔
سورہ ٔ فتح :سورہ ٔ فتح آپ ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے چھ سال بعد اس وقت اتری جب اسی چھٹے سال میں اللہ کے نبیﷺ کو مکہ والوں نے حدیبیہ کے مقام سے عمر ہ کرنے سے روکد یاتھا اور آپ کو عمرہ کئے بغیر چودہ سو صحابہ کے ساتھ مدینے واپس آنا پڑا تھا ۔اس کی شروع کی آیتوں میں پہلی بات یہ بتلائی گئی کہ آپ کو جلدہی فتح حاصل ہوگی اور فتح مکہ کی طر ف اشارہ تھا دوسری بات یہ بیان فرمائی گئی کہ اللہ تبارک وتعالی نے اسلام کی شوکت اور اسلام کو پھیلا کر آپ کی نبوت کی نعمت کو مکمل کردیا تیسری بات یہ بتلائی گئی کہ اس فتح کے ذریعے دین اسلام پر چلنے میں جتنی روکاوٹیں تھیں وہ دور کردی جائیںگی چوتھی بات یہ بتلائی گئی کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کی زبر دست مدد کریں گے یہ اللہ کی ہی ذات ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں کو دشمنوں کے مقابلے کے ڈرسے خالی کیا اور ان میں سکون اور بہادری پید اکردی اگر اللہ تعالی چاہتے تو فرشتوں سے بھی یہ کام لے لیتے لیکن انہوں نے مسلمانوںمیں اعتماد ویقین پید ا کرکے ان سے ہی یہ کام لیااور اس کے ذریعے سے اللہ تعالی مسلمانوں کو جنت دینا چاہتے ہیںاور منافقین و مشرکین کو جہنم میں ڈالنا چاہتے ہیں۔آیت: ۹،۱۰؍ میں بیعت رضوان کا تذ کر ہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے مکہ سے تشریف لاکر حدیبیہ کے مکان پہ قیام فرمایا اورحضرت عثمانؓ کو قریش کے پاس بھیجا قریش نے انہیں مکے میں ہی قید کرلیااور اتفاق سے یہ بھی بات پھیل گئی کہ حضرت عثمان ؓ کو قتل کردیا گیا جس سے آپ ﷺ کو او ر صحابہؓ کو کافی تکلیف ہوئی آ پ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے ان سے اس بات کی بیعت لی کہ وہ مکہ والوں سے لڑکر حضرت عثمانؓ کے ناحق خون کا بدلہ لیںگے او ر بھاگیں گے نہیں۔آیت :۱۱سے ۱۶؍ تک میں اللہ تبارک وتعالی نے ان لوگوںکا تذکرہ کیا ہے جو عام اعلان کے بعد بھی آپ ﷺ کے ساتھ عمرے کے لئے نہیں نکلے جب آپ ﷺ حدیبیہ کی صلح کے بعد واپس آرہے تھے توآپ ﷺ کو اللہ تبار ک وتعالی نے یہ بیان فرمایاکہ اس کے بعد آپ کو خیبر کے یہودیوں سے مقابلہ کرنا ہے اور وہاں آپ کو فتح ہوگی اور یہ ساتھ نہ آنے والے لوگ فتح اور ما ل غنیمت میں حصہ لینے کی لالچ میں شریک ہونا چاہیں گے اور عمرے کے سفر میں شریک نہ ہونے کی جھوٹی مجبوریاں پیش کریںگے آپ ان سے کہدیں کہ تم اس جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے کیوں کہ اس میں صرف وہی لوگ شریک ہوسکتے ہیں جو صلح حدیبہ میں شریک تھے ہاں اس کے بعد ایک دوسری قوم سے جنگ ہو گی اس میں شریک ہوسکتے ہواگر شریک ہوئے تو اللہ تعالی تمہیں ثوا ب دیں گے اگر اس میں بھی شریک نہیں ہوسکے تو پھر اللہ تعالی تمہیں سخت سزا دیں گے اور یہ بھی فرمادیا کہ یہ لوگ اس جنگ سے روکے جانے اور غنیمت نہ ملنے کی وجہ سے یہ کہیں گے کہ ہم سے حسد کیا جاتا ہے اور ٹھیک یہی ہوا …۔ اس کے بعد سورت کے اخیر تک بیت رضوان ،خیبر میں فتح اور غنیمت ملنے کے وعدے بظاہر مسلمانوں میں ان سے لڑنے کی صلاحیت کے نہو نے،اللہ تعالی کی طرف سے خیبر والوں کے دل میں مسلمانوں کارعب ڈالے جانے ،مکہ میں پر امن طریقے پر داخل ہوکر اطمنان کے ساتھ حج وعمرے کی ادائیگی والے خوا ب کا منافقوں کی طرف سے مذاق اڑا ئے جانے اور اس کے جوا ب اور مسلمانوں کی کچھ بہت ہی اہم خصو صیات کا بیان ہے۔
سورہ ٔ حجرات میںاللہ تبارک نے اسلامی آداب کے بہت ہی اہم حصوں کوبیان کیا ہے جن میں رسول ﷺ سے آگے نہ بڑھنا ،ان کے ساتھ عام لوگو ں کی طر ح زورسے بات نہ کرنا ،خبر بد اور غیر معتبر پہ اعتماد نہ کرنا،مسلمانو ں کے درمیان صلح کرانا اور زیادتی کرنے والی جما عت سے لڑائی کرنا۔جب دو فریقوں کے درمیان لڑائی ہو تی ہے، تواکثر چار طرح کے لوگ سامنے آتے ہیں :ایک تووہ لوگ ہو تے ہیںجن کا اِن دونوںفریقوں میں سے کسی ایک سے کچھ زیادہ مفاد وابستہ ہو تاہے ۔ یہ لو گ اس مفادکی بنیا د پر اپنا اپنا فریق متعین کر تے او راس کے ساتھ مل کر فریق مخالف کے خلاف لڑائی میں شریک ہو جاتے ہیں ۔دوسرے وہ لو گ ہو تے ہیں جو دونوں میں سے کسی کی طرف بھی نہیں ہو تے ۔ بل کہ دونوں کو مختلف انداز سے جھانسہ دیتے ہیں۔ تیسرے و ہ لو گ ہو تے ہیں جن کے یہ دونوں لڑنے والے دشمن ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں لڑکر مر جائیںاور یہ خاموش تماشائی بنے رہیں۔چو تھے وہ لو گ ہو تے ہیں جو اپنی شرافت اس بات میںہی سمجھتے ہیں کہ وہ دونوں کے بیچ میں نہ پڑیں ۔وہ اپنے کام سے ہی کام رکھتے ہیں …۔قرآن ِ کریمنے اپنی جامع اور مانع ، تعلیمِ امن کے ذریعے فتنے کے اِن تمام دروازوں کو بند کردیا ۔ ِچنانچہ پہلی اور دوسری قسم کے ان لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈر ایا او رصلح کرانے کی صحیح کو شش کا حکم دیا ،جو بظاہر تو صلح کے لیے فکر مند نظر آتے ہیں لیکن ببا طن خود اپنے ذاتی ایک طرفہ یا دو طرفہ مفاد کے حصول کے لیے کو شا ں او رغلطاں رہ کر کسی بھی بڑی سے بڑی فتنہ پر دازی سے نہیں چوکتے ۔ان لوگوں سے قرآنِ پاک نے کہا کہ نیت صا ف رکھواور دروغ بافی یا دھوکہ دہی سے مکمل گریزاں رہتے ہوئے ،صلح کے لیے صرف وہی شرطیں او رشکلیں پیش کرو جو حق ہو ں۔جن سے فریقین میں سے کسی کابھی ناحق نقصان نہ ہو۔تم ہر حال میں انصاف اور حق کا ساتھ دوکیوں کہ اللہ تبارک وتعالی صر ف انصاف کرنے والوں کو ہی پسند کر تے ہیںاور نا انصافی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دیتے ہیں…اس وعید میں وہ تیسرا گروپ بھی آگیا جو اس لیے صلح نہیں کراتا کہ دونوں لڑنے والے اس کے دشمن ہو تے ہیں او ریہ ان دونوں کی ہی تبا ہی کے ارادے سے خاموش تماشائی بنا رہتاہے ۔ کیوں کہ یہ گروپ بھی گندے ارادے کو اپنے دل میں چھپائے رہتاہے ۔ قرآ ن پاک نے دوسرا کام یہ کیا کہ اس نے ا پنی اس مبارک تعلیم میں نااتقاقی ،دشمنی یا لڑائی کے درمیان صلح کی کو شش کو مذہبی او راخلاقی فریضہ قرار دیکر ،بلا ’’ضرورت شرعی‘‘ صلح کی بجائے خاموشی کے نظریے کو بھی رد کردیا۔قرآن کریم نے بڑی ہی پیاری بات یہ کہی کہ اگر تمہارے صغے بھائی آپس میں لڑرہے ہو ں ،تو کیا تم اسے برداشت کرلوگے؟ کیا تم انھیں لڑتے چھوڑدینا اپنی شرافت سمجھوگے ؟ اگرتم اپنے بھائیوں کے درمیان لڑائی میں صلح کی کو ششیں کیے بغیر نہیں رہ سکتے، بل کہ صلح کواپنی ضرورت سمجھ تے ہو،تو دنیا جہان کے دوسرے سارے مسلمان بھی تو تمہارے بھائی ہیں، توپھر ان کے درمیان لڑائی میںصلح کرانا کیسے تمہاری ضرورت نہیں ہو گی ؟لہذا اپنی ضرورت سمجھ کر لڑنے والے مسلمانوں میں صلح کرانے کی پو ری کوشش کرو!کچھ صلح کار ،صلح کا طریقہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ کمزور فریق کو لڑائی سے روک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کمزور یہ سمجھ کر کہ اب فریق ثانی بھی کچھ نہیں کر ے گااپنے کام میں لگ جا تا ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طاقتور فریق پھر حملہ کر دیتا ہے۔ا س کے جواب میں جب یہ فریق کچھ کرنا چاہتا ہے ،تو پھر یہی صلح کا ران دندناتے ہوئے اسی کمزور فریق کے پاس پہنچ جاتے ہیں او ردوبارہ اسے ہی تسلی دلاتے ہیں کہ اب آئندہ کچھ نہیں ہو گا۔تم صبر کرو!او ردوسرے فریق سے یا تو کوئی تعرض ہی نہیں کرتے یا ان سے بڑے ادب کے ساتھ لچ لچ کر لڑائی ختم کرنے کی بھیک مانگتے ہیں۔ لیکن پھر یہی ہو تا ہے کہ طاقتور فریق حملہ کر بیٹھتا ہے ۔ قرآنِ پاک ایک طر ف تو حسب ِطاقت صلح کرانے کو ضروری قرار دیتاہے، تو دوسری طرف یہ بھی حکم دیتا ہے کہ دونوں فریقوں کو مکمل قابو میں رکھو! دونوں میں سے کسی کو بھی حملے کا کو ئی موقع نہ دو! اگرکوئی فریق باز نہ آوئے، تو قوتِ قاہر ہ رکھنے والے افراد ،ارباب حل وبسط او ر حکومتوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اسے بیوقوف یا شرپسند کہکر نہ چھوڑ یں! بل کہ اس سے اس وقت تک لڑ تے رہیں جب تک وہ لڑائی سے باز نہ آجائے! کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ جب شروع میں ایک فریق نے ماننے سے انکا رکردیا اور یہاں تک کہ ارباب حل وبسط او رحکومت کے ساتھ بھی لڑائی کر لی، لیکن بعد میں وہ جنگ بندی پر راضی ہو گئے ایسے میں عام انسانوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اسے معاف نہیں کرنا چاہیے یا صلح کے سلسلے میں ا س کے صحیح مطالبے بھی تسلیم نہیں کیے جانے چاہئیں۔ظاہر ہے کہ ایسا کرنا اپنے آپ میں فتنہ اور دوسرے بہت سارے فتنوں کا باعث بھی ہے ۔ اس لیے قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ جب زیادتی کرنے والا گروپ لڑائی سے باز آجائے تودوبارہ ان دونوں کے درمیان صلح کراؤ۔صلح کی پہلی کو شش ہنگا می تھی تا کہ فورا لڑائی کو ختم کیا جاسکے او راب جو صلح ہو گی اس میں تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے کی شکایتوں کو سنکر ان کی آپس کی غلط فہمیوں کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کیا جائے گا۔اسی طرح ایک دوسرے کا مذاق اڑانے ،نا م بگاڑنے ،بدگمانی ،غیبت ،جاسوسی وغیرہ جیسے انسانیت سوز اعمال سے بڑے مؤثر انداز میں منع کیا گیاہے ساتھ ہی تما م دنیا کے انسانوں کا انسان ہونے کے ناطے ا حترام کرنے اور دل سے ایمان لانے کا حکم دیتے ہوئے یہ بیان کیا گیاہے کہ ایمان اللہ کی طر ف سے بندے پہ احسان ہے نہ کہ بندے کی طر ف سے اللہ پہ ۔ سورہ ٔ ق میںاللہ تعالی نے اپنی کئی ایک قدرتوں کو بیان فرماتے ہوئے قیامت اور اس کے بعد ہونے والی چیزوں کا یقینی ہونا بیان فرمایا ہے اور یہ بتلایا کہ انسان کی کوئی بھی چیز ہم سے چھپ نہیںسکتی جس کے لئے بہت سے طریقے بیان فرمائے اسی طرح سورہ ٔ ذرایا ت کی آیت: ۳۰؍ تک قیامت کا منظر بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ حق ہے اور اسے آنا ہے اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم کے پاس فرشتوں کے آنے کا تذکرہ بھی ہے ۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here