Dunya ka koi bhi masoom aur ghair qatil insaan ghalti se bhi hilaak nahi kiya jana chahiye

 

دنیاکا کوئی بھی معصوم اور غیر قاتل انسان غلطی سے بھی ہلا ک نہیں کیا جانا چاہیے

مولانا شاہد معین قاسمی

اس پارے میں سب سے پہلے سورہ ٔ نسا ء کی آیت: ۲۴؍میں یہ بتلایا گیا ہے کہ باندی کے علاوہ کسی بھی ایسی عورت سے نکاح نہیں کیا جا سکتا،جو کسی کے نکاح میں ہو اس کے علاوہ دوسری عورتو ں سے اسلامی شادی کے دیگر احکام کی پابندی کرتے ہوئے نکاح کیا جا سکتا ہے۔جس میں خاص طور سے عورتوں کے مہر کا تذ کرہ ہے۔پھرآیت :۲۵؍ میں فرمایا گیا کہ آزاد عورت سے نکاح کی طاقت ہوتے ہوئے آزاد سے ہی نکاح کرناچاہئے اور اگر باندی سے کرنا ہی پڑجائے تو پھر مسلمان باندی کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان غلامی کی زنجیر سے محفوظ رہ سکیں اور انسانو ں کی صحیح تربیت ہو سکے ۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر باندی سے نکاح کرنے کی نوبت آ جا ئے تو اس میں عار نہ محسوس کی جائے کیوں کہ اللہ تعالی کی نظر میں دین کے معاملے میں باندی اور آزاد دونوں ہی برابر ہیں۔اور دنیا جہان کے سارے انسان آدم اور حوا علہیما السلام کی اولاد ہونے کے لحاظ سے ایک ہی ہیں۔پھر آیت :۲۶سے ۲۸؍ تک یہ بیا ن فرمایا کہ احکام کو تفصیل سے بیان کرنے میں بندوں کا ہی فائد ہے نہ کہ اللہ تعالی کا ۔ کیوں کہ ان پے عمل کرنے سے آخر ت کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی بھی پریشانیوں اوربے چینیوں سے محفوظ رہے گی۔آیت:۲۹؍اور۳۰؍ میں کسی بھی ناجائز طریقے سے مال حا صل کرنے یا ناجائز طریقے سے اسے کام میں لا نے کو حرام قراردیا گیا ہے اور ایسا کرنے والوں کو جہنم کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔اسی طرح خود اپنا یا دوسرے کا جانی نقصان کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔آیت :۳۱؍میں ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی ہمت و حوصلہ کرکے بڑے گنا ہوں سے بچ جاتاہے تو اس کے چھوٹے چھو ٹے گناہ مختلف اچھائیوں کی وجہ سے توبہ کئے بغیر خود ہی معاف ہو جائیں گے۔
آیت :۳۲سے ۳۵؍ تک پہلی بات تو یہ فرمائی گئی کہ اللہ تبارک وتعالی نے مرد وں اور عورتوں میں سے جن کو جو فضیلتیں دی ہیں ان پر انہیںخوش رہنا چا ہیے کیوں کہ دونوں کی فطری طاقت کے لحاظ سے جو الگ الگ خصوصیتیں دونوں کودی گئیں ہیں ان میں سے کسی کو بھی کو ئی چھین نہیں سکتا اس لئے کسی کو بھی دوسرے کوملی فضیلت کی اپنے لئے تمنا نہیں کر نی چاہئے کیوں کہ ایساکرنے سے بلا فائدہ سوائے ذہنی انتشار اور احساس کمتر ی کے کچھ بھی ہاتھ نہیںآتا ۔ہاں فضیلت کی جو چیزیں دونوں لوگو ں کے لئے عام ہیں انہیں زیا دہ سے زیا دہ کر کے ایک دوسرے سے آگے بڑھ سکتے ہیں اس لئے ان میں آگے بڑھنے کی کو شش اور دعا بھی کرنی چاہیے۔ اس آ یت میں انسان کو ایک نسخہ ٔ کیمیا دیدیا گیا ہے جولوگ بھی اس کا استعمال کریں گے وہ ہر طرح کے حسد کی بیماری سے بچ جائیںگے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی صلا حیت کا اند از ہ لگا کر اپنی ہی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی پوری محنت کرنی چا ہئے نہ کہ دوسروں میں مو جود صلاحیت کو اپنے اند ر پید ا کرنے کے لئے پریشان وپشیمان ہونا چاہے ۔ اسی طرح خاص طور سے عورتوں سے یہ کہا کہ ہم نے میراث میں جس کابھی جو حصہ متعین کیا ہے وہ حکمت سے خالی نہیں ہے بل کہ اسی انسان کا فائدہ ہے ۔جب کہ آیت: ۳۴؍اور۳۵؍میں میاں،بیوی اور بچوں پے مشتمل گھر کا انتظام چلانے میں مردوں کی سربراہی کا تذکر ہے اور شوہر وں کو بیویوں کے ساتھ انتہائی درجہ شفقت کامعاملہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے کسی بڑی غلطی کے کرنے پر اصلاح کی امید کی صورت میں انہیں بہت ہی ہلکی سی مار کی اجازت دی گئی ہے لیکن سراہا پھر بھی نہیں گیا ہے۔اور میاں بیوی میں نا اتفاقی کی صورت میںکو ئی بھی نا خو شگوار قدم اٹھانے سے پہلے خود آپس میں مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کرلینے اور بصورت دیگر دونوں خاندانوں کے سمجھد ار اور مخلص ثالث کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
آیت: ۳۶اور۳۷؍ میںاللہ تعالی اور بند وں (ماںباپ،قریبی رشتہ دار،یتیموں،غریبوں،قریب اور دور کے پڑوسیوں،ساتھ کام کرنے والوں،مسافروں اور غلاموں)کے حقوق کی ادائیگی کا تذ کرہ ہے اور تکبر ،بخل اور ر دکھاؤے کی مذمت ہے۔آیت :۳۹ سے ۲۴؍تک یہ بتلا یا گیا ہے کہ اگر لو گ ایمان لے آئیں تو ان کانقصان بہرحال کچھ بھی نہیں ہے ہاں ایمان نہ لانے کا نقصان بہت خطرناک ہے کہ قیامت کے دن ابنیاء ؑ ان کے خلاف اللہ تعالی کے سامنے گواہی دیں گے کہ ہم نے ان کو آپ کا پیغام پہنچادیا تھا ۔اس دن اللہ کا انکار کرنے والے اوراللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے والے لو گ یہ کہیں گے کہ کا ش کہ ہم زمین کے پیوند ہو جا تے اور زمین میں ملا دیئے جاتے ! ۔آیت: ۴۳؍ میں نشے اور ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور پانی کے نہ ہونے کی حالت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیاگیاہے ساتھ ہی اس کا طریقہ بھی بیان کردیا گیا ہے ۔آیت: ۴۴سے ۴۶؍ تک یہود کی شرارت کا تذ کرہ کیا گیاہے کہ وہ ہدایت چھوڑکر گمر اہی کواپنا لیتے ہیں دین کوبدلتے ہیں اور یہ کہتے ہو ئے صاف اند از میں دین کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ہم نے سن لیا لیکن مانا نہیں ۔ حالا ں کہ اگر وہ ادب واحترام کرتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا ۔آیت: ۴۶؍ میں یہود کو بہت سخت وعید سنائی گئی ہے کہ ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں چہروں کے مسخ کی بھی سزا دی جاسکتی ہے ۔آیت :۴۹؍اور۵۰؍مین بلا دینی ضرورت کے ایک انسان کو خود اپنی تعریف اور بزرگی بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔آیت: ۵۱سے ۵۵؍ تک یہ بیان کیا گیاہے کہ یہود بھی شیطان اور بت کو مانتے ہیں اور انہیں ملعون قراردیا گیا ہے اس آیت کا ایک شان نزول بھی بیان کیا جاتاہے جسے بعض مفسرین نے روح المعانی سے نقل کیا ہے اور ابن کثیر ؒ نے مسند احمد اسطر ح کی بات نقل کی ہے (ابن کثیر اور معارف القرآن ۔تفسیر آیت ہذا) اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ لوگ آخری نبی محمدﷺ سے انہیں اللہ کی طرف سے ملی فضیلتوں کی وجہ سے حسد کرتے ہیں تو کیا وہ کسی سے اللہ کی دی ہو ئی نعمتوں کو چھین سکتے ہیں؟ اورکیا وہ اللہ کی حکومت میں حصہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کو اس بات سے منع کردیں کہ جسے یہ نہ چاہیں اللہ تعالی اسے کچھ نہ دیں؟آیت :۵۶؍اور۵۷؍ میں عذاب کی ایک خاص اند از کا تذ کرہ ہے کہ جہنم میں جب جلنے والوں کی کھالیں جل جائیں گی تو دوسری کھالیں تیار ہوجائیں گی۔اور ساتھ ہی جنتیوں کے انعام کا بھی تذکرہ ہے کہ جنت میں ان کے لیے نہریں ہوں گی اور پاکیزہ بیویاں بھی وہ اس میں ہی ہمیشہ رہیں گے۔آیت :۵۷؍ میں پہلی بات تو یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ہر طرح کی امانت کو اس کے حقدار کے حوالے کیا جانا چاہیے اوراس میں خیانت نہ کی جائے جس کی بخاری ومسلم سمیت دیگراحادیث کی کتابوں میں بڑی تفصیلات ہیں اور حضرات مفسرین ؒنے بھی اپنی کتابوں میںانہیں جمع کیا ہے دوسری بات یہ ہے کہ جب مسلمان لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں تو انصا ف کریں چاہے وہ فیصلہ خود آپس میں مسلمانوں کے درمیان ہو یا دنیا کی کسی بھی قوم اور مذہب کے لوگوں کے درمیان اور فیصلہ کسی بڑے مقدمے کا ہویا چھوٹے کا جس کی کچھ تفصیلا ت کل انشاء اللہ چھٹے پارے میں آئیں گی۔ آیت :۵۸؍اور۵۹؍میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو اللہ اور ان کے رسول ﷺ کی خدمت میں لے جائیں ۔ جب کہ آیت :۶۰ سے ۷۰؍تک میں ان لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے جو اپنے معاملات کاحل اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکام کی روشنی میں کرانا پسند نہیں کرتے ۔مفسرین نے اس موقع پہ یہ شان نزول بھی نقل کیا ہے کہ ایک بشری نامی منافق تھاجس کا کسی بات میں ایک یہودی کے ساتھ کچھ جھگڑاہوگیایہودی شاید اس معاملے میں حق پے رہاہو اس کو اتنا یقین تھا کہ محمد (ﷺ) حق والے کے حق میں ہی فیصلہ کرتے ہیں اس لیے فیصلہ تو میرے ہی حق میں ہوگا لیکن منافق بشر نے کہا نہیں ہم اپنا مقدمہ کعب ابن اشرف کے پاس لے جائیںگے جو یہودیوں کا سردار تھا کیوں کہ اس کو معلوم تھا کہ میں حق پے نہیں ہو ں اس لیے محمدﷺ میرے حق میں فیصلہ تو کریں گے نہیں میر ے لیے سزا یقینی ہے لیکن اخیر میں کسی طرح دونوں کا اسی بات پے اتفاق ہوگیا کہ وہ محمد(ﷺ) کے پاس ہی جائیںگے اور وہ گئے آپ ﷺ نے مقدمے کو سننے کے بعدیہودی کو حق پے سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ کردیااور بشر جو اپنے دعوے کے لحاظ سے مسلمان تھا وہ مقدمہ ہارگیا پھر اس نے آپ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اور اس نے اس یہودی کو حضرت عمر کے پاس جانے پے راضی کرلیا اس کو غلط فہمی یہ تھی کہ حضرت عمر ؓتو غیر مسلموں کے معاملے میں بہت سخت ہیں وہ کہاں کسی غیر مسلم کے حق میں فیصلہ کریں گے وہاں تو میرے حق میں ہی فیصلہ ہوگا لیکن معاملہ بالکل الٹا ہوا کہ جب یہ دونوں پہنچے اور یہودی آدمی نے ساری باتیں بتادیں اور یہ بھی بتادیا کہ یہ مقدمہ محمد(ﷺ ) کے پاس بھی جاچکا ہے اور آپ ﷺنے اسکا فیصلہ بھی فرمادیاہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا تم لوگ یہیں بیٹھو میں آتا ہوں پھر اپنے گھر آکر اپنی تلوار لیکر واپس تشریف لائے اور بشر منافق کی گردن اڑادی اور فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو نہ مانے اس کا یہ ہی فیصلہ ہے(معارف القرآن ج؍۲ص۴۵۶؍۴۵۷ بحوالہ روح المعانی بروایت ثعلبی وابن ابی حاتم عن عبد اللہ ابن عباسؓ) اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو مخاطب کرکے یہ فرمایا کہ آپ کے رب کی قسم یہ لو گ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے مقدما ت کے فیصلے آپ سے نہ کروایا کریں اور آپ کے فیصلوں کو مان نہ لیا کریں اور فرمایا کہ ہم نے کسی بھی نبی کو صرف اسی لیے بھیجا کہ اس کی بات مانی جائے ۔اس جملے پے اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تبارک وتعالی نے بڑے غصے اور انتہائی غیر ت کے ساتھ یہ اعلان کردیا ہے کہ دین اس لیے نہیں آیا ہے کہ اس کی چند باتوں کو اس کی نشانی کے طور پہ لے لیا جائے اور بس انہی کو زندہ رکھا جائے۔ نہیں! ہر گز نہیں! بل کہ زندگی کے ہر موڑ پے اور اپنے ہر چھوٹے بڑے انفرادی یا اجتماعی مسئلے میں مسلمان اس پے عمل کریں گے تب ہی ان کا اسلام اور دین مکمل ہوگا اورتب بھی اس دین سے مسلمانوں کا فائدہ ہوگا اور دوسرے انسانوں کو اس کی طرف دعوت ہوگی اس کے علاہ اگر کچھ کیا گیا تو دین کی غلط عملی ترجمانی ہوگی جو اللہ اور اللہ کے رسول کو کس قدر نا پسند ہے اس کا اند ازہ سورہ نساء کی ان دس آیتوں(۶۰سے ۷۰) کے مطالعے سے ہر غیرت مند مسلمان کو بخو بی ہوجائے گا ۔باری تعالی نے اس موقع سے یہ اعلان فرمادیا ہے کہ اگر مسلمانوں نے اپنے مسائل ومقدمات اللہ اور اس کے رسول کے مطابق حل نہ کئے اور دوسرے لوگوں کے پاس گئے تو وہ بہرحال انہیں گمراہ کرنے اور ایسے غلط راستے پے ڈالنے کی کوشش کریں گے جس پے چل کر مسلمانوں کی دنیا اور آخرت دونوں کو بربادی کا سامناہوگا اور وہ گمراہی میں اتنے آگے نکل چکے ہوں گے کہ ہدایت کی طرف لوٹنا ان کے لیے بڑا مشکل ہوگا ۔اللہ ہم سب کی اس گمراہی اور تباہی سے حفاظت فرمائیں اور اپنے ہر طرح کے اختلافی مسائل کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکام کی روشنی میں حل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں ۔ ساتھ ہی صحابہ کرام ؓ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے جنہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ہر حکم پے عمل کرنے کا بار بارنہ صرف اعلان کیا بل کہ جتنے احکام پے عمل کا مطالبہ ہوا ان سب پے عمل کرکے دکھا بھی دیا پھر یہ بھی اشار ہ کردیا گیا کہ صحابہ کرام ؓ کے بعد قیامت تک جو لو گ بھی اسطر ح اللہ کے احکام پے عمل کا عزم رکھیں گے فرق مراتب کے ساتھ انہیں بھی یہ فضیلت حاصل ہوتی رہے گی۔
آیت:۷۱سے۷۴؍تک ان منافقین کی مذمت بیان کی گئی ہے جو ان جنگوں میں شریک نہ ہونے پہ خوشی کا اظہار کرتے جن میں مسلمانوں کو شکست ہوتی اورکہتے کہ اللہ کابڑا فضل ہوا کہ ہم شریک نہ ہوئے اور جن جنگوں میں مسلمانوں کو فتح ہوتی ان میں چوں کہ ان کو مال غنیمت سے حصہ نہ ملتا اس لیے افسوس کرتے ہوئے کہتے کاش کے ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہوتے اور پھر مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انہیں ہمیشہ ایسے لوگوں سے ہراعتبار سے ہوشیار رہنا چاہیے ان کی سازشوں کی خبر رکھنی چاہیے اور ان کے ارادوں و منصوبوں پے نظر رکھنی چاہیے اور ہر لحاظ سے ان کے نقصان سے اپنی حفاظت کا سامان کرکے رکھنا چاہیے ۔آیت:۷۵ اور ۷۶؍ کا خلاصہ یہ ہے کہ مکے میں مجبوری کی وجہ سے گھرے ہوئے وہ مسلمان جو مضبوط ایمان کے باوجود ہجرت نہ کرسکے اور اہل مکہ کی زیادتیوں کا شکار ہورہے تھے وہ اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے کہ ہمیں یہاں سے نکلنے کا موقع عنایت فرمایئے یا یہاں ہمارا مددگار بھیجدیجیئے اللہ تبارک وتعالی نے جہاد کی غرض وحکمت کوواضح کر کے مسلمانوں کو جہاد پے رغبت دلاتے ہوئے فرمایا کہ مظلوموں اور کمزور وں کی ظالموں سے رہائی کے لیے بھلاجہاد کیوں نہ کیاجائے ؟!یہ تو انسان ہونے کے ناطے ایک فطری تقاضہ ہے کہ جب ظالم اور طاقتور لوگ کمزوروں کو اپنی زیادتیوں سے دوچارکررہے ہوں تو ان پے لگام لگانے کے لیے ان کے خلاف جہاد کیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا کہ جہاد کا مقصد صرف اور صرف ظالم کے ہر طرح کے ظلم سے حفاظت اور کمزوروں و مظلوموں کی مدد کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو اگر ایسانہ ہوتو پھر وہ جہاد نہیں بل کہ شیطان کی مدد ہے اور وہ خو داپنے آپ میں ظلم اور اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سازش ہے جس سے اسلام مکمل طورپے بری ہوگا۔ آیت:۷۷سے ۷۹ ؍ تک ان کچھ کچے مسلمانوں کی مذمت بیان کی گئی ہے جوجہاد کے فرض ہونے کے بعد اس میں شریک ہونے سے گھبرارہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کچھ اور دنوں بعد جہاد فرض ہوتا تو اچھا ہوتا۔اور یہ سمجھ رہے تھے کہ جہاد میں شریک ہونے کا مطلب اپنی جان سے ہاتھ دھونا ہے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ حقیقت یہ نہیں ہے بل کہ موت ہر جگہ آئے گی چاہے کوئی کتنی ہی مضبوط مکان میں ہو اور ا س سے حفاظت کے لیے جو کچھ بھی سامان کرلے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان فرمایا کہ انسان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ جو اچھائیاں اور خوشیاں اسے میسر آتی ہیں وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہیں اور جو تکلیفیں آتی ہیں وہ اپنے برے عمل کانتیجہ ہوتی ہیں۔ساتھ ہی آیت :۸۰ میں یہ بیان فرمادیاگیاہے کہ اللہ کی اطاعت کے لیے رسول کی اطاعت شرط ہے جس نے صحیح معنوں میں رسول ﷺ کی اطاعت کرلی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کرلی۔اس کے بعد آیت :۸۱اور ۸۲؍ میں منافقوں کی منافقت کاذکر کیا گیا ہے کہ وہ آپ کے سامنے تو یہ کہتے ہیں کہ وہ آپ کی اطاعت کریں گے لیکن تنہائی میں آپ کی ذات اور آپ کے دین کے خلاف سازشیں رچتے رہتے ہیں تو آپ کو ان سے متاثر نہیںہو نا ہے یہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اور یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں غور کرنے والا اس میں کہیں متضاد چیزیں نہیں پائے گا جو ا س کے اللہ کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے تو یہ لوگ قرآن کریم میں غور کیوں نہیں کرلیتے تاکہ اس کا اللہ کی کتاب ہونا انہیں سمجھ آجائے۔آیت :۸۳؍ میں اللہ تعالی نے ا من عالم کے قیام وبقا کے اسباب میں سے ایک بڑے سبب کی تعلیم دی ہے کہ جب کسی انسان کو خاص طور سے کوئی ایسی خبر معلوم ہو جس سے کچھ لوگوں کے ناحق جذبات مجروح ہوسکتے ہوں ،فتنہ وفسادپھوٹ سکتاہو یا انسانی معاشرے میں دہشت پھیل سکتی ہو تو اس خبر کو شائع نہیں کرنی چاہیے بل کہ اس کی تحقیق کے لیے معاملہ فہم اورماہر اہل علم ودانش کے حو الے کردینا چاہیے ۔علامہ ابن کثیر ؒ کے مطابق ہو ایہ تھا کہ حضرت عمر ؓ کو یہ خبر ملی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کوطلاق دیدی ہے تو آپ ؓ اپنے گھر سے مسجد نبوی کی طرف تشریف لائے جب دروازے پے پہنچے تودیکھا کہ مسجد کے اندر بھی لوگ یہ ہی بات کررہے ہیں حضرت ؓ نے کہا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے اس لیے وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور پوچھ لیا کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے؟آپ نے فرمایا نہیں حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں میں نے یہ تحقیق کرکے مسجد کا رخ کیا اور وہاں مسجد کے دروازے پے کھڑے ہوکرخوب زور سے یہ اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ہے جو آپ لو گ کہہ رہے ہیں وہ غلط ہے اس واقعے کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اور ان تمام لوگوں سے کہا گیا جن ہوں نے اس خبر کی تحقیق کے بغیر اس بارے میں گفتگو شروع کردی تھی کہ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ان کی یہ غلطی ایسی تھی کہ اگر اللہ تبارک وتعالی کا خا ص کرم نہ ہوتا تواس موقع سے اس خبر کے بلا تحقیق پھیلا نے کی وجہ سے فتنہ وفساد ہوتا لیکن اللہ تعالی کا احسان ہو ا کہ حضرت عمرؓ نے بروقت اس کی تحقیق کرلی اور یہ فتنہ دب گیا اور مسلمان شیطانوں اور منافقین کے شرسے محفوظ ہوگئے۔ا س زمانے میں امن عالم کی بقا کے لیے اس آیت پے عمل کرنے کی بڑی سخت ضرورت ہے خاص طور سے مسلم افراد سے لیکر اہل نشر و اشاعت سے قرآن کا ہر وہ قت یہ مطالبہ ہوگا کہ کسی بھی حال میں ان خبروں کو بلا تحقیق اور بلاشدید ضرورت کے شائع نہ کریں جن سے انسانی معاشرے میں فتنہ پید ا ہوسکتاہو اور خاص طور سے ان خبر وں کو جن کی اشاعت سے خود مسلمانوں کا ہی نقصان یقینی ہو۔
آیت:۸۴؍ بدر صغری کے بارے میں ہے جس میں آﷺ کو یہ تعلیم دی گئی کہ ا گر لوگ ساتھ نہ دیں تب بھی ان کو رغبت دلا کر آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں اور آپ باطل کے مقابلے کے لیے نکل جائیں۔آیت :۸۵سے۸۷؍تک دوباتیں بیان کی گئی ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ اچھے کاموں کے لیے اگر کوئی کسی کے حق میں سفارش کرے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اس لیے اس میں جھجکنا نہیں چاہیے اور اگر برے کام کے لیے سفارش کی تو اس کا گناہ ملے گا اس لیے اس کی ہمت نہیں کرنی چاہیے دوسری بات یہ بتلائی گئی کہ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو سلام کرے تو سلام کرنے والے کا جواب یاتو اس سے اچھے انداز میں دینا چاہیے یا پھر کم ازکم جن الفاظ میں اس نے سلام کیا ہے انہیں تو ضرور ہی دہرادیناچاہیے ۔ جواب دینے کی جو مثال حضور ﷺ سے ثابت ہے جسے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف سندوں سے نقل کیاہے اور علامہ ابن حجر نے بھی فتح الباری میںان سب کو جمع کیا ہے وہ یہ کہ جب کوئی السلام علیکم کہے تو جواب کم ازکم وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ سے دیا جائے اور جب کوئی السلام علیکم ورحمۃ اللہ سے سلام کرے تو جواب میںوعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبراکاتہ کہا جائے اور اگر کوئی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے تو اب اس میں کچھ بڑھاکر جواب دینے کی ضرورت نہیں بل کہ اسی کودہر اتے ہوئے یوں جواب دیدیاجائے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تو خلاصہ یہ نکلا کہ افضل سلام وہ ہے جو تینوں کلموں پے مشتمل ہو اور جوا ب بھی ایسا ہی افضل ہے۔ اس کے بعد آیت :۸۸ سے ۹۱ تک جنگ کا اصول بتلایاگیاہے کہ صرف انہیں لوگو ں سے مسلمانوں کے لیے جنگ جائز ہے جو ان پے جنگ مسلط کرتے ہیں یاجنگ مسلط کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں ورنہ جو لو گ خود ہی مسلمانوں سے صلح کرتے ہیں،ان سے صلح کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں یا مسلمانوں سے بھی صلح کرکے رہتے ہیں اور اپنی قوم کے ساتھ بھی صلح سے رہتے ہیں تو ان کے ساتھ جنگ نہ کی جائے بل کہ اللہ کا شکر ادا کیا جائے انہوں نے دشمنوں میں کمی کردی جس سے اسلام کا مزاج بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام کی نظرمیں اصل جنگ کا نہ ہونا ہی ہے اور عام حالتوں میں جنگ کی نوبت نہ آناہی مسلمانوں کے لیے نعمت بتلایاگیا ساتھ ہی یہ بھی بتلادیاگیا کہ اگر کچھ لوگ دھوکہ دینے کے لیے صلح کریں اور بعد میں چل کر صلح توڑدیں اور لڑائی کے درپے ہوجائیں تو ایسے دھوکہ دینے والوں کی خوب خبر لی جائے کہ یہ امن عالم کے لیے زیادہ خطرناک ہیں۔آیت : ۹۲،۹۳اور ۹۴؍ میں یہ بتلایا گیاہے کہ دنیاکا کوئی بھی معصوم اور غیر قاتل انسان غلطی سے بھی ہلا ک نہیں کیا جانا چاہیے اور وہ سارے اقدمات کے گیے ہیں جن سے انسانی جانیں کسی بھی طرح سے ناحق ضائع ہونے سے مکمل طور پے محفوظ رہیں جن کا تفصیلی مطالعہ (انشاء اللہ) یقینا ہر انسان کو اس کا بات کا یقین دلائے گا کہ قرآن کریم انسانی جانوں اور امن عالم کا سب سے بڑ ا محافظ ہے۔ پھر آیت :۹۶؍ مجاہدین صحابہؓ کی غیر مجاہدین صحابہؓ پے فضیلت کو بیان کیا گیاہے۔آیت:۱۰۰؍تک میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر ایک جگہ دین پے عمل کرنا ممکن نہ ہواور دوسری جگہ جاکر رہا جاسکتاہو تو وہاں جاکر دین پے عمل کرنا ضروری ہوگا چاہے کام جو بھی ہواللہ تبارک وتعالی کی دنیا بہت بڑی ہے اگر ایک جگہ ماحول سازگار نہیں تو جہاں ماحول سازگار ہے وہاں جاناہوگا۔آیت :۱۰۴؍ میں خاص کر جنگ اور سفر میں پیش آنے والی دشواری کے حالتوں میں اپنی جان وصحت کی حفاظت کے تعلق سے جو آسا ن اور سنہرے طریقے بتلائے گئے ہیں ان کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام بہ یک وقت انسانوں کی دارین کی فلاح وبہود چاہتاہے۔پھر آیت:۱۱۳؍ تک میں یہ بتلایا گیاہے کہ غلط لوگوں کی حمایت نہ کی جائے اور یہ کہا گیاہے کہ اس کا نتیجہ خود دنیا میں اچھا نہیں ہوتا۔آیت:۱۱۵ ؍تک میں صلح کی اہمیت کو بیان کیاگیاہے بلا علم دین کے معاملے میں حجت بازی سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد پارے کے اخیر تک دوسری اہم باتیں بیان کی گئی ہیں کہ اللہ تعالی شرک کے علاوہ ہر گنا ہ کو معاف کرسکتے ہیں جانوروں کے کان کاٹ کر انہیں چھوڑنا شیطانی عمل ہے یتیموں اور عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیاگیاہے اور میاں بیوی کے درمیان اتفاق ومحبت کے سنہرے اصول بیان کیے گئے ہیں ناگزیر حالات میں علاحدگی کا مشورہ دیتے ہوئے اس کے طریقے بتلائے گئے ہیں ہر حال میں انصاف کی تعلیم دی گئی چاہے اس کا نقصان خو د انصاف کرنے والے کو ہو یا اس کے کسی بھی رشتہ دار یا ماںباپ کو اور یہ بتلایا گیاہے کہ منافقین جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور یہ بھی کہ جب کہیں غلط بات ہورہی ہو تو وہاں سے الگ ہوجانا چاہیے ورنہ گناہ ملے گا اگرچہ خود غلط بات نہ کی جائے۔ �

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here