Jo log hajj ki salahiyat rakhte hue bhi hajj nahi karte wo Allah ta’ala ka koi nuqsan nahi karte

جو لوگ حج کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی حج نہیں کرتے وہ اللہ تعا لی کا کو ئی نقصان نہیں کرتے

مولانا شاہد معین قاسمی

چوتھے پارے کی پہلی آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے اپنے مال میں سے اچھے مال کو خرچ کرنے کی تاکید کے ساتھ نصیحت فرمائی۔پھر آل عمران کی آیت :۹۳؍سے لیکر ۹۵؍تک ایک واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ یہ بیان کیا کہ ہم ابراہیم ؑکے دین پے ہیں تویہود نے اعتراض کیا کہ آپ تو اونٹ کا گوشت کھا تے اور دودھ پی تے ہیں جب کہ ابراہیم ؑ پہ یہ حرام تھا؟آ پ ﷺ نے جواب دیا نہیں یہ ابراہیم ؑپہ حرام نہیں تھا۔یہود نے کہا جتنی چیزیں ہم پے حرا م ہیں وہ تما م کی تمام حضرت نوح ؑاور حضرت ابراہیمؑ کے وقت سے ہی حرام چلی آرہی ہیں۔اللہ تبارک وتعالی نے فرمایاسوائے ایک چیز کے جو یعقوب ؑنے تورات سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلی تھی تمام کی تماچیزیں ان کے اور خود بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں اور یعقوب ؑ تو حضرت ابراہیم ؑ کے بعد کے ہیں تو پھر حضرت ابراہیم ؑکے وقت سے ہی حرام ہونے کا دعوی کیسے صحیح ہوسکتاہے؟اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو تورات ہی میں دکھادو۔اس کے بعد آیت: ۹۶ سے ۹۷؍تک خانہ ٔ کعبہ اور اس سے متعلق چند چیزوں کاتذکرہ ہے اور ساتھ ہی حج کے فرض ہونے کا بھی بیا ن ہے کہ جو لوگ حج کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی حج نہیں کرتے وہ اللہ تعا لی کا کو ئی نقصان نہیں کرتے کیوں کہ اللہ تعالی لوگوں کی عبادت کے محتاج نہیں ۔
آیت : ۹۸ سے ۱۰۵؍ تک مسلمانوں کو لڑانے کی کو شش کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان سے دور رہنے اور ان کی باتوں میں نہ آنے کا مشورہ دیا پھر مسلمانوں کی کامبابی کے دوراز بیان فرمائے پہلا اللہ سے ڈر نا دوسر ا آپسی محبت ۔اگر یہ دو نوں چیزیں مسلمانوں میں پائی جائیں گی، تو مسلمان دنیا کی کسی بھی قوم کے ہاتھوں (انشاء اللہ) نہیں ستائے جائیں گے ۔ساتھ ہی دعوت اسلام کا تذکر ہ فرما کر یہ بتلا دیا کہ مسلمان ایک داعی قوم ہیں اگر انہیں اپنا داعیانہ کردار اد کرنا ہے تو اللہ کا خوف(اللہ تعالی کے ہر حکم پے عمل کرنا ) اور آپسی اتحاد ضروری ہے۔ آیت :۱۰۶ سے ۱۰۹؍ تک یہ بتلایا گیا کہ قیامت کے روز دین صحیح پہ عمل کرنے والوں کے چہر ے نورانی طورپر روشن ہوں گے اور باقی لوگوں کے منحوس اور سیا ہ ہوں گے اس لئے برحق دین ,,اسلام،، کو قبول کرکے اس پے عمل کرنا چاہئے ۔
آیت :۱۱۰ سے لیکر ۱۱۲؍تک مسلم قوم کی تعریف کی گئی ہے کہ اس امت کودوسری تمام قوموں کے مقابلے میں لوگوں کی بھلائی کے لئے پید ا کیا گیا ہے اور سب سے بڑی بھلائی جو یہ قوم کرتی ہے وہ یہ کہ انسانوں کو اچھے کامو ں کا حکم دیتی ہے اور برے کاموں سے روکتی ہے لوگوں کو نقصان دہ چیز سے پچانے کے لئے اقداما ت کرتی اور فائدہ مند کاموں کو کرنے کے لئے ماحول پید ا کرتی ہے۔ آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم مسلمان سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا ہم آج لوگوں کو اچھے کاموں کا سچ مچ حکم د ے پارہے ہیں؟ اور انہیں برے کاموں سے روک پارہے ہیں؟ اور کیا ہم ان دونوں مبار ک کاموں کی انجام دہی کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں؟ خوب واضح رہے کہ قرآن پا ک نے امر کالفظ استعما ل کیا ہے جس کا صاف اور ظاہرمعنی ہے حکم کرنا اور یہ طے ہے کہ حکم کرنے کے لئے حکم کرنے والے کو ان لوگوں میں اپنی حیثیت منوانا ہو گی جنہیں یہ حکم کر رہا ہے ۔اس کے بغیر حکم اپنا الٹااثر دکھا تا ہے ۔اسی طر ح مکمل طورپر برائی سے روکنے کے لئے طاقت و قوت کے استعمال کی بھی ضرورت پڑتی ہے تو کیا آج ہم طاقتور قوم کی حیثیت سے جی رہے ہیں؟باری تعالی نے اسی کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ اہل کتاب دعوت کے کام اور اس کی صلاحیت پیداکرنے میں رکاؤٹ پید ا کرنا چاہیں گے وہ ستانا چاہیں گے لیکن ساری کوششیں کرکے بھی برائے نام ہی نقصان پہنچاسکیں گے جس سے خود دعوتی عمل تو متاثر نہیں ہوگا بل کہ یہ ہی ہمشہ ذلیل رہے ہیں گے اور خاص طور سے یہود ی یہ تو ہر حال میں طفیلی بن کر دوسرے کے سہارے ہی اپنا وجود با قی رکھ پائیں گے کیوں کہ انہوں نے کفر کے ساتھ ساتھ انبیاء علیہم السلام کے نا حق قتل کا بھی نا قابل ِمعافی جرم کیا ہے۔
آیت :۱۱۳ سے ۱۱۷؍تک استثنائی طورپر یہود ونصاری میں سے کچھ لو گوں کا اچھا ہونا بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ کفر کی سزا سے کافر کا مال نہیں بچا سکتا اور اگر وہ لو گ کچھ صدقہ خیر ات کرتے بھی ہیں تو وہ بھی ان کے لئے کارآمدنہیں ہوںگے۔آیت: ۱۱۸سے ۱۲۰؍تک اوس وخز رج کے مسلمانوں کو اپنے پرانے یہودی دوستوں سے جواسلام قبول کرنے کے بعد ا ن کے سخت دشمن ہو گئے تھے دوستی سے منع کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کو ایک عام ضابطہ بتلا دیا کہ کسی بھی ایسی غیر قوم سے دوستی نہ کی جائے جو ان کو پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے درپے ہوجس کے دل میں کچھ اورزبان پہ کچھ ہو۔جو ان کی تکلیف سے خوشی اور خوشی سے تکلیف محسوس کرتی ہو۔آیت: ۱۲۲سے ۱۲۹؍تک جنگ احد کے لئے نکلنے ،بیچ راستے میں منافق عبد اللہ ابن ابی کے اپنے ساتھ تین سو لوگوں کو لیکر واپس آنے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دوجماعتوں: بنی حارثہ اور بنی سلمہ کی ہمت ٹوٹنے پر مسلمانوں کو کی گئی نصیحت کا تذکرہ ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے جنگ ِبدر میں بھی تو تمہاری تعداد بہت کم تھی لیکن اللہ کی مدد سے تم ہی کامیاب رہے ۔پھر جنگ بدر میں کی جانے والی مدد پے تھوڑی سی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ آیت: ۱۳۰سے ۱۳۸؍تک سود خوری کی مذمت بیا ن کرتے ہو ئے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کی تاکید گئی ہے اور یہ بتایا گیاہے کہ اللہ سے ڈرنے کا کیا معیا ر ہے پھر ایسے لوگوں کو جنت کی خوشخبری سناتے ہوئے عام انسانوں کو بھی اس کی کو شش کے لیے رغبت دلائی گئی ہے ۔جب کہ آیت: ۱۳۹سے ۱۴۳؍ تک جنگ احدمیں مسلمانوں کو ہو ئی عارضی شکست پر انہیں حوصلہ نہ ہارنے کی نصیحت کی گئی ہے اور یہ کہکر انہیں تسلی دی گئی ہے کہ اگر تم میں سے کچھ لو گ زخمی ہوئے ہیں تو دشمن کہا ں محفوظ ہیں؟ وہ بھی تو زخمی ہو ئے ہیں پھر یہ کہ خدا کو تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت سے نوازنا اور ایمان داروں کا پتہ لگانا تھا اس لیے عارضی طور پہ تمہیں یہ شکست ہوئی ہے اس لیے اس شکست سے اتنا زادہ شکستہ دل ہونے اور گھبرانے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے ۔اللہ کو جو منظور تھا وہ ہو ااور یہ وقتی ہے آئندہ اگر تم اللہ تبارک وتعالی کے احکام کے مکمل طورپر پابند رہے تو پھرتم اور صرف تم ہی کامیا ب اور غالب رہو گے۔
آیت:۱۴۰ سے۱۵۰؍تک جنگ احد میں اللہ کے نبی ﷺ کی شہادت کی افواہ کو سنکر کچھ مسلمانو ں کی غایت درجہ شکستہ دلی اور بہت زیادہ مایوسی اور منافقین کی طرف سے وسوسہ انگیزی کے نتیجہ میں دوسرے کچھ مسلمانوں کے دین سے پھر جانے کے وسوسے پراللہ تعالی کی طرف سے فورا ہونے والی نصیحت کا تذکرہ ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ ما ن بھی لیا جائے کہ نبی ﷺ شہید کر دیئے گئے ؟ تب بھی اس کی وجہ سے دین سے پھِر ا نہیں جا سکتا ؟ کیوں کہ محمد ﷺ تو ایک رسول کی حیثیت سے میر ا دین لیکر آئے تھے اور ہر رسول، اللہ کا دین اللہ کے بندوں تک پہنچا کر دنیا سے رخصت ہوتا ہی ہے ۔بندوں کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ نبی کی زندگی میں بھی اللہ کی عبادت کریںاللہ کے دین کو باقی رکھنے کے لئے محنت کریں اور نبی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی ،کیوںکہ اللہ تعالی مرنے اور ختم ہونے والے نہیں ہیں اسلئے تم حوصلہ نہ ہارو !اور دیکھو !اس سے پہلے بھی نبیوں کے ماننے والوں کے ساتھ اس طرح کے حالات آئے لیکن جب انہوں نے ہمت نہ ہاری تو کا میابی ان کے ہی ساتھ رہی ۔ اس کے بعد آیت :۱۵۸؍ تک اس جنگ میں مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے ہوئے احسانات کا تذ کرہ ہے اور ساتھ ہی منا فقین کے اس باطل بہانے کی مذمت ہے کہ :ہم جنگ سے اس لئے پھر گئے کہ اس کی حکمت عملی صحیح نہیں تھی اسی وجہ سے یہ جنگ ناکا م رہی جولوگ مارے گئے ہیں اگر وہ نہ نکلتے تو نہ مارے جاتے ۔ا للہ تعالے نے جو اب دیا کہ موت وزندگی تو اللہ کے قبضے میں ہے جو لوگ مارے گئے ہیں وہ جنت میں ہیں اوروہ فائدے میں ہی رہے ۔اس کے بعد، سورت کے اخیر تک اللہ کے نبی ﷺ کا اخلا ق کے اعلی معیار پر ہونا بتلایا گیا اور یہ بھی بتلا یا گیا کہ انسا نوں کی جم غفیر جو آپ پر فد ا ہے اس کی ایک وجہ خو د آپ ﷺکے اخلاق کا اچھا ہونا بھی ہے ۔ساتھ ہی منافقوں کے اس بات کا جواب بھی مذکور ہے کہ ہم نے اچھا کیا کہ اس جنگ سے واپس آگئے ورنہ اگر ہم نکلتے تو ہم بھی مارے جاتے ۔جواب یہ د یا گیا کہ موت سے رہا ئی کہیں بھی نہیں ہے اگر تم سیسہ پلائی ہو ئی دیواروں والے محلوں میں بھی بند ہو جاؤگے تب بھی مو ت آکر رہے گی ۔پھر نیک کاموں میں خرچ کرنے سے مال میں برکت کا تذکرہ ہے اور اللہ کی نشانیوں میں غور کرکے اللہ کو ماننے کی دعوت دیتے ہو ئے اسے ہی اچھے اور نیک بند وں کا عمل بتلایا گیا ہے اور ان میں شامل ہونے کی دعاکی نصیحت کی گئی ہے اور یک بہت ہی اہم بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اسلام میں کسی بھی عمل کا ثواب عمل کرنے والے کی نیت اور اخلاص پے ہوتاہے جو جس قدراخلاص کے ساتھ عمل کرے گا اس کے اس عمل کا ثواب اسی قدر بڑھتا جائے گا چاہے عمل کرنے والا مردہو یا عورت ۔قرآن کریم میںاس سلسلے میں کئی آیتیں مختلف جگہوں پے بیان کی گئیں ہیں جو آئندہ آئیںگی۔بہرحال اس سے ہمارے سامنے اسلام کا وہ نظریہ واضح ہوکر آجاتا ہے کہ اسلام میںمردو عورت دونوں کی اہمیت و عزت اور دونوں کا مقام ومرتبہ یکساں ہے اگر ان کے درمیان فرق ہے تو وہ تقسیم ِکار اور اس کے متعلقات کا نہ کہ خود مردوعورت ہونے کا۔
سور ۂ نساء کی پہلی آیت میں یہ بتلایاگیاہے کہ دنیا جہان کے سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیںاور اللہ تعالی نے ہی انہیں پیدا کیا ہے لہذا جب دنیا جہان کے تمام انسانوں کے خالق ایک اللہ تعالی ہی ہیں اور اصل کے لحاظ سے ان کے ماں باپ بھی ایک ہی ہیں تو پھر انسانوں کے آپس میں نفرت کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہونی چاہیے دنیا جہان کے سارے انسانوں میں محبت کے لیے یہ قابل فخر بات کا فی ہونی چاہیے کہ ان سب کا تعلق بندہ ہونے کے ناطے ایک خد ا سے ہی ہے اس وجہ کو دوسری تمام وجوہات پہ ترجیح دینی چاہیے اور انسانوںکے آپس میں کبھی نفرت نہیں ہونی چاہیے اور اتحاد کی ایک بڑی عملی شکل یہ ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی عزت کریں ان کے حقوق کو ادا کریں اور اس کے لیے ہمیشہ چوکنا رہا جائے۔آیت:۲سے۶ ؍تک کئی باتیں بیان کی گئی ہیںجن میں سے پہلی بات یہ ہے کہ یتیموں کے مال کو نہ تو خو د جان بوجھ کر ضائع کیا جائے اور نہ اسے ضائع ہونے کے لیے چھوڑدیا جائے بل کہ اس کی حفاظت کا جوبھی سامان ممکن ہو وہ کیاجائے حفاظت کی صلاحیت کے باوجود بھی اگر ان کے مال کے ضائع ہونے کی کسی بھی شکل کو برداشت کیا گیا تو یہ بڑا گناہ ہوگا ۔دوسری بات یہ بتلائی گئی کہ اگر کسی مسلمان کو ذرا بھی ڈر ہوکہ وہ اپنی یتیم بیوی کے حقوق انصاف کے ساتھ ادا نہیں کرپائے گا تو وہ یتیم بچی سے نکاح نہ کرے بل کہ غیر یتم سے کرے ۔تیسری بات یہ بیان کی گئی کہ ایک مسلمان کے لیے بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے لیکن اس وقت جب کے وہ ہر ایک کے ساتھ انصاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور شادی کے بعد عملی طور پہ انصاف کرتابھی ہو۔ چوتھی بات یہ بتلائی گئی ہے کہ عورتوں کوا ن کے مہر دیئے جائیں اور اگر وہ خودہی بلاکسی دباؤ کے شوہر وں سے نہ لیں یا لیکر پھر انہیں واپس کردیں تو یہ ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
اس مو قع سے ایک بہت ہی اہم اور بڑے ہی پتے کی بات یہ کہی گئی ہے کہ مال کی تمام جائز قسمیں زندگی کا سرمایہ ہیں ان پے ظاہر کے لحاظ سے زندگیاں ٹکی ہوئی ہیں ان کو کسی بھی طرح سے ضائع نہ ہونے دیاجائے نہ تو یتیموں کے حوالے خود ان کا مال بھی ان کی اس عمر سے پہلے کیا جائے جس میں عام طور پے ایک انسان تجربہ کا ر ہوجا تا ہے، اور نہ ہی اپنا مال اپنے بچے وغیر ہ کو دیا جائے اگر اس بات کا خطرہ ہو کہ اس کا استعمال صحیح نہیں ہوگا اگر مال حوالے کیا گیا تو یہ ایسی بیوقوفی ہوگی جس کا نقصان خود حوالے کرنے والے کو بھی ہوگا اور جس کے حوالے کیا جائے گا اسے بھی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میںیہ حکم دیاگیا ہے کہ کوئی مسلمان اپنا پورا مال کم عقل بچوں یاعورتوں کو دیکر خود محتاج نہ ہوجائے بل کہ اللہ تعالی نے مسلمان مردوں کو منتظم بنایا ہے ان کو چاہیے کہ اپنا مال اپنے پاس رکھے اپنے بچوں اور عورتوں کو ان کی ضرورت کے مطابق اس میں سے دیتے رہیں یہاں تک کہ اگر وہ مطالبہ بھی کریں پھر بھی ان کے حوالے نہ کیاجائے بل کہ انہیں مناسب طریقے سے سمجھادیاجائے یہی تفسیر حضرت ابو موسی اشعری سے بھی نقل کی گئی ہے اور اسے ہی امام التفسیر حافظ طبریؒ نے بھی اپنایا ہے جس میں وہ سارے لوگ آ جاتے ہیں جن کو مال دینے کی صورت میں نقصان کا خطرہ ہو ،چاہے وہ اپنے بچے ہوں یاتیم بچے اور چاہے وہ مال ان بچوں اور یتیموں کا اپنا ہو یا حوالے کرنے والوں کا۔میرے علم میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زمینیں اور دوسرے سرمائے اپنے بیٹوں کے نام کردیئے اور قانونی طور پے انہیں ان کا مالک بنادیا جس کا خطرنا ک نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ان کا اسطرح غلط استعمال کیا کہ تھوڑے ہی دنوں بعد خود یہ بیٹے اور ماں باپ دونوں ہی بے سہارا ہوگئے اور یہ تو بہت زیادہ دیکھنے کو ملا کے بیٹوں نے اپنے اپنے راستے لیے اور ماں باپ چند روپوں کی دوا تک کو بھی ترس کر مرگئے !!! ابھی حال ہی میں ایک مثال ایک ایکلو تے بیٹے کی سامنے آئی جس کے باپ نے اس پے اعتما د کرکے اپنی صحت کے زمانے میں ہی اپنا سب کچھ اس کے نام کردیا لیکن جب صحت گری تو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی میاں بیوی جس مفلسی کے شکار ہوئے وہ ناقابل بیان ہے !!! اس لیے خاص طور سے اس زمانے میںاللہ تعالی کے اس حکم پے عمل کرنے کی بڑی سخت ضرورت ہے کہ ماں باپ اپنی زندگی میں اپنے سرمایہ ٔحیات کو مکمل طور پہ اپنی اولاد کے حوالے نہ کر یں اور خا ص کر قانونی طور پے انہیں مالک نہ بنائیں جب تک کہ کوئی بہت بڑی اوریقینی مصلحت و فائدہ سامنے نہ ہو مگر ایسی مصلحت کے وقت میں بھی صاحب ِبصیر ت علماء کرام سے مشورہ کر کے ہی کچھ کرناچاہیے ۔یہ خوب واضح رہے کہ اگرچہ قرآن پاک کی یہ آیت ایک خاص پس منظر میں ضرور نازل ہوئی ہے لیکن اس کا حکم عام ہوگا اوراپنے بچوں کے علاوہ بھی بدرجے اولی کسی بھی ایسے شخص، کاروبار کے ساتھی یا کسی کمپنی کو اپنا مال دینا جہاں اس کے خسارے کا خطر ہو یا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو اسی حکم کے تحت آئے گا۔ اس لیے ہمیں اپنا مال کسی کے حوالے کرنے سے پہلے یہ خوب سوچ لینا ہوگا کہ ایسا تو نہیں کہ اگر ہم خود اس میں محنت کریں تو زیادہ فائد ہ ہوگا؟ اگر ایساہوتو پھر اس میں ہمیں ذاتی طور پہ ہی محنت کرنی چاہیے۔ مال کی اسلام میں کیا اہمیت ہے اس کے لیے بخاری شریف (ج؍۱ص ۳۳۷ ) اور مسلم شریف (ج؍۱ص۸۱) کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔اس کے بعد پارے کے ختم تک انسانوں کی آپسی اتحاد کی وجہ ،نکاح، طلاق،میراث کے اسلامی نظام کا مفصل بیان ہے جو بڑا ہی جامع اور انتہائی مؤ ثر ہے ۔ �

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here