Surah Fatiha me is aqeede ki taleem di gayi hai k Allah bahot bade hain

 

سورۂ فاتحہ میں اس عقیدے کی تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ بہت بڑے ہیں

مولاناشاہد معین قاسمی

اس پارے میں سب سے پہلے سورہ ٔ فاتحہ ہے جسے نمازِجنازہ کے علاوہ ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتاہے ۔اس میں اس عقیدے کی تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ بہت بڑے ہیں انہوں نے ہی نہ صرف ہماری اس دنیا کو بل کہ اس کے علاوہ ان گنت دنیا کو پید ا کیا اور ان ہی کے قبضہ ٔ قدرت سے سب کا نظام چل رہا ہے ۔اسی طرح اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت اسے سیدھے راستے کی ہدایت مل جانا ہے اس لئے ہر ایک کو پوری زندگی اپنی ہدایت کے بارے میں بہت ہی حساس رہنا چاہئے اور اللہ تعالی سے اس کے لئے زندگی بھر خوب دعا کرنی چاہئے ۔ساتھ ہی سیدھے راستے کے بارے میں یہ اشارہ بھی فرمادیا گیاکہ سیدھا راستہ مجموعہ ہے۔ قرآن پاک ،نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے قول وفعل اور آپ کے شاگردوں کی عملی اور قولی تشریح سے ثابت ہونے والے راستے کا۔ اگر کسی نے سیدھی راہ کی تلاش میں ان تینوں میں سے کسی ایک کو بھی نظر اند از کیا تو یہ اس کے لئے نقصان دہ ہو گا۔
پھر سورۂ بقرہ کی پہلی آیت سے ۲۹؍ تک اللہ کو ایک ماننے ،صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہی عبادت کرنے ،ماں باپ اوردوسرے رشتہ داروں سمیت کمزوروں اور یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے ،وعدوں کو پورا کرنے اور صحابہ کرام کونمو نہ ٔ عمل بنانے کی تعلیم دی گئی ہے۔انسانوں کو نصیحت کر تے ہوئے آیت؍ ۳۰ سے؍ ۳۹ تک حضرت آدم ؑ کی پیدائش ، علم وحکمت کی دنیا میں ان کی تمام فرشتوں پرفضیلت، فرشتوں سے ان کا سجدہ کروانے ، اور بیوی حضرت حوا ؑ کے ساتھ انہیں جنت میں ٹھہرا نے کا تذ کرہ کر کے یہ بتایا کہ تم انسانوں کو اس خد ا پہ ایمان لانا چاہئیے اور اس کے حکموں کو ماننا چاہئے جس نے تم سب کے باپ آدمؑ کو جناتوں اور فرشتوں پہ فضیلت بخش کر بالواسطہ تمہیں بھی بڑائی عطاکی۔ اس کے ساتھ ہی خا ص کر یہودیوںکو توجہ دلاتے ہوئے انھیں وہ احسانات یا د دلائے گئے جو ان کے با پ داداؤں کے ساتھ اللہ تعا لی نے کیے تھے جیسے :فرعو ن اور اس کی قوم کی غلامی اور فرعون کے سپاہیوں کے ہاتھوں ان کے بچوں کے قتل،ان کی عورتوں سے بے ر حمی کے ساتھ کام لینے ،فرعون کی طرف سے حضرت موسی کے خلاف تعاقب کے وقت سمندر میںان کے لئے راستے بنا نے اورفرعون کو اس کی قوم سمیت سمند ر میںڈبو دینے ، حضرت موسی کی قوم بنی اسرائیل کی طرف سے بچھڑے کی پرستش پہ انہیں آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم ،اللہ کی طرف سے دی گئی کتاب کو ماننے کے لئے اللہ کو کھلی آنکھوں دیکھنے کے مطالبے کی سزا میں موت کے بعد زندہ اٹھادینے،اپنے نبی کے ساتھ جہاد سے انکار پر تیہ کے میدان میں روک لئے جانے کے زمانے میں دھوپ سے بادلوں کا سایہ عطا کرنے،غذا کے لئے من و سلو ی جیسی لذیذ غذا بغیر محنت ومشقت کے مہیا فرمانے اورپا نی کی ضرورت کے لئے ان کے بارہ قبیلوں کے لئے الگ الگ چشمے جاری فرمانے جیسے احسانات کو گنو ایاجو آیت ؍۴۰سے ۶۱؍میں بیان کیئے گئے ہیں ۔
اس کے بعد آیت ۶۲؍ میں اسلام کا مطلب بتاتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ اسلام نا م ہے اللہ کے حکم کو ماننے کا ۔اگرکو ئی انسان اللہ تعالی کے حکم کو مانتا ہے تو چاہے دنیا کے جس خطے سے بھی اس کا تعلق ہو اور وہ جس ذات و برادری کا بھی ہو ،وہ مسلمان ہے اور اس کا عمل اسلامی ہے۔اور ساتھ ہی آیت ؍۶۶ سے ؍۷۳ تک ایک خاص واقعے کا تذ کرہ کیا جو یہودیوں کے باپ داداکے زمانے میں پیش آیا تھاکہ حضرت موسی ؑ کے زمانے میں ہی ایک بے اولاد ما لدار شخص تھا اس کا بھتیجا اس کے مال کا وارث بننے والا تھا اس نے اسے قتل کرکے چپکے سے اس کی لاش ایک شخص کے دروازے پہ رکھدی اور صبح ہوتے ہی ہنگامہ کرنے لگا کہ تم لوگوں نے ہی میر ے چچا کو قتل کیا ہے اس لئے تم ان کے قتل کابدلہ دو۔ اور ان کے انکا ر کرنے پر اس نے اپنے لوگوں کو ان کے خلاف جمع کردیا۔ پھر جب حضرت موسی ؑ کے پاس مقدمہ پہنچا تو حضرتؑ نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اے اللہ قتل کرنے والے کا راز کھولدیجئے ۔اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ان سے کہو کہ ایک گائے ذبح کرکے ا س کا گوشت مردے کے بدن سے لگائیں مردہ خو د ہی زندہ ہو کر یہ بتادے گا کہ اسے کس نے قتل کیاہے۔لیکن جب حضرت موسی ؑ نے یہ بات بتلائی تو ان لوگوں نے اسے مذ اق سمجھتے ہو ئے یہ کہا کہ یہ معلوم کرلیں کہ وہ گائے کیسی ہو؟اللہ رب العزت کی طرف سے جواب ملا کہ درمیانی عمر کی ہونی چاہئے ۔پھر سوال کیا کہ یہ بھی معلوم کرلیں کہ گائے کا رنگ کیسا ہونا چاہئے ؟ جواب ملاکہ رنگ پیلا ہونا چاہئے جو بھڑکدار ہو اور گائے دیکھنے والوں کواچھی لگے ۔ ان لو گوں نے پھر سوال کیا کہ کس قسم کی گائے ہونی چاہئے ؟ جواب ملا کہ نہ کام کاج کرنے والی ہو اور نہ ہی اس میں داغ دھبہ ہو۔(خیر! اس طرح کی گائے بہت تلاش کے بعد ایک جگہ ملی۔ گائے والے نے کہا کہ اس گائے کی قیمت اتنے سونے ہو ں گے جتنا کہ اس کی کھال میں سما سکیں۔ اب کو ئی چارہ تو تھا نہیں اللہ تعالی سے سوال کرکرکے گائے کی خصوصیتوں میں اضافہ کروالیاتھا اور دوسری کوئی گائے ایسی کہیں اور تھی بھی نہیں کہ دوسری جگہ جاکے کچھ کم قیمت میں لے لیتے اس لئے )انہیں یہ ہی مہنگی سے مہنگی گائے خریدنا پڑی ۔ خیر!ذبح کے بعد اس کے گوشت کے ٹکڑے کومردے کے بدن پر مارا گیا تو وہ زندہ ہو گیا اور پوچھے جانے پر اس نے بتلا یا کہ میر ے بھتیجے نے ہی مجھے قتل کیا تھااور بتلا کرپھر مرگیا ۔اس طرح اللہ تبارک وتعالی نے اپنے نبی کے ذریعے سے یہودیوں پر احسان کیا کہ انہیں اس مسئلے میں لڑنے بھڑنے سے بچا دیا(ابن کثیر اور دیگر ۔ تفسیرآیت ہذا)لیکن اس احسان پر بھی انہوں نے اللہ پر ایمان قبول نہیں کیا۔ان کے دل کی اسی سختی کو بیان کرتے ہوئے آگے اللہ تبارک وتعالے نے فرمایا کہ تم پتھر سے بھی زیادہ سخت دل ہو کیوں کہ کچھ پتھر اللہ کے ڈرسے اتنا روتے ہیں کہ ان سے نہریں بہنے لگتی ہیں ،کچھ وہ ہیں کہ ان کے رونے کی وجہ سے ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے اپنی جگہ سے گر جاتے ہیں۔
اس کے بعد آیت ؍۱۰۳ سے۱۱۳؍ تک انہی کی چند غلط عادتوں اور شرارتوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ ان یہودیوں نے ہزاروں انبیاء ؑ کی نہ صرف گستاخی کی بل کہ انہیں قتل بھی کیا اسی طرح وہ اللہ کے آخری نبی محمد ﷺ کو ایسے جملے سے پکار تے تھے جس کا معنی اچھا بھی تھا اور برا بھی۔وہ اللہ کے نبی ﷺ کو راعنا کے لفظ سے بلاتے تھے جس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اے نبی ہمارا خیال کیجیے !ہماری طرف توجہ فرمائیے!لیکن دوسر امعنی ہے اے ہمارے چرواہے یہ لوگ یہی دوسرا معنی لیتے اور اند رہی اندرآپ کا مذاق اڑاتے ۔ کچھ مسلمان بھی پہلے معنی کا لحاظ کر کے آپ کی عزت کے ارادے سے اس لفظ سے آپ کو پکار نے لگے اس سے ان شریر لو گوں کو اور ہی موقع ملااور آپس میں خوب خوش ہونے لگے کہ اب تو خو دمحمد کے ماننے والے بھی ان کا مذاق اڑ ا رہے ہیں(نعوذ باللہ!) اللہ تعالی نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کوراعنا کی بجائے انظرنا کے لفظ سے آواز دیں ۔
آیت ؍۱۱۴؍۱۱۵؍ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا گیا تو خاص طور سے یہود و نصارا اور دوسرے لوگوں نے اسلام پہ اعتراض کرتے ہوئے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے با رے میں شک و شبہ پیدا کرنا شروع کیا جس کا لازمی نتیجہ مسلمانوں کا دین سے پھرنا اور مسجد وں کا ویر ان ہونا تھا۔اسی طر ح عیسائی بادشاہ ططوس بن اسیسیسانوس رومی اور اس کے پیرو کا ر نے یہودیوں کی دشمنی میں بخت نصر باد شاہ کی مددکی اور سب نے مل کر یہودیوں کو خوب قتل کیا ان کے بڑے بڑے سواروں کو گرفتار کرلیا اور تورات کو جلادیا اور بیت المقدس کو اجاڑڈالایہی نہیں بل کہ اس میں خنزیر ذبح کئے اورسڑی ہوئیں لاشیں بھی ڈالدیں اس افرا تفری کے ماحول میں بیت المقدس میں نماز بھی نہیں ہوئی ۔اسی طر ح مکہ کے غیر مسلموں نے آپ ﷺ کو مسجد حرام سے روکا۔آپ کو بیچ راستے سے واپس کیا جس کاواقعہ صلخ حدیبیہ سے مشہور ہے۔ اللہ تبارک وتعالی کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قبلے کا بدل جانا برا نہیں ہے بل کہ بر ا لوگوں کو اللہ کی عبادت سے روکنا اور مسجدوں میں اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا ہے اور تم سب لوگوں نے یہ غلطی کی ہے۔ پھر آیت ؍۱۲۰ میں باری تعالی نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ یہ یہود و نصاری کسی بھی قیمت پے تم سے خو ش نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ان کے دین کو قبول نہ کرلو،چاہے تم ان سے جتنی بھی ہمدردی کرو جب تک تم دین اسلام سے نہ پھر جاؤ اس وقت تک وہ تمہارے پیچھے لگے رہیں گے تم صاف کہدو کہ دین تو اللہ تبارک وتعالی ہی کاقبول کیا جائے گااور اس سلسلے میں ان سے ذرا بھی نرمی نہ کرو ! اس کے بعد پارے کے ختم ہونے تک حضرت ابر اہیم اور اسماعیل کے ذریعے کعبے کی تعمیر اور مکہ کے آباد کیے جانے کا واقعہ اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم اور یعقوب ؑ کی طر ف سے اپنے بیٹوں کو اسلام پہ باقی رہنے کی وصیت کا بیان ہے ۔
m m

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here