Hazrat Dawood tamam nemato aur badayi wali cheezo ko apne andar sametne ke baad bhi bahot mutawazey the

 

حضرت داؤدؑ تمام نعمتوں اوربڑائی والی چیزوں کو اپنے اندر سمیٹنے کے بعد بھی بہت ہی متواضع تھے

مولانا شاہد معین قاسمی

تیئیسویں پارے کے شروع میں بھی اسی قصے کے باقی حصے کا بیان ہورہا ہے جو ۲۲؍ویں کے اخیر میں شروع ہو اتھا کہ ایک گاؤ ں میں اللہ کے دو رسو ل آئے دونوں کو گاؤں کے لوگوں نے جھٹلا دیا توان کی مدد کرنے کے لئے اللہ پا ک نے ایک تیسرے کو بھیجا سب نے یہی بات کہی کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں تم ہماری بات کو مان لوگاؤں کے لوگوں نے کہا ہم میں اور تم میں کیا فرق ہے آپ لوگ تو ہمارے ہی جیسے انسا ن ہیںاور اللہ تعالی نے کچھ اتار ا نہیں ہے آپ لوگ سو فی صد جھو ٹ بولرہے ہیں ان لوگوں کے جو اب میں ان حضرات نے یہ کہا کہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ہم جھوٹے ہیں یا سچے اور بھائی اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے ہم نہیں آئے ہیں ہمارا کام توبس اللہ کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک پہنچادینا ہے ان لوگوں نے جواب یہ دیا کہ ہمیں آپ لوگ منحوس معلوم ہوتے ہیںآپ کی وجہ سے ہمارے لئے مسائل کھڑے ہورہے ہیں ان حضرات نے فرمایا نہیں بل کہ جو کچھ ہورہاہے وہ تمہارے گناہوں کے نتیجے میں ہی ہورہا ہے ان لوگوں کے درمیان یہ سب باتیں ہوہی رہی تھیں کہ ایک شخص شہر کے کسی کنارے سے آیا اور اس نے ان لوگوں کی بھر پور تائید کر تے ہوئے تقریر کی اور کہا ائے میری قوم کے بھائیو! تم اللہ کے بھیجے ہوئے انسانوںکی بات مانودیکھو ان کی کوئی غرض اور ضرور ت تم سے وابستہ نہیں ہے یہ صرف تمہارے فائدے کے لئے ہی تمہیں نصیحت کررہے ہیں جہاں تک میری بات ہے تو میں تو ان کی باتوں کو مان کر اللہ تعا لی کی عبادت کرتاہوں اور بھلا کیوں نہ اس ذات کی عبادت کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور تمہیں بھی اسی کی طرف لوٹنا ہے ؟! کیا میںاس ذات کے علاوہ دوسرے کچھ معبود بنالوںاور اگر میں ایسا کر بھی لوں تو کیا یہ معبود مجھے اس نقصان سے بچالیں گے جو اللہ تعالی پہنچا نا چاہیں کیا ان کی سفارش سے میر ا فائدہ ہوگا؟نہیں !پھر کیا میں ایسا کرکے گمر اہ نہیں ہوجاؤں گا؟ میں تمہارے رب پہ ایمان لاچکاہوں اس لئے تم بھی ایمان لاؤ(لیکن اس کا لوگوں پہ کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ یا تو انہوں نے اسے پتھر سے مارکر ختم کردیا ،آگ میں جلا ڈالا یا پھر گلاگھونٹ ڈالا (بیان القرآن عن الدر المنثور ) اسو قت اسے جنت کا مشاہدہ کرایاگیا تو اس نے موت کے عالم میں بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی فکر نہ چھوڑی چناں چہ اس نے تمنا کی کہ کاش میں جو کچھ دیکھ رہاہوں وہ سب میری قوم کے لوگ بھی جان لیتے تو ایمان لے آتے خوب واضح رہے کہ یہ کس گاؤ ں کا واقعہ ہے ا س کے بارے میں نہ تو قرآن میں بیان کیا گیا ہے اور نہ ہی حدیث میں البتہ اس شخص کے قصے سے اللہ تبارک وتعالی نے یہ بتلانا چاہاکہ ایک تو وہ شخص تھا جس نے شہر میں رہنے کے باوجود اللہ کے نبیوں پہ یقین کیا اور وہ خود ہی داعی بن گیا اور ایک یہ لوگ تھے کہ شہر میں رہتے ہوئے اور نبی کے بار بار کہنے کے باوجود جھٹلا تے رہے ۔بہر حال جوایمان قبو کر کے داعی بن گیا اللہ تعالی نے فورا ہی ا س کی آخرت بنا دی اور دنیامیں ہی ا س نے جنت دیکھ لی۔ اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ جب یہ سب کچھ ہوگیا تواس گاؤ ں کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے لئے مجھے کسی بڑی فوج یا فرشتوںکی جماعت کی ضرور ت نہیں پڑی بل کہ ایک چیخ کے ذریعے میں نے ان سب کوہلاک کروادیااور اس طر ح دوسری بہت ساری قوموں کو بھی ہلا ک کردیا ۔اس کے بعد سورت کے اخیر تک اپنی بہت سی نشانیوں کو بیان فرماتے ہوئے ایمان واسلام کی اہمیت کو بیان فرمایاہے۔
سورہ ٔ صافات کی شروع کی: ۱۰؍آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے شیطانوں اورجناتوں کو فرشتوں کے ذریعے پٹنے کا تذ کر ہ فرمایا ہے جس کا خلاصہ بخار ی ومسلم شریف کی حدیث کے مطابق نبی ﷺ کی زبانی یہ ہے کہ جب آسمان پہ کوئی حکم ہوتا ہے تو خوف کے مارے ملائکہ تھرا جاتے ہیں پھر ایک دوسرے سے دریافت کرتاہے اور اوپرکے طبقے سے لیکر نیچے کے طبقے والے ملائکہ تک درجہ بدرجہ وہ بات پہنچتی ہے نیچے کے طبقہ والوں سے شیاطین کوئی بات اڑالے جاتے ہیں اور اسے جادوگروں یا بھتنیوں والوں کو پہنچاتے ہیںوہ ایک سو باتیں ملا کر مشہور کرتے ہیںپھر کبھی یا اکثر ستارہ ان کے پیچھے دوڑتاہے اور انہیں جلادیتاہے اور وہ کلمہ جادوگروں کو پہنچادیتاہے تو گویا کہ فرشتوں کی پٹائی کی وجہ سے یا تو اب جانے کی ہمت ہی نہیں کرتے اور اگر کوئی چلابھی گیا تو اکثروہ ختم ہی ہوجاتاہے ان آیتوں کو بیان کرکے اللہ تبارک وتعالی نے یہ فرمایا کہ جن ستاروں کو تم ہمارے ساتھ شریک کرتے ہووہ ہماری مخلوق ہیں ہم ان کااستعمال اپنے فرشتوں کے ذریعے سے کرواتے ہیں اور جن شیاطین کو تم مانتے ہواُن کی اِن ستاروں کے ذریعے درگت بناتے ہیں ان کی یہیںاسی دنیا میں ہی دھنائی ہوتی ہے اس لئے مجھے چھوڑکر ان کی عبادت بالکل ہی عقل کے خلاف ہے ۔پھر فرمایا کہ ذرا ان سے پوچھئے کہ جن ستاروں کو ہم نے پید ا کیا اور پھر ہم انہیںختم کردیتے ہیں وہ زیادہ طاقتور ہیں یا انسان جنہیںہم نے چپکنے والی مٹی سے پید اکیا؟اس کے بعد سورت کے اخیر تک اللہ تعالی نے اپنی نشانیوں کو بیان فرماتے ہوئے حساب وکتاب کے بعدمسلمانوں کے جنت میں رہنے ،جنت کی نعمتوں میں رہکر ان کا آپس میں لطف کے ساتھ ایک دوسرے سے بات کرنے اور جہنمی ساتھیوں کو یاد کرکے انہیں جہنم میں دیکھنے، جہنمیوں کا حال اور جہنم کے تفصیلی عذاب کے بیان کے ساتھ ہی حضرت نوح ،ابراہیم ،لو ط اسماعیل ،موسی وہارون اور حضرت یونس کا تذکر ہ بھی فرمایا ہے جو اس سے پہلے کے پاروں میں کئی بار آچکے ہیںیہاں حضرت اسماعیل کی قربانی اور حضرت یونس کے مچھلی کے پیٹ سے نکالدئے جانے کے واقعے کاخلاصہ لکھا جاتاہے :
حضرت اسماعیل ؑ کے ذبح کا واقعہ :آیت: ۱۰۲سے ۱۱۳؍تک یہ بتلایا گیا ہے کہ جب حضرت اسماعیل (جو حضر ت ابراہیم کی ۸۶؍برس کی عمر میں پیدا ہوئے ) اتنے بڑے ہوگئے کہ وہ اپنے باپ حضرت ابراہیم کے ساتھ کہیں آئے جائیں اور اچھی بری چیزوں کو سمجھنے لگیں تو حضر ت ابراہیم نے خواب میں یہ دیکھا کہ آپ اسماعیل ؑ کو ذبح کرہے ہیں تو آپ فوراً تیا ر ہوگئے کہ جب اللہ کاحکم ہے تو مجھے تو اس پہ عمل کرنا ہی کرنا ہے لیکن ذرا اسماعیل سے بھی پوچھ لیںکہ وہ ذبح ہونے کے لئے تیا ر ہو ں گے یانہیں جب حضرت اسماعیل سے پوچھا تو حضرت نے جو ابدیا کہ اباجان جب اللہ تعالی نے آ پ کو حکم دیاہے تو پھر مجھ سے پوچھنے کی بالکل ہی ضرورت نہیں ہے بس آپ عمل کرجائیں ان شاء اللہ میںصبر کرکے آپ کی پوری مدد کروں گا۔جب دونوں لوگو ں نے اللہ کے حکم پہ عمل کرنے کی ٹھان لی تو حضرت ابراہیم ؑ اپنے بوڑھاپے کی لاٹھی ۸۶؍ سال کے آرزؤں کے بعد حاصل ہونے والے لخت جگر کو لٹا کراس کے گلے پہ چھر ی پھیر نا شروع کردی لیکن چوں کہ اللہ تعالی کو صرف ان دونوں حضرات کواپنے قریب کرنے کے لئے ہی آزمانا تھا نہ کہ اسماعیل کو ذبح کروانا اس لئے اتنا کرتے ہی اللہ تعالی کی طرٖف سے آواز آئی ائے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کردکھلایا اب یہ دنبہ لو اور اس کی قربانی کروتو حضر ت ابراہیم ؑ نے وہ دنبہ ذبح کیا پھر انہیں یہ بشار ت ملی کہ آپ کو رہتی دنیا تک بعدمیں آنے والے لوگ سلام بھیج تے رہیںگے اور یہ بھی بیان فرمایا کہ اس کے بعد ہم نے ابراہیم کو اسحق کی بشارت دی اور ان دونوں کی اولاد میںبرکت رکھی۔
حضرت یونس کا مچھلی کے پیٹ سے نکالا جانا: آیت :۳۸سے ۱۴۰؍ تک حضرت یونس کے اپنی قوم کو چھوڑ کر آجانے سے لیکر کشتی سے نکل کر پھر اپنی قوم میںجانے کاواقعہ بہت ہی مختصر طریقے سے بیان کیاگیا ہے کشتی سے نکالدئے جانے کا تذ کرہ ۱۷ ویں پارے میں سورہ ٔ انبیا کی آیت: ۸۷،۸۸؍ میں بیان ہو چکا ہے اس لئے یہاں صرف نکالے جانے کے بعد کے واقعے کی طرف روشنی ڈالی جاتی ہے ۔اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ اگر یونس اللہ کی تسبیح نہ بیان کرتے تو وہ ومچھلی کے پیٹ میں ہی قیامت تک رہ جاتے اور قیامت کے روز اسی کے پیٹ سے نکالے جاتے(اگر ایسا ہوتا تو یہ قیامت کے دن کا الگ ہی منظر ہوتا کے دنیا کے دوسرے انسان اپنی اپنی قبروں سے نکالے جاتے اور تنہا حضرت یونس مچھلی کے پیٹ سے) لیکن انہوں نے تسبیح بیان کی اور اللہ تعالی نے تو بہ قبول کرتے ہوئے مچھلی کو یہ حکم دیا کہ تم انہیںکنارے پر ڈالدومچھلی کے پیٹ میں ضرورت کے بقدر ہو ااور غذ ا کی وجہ سے اور اسی طر ح اپنی توبہ کی فکرمیں کمزرور ہوگئے تھے ۔میدان میں ڈالنے کے بعد اللہ تبارک وتعالی نے ایک بیل دار درخت کا بھی انتظا م فرمادیااور ساتھ ہی ایک بکر ی کو بھی حکم فرمایا کہ تم یونس کو دودھ پلادیاکرو اس لئے وہ روزانہ آکر دودھ پلا کر چلی جاتی۔ان کی قوم کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب تھی دوبارہ آپ کووہیںبھیجاگیا اور سب لوگوںنے ایمان قبول کیا۔
سورہ ٔ صاد کی آیت: ۸؍ تک میں جس واقعے کی طرف اشارہ ہے وہ اس طرح ہے کہ جب آپ ﷺ کے پیارے اور مشفق چچا حضرت ابوطالب بیمار پڑے تو ابوجہل سمیت مکہ کے دوسرے کا فر بھی ان کے پاس آئے اور آ پ ﷺ بھی وہا ں تشریف رکھتے تھے ان لوگوں نے حضرت ابو طالب سے آپ ﷺ کی شکایت کی کہ محمد ﷺ ہمارے معبودوں کی برائی بیان کرتے ہیں چچا جان نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ آپ ان سے کیا کہتے اور چاہتے ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایاصرف ایک کلمہ چاہتاہوںجس سے تما م عرب ان کے تابع ہوجائیں جو عرب نہیں ہیں وہ لوگ انہیں جزیہ دینے لگیں انہوں نے پوچھا کہ وہ ایک کلمہ کونسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ( ﷺ) اور کہنے لگے یہ دیکھو تمام معبودوں کو ختم کرکے بس ایک کو معبود بنادیا؟یہ تو عجیب بات ہے!۔اور ان کے سردار یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئے کہ چلواور اپنے معبودوں کی خوب عباد ت کرو محمد ﷺ جو یہ بات کہتے ہیں ان کامقصد(نعوذ باللہ!) اپنا الوسیدھا کرنااور اپنی حکومت بناناہے ہم نے تو کبھی بھی اس طرح کی بات دوسرے دین میںبھی نہیں سنی بس محمد( ﷺ) نے اسے اپنے طور پہ تیا ر کیا ہے کیا نبی بنانے کے لئے یہی رہ گئے تھے ؟کیا ہم اس لائق نہ تھے؟اللہ تبارک وتعالی نے پہلے تو یہ جواب فرمایا کہ یہ سب باتیں اس لئے کرتے ہیں کہ ابھی انہیں عذاب کا مزہ نہیںچکھا یاگیا ہے جس دن عذ اب کا مزہ چکھ لیں گے اس دن ان کی چوکڑی گم ہوجائیگی اور عقل ٹھکانے لگ جا ئے گی۔دوسر اجواب یہ دیا کہ اللہ تعالی کی رحمت کے خزانے جن میںکسی کو نبی کا بنانا بھی شامل ہے ان کے ہاتھوں میں نہیںہیں کہ یہ جسے چاہیں نبی بنادیں ۔تیسرا جوا ب یہ دیا کہ اگر اللہ کی رحمت کے تمام خزانے ان کے ہاتھوں میں نہیںہیںتوکم ازکم زمین و آسمان کی حکومت بھی تو ان کے پاس نہیں ہے کہ وہ اپنا حکم چلا کرجس کو چاہتے نبی بناتے اور جس سے چاہتے نبوت چھین لیتے اگر اختیا راور حکومت ہے تو سیڑھیا ں بنا کرعرش پہ چڑھ جائیں اور وہاں سے دنیا کا نظام چلائیں پھر جسے چاہیں نبوت دیں اورجس سے چاہیں چھین لیں۔
حضر ت داؤد کے پاس مقدمہ:آپ ﷺ کے ساتھ گستا خیا ں ہوتی رہتی تھیں اور لوگ آپ سے ایسی باتیں کیا کرتے تھے جن سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوتی آپ ﷺ کوتسلی دینے اور آپ کو صبر کی تلقین کرنے کے لئے آیت: ۱۷ سے ۲۶؍ تک میں حضرت دواؤد کا ایک واقعہ بیان فرمایا جا رہا ہے جس کا خلا صہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے پہاڑوں کوبھی یہ حکم دے رکھا تھا کہ وہ صبح وشام ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح بیان کریںاسی طریقے سے پرندوں کو بھی یہ حکم دیاتھاکہ وہ ان کی تسبیح کے وقت جمع ہوجاتے اور وہ بھی ذکر میںمشغول رہتے اور اگر ایک طرف انہیں بات کرنے کی مہارت دی تھی تو دوسری طرف حکومت سے بھی نوازا تھا لیکن ان تمام نعمتوں اوربڑائی والی چیزوں کو اپنے اندر سمیٹنے کے بعد بھی وہ بہت ہی متواضع تھے اور اپنے آپ کو بہت ہی چھوٹا سمجھتے ،لوگوں کو معاف کرتے ، اور اگر ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں ذرابھی کسی بھی اعتبار سے یہاں تک کے دیکھنے کے لحاظ سے بھی کوئی کمی ہوجاتی تو وہ اللہ سے معافی مانگ لیتے جس کی ایک دلیل یہ واقعہ ہے کہ دو لو گ حضرت داؤد ؑکی عین عبادت کے وقت جس میں کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی اور وہ عبادت کے کمرے میں عبادت میں مشغو ل تھے دربان کے منع کرنے کے باوجود ان کی عبادت خانے کی دیوار سے کود کر ان کے پاس پہنچ گئے اور بجائے اس کے کہ خود معذرت کرتے کہ ہم بے ضابطہ ،بے وقت اور بے ڈھنگے پن سے آپ کے پاس آدھمکے ،الٹے انہیں ہی نصیحت کرنا اور تسلی دینا شروع کردی کہ ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں بس اپنا مقدمہ لیکر آئے ہیں ذرا آپ انصاف سے کام لیںگے اس طرح انہوں نے نبی کو عام بادشاہوں کی فہرست میں رکھدیا ۔خیر! حضرت داؤ د نے نہ تو انہیں بھگایا او ر نہ ہی بادشاہ اور عدالت کی توہین کا مقدمہ ان کے خلاف چلایا بل کہ اِن کا مقدمہ بہت ہی ٹھنڈے دل سے سنا ان میں سے ایک آدمی نے مقدمہ اس طرح بیان کیا کہ ہم دوساتھی ہیں ان کے پاس ننانوے دمنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی ہے پھر بھی یہ اس ایک کو بھی مجھ سے چھیننا چاہتاہے! حضرت نے مقدمہ ختم ہوچکنے کے بعد ظالم سے یہ کہنے کی بجائے کہ تم نے ظلم کیا ہے مظلوم سے یہ فرمایاکہ تمہارے ساتھ ظلم ہواہے اور اکثر ایک ساتھ کام کرنے والے اور حصے دار لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ظلم کر ہی جاتے ہیں ۔ حضرت کی اس انداز کی گفتگو ظاہری اعتبار سے خوا ہ ایک فی صد ہی سہی طرفداری کی طرح ہوگئی جو اللہ کے نبی اور خدائی انصا ف کی شان کے خلاف تھی اور ذاتی طورپہ بھی یہ ظاہری جانب داری خود حضرت داؤد کو بھی گوارا نہ تھا اس لئے آپؑ نے فورا ہی محسوس کرلیا کہ میں نے مظلوم سے ایسی گفتگو کرکے جانب داری جیسی غلطی کرلی اور اللہ کے سامنے سجدے میںگرگئے اور اللہ تعالی نے معافی کا اعلان فرمایا اور قیامت تک لئے ایک طر ف تو یہ اعلان فرمادیا کہ داؤد بڑے انصاف پرور اوربڑے متحمل مزاج تھے ،تو دوسر ی طرف یہ بھی اعلان فرمادیا کہ اسلام کا انصاف یہ ہے کہ کسی بھی درجے میںیہاںتک کے دیکھنے کے لحاظ سے بھی فریقین میں سے کسی کے ساتھ جانب داری نہو۔ اس لیے آپ (ﷺ) بھی لوگوں کی گستاخیوں کو درگذر کردیا کریںان کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آئیں۔
آپ ﷺ کے تحمل کی ایک مثال: ایک مسلمان جو پہلے یہودی تھے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرتے ہو ئے کہتے ہیں:’’ میں نے حضور ﷺ کے چہرے کو دیکھتے ہی دوکے علاوہ نبوت کی تمام علامتوں کو پہچان لیاوہ دو یہ تھیں کہ ان کی نرمی ان کی سختی سے بڑھی ہوئی تھی اور ان پر سختی ان کی نرمی میں اضافہ ہی کر تی تھی۔تو میں ان سے اس لئے نرمی کے ساتھ معاملہ کر تا ،تا کہ آپ سے گھل مل جاؤںاور اس طرح ا ن کے مزاج کی سختی او رنرمی کو پہچان لو ںاسی مقصد سے میں نے آپ ﷺسے ایک وقت کے لئے کھجور خریدی او ر قیمت پہلے ہی دیدی لیکن متعین دن سے دوتین دنوں پہلے ہی آپ کے پاس(کھجور لینے کیلئے) پہنچ گیااور آپ کا کولر او رچادر پکڑ لیاپھر آپ کی طر ف سختی سے گھور تے ہوئے کہا’’ اے محمد !کیا تم میرا حق نہیں دوگے !بخدا !اے عبد المطلب کی او لاد! تم لو گ ٹال مٹول کرنے والی ہو‘‘ یہ سن کر عمر ؓنے کہا’’ اے اللہ کے دشمن! تم اللہ کے رسول سے ایسی بات کر تے ہوجو میں سن رہاہوں؟! بخد ا !اگر مجھے ان کے قریب ہونے کا ڈر نہ ہو تا تو میں اپنی تلوار سے تمہاری گردن اڑادیتا!‘‘ اور حضو(رﷺ)عمر کوپورے سکون واطمنان کے ساتھ مسکر اتے ہو ئے سن رہے تھے۔پھر فرمایا :اے عمر !میں اور یہ دونوں ہی تجھ سے اس غصہ کے علاوہ دوسری چیز کے زیادہ محتاج تھے وہ یہ کہ تم مجھے ڈھنگ سے اداکر نے اور ان کو اچھے انداز سے مطالبہ کر نے کی نصیحت کرتے اِسے لے جاؤ!اور نہ صرف اس کا حق اداکردو بلکہ جھگڑے کے بدلے بیس صاع الگ سے بھی دیدو!تومیں نے کہا اے عمر!میں نے حضورﷺ کو دیکھتے ہی آپ کے چہر ے میں نبوت کی ساری علامتیں دیکھ لی تھیںسوائے دو کے کہ:’’ان کی نرمی ان کی سختی سے بڑھی ہوئی تھی‘‘۔ ’’اور ان پر سختی ان کی نرمی میں اضافہ ہی کر تی تھی‘‘۔میں نے آج ان کو بھی پہچان لیا (اس لئے )میںتم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اللہ کو اپنارب مان لیا اسلام کو دین مان لیا اور محمدﷺ کونبی مان لیا ،،۔(طبرانی ،ابن حبان، بیہقی )۔اس واقعہ میں غور کر یں!سب سے بڑی غلطی ا نہوں نے یہ کی تھی کہ سامان لینے کا دن متعین ہو جانے کے بعد دو تین دنوں پہلے ہی مطالبہ کیلئے پہنچ گئے اگرصرف اسی غلطی کو دیکھا جا ئے کہ وقت سے پہلے کسی معاوضے کامطالبہ کرنا چاہے جس سے بھی ہویہ اس کو ذلیل کرناہے توان کو سزا دینے کیلئے کا فی تھالیکن انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا تھابلکہ بھرے مجمع میں آپ کا کولر اور آپ کی چادر پکڑ لی ! آپ کو آنکھیں دکھائیں !نہ صرف آپ کو برا بھلا کہا بل کہ پورے خاندا ن کے لوگوںپر بھی یہ الزام لگا یا کہ ا س خاندان کا یہ پورانہ طریقہ ہے کہ وہ کسی کا حق جلدی نہیں دیتا !گویا کہ انہوں نے یہ کہنا چاہا کہ یہ محمد کی خاندانی غلطی ہے !اگر محمد نے ایسا کیا ہے تو اس کے خاندان و الے بھی ایسے ہی تھے !۔ یہ با لکل صاف بات ہے کہ اس الزام کا انہیں کوئی حق تھا ہی نہیں کیوں کہ ایک عام آدمی یہ تو برداشت کرلیتاہے کہ اسے کوئی برا بھلا کہے لیکن یہ نہیں گو اراکرتا کہ اس کی کسی غلطی کو بہانہ بنا کر اس کے’’ باپ دادا‘‘ کوبلا قصور کچھ کہا جائے اور یہاں تو یہ زیادتی اور بے عزتی ایک بادشاہ کے ساتھ کی جارہی تھی اس لئے اگر کوئی دوسرا باد شا ہ ہوتا تو اس غلطی کی سزا میں: اسے مروا دیتا۔ اسے بھگا دیتا۔دوسرا باد شاہ غصہ ضرور ہو جاتا۔ مسکراتا نہ ۔سامان تو دیدیتامگر سزا دینا بھی نہ بھولتا ۔سامان بھی کم کر سکتا تھا ۔دوسرا بادشاہ اگر خود کچھ نہ کر تا تودوسروں کو انھیں کچھ کہنے سے روکتا بھی نہ ۔ دوسرا با دشاہ یا کوئی عام آدمی بھی ہو تا تو کم از کم اتنا تو کر تا ہی کرتا کہ گستا خی کرنیوالے کو اس کے حق سے زیادہ نہ دیتا ۔لیکن قربان جائیے رحمت عالم ﷺپر!!!کہ آپﷺ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیااور قتل کر وادینا،بھگادینا، پیٹائی کر وادینا یاغصہ کرنا تو دور کی بات ہے آپ ﷺ نے مسکر اتے ہوئے حضرت عمر کو نصیحت کی کہ اگر عمر غصہ کر نے کی بجائے مجھے یہ نصیحت کر تے کہ میں حق والوں کا حق اچھے طریقے پر ادا کروں او راس سے یہ نصیحت کرتے کہ ایک آدمی کو اپنا حق بھی اچھے اندازسے مانگنا چاہئے تو یہ ایسی چیز تھی جس کے ہم دونوں ہی محتاج تھے۔ اور یہ فرما رہے ہیں کہ عمر ! اسے لیجاؤ ،اس کا حق بھی دو او ر جھگڑے کے بدلے الگ سے بیس صاع او ر بھی دیدو!!!،،
حضرت سلیمان کا جہاد کے گھوڑوں سے محبت کرنا: آیت :۳۰ سے ۳۳؍ میں اللہ تبارک وتعالی نے حضرت سلیمان کے بارے میں ایک باتو یہ بیان فرمائی کہ وہ جہاد کے گھوڑوں کو پسند کرتے اور ان کامعاینہ بھی کرتے چناںچہ ایک دن عصر و مغرب کے درمیان گھوڑوں کا معاینہ کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ میں ان گھوڑو ں سے اللہ کے لئے محبت کرتاہوں اور میرے سامنے انہیں ایک مرتبہ دوڑاتے ہوئے لیجاؤ اور ایک مرتبہ دوڑاتے ہوئے لے آ ؤ اور پھر اخیر میں ان کی گردن پہ ہاتھ پھیر کر ا ن پہ شفقت بھی فرمائی اور ان کا قریب سے معاینہ بھی کیا۔اس کے بعد آیت :۴۰؍ تک یہ بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم نے سلیمان کو آزمایا چناں چہ وہ بہت ہی بیمار ہوگئے یہاں تک کہ جب تخت پہ بیٹھتے تو ایسا لگتاکہ بس کسی انسان کا دھڑ رکھاہو اہے پھر طبیعت ٹھیک ہوئی اور سمجھ گئے کہ دنیا ہمیشہ کسی کے پاس بھی رہنے والی نہیںہے اس لئے انہوں نے اپنی مغفرت کی دعا کی اوریہ بھی د عا مانگی کہ ائے اللہ جس انداز سے مجھے آپنے حکومت دی ہے وہ کسی اور کی طر ف منتقل نہ فرما اس کے بعد اللہ تبار ک وتعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ایسا ہی ہوا کہ ویسی حکومت پھر کسی کو نہیں ملی۔
حضر ت ایوب کا بیماری سے شفا پانا:صبر کا ایک تیسر ا قصہ حضر ت ایوب کا بیا ن فرمایاگیا ہے کہ انہوں نے اپنی بیماری میں صبرسے کام لیا جب وہ زیادہ بیمارہوئے تو شیطان نے ان کی بیوی سے کہا میں طبیب ہو ں اگر ایوب کو شفا ہوجائے تو کہنا کہ میں نے شفادی ہے حضر ت ایوبؑ کو اس بات سے تکلیف پہنچی انہوں نے اللہ تعالی سے شکایت کی کہ شیطان نے مجھے تکلیف دی اللہ تبارک وتعالی نے فرما یا اپنا پیر مار و جب انہوں نے اپنا پیر مارا تو اس کی وجہ سے سرد چشمہ پھوٹا جس میں نہانے سے وہ تندرست ہوگئے او ران کی مردہ اولاد زندہ ہوگئی اور دوسری بھی پیداہوئی حضرت ایوبؑ نے قسم کھائی تھی کہ ٹھیک ہو جاؤں گا توبیوی کو شیطا ن کی بات سننے کی وجہ سے سو کوڑے ماروں گا اللہ تعالی نے کہابیوی اچھی اور بھولی بھالی ہے غلطی سے شیطان کی بات سن لی ہے ا س لیے آپ ایسا کریں کہ ایک جھاڑو جس میں سوتلیاں ہوں لے لیں اور ا س سے بیوی کو ایک مرتبہ ماریں یہ سومرتبہ مارنا ہو جائے گا اور ساتھ ہی گھر بھی بربادی سے بچ جائے گا۔ اس سے خاند ان کی اہمیت معلوم ہوتی اور اللہ کی بندوںکے ساتھ رحمت بھی کہ بہانے بہانے رحمت فرماتے ہیں اور ساتھ ہی بیوی کے ساتھ چشم پوشی کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتاہے۔ اس کے بعدپارے کے اخیر تک زیادہ تر توحید کے دلائل، ایمان والوں کے انجام خیر ،بے ایمانوں کے انجام ،شیطان کے مردود کئے جانے کے بعد اس کی جانب سے اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کی دھمکی ،اللہ تعالی کی طر ف سے اس کے جواب ،مختلف انداز سے قرآن کریم کے تعارف اور اسکی خصوصیات کا تذکرہ ہے۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here