Hazrat Moosa ne Allah tabrak-o-ta’ala ke hukm se firaun ke paas ja kar kaha k mai Allah tabarak-o-ta’ala ki taraf se bheja gaya hun

 

حضرت موسیؑ نے اللہ تبارک وتعالی کے حکم سے فرعون کے پاس جا کر کہا کہ میں اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں

مولانا شاہد معین قاسمی
نو یں پارے کے شروع میں سورہ ٔ اعراف کی آیت : ۸۸ ؍سے لیکر ۹۳؍ تک حضر ت شعیب ؑ اور ان کی قوم کا مختصر تذ کرہ ہے جس میںیہ فرمایا گیا ہے کہ شعیب ؑ کے زمانے کے متکبر ومالدار قسم کے لوگوں نے ان کی باتوں کو نہیں مانا اور الٹے انہیں ہی نصیحت کرتے ہوئے دھمکی دیدی وہ نبیؑ کی دعوت کیا قبول کرتے کہ خودنبی کو ہی اپنے مذہب کی طرف بلاتے ہوئے یہ وارننگ دے ڈالی کہ اگر آپ اور آپ کے ماننے والے لوگ ہمارے مذہب میں نہیں آتے تو ہم آپ کو بھی اورانہیں بھی شہر سے نکالدیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر آپ کا دین سچا ہے تو پھر آپ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے رہتے ہیں وہ عذاب ہم پے کیوں نہیں آ جا تا؟ اسی طر ح وہ لوگ دوسرے لوگوں کو بھی ایمان لانے سے یہ کہہ کر روکتے تھے کہ اگر تم نے شعیب (علیہ السلام)کی بات ما ن لی تو نقصان میں رہوگے ۔حضرت شعیبؑ نے ان کے مذہب میں جانے سے انکار کیا اور اللہ تعالی سے دعا کی کہ اب فیصلہ فرمادیجیے اللہ تبارک وتعا لی نے ان کی قوم کے اِن نافرمانوںپر عذاب نازل کردیا اور پہلے گہرے بادل ان پہ آئے پھر جم کر ان پر انہی بادلو ں سے پتھر اورآگ کی بارش ہو گئی ۔حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق پہلے تو ان پہ بہت سخت گرمی پڑی جس کی وجہ سے یہ تہ خانوں میں گھس گئے! جہاں انہیں اور زیادہ گرمی لگنے لگی !پھر وہاں سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگ گئے !وہاں اللہ تعالی نے ایک گہر ابادل بھجدیا جس کے نیچے ٹھنڈ ہوا چل رہی تھی گرمی سے بد حواس ہونے کی وجہ سے سب اس کے نیچے جمع ہوگئے لیکن جب جمع ہوگئے تویہ بادل آگ ہوکر ان پر برس پڑا!اور زلزلہ بھی آیا جس سے یہ سب لوگ راکھ کاڈھیر بن کر رہ گئے ! ۔اس کے بعد آیت: ۱۰۳؍ تک میںیہ کہا گیا ہے کہ پچھلی امتوں کے قصے جو ہم نے بیان کئے ہیں وہ نصیحت کے لئے ہیںا س لیے ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے ور نہ ان کی طرح آج بھی کسی بھی و قت اللہ کا عذاب خود تم پے بھی آسکتا ہے۔
حضرت موسی ؑاور فرعون کا قصہ:آیت: ۴ ۱۰ سے ۱۲۹؍تک حضرت موسی ؑ کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس کا خلا صہ یہاں پہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیؑ نے اللہ تبارک وتعالی کے حکم سے فرعون کے پاس جا کر یہ کہا کہ میں اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور مجھے اللہ کے بارے میں وہی باتیں کہنی ہیں جو صحیح ہوںمیں تمہارے پاس تمہارے رب کی طر ف سے نشانیاں لیکر آیا ہوں نبی اسرائیل جس کو تم نے نو کر اور غلام بنارکھا ہے انہیں اپنی غلامی سے نجات دیکر میر ے حوالے کردو تا کہ وہ اپنے ملک شام چلے جائیں۔فرعو ن نے کہا اگر آپ اس دعوے میں سچے ہیںکہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور نشانیاں بھی لیکر آئے ہیں تو دکھا یئے۔حضرت موسیؑ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈالی تو وہ چشم زدن میں ایک مکمل اژدہا بن کر سامنے آئی پھر ہاتھ کو بغل میں لگا کر نکالاتو وہ انتہائی چمکدار ہوگیا ۔فرعون کے درباریوں نے کہا کہ موسی (علیہ السلام)کھلے ہو ئے جادو گر ہیں ان کا مقصد تمہیں مصر سے بھگانا اور تمہارے ملک پہ قبضہ کرنا ہے ۔اس لیے ان کے مقابلہ کے لئے ملک کے جادو گروں کوبلانا ہوگا ۔خیر! ملک بھر کے ماہرجادو گروں کوبلایاگیا اور وہ آئے اورآتے ہی فرعون سے کہا کہ اگر ہم جیت جائیں گے تو ہمارا انعام کیا ہو گا ؟فرعون نے جواب دیا کہ میر ے قریب کے لوگوں میں ہو جاؤ گے اور میرے ہی پاس رہو گے۔ وہ لو گ بھی لا ٹھیوں کو سانپ بنا کر دکھا دیتے تھے تو طے یہ پایا کہ پہلے ہم لو گ اپنی لاٹھیاں ڈالیں گے پھر موسی(علیہ السلام) ۔جب انہوںنے اپنی لاٹھیاں ڈالیں تو وہ بہت خطرناک اژدہے کی شکل میں نظر آنے لگیں لوگ بہت ڈرے اور خوب متاثر بھی ہوئے لیکن بعد میں جب حضرت موسی ؑ نے اپنی باری میںاپنی لا ٹھی مبار ک ڈالی تو اس نے تو اللہ کے فضل سے کمال کی حد ہی کردی!کہ فرعون کے جادو گروں کی تما م سانپ بنی لاٹھیوں کو نگلنا شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اور تو اور خو دیہ جادوگر جو حضرت موسیؑ کو ہر ا کر فرعون کے سب سے خاص اور سب سے زیادہ قریبی درباریوں میں شامل ہونے کی تمنا لئے ہوئے تھے وہی لوگ ہارنے کے فورا بعد ہی موسی ؑ پر ایمان لے آئے!! اور کسی خفیہ مجلس میں نہیں بل کہ اسی مقابلے کے بھر ے میدان میں جس میں ملک بھر سے تماشائی مقابلہ دیکھنے کے لیے آئے ہوئے تھے تما م حکومت کے لوگوں اور عوام کے سامنے ہی یہ اعلان کردیا کہ موسی ؑنبی ہیں نہ کہ جادو گر!! ۔
ظاہر ہے اس اعلان کا فرعون اور اس کے درباریوں پے بجلی بن کر گرنا ہی تھا اور گر ا بھی اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے چناں چہ ان کے اس اعلان پر فرعون , کھسیا کر،انہیں دھمکی دی اور کہا کہ میں تمہارے ہاتھ پیر کاٹ کر کھجور کے درخت کی جڑوں میں الٹا لٹکا دوںگا اور تم سب کو سولی دیئے بغیر نہیں رہوں گا !لیکن ان لوگوں نے اس کی اس خطرناک ترین دھمکی سے ذرا بھی ڈرے بغیر صاف صاف یہ کہدیا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر تم ہمیں سولی دیتے ہو تو ہم مر کر اپنے رب کے پاس ہی تو جائیںگے جہاں ہرطرح کی راحت ولطف کا سامان ہوگا تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تم جو کچھ بھی کروگے وہ صرف اس لیے کہ ہم نے سچے دین کو قبول کرلیا ہے۔ پھر اسی وقت اللہ تعالی سے دعا بھی کی کہ اے ہمارے رب ہمیں صبر کی خوب توفیق عطا فرمائیں اور ہمیں مسلمان رہتے ہوئے موت دیں ۔فرعون کے درباریوں نے ڈر کر فرعون سے کہا کیا آپ موسی اور ان کی قوم کو اسی طرح فساد مچا نے کے لئے چھوڑتے رہیں گے؟ فرعون نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا ہم تو موسی کی قوم کے بچوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کوزندہ چھوڑکر ان سے نوکرانی کا خوب کام لیں گے ۔حضرت موسیؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے اللہ مالک ہیں وہ تمہیں ہدایت بھی دیںگے اور اس ملک کا مالک بھی بنائیں گے ۔
پھر آیت: ۱۳۰سے ۱۳۴؍ تک فرعون کی قوم پر آئے ہو ئے کئی عذاب کا بیا ن ہے جو حضرت موسیؑ کا معجزہ بھی ثابت ہو ئے۔ ہوا یہ کہ جادو کے اس مقابلے میں فرعون کی طرف سے بلائے گئے ان جادوں گروں کی اس ہار سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح خود یہ جادو گرنے حق قبول کرلیا،وہیں سجدے میں گرگئے اورحضرت موسی ؑپے ایمان لائے اسی طرح فرعون سمیت اس کی قوم بھی ایمان لاتی لیکن فرعون اور فرعونی اسی طرح اپنے تکبر اور ہٹ دھرمی پے اڑے رہے ایسے ہی حضرت موسی کو یہ حق تھا کہ اتنا بڑا معجزہ پیش کرنے کے بعد اب وہ اپنی دعوت کو بند کردیتے لیکن قربان جائیے ابنیا ؑ کی استقامت اور بے پناہ صبر و استقلال پہ! حضرت موسی ؑ اس واقعے کے بعد ایک نہیں بیس سالوں تک مصر میں ہی رہ کر انہیں صحیح دین کی دعوت دیتے رہے اور اس بیچ میں اللہ تعالی کی طرف سے ۷؍ معجزے بھی دیئے گئے جو فرعون اور اس کی قوم کے لیے عذاب کی شکل میں تھے اور جن کا مقصد یہ تھا کہ یہ ان کے ذریعے بھی راہ راست پہ آجائیں لیکن یہ لوگ آنے والے عذاب کے ختم ہونے کے بعد اس میں کچھ نہ کچھ تاویل کرنے کی کو شش کرتے اور حد تو یہ کہ اسے حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کی نحوست بتلاتے اور جب خوشحالی آتی تو کہتے ہم لوگوں کو تو یہ ملنی ہی چاہیے ہم تو اپنی بزرگی اور اللہ سے قرب کی وجہ سے اس نعمت کے مستحق ہیں اور( نعوذ باللہ!) موسی اور ان کی قوم ایسی ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں گے وہاں بے برکتی ہوگی جیسا کہ قحط کے عذاب میں انہوں نے کھل کر یہ بات کہی۔ بہر حال! پہلا عذاب ان پر قحط سالی کا آیا اور ان کی زمینوں اور باغوں میں غلہ اور پیداوار بہت کم ہوگئی جس کی وجہ سے بڑے پر یشان ہوئے اور آخر کار حضرت موسیؑ کے پاس پہنچ کر ان سے قحط کے ختم ہونے کی دعا کروائی لیکن جب حضرت موسی کی دعا سے قحط ختم ہوگیا تو کہنے لگے قحط تو موسی کی قوم کی نحوست کی وجہ سے پڑاتھا اور اب جو ختم ہوا ہے وہ ہمارے حال کا تقاضہ تھا اس کے بعد ایک عذاب طوفان کا آیا جس کے بارے میں امام بغوی ؒ نے عبد اللہ ابن عباس کا قول یوں نقل کیا ہے کہ جب یہ قوم قحط کے عذا ب سے نہیں مانی تو حضرت موسی نے دعا کی کہ ائے رب میری قوم تو وعدہ کرکے پھر گئی اب کوئی ایسا عذاب ان پہ مسلط کردیجیے جو ان کے لیے سبق کاذریعہ ہواور بعد میں آنے والوں کے لیے نصیحت کا کام کرے توا للہ تبارک وتعالی نے طوفان کا عذاب اتارا جو مشہورمفسرین کے نزدیک پانی کا عذاب تھا اور یہ طوفان پانی کا ہوا کرتا تھا قوم فرعون کے تمام گھر وں کو پانی کے طوفان نے گھیر لیا کھیتی کیا کرتے کہ ان کے پاس بیٹھنے اور لیٹنے کی بھی جگہ نہ رہی اور اللہ کی قدرت کا ایک خاص کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ فرعون کی قوم کی زمینوں اور مکانوں کے ساتھ ہی خودحضرت موسی ؑکی قوم کے مکانات اور زمینیں بھی تھیں لیکن ان پے پانی نہیں تھا وہ بالکل پہلے ہی کی طرح سوکھی تھیں اب فرعون کی قبطی قوم گھبرا کر حضرت موسی کے پاس پہنچی اور کہنے لگی آپ اپنے رب سے دعا کردیجیے کہ ہم سے یہ عذاب ہٹالیں اب ہم ضرورآپ پہ ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کردیں گے اللہ کے نبی حضرت موسیؑ نے دعا کی اور یہ عذاب بھی ختم ہوا اور نہ صرف عذاب ختم ہوا بل کہ ساتھ ہی ان کی کھیتیاں پہلے سے زیادہ اچھی اور ہری بھری ہوگئیں تو انہوں نے اور گل کھلایا اور کہنے لگے کہ یہ پانی اصل میں کوئی عذاب تھا ہی نہیں بل کہ یہ ہماری کھیتیو ں کو ہر ی بھری کرنے کے لیے زیاد ہ مقدار میں آگیا تھا اسی لیے تو پچھلے کسی بھی زمانے سے زیادہ یہ ہری بھری ہوگئیں اور اس سال ہماری زمینوں میں پیدا واراور بڑھ گئی اس لیے موسی کی دعا کا اس پانی کے جانے سے کوئی تعلق نہیں اور ہم ایمان نہیںلاتے ۔ان لوگوں نے جس طرح بات بنائی اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ آن کی آن میں انہیں پھر کسی عذاب سے دوچار کردیا جاتا لیکن باری تعالی نے ایک ماہ کی مزید مہلت دی تا کہ انہیں خوب غور وفکر کرنے کا موقع مل جائے لیکن انہیں کہاں غور کرنا تھاانہوں نے اس ایک ماہ کے موقع کوبھی گنوا دیا تو اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے ٹڈی کا عذاب آیا کہ اس نے ان کی کھیتیوں سے لیکر گھروں کی لکڑیوں تک کو بھی کھا کر برباد کردیا چھتوں اور دوسرے گھریلوسامان کو بھی نہیں چھوڑا اس موقع پہ بھی حضرت موسی کا یہ معجزہ ظاہر ہو رہا تھا کہ فرعون کی قوم کے گھروں، زمینوں اور باغات سے لگے ہوئے بنی اسرائیل کی کھیتیو ں ،باغات اور مکانات کو انہوں نے بھولے سے بھی کوئی نقصان نہیں پہنچایاپھر فرعون کی قوم حضرت موسی ؑ کے پاس آئی اور کہا کہ ذرا آپ اللہ تعالی سے دعافرمادیں کہ اللہ تعالی ہم سے یہ عذاب ہٹالیں اور اس دفعہ ہم ضرورر باز آجائیں گے اور آپ کی قوم کو آزاد کردیںگے حضرت موسی ؑ نے پھر دعا فرمائی اور عذاب جاتارہا مگر عذاب جانے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ہمارے پاس ابھی تو ایک سال تک کھا نے کے لیے غلہ ہے اس لیے اور سرکشی کی نہ ایمان لائے اور نہ ہی بنی اسرائیل کو چھوڑااللہ تعالی نے پھر ایک ماہ کی مہلت دی لیکن انہوں نے اس موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور صحیح راستے پہ نہیںآئے تو قمل یعنی جوں کا عذاب آیا یہ لفظ انسان کے بدن ،کپڑوں اور غلوں میں لگنے والے دونوں کیڑوں کے لیے بولا جاتا ہے اور ممکن ہے کہ یہاں ایک ہی ساتھ دونوں طرح کے جوں عذاب کے طور پے مسلط کیے گئے ہوں غلوں میں گھن لگ گیا اور انسان کے بدن اور کپڑوں میں گھن امڈ آیا اس گھن نے غلوں کا برا حال یہ کیا کہ سب کو کھا کراتنا کھوکھلا کردیا کہ دس سیر گیہوں پیسنے کے لیے نکالیںتو اس میں تین سیر آٹا بھی نہ نکلے جب کہ بدن کے جوؤ ں نے ان کی بھویں اور پلکیں تک کھالیںاب یہ قوم پھر چیخ اٹھی اور حضرت موسی کے پاس آحاضر ہوئی کہ برائے کرم ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کردیں کہ ہم سے یہ عذا ب ہٹالیںا س مرتبہ تو ہم ہر گز اپنے وعدے سے نہیں پھر یں گے حضرت موسی ؑ نے دعا فرمائی اور یہ عذاب بھی ٹل گیالیکن وہ کہاں وعدہ یا د رکھتے تھے اس بار بھی کچھ مان کر نہیں دیا لیکن اللہ کی رحمت بہر حال بڑی وسیع ہے اس لیے پھر ایک ماہ کی مہلت مل گئی جسے انہوں نے ضائع کردیا اور اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو اب مینڈکوںکا عذا ب آیا جس کا حال یہ تھا کہ اس قوم کے لوگ جہاں بیٹھتے وہیں ان کے گلے تک مینڈک ہی مینڈک ہوتے آن کی آن میں ان کا ڈھیر لگ جاتا یہ لوگ سونے کے لیے جاتے تو پورا بدن مینڈکوں سے دب جاتا اور کروٹ لینا بھی مشکل ہوجاتاپکی ہوئی ہنڈیوں میں ،رکھے ہوئے کھانے میں ،آٹے میںاور ہر چیز میں مینڈک ہی مینڈک نظر آتے اس سے پریشان ہوکر سب رونے لگے اورحضرت موسیؑ کے درپے دستک دی کہ ہمارے لیے دعا کردیں ہم سچ کہتے ہیں کہ ہم سے اب غلطی نہیں ہوگی لیکن جب دعا ہوئی اور نجات ملی تو ماننے کی بجائے یہ کہنے لگے کہ ہمیں تو پہلے سے زیادہ یقین ہوگیا کہ موسی (علیہ السلام)جادوگر ہیں ایک ماہ کی مہلت بھی ملی لیکن اس مہلت نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور وہ اپنی حالت پہ باقی رہے تو پھر خون کا عذاب ان پہ مسلط کردیاگیا کہ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے ہر کھانے پینے کی چیز خون بن جاتی کنویں ،حوض یا جہاں کہیں سے بھی پانی نکالتے وہاں سے خون ہی خون نکلتا کھانا پکانے لیے رکھتے سب خو ن بن جاتا لیکن ہر عذاب میں بدستور بنی اسرائیل مکمل طور پے محفوظ رہتے یہاں تک کہ فرعون کی قوم نے ان لوگوں سے پینے کا پانی مانگا تو ان کے یہاں تو وہ اللہ کی نعمت پانی ہی تھا لیکن فرعون کی قوم کے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ اللہ کا عذاب خون بن گیا ایک دسترخوان پہ اسرئیلی اور قبطی دونوں ہی کھانے کے لیے بیٹھ تے لیکن جولقمہ ایک اسرائیلی اٹھاتا وہ تو کھانا ہی ہوتا لیکن جو لقمہ قبطی اٹھاتا وہ اس کے منھ میں پڑتے ہی خون بن جاتا پھر وہی ہوا جو ہر بار ہوتاتھاکہ یہ چیختے چلاتے حضرت موسی کے پاس حاضرہوئے حضرت موسی ؑنے دعا کی اور عذاب ختم ہوگیا لیکن پھر کچھ مان کر نہیں دیا تو اب طاعون کا عذاب ان پے آیا جس میں ان کے تقریبا ستر ہزار لوگ ختم ہوگئے مگر حضرت موسی سے وہی دعا اور اپنی طرف سے اِن لوگوں کی وہی نافرمانی اورکبھی نہ ختم ہونے والی ضد۔ اخیر میں یہ ہوا کہ جب حضرت موسی اور آپؑ کی قوم کے ساتھ ان کی دشمنی حد سے بڑھ گئی اور حضرت موسی اللہ تعالی کے حکم سے اپنی قوم کو لیکر مصر سے نکلے یہ سب حضرت موسیؑ کے تعاقب میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکلے اور فرعون کے ساتھ سب کے سب دریائے قلزم میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔
حضرت موسی ؑکی قوم کی شرارتیں:آیت :۱۳۷ سے ۱۴۱ تک ؍ یہ بتلایاگیاہے کہ جب یہودیوں کو مصرپے قبضہ دلادیا اور فرعون اوراس کی قوم کی طرف سے مدتوں سے دیئے جانے والے شرمنا ک عذاب سے نکالدیا تو انہوں نے اس کا شکر اس طرح ادا کیا کہ ایک قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے ہوئے دیکھ کر وہ بھی حضرت موسیؑ سے یہ مطالبہ کر بیٹھے کہ ہمارے لیے بھی اسی جیسا معبود بنادیجیے تو حضرت موسیؑ نے انہیں ڈانٹا جس کا تفصیلی قصہ (انشاء اللہ) ۱۶؍ویں پارے میں آئے گا ۔پھرآیت: ۱۴۲ سے ۱۴۵؍ تک حضرت موسی ؑکے طور پہاڑی پر بلائے جانے اور وہاں ان کے اللہ تعالی سے اپنا دیدار کرانے کی درخواست کا تذ کرہ ہے جس کا خلا صہ یہ ہے کہ جب فرعون اپنی قوم کے ساتھ ڈوب گیا ،اس کانام ونشان مٹ گیا اور بنی اسرائیل کو اس کی طرف سے برسوں سے ہونے والے مظالم سے سکون و اطمنان کا سانس لینے کا مو قع ملاتو ان لوگوں نے حضرت موسیؑ سے کہا کہ اگرہمیں کوئی کتاب اور شریعت ملے تو ہم اطمنان کے ساتھ اس پے عمل کرکے اللہ کی عبادت کریں اس موقع پہ اللہ تعالی نے حضرت موسی ؑ پہ اپنا کلام نازل کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس کے لیے شرط یہ رکھی کہ تیس رات طورپہاڑی پہ اعتکاف اور اللہ کی عبادت میں گزاریں اور بعد میں ان میں دس دن اور برھا دیئے اس طر ح کل چالیس دن ہوگئے جب مدت پوری کر کے حضرت موسی مقررہ وقت پہ پہنچے اور اللہ تبارک وتعالی نے ان سے گفتگو کی تو گفتگو سن کر اب انہیں اللہ تعالی کو دیکھنے کا شوق پید اہوا اور دعا کی ائے رب مجھے اپنا دیدار بھی نصیب فرمائیے میں آپ کو دیکھنا چاہتاہوں اللہ تعالی نے حضر ت موسیؑ سے کہا کہ مجھے تو تم دیکھ نہیں پاؤگے اگر زندہ شخص مجھے دیکھ لے تو مرجائے میری تجلی سے تو منجمد چیزیں بھی لڑھک جاتی ہیں البتہ اس پہاڑی کو دیکھنا اگر وہ پہاڑی اپنی جگہ ٹھہر جائے تو مجھے دیکھ لوگے( ابن کثیر بحوالہ ابن جریر) لیکن ہو ایہ کہ جب اللہ تعالی نے پہاڑ ی پہ اپنے نور کا بہت ہی تھوڑاسا حصہ ظاہر فرمایاتو حضرت موسیؑ دیکھتے ہی بے ہوش ہو کر گرگئے اور جب ہوش آیا تو اللہ تعالی سے معافی طلب کی اور کہا کہ میں نے آپ کو دیکھنے کا مطالبہ کرکے غلطی کی تھی اور اپنی حیثیت سے زیادہ آپ سے مطالبہ کردیا تھا اور جوکچھ آپ نے فرمایا کہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے تو میں سب سے پہلے اس پے یقین کرتاہوں۔حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی پھر ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی کے کنارے پہ اپنا انگوٹھا رکھ کر اشارہ فرمایا کہ اللہ جل شانہ کے نور کا صرف اتنا سا حصہ پہاڑ پے ظاہر کیا گیاتھا جسے برداشت نہ کرنے کی وجہ سے پہاڑ کے ٹکڑے اڑگئے( معارف القرآن بحوالہ احمد،ترمذی،حاکم ) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں رب کی تھوڑی سی تجلی سے پہاڑ خاک ہوگیا اور موسی بے ہوش ہو کرگر پڑے( ابن کثیر بحوالہ ابن جریر) اس کے بعد باری تعالی نے حضرت موسی سے مزید گفتگو فرمائی اور فرمایاکہ ہم نے تم کو نبوت ،اپنے ساتھ گفتگو اورتورات کے ذریعے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں فضیلت دی جو کچھ میں دے رہاہوں سب کو مضبوطی سے لو اور اس پے میر ا شکر ادا کرو اور ہم نے تورات کی ان تختیوں پے ہر قسم کی ضروری نصیحت اور ضروری احکام کے متعلق ہر چیز کی تفصیل لکھدی ان سب کو مضبوطی سے تھام لو اور خو دبھی ان کے احکام پے عمل کرو جو کے سارے کے سارے ہی اچھے اور فائدہ مند ہیں اور میں جلد ہی تمہیں نا فرمانوں کے گھر دکھانے والا ہوں یعنی ملک کے شام کی فتح عطا کر نے والا ہوں ۔(ابن کثیر ،بیان القرآن اور معارف القرآن وغیرہ)
آیت:۱۴۶سے ۱۵۱ ؍تک حضرت موسی ؑ کی واپسی سے پہلے یہود کے گائے کی پوجا میں مبتلاہوجانے اورواپسی پر حضرت موسیؑ ؑکی ان سے ناراضگی کابیان ہے اور اس بات کا بیا ن ہے کہ حضرت موسیؑ جو صحیفہ اللہ کے یہاں سے لیکر آئے تھے تو ان کی گائے پرستی کی خبر سن کر غصے میں اسے جلدی میں ایک طرف رکھدیا اس جلدی کی وجہ سے اگر کوئی دیکھنے والا غور سے نہ دیکھے تو اسے ایسا معلوم ہوگا کہ جیسے اسے پٹک دیا گیاہو پھر اپنے بھائی ہارون کے سر کے بال پکڑ کر ان سے غصے میں پوچھنے لگے کہ تمہارے رہتے ہوئے یہ سب کیسے ہوا؟ لوگوں نے گائے کی پوجا کیسے شروع کردی ؟ حضرت ہارون ؑنے یہ جواب دیا کہ بھائی جان یہ سب میری ایک بھی سننے کے لئے تیا ر نہ تھے اور میری کچھ سننا اور اس پے عمل کرنا تو دور کی بات ہے یہ تو مجھے ہی جان سے مار دینے والے تھے !اتنی خطرناک حالت میں بھلا میں کیا کرسکتاتھا ؟ اور آپ جو میری اس طرح سرزنش فرمارہے ہیں اس سے تو میرے دشمن خو ش ہوں گے آپ مجھے گمراہ اور ناسمجھ لوگوں میں نہ سمجھیں پھر یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیؑ ٹھنڈے ہوگئے اور بنی اسرائیل کوکتاب دکھائی گئی تو انہوں نے یہ کہا کہ جب تک خود اللہ تعالی ہمیں اپنی زبان سے یہ نہیں کہدیں کہ یہ میر ی کتاب ہے ہم اسے نہیں مانیںگے اور انہوں نے اپنے ۷۰؍ لوگوں کو طور کے پہاڑ پر بھیجا حضرت موسی کے ساتھ اللہ کی آواز سننے کے لیے بھیجا لیکن جب اللہ تعالی نے خود اپنی زبان سے فرمایا کہ یہ میری کتا ب ہے میں نے ہی موسی کو پیغمبر بنایا اور انہیں یہ کتا ب دی اور انہوں نے خوب صاف صاف سن لیا تو اب کہنے لگے کیا معلوم یہ آواز اللہ ہی تعالی کی ہے یا کسی اور کی ؟ اس لیے ہم اس آواز پے بھر وسہ نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم کھلے طور پہ بالکل صاف صاف اللہ تعالی کو بات کرتے ہوئے نہ دیکھ لیںلیکن جب حضرت موسی ؑ کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی کہ وہ اللہ تعالی کو دیکھ سکیں تو بھلاان کے اندر کیسے ہوسکتی تھی یعنی انہوں نے جان بوجھ کر صرف حضرت موسی ؑ کو تنگ کرنے کے لیے یہ سارے مطالبا ت کئے اس پر اللہ تبارک وتعالی نے انہیں ہلا ک کر دیااورموت دیدی۔ لیکن حضرت موسی نے ا للہ تعالی سے کہا کہ میری قوم تو یہ کہے گی کہ میں نے ہی انہیں ہلا ک کردیا ہے اس لئے آپ انہیں زندہ فرمادیجئے تو اللہ تبارک وتعالی نے انہیں زندہ فرمادیا۔بیچ میں آپ ﷺ اور مسلمانوں کاتعارف ہے اور میدان تیہ کا بیان ہے یہاں جس آیت میں آپ ﷺ کا تعارف کر ایاگیا ہے وہ سورہ ٔ اعراف کی آیت:۱۵۷ ؍ہے جس میں سب سے پہلے تو یہ بیان فرمایاگیاہیکہ یہ نبی امی ہیں جس کا لفظی معنی ان پڑھ کے ہوتے ہیں چناں چہ سورہ ٔ جمعہ کی دوسری آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے خودقوم عرب کو جس میں آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیاتھا امیین فرما گیایا ہے اور ان کے بارے میں دنیا کا اعتراف ہے کہ ان کے یہاں باضابطہ طور پہ پڑھنے لکھنے کا رواج نہیں تھا اور مستقل کوئی مدرسہ یا اسکول نہیں چلا کرتا تھا اور نہ کسی مشہور معلم کا کوئی تذکرہ ملتاہے جس نے لوگوں کو تعلیم دینے کاکوئی خاص اہتمام کیا ہو یا بچوں کو ٹیوشن دلاتا ہو لیکن بہر حال ان پڑھ ہونا کسی قوم کے لیے فخر کی بات نہیں ہوسکتی اور نہ اس وقت تھی پھر ایسے میں حضور ﷺ کے تعارف میں آپ کو ان پڑھ کہنا کس مقصد سے ہوسکتا ہے؟ یہ طے ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے لاڈلے نبی کا جو وصف بیان کیا ہے اس سے ضرور ان کا کوئی نرالہ کمال بتلانا مقصود ہے اوروہ نبی ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرنا اور یہ بتلانا ہے کہ محمد ﷺ کے براہ راست استاد انسانوں کے خالق اور ان کو مبعوث کرنے والے رب کا ئنات ہیں اس جہالت کے ماحول میں جہاں علم کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا محمد ﷺ نے دنیا جہان کو رنگا رنگ کے علوم سے بھر دیئے حکمت و دانش کے سمند ر جاری کر دیئے یہ سب کے سب انہیں ان کے رب نے سکھائے ہیں۔نویں پارے میں موجود سورہ ٔ اعراف کی اس کا آیت کے ایک ایک لفظ کا اگر صرف ترجمہ ہی دیکھ لیا جائے تو سمجھ میں آجائے گا کہ اسلام انسانوں کو ترقی سے روکنے والا دین نہیں بل کہ اس نے ہی انسانوں کے پیروں میں پڑی پستی اور ذلت کی زنجیروں کو کاٹا اورصدیوں سے انسانوں کے گلے میں لٹک رہے پریشانیوں اور تباہیوں کے طوق کو نکال پھینکا ۔ اس آیت کے اندر یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو یہودی تورات اور عیسائی انجیل میں پاتے ہیں ۔۔ آیت: ۱۶۲ سے ۱۶۶؍ تک ایک واقعے کا تذکر ہے کہ اللہ تبار ک وتعالی نے ا نہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار سے منع کیا تھا لیکن ان لوگو ں نے یہ کیا کہ مچھلی کو پکڑ کر اسی دن گھر تو نہیں لاتے تھے بل کہ انہیں کانٹوں میں پھنسا کر کانٹوںکو پانی میں ہی چھوڑ دیتے پھر اتوار کی رات کو نکال لیا کرتے اس پر اللہ تعالی کا عذاب یہ نازل ہوا کہ یہ لو گ بندر بنادئیے گئے ۔اس کے بعد پارے کے اخیر تک کا خلاصہ کچھ اسطرح ہے کہ عہد الست کو یبان کیا گیا ہے ،بلعم بن باعوراء کا واقعہ ہے اوراللہ تعالی کی مختلف قدرتوں کا بیان ہے جب کہ سورہ ٔ انفال میں خاص طور سے جنگ بدر کا واقعہ کسی قدر تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اسلام میں جنگ کے مقاصد اور قوانین بیان کئے گئے ہیں جس کا خلا صہ یہ ہے کہ اسلامی جنگ صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کے بتاہوئے ضابطے کے مطابق اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ظالم لوگوں کے خلاف اس وقت تک ہوگی جب تک کہ وہ اپنے ظلم سے باز نہ آجائیں اور جب وہ اپنے ظلم سے باز آجائیں مسلمانوں کو اسلام پے عمل کرنے سے روکنا بند کردیں پھر ان کے خلاف جنگ جائز نہیں ہوگی اور اس طرح نو اں پارہ مکمل ہو گیا ہے ۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here