Hukoomati Qawaneen, Islami-o-Sharayi Hidayaat aur Sauti Aloodgi

حکومتی قوانین، اسلامی و شرعی ہدایات اور صوتی آلودگی

ندیم احمد انصاری

اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے، جس میں کسی انسان تو کجا، کسی ذی روح کو تکلیف دینے کی ہرگز اجازت نہیں۔ اسی لیے موجودہ دور میں پھیل رہی مختلف آلودگیوں کے متعلق بھی اسلامی ہدایات واضح اور دو ٹوک ہیں، یہاں ہم صوتی آلودگی سے متعلق چند باتوں کا ذکر کر رہے ہیں کہ یقینا صوتی آلودگی انسان کے لیے کچھ کم مضرت رساں نہیں اور یہ شور اور غیر معتدل آواز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ،جس کا شریعتِ اسلامی نے پورا لحاظ رکھا ہے، اس کے باوجود بعض ناوقفوں کی جانب سے بعض بے سر و پا کی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
پریشان کُن کارخانے
سب جانتے ہیں کہ کارخانے کی بعض مشینیں بہت پُر شور ہوتی ہیں، حکومت کی طرف سے ان کو آبادی سے باہر لگانے کی ہدایت ہوتی ہے ، یہ ہدایت شرعاً بھی قابلِ لحاظ ہیں۔کیوں کہ مشاہدہ ہے کہ بعض مشینوں سے شہریوں کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے ، اس لیے شریعت کا ماننا ہے کہ حکومت کی طرف سے ان کو آبادی سے باہر نکالنے کی ہدایت خیرخواہی پر مبنی ہے ، جس پر عمل نہ کرنے سے انسانی آبادی کے ساتھ کھلواڑ ہوتی ہے ،بنا بریں یہ ہدایت شرعاً واجب کے درجے میں ہے۔نیز اس کا ثبوت خیر القرون میں بھی موجود ہے ، چناں چہ ایک روایت کے مطابق امیر المومنین سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لوہار کی دکان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا، کیوں کہ وہ پریشان کن آلودگی کا سبب بنی ہوئی تھی۔نیز امام ابو یوسفؒ نے فتویٰ دیا تھا کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی پڑوسی کو اپنا گھر حمام میں تبدیل کرنے یا اس کے دھویں سے دوسروں کو تنگ کرنے سے روک دے ۔(تطہیرِ ماحول اور اسلام کے معمولات : 113-115)
گاڑیوں کے زور دار ہارن
اکثر بڑے شہروں میں گاڑیوں کے ہارنوں کی آواز بھی بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے ، بعض لوگ غیر ضروری طور پر ہارن بجاتے ہیں اور بعض حضرات اپنی گاڑی میں ضرورت سے زیادہ تیز آواز کا ہارن‘ یہاں تک کہ ایمبولنس میں لگائے جانے والے سائرن کی طرح کے ہارن لگاتے ہیں، اس سے صوتی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے اور دوسرے راہ گیروں کو دہشت بھی ہوتی ہے۔ایسی صورت میںبے جا اور ضرورت سے زیادہ تیز آواز کے یعنی زور دار ہارن کا استعمال شرعاً ممنوع ہوگا، اس لیے کہ ایسا کرنے والے افراد اپنا مختصر سا وقت بچانے کے لیے دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں، جس کی شریعت میں ممانعت وارد ہوئی ہے ۔اول تو سڑکوں پر کوئی بھی ٹھہرنے اور بسنے کے لیے نہیں اترتا، جب وہ سڑک پر آیا ہے‘ خواہ پیدل ہو یا سوار‘ اسے بھی آگے جانا ہوگا، پھر جب آگے راستہ ہی بند یا سواریوں سے گھرا ہوا ہو تو ایسے میں بلا وجہ زور شور سے ہارن بجاتے رہنا بالکل غیر مناسب و مکروہ عمل ہوگا۔ہارن کا استعمال جہاں تک ہم سمجھتے ہیں‘فقط اتنا ہے کہ اپنے آس پاس والوں کو جتا دیا جائے کہ کوئی اور بھی منتظر ہے، نہ یہ کہ پوری سڑک پر ایک ہنگامہ بپا کیا جائے۔الضرر لا یزال بالضرر۔(الاشباہ والنظائر:2/96)
مروّج ڈی جے
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے مختلف تقریبات میں DJکا رواج بڑھتا جا رہا ہے ، اس کا شور انسان کی سماعت اور ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے، یعنی مزامیر میں داخل ہونے سے قطعِ نظر DJکا معاشرے میں بے جا استعمال واقعی تکلیف دہ ہے ، جس میں ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مزامیر کی قباحت کے سوا آس پاس کے لوگوںکو تکلیف دینا بھی ہے ۔ کتنے لوگ بہت زیادہ آواز سے دل کے دوروں اور دماغی پریشانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، جیسے کہ ربیع الاول کے مہینے میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ ڈی جے میں بلند آواز کے سبب جشنِ عید میلادالنبی کے جلوس میں ایک سولہ سالہ لڑکے کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، اسی لیے ضرورت سے زیادہ آواز اور بلا وجہ شور مچانے کو شریعت سخت ناپسندگی کی نظر سے دیکھتی ہے ۔قال تعالیٰ: وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ،اِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۔(لقمان:19)
جلسوں و مشاعروں کا شور
ہمارے معاشرے میں مذہبی، سیاسی جلسوں اور مشاعروں کا رواج بھی عام ہے ، قانونی اعتبار سے اس کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، مثلاً رات کے دس یا ساڑھے دس بجے تک، کہ اس کے بعد پروگرام جاری نہیں رکھا جا سکتا، اسی طرح آواز کے بارے میں بھی تحدید ہوتی ہے کہ جس درجے کا ساؤنڈ سسٹم ہونا چاہیے اور کتنے ساؤنڈ بکس رکھے جا سکتے ہیں؟ اس کا مقصد لوگوں کی صحت اور ماحولیات کا تحفظ دونوں ہوتا ہے ، لیکن بہت سے لوگ ان ہدایات پر عمل نہیں کرتے ، آواز کا شور پوری آبادی تک پہنچاتے ہیں اور رات رات بھر پروگرام چلائے جاتے ہیں،ایسے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ اس طرح کے قوانین کی خلاف ورزی‘ معاہدے کو توڑنے کے حکم میں داخل اور ناجائز ہے ۔ بقول حضرت تھانویؒ؛اگر کوئی حکم ایسا ہے کہ اس میں عام لوگوں کی مصلحت ہے (اور اس کے) خلاف کرنے میں عام ضرر ہے ، اس میں حاکم کی اطاعت؍قانون کی پابندی ظاہراً و باطناً واجب ہے (یعنی اعلانیہ طور پر بھی واجب ہے اور خفیہ طور پر، یعنی حاکم کو اطلاع بھی نہ ہو، تب بھی واجب ہے)۔(اسلام اور سیاست:218)
جب شریعت میں قرآن کی تلاوت کے جہر میں تکلّف کرنا یا اتنا جہر کہ نماز میں تشویش کا باعث بنے یا کسی کے لیے باعثِ ایذا ہو‘ ناجائز ہے ، تو کسی اور دینی یا دنیوی موقع پر اس کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے ۔ فی الشامیۃ: (قولہ: فان زاد علیہ أساء) وفی الزاھدی عن أبی جعفر: لو زاد علی الحاجۃ فھو أفض، الا اذا اجھد نفسہ، او اٰذی غیرہ، قہستانی۔(ردالمحتار:1/297) آیت:’وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا‘ کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضورِ اکرمﷺبہ آوازِ بلند قرأت فرماتے تو مشرکین سن کر بُرا بھلا کہتے تھے ، اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ معتدل آواز سے قرأت کریں تاکہ صرف صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سنیں اور مشرکین تک آواز نہ پہنچے ۔(احسن الفتاویٰ:3/78)ویسے بھی کہیں کوئی بیمار ہوتا ہے ، کوئی پریشان‘ اس لیے زبردستی کسی کے کانوں میں آواز ڈالنا قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اخلاق کے بھی خلاف ہوگا، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔صحابہ کے دور کا واقعہ ملاحظہ ہو کہ ایک واعظ صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان کے بالکل سامنے بہت بلند آواز سے وعظ کہا کرتے تھے، ظاہر ہے کہ وہ زمانہ لاؤڈ اسپیکر کا نہیں تھا، لیکن ان کی آواز بہت بلند تھی، اور اس سے حضرت عائشہؓکی یک سوئی میں فرق آتا تھا‘ یہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا، اس لیے حضرت عائشہ نے حضرت عمرسے شکایت کی کہ یہ صاحب بلند آواز سے میرے گھر کے سامنے وعظ کرتے رہتے ہیں، جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور مجھے کسی اور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ حضرت عمر نے اُن صاحب کو پیغام بھیج کر انھیں وہاں وعظ کرنے سے منع کیا، لیکن کچھ عرصے کے بعد واعظ صاحب نے دوبارہ وہی سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ حضرت عمر کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے خود جا کر اُن صاحب کو پکڑا، اور ان پر تعزیری سزا جاری کی۔ (اخبار مدینہ لعمر بن شبہ:1/15)
بات صرف یہ نہیں تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی تکلیف کا ازالہ کرنا چاہتی تھیں، بلکہ دراصل وہ اسلامی معاشرے کے اس اصول کو واضح اور نافذ کرنا چاہتی تھیں کہ کسی کو کسی سے کوئی تکلیف نہ پہنچے، نیز یہ بتانا چاہتی تھیں کہ دین کی دعوت و تبلیغ کا پُر وقار طریقہ کیا ہے؟ چناں چہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت عاشہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ کے ایک واعظ کو وعظ و تبلیغ کے آداب تفصیل کے ساتھ بتائے اور ان آداب میں یہ بھی فرمایا کہ اپنی آواز کو اُنھی لوگوں کی حد تک محدود رکھو جو تمھاری مجلس میں بیٹھے ہیں، اور انھیں بھی اُسی وقت تک دین کی باتیں سناؤ‘ جب تک ان کے چہرے تمھاری طرف متوجہ ہوں، جب وہ چہرے پھیر لیں تو تم بھی رُک جاؤ ،الخ۔ (مجمع الزوائد:1/191بحوالہ ذکر و فکر،ص:27)
لاؤڈ اسپیکر پر اذان
’اذان ‘جو کہ چند منٹ کی ایک ایسی عبادت ہے کہ اسلام کی سب سے اہم عبادت نماز کے کامل طور پر ادا ہونے کا ایک وسیلہ اور مقدِّمہ ہے، جس کا کا مقصد لوگوں کو نماز کی اطلاع دینا ہوتا ہے کہ لوگ معینہ وقت پر مسجد پہنچ جاتے اور باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ مؤذن کی اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے، وہاں تک موجود ہر تر و خشک چیز قیامت کے دن مؤذن کے حق میں گواہی دے گی اور اس کی برکت سے مؤذن کی بخشش کر دی جائے گی، اس لیے بلند آواز سے اذان دی جائے۔ (ابوداود: 515) اس حدیث سے اذان کو بلند کرنے کا اشارہ ملا، جس کے لیے فی زمانہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے، نیز اگر فی زمانہ اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ کیا جائے تو یقینا اذان کا مقصد‘ جو کہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہے، فوت ہو جائے گا۔ پھر آبادی کی کثرت وغیرہ بھی ایسے اسباب ہیں، جن سے ایسے کاموں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت لازمی ہو گئی ہے، اس لیے اذان کے لیے اس کا محتاط استعمال نہ صرف درست بلکہ مستحسن ہے۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here