Islam ne akar auraton ke huqooq ki taraf tawajjoh dilayi

اسلام نے آکر عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی

حضرت مفتی احمد خانپوری

قسط (4)
علامہ نووی رحمۃاﷲعلیہ نے یہ باب حقوق العبادکے متعلق قائم کیااوراس میںسب سے پہلے عورتوںکے حقوق بیان کرناچاہتے ہیں،اس لئے باب کاعنوان قائم کیاہے’’اَلْوَصِیَّۃُ بِالنِّسَآئِ‘‘ اورمَیںعرض کرچکا ہوںکہ بندوں کے حقوق میں سب سے زیادہ کوتاہی عورتوں کے سلسلہ میںکی جاتی ہے،عورتوںکوانسان ہی نہیںسمجھاجاتا، مثلاً ہمارے سماج میںبھی مَردوںکے لئے بولتے ہیںکہ دوآدمی آئے۔توکیاعورت آدمی نہیںہے؟ آدمی یہ آدم کی طرف نسبت ہے یعنی حضرت آدم کی اولاد۔ مردہو یاعورت؛ دونوںکوآدمی کہیںگے۔ لیکن ہمارے عرف میں بھی آدمی کا لفظ فقط مَردوں کے لئے ہی بولتے ہیں، عورتوںکے لئے نہیں بولاجاتا،یہ بھی دراصل زمانۂ جاہلیت کی خوبوہے جو آج تک چلی آرہی ہے کہ عورتوںکو انسانیت سے الگ چیز سمجھا جاتا تھا،آدمی بولنے والے گویا یہی سمجھتے ہیں۔
عورتوں کے حقوق میںبیداری اسلام کے بعد آئی
خیر!عورتوں کے حقوق میںسب سے زیادہ کو تا ہی برتی جاتی تھی،اس لئے اسلام نے آکرعورتوںکے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ کیااورعورتوں کے وہ حقوق بتلائے جن کی وجہ سے ان کوایک خاص مقام عطاہوا۔آپ اندازہ لگائیںکہ اُس زمانہ میں عورتوںکو کیا سمجھاجاتا تھامثلا ً باپ نے دوسری بیوی سے شادی کی تو باپ کے انتقال کے بعدبیٹے جہاںباپ کی جائیداد،مال ودولت کے مالک بنتے تھے،وہیںباپ کی دوسری بیوی کے بھی مالک سمجھے جاتے تھے گویا وہ بھی باپ کی وراثت میں شامل سمجھی جاتی تھی {لاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَآئَ کَرْہا}کی تفسیر حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہما سے یہی منقو ل ہے جو بخاری شریف کے اندر موجود ہے۔(بخاری شریف،۴۳۰۳)
ہمارے ہندوستان کے اندربعض علاقوں میں آج بھی ایسے قبائل موجود ہیں۔ بھرواڑ قوم کے اندربھی عورتوں کے معاملہ میںایسا ہی ہوتاہے کہ مرنے والے کے مال و جائیدادکے ساتھ اس کی بیوی بھی میراث میں تقسیم ہوتی ہے،کیونکہ اس کو بھی پیسے خرچ کر کے لایاگیا ہے اورجتنی چیزیں پیسے خرچ کر کے آئی ہیں ان کو میراث میں شمار کرتے ہیں ۔
مَیںیہ عرض کررہاتھاکہ اُس زمانہ میںعورت کوانسان کامقام ہی نہیںدیاجاتاتھا اسلام نے آکر عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔تمام مؤرخین اس بات کو لکھتے آئے ہیں خاص طور پر تاریخ کی بنیادی حکمتوں پر غورکرنے والے حضرات لکھتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کے باب میںبیداری اسلام کے بعد آئی ہے،سب سے پہلے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی طرف متوجہ کیا۔کتابوںمیںلکھاہے کہ یوروپ اوربرطانیہ والوںکے یہاں اٹھارہویں صدی تک عورت ایک مال سمجھی جاتی تھی،اور شوہرکویہ اختیارہوتاتھاکہ وہ بیوی کو فروخت کرنا چاہے تو کردے،یہ تواسلام کی برکت ہے کہ یوروپ کاعلاقہ اس سے آشنا ہوا۔ اسپین کے اندراسلامی قانون آیااوراسی سے یوروپ کے اندرترقیاں آئیں اور پھر دھیرے دھیرے ان میں بیداریاں آئیں۔
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
اب جب عورتوںکے حقوق کے سلسلہ میںبیداری آئی توایسے بیدار ہوئے کہ سب کی نیندیں خراب کرڈالی، حقوق کے نام پرحدسے آگے بڑھ گئے؎
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
جیسامعاملہ ہوگیاہے۔ ایک تو وہ حال تھااوراب عورتوں کو آزادی دینے پر آئے تو ایسی آزادی دی کہ ان کی معاشرتی زندگی تباہ وبرباد ہوگئی ،ازدواجی اورمعاشرتی زندگی کے نام پروہاںکچھ ہے ہی نہیں۔ ہمار ے یہاںجوخاندانی نظام ہے اورماںباپ کے حقوق کا اہتمام ہے اور میاںبیوی کے آپس کے حقوق کامعاملہ ہے ،اولادکی تعلیم وتر بیت کی فکر ہے، یوروپ وغیرہ میںایساکچھ بھی نہیںہے۔شوہربھی کمانے کے واسطے جاتاہے اور بیوی بھی جاتی ہے،اولاد کو ’’بچہ گھر‘‘ (Children home) کے حوالہ کردیا جاتاہے، ماں باپ بوڑھے ہوں تو ان کو ’’بڈھا گھر‘‘(Old age home)کے حوالہ کردیاجاتا ہے ۔
ابھی ایک دو ہفتہ پہلے گجرات متر اخبارمیںایک خط پڑھا تھاجو امریکہ سے کسی صاحب نے لکھاتھا،وہ سورت کارہنے والاتھا،اپنے زمانہ میںٹی بی کابڑا مشہورڈاکٹر تھا،اس نے اپنے بچوں کو بھی ڈاکٹر بنایااورامریکہ بھیجا،پھران کے اصرار پرجب میاںبیوی وہاں گئے توبچوں نے ان کے ساتھ ایسی ذلت وتحقیر کامعاملہ کیا کہ ان کاکوئی بھی سہارا نہ رہا۔
میانہ روی ہی اصل چیز ہے
مَیںیہ عرض کر رہاتھاکہ ان کے یہاں آزادیاںایسی آئیںکہ پورامعاشرتی نظام تباہ وبرباد ہوگیا۔ اسلام ایک معتدل مذہب ہے ، اورمیانہ روی ہی اصل چیزہے ،کسی کے حق کے معاملہ میںاتنی زیادتی کرناکہ دوسرے کی حق تلفی ہو،اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بھائی! آپ بخارکاایساعلاج کریںکہ ایک دم ٹھنڈے ہوجائیں،ایسانہیں ہونا چاہیے، بخارکی آئی ہوئی گرمی کودورضرورکرناچاہیے لیکن اتنی بھی ٹھنڈک پیدانہیںکرنی ہے کہ آدمی پوراہی ٹھنڈا ہوجائے، آدمی کی طبیعت میں گرمی اورٹھنڈی اعتدال کے ساتھ ہونا مطلوب ہے ۔
عورتوںکے حقوق کابیجاشور
خیر!آج کل ان لوگوںنے عورتوںکے حقوق کے نام سے جوبیجاشورمچارکھاہے اور امریکن ایمبیسی(Embassy) والے بھی جوچاہتے ہیںاس کی حقیقت کیاہے؟وہ تو مَیں اور آپ سب جانتے ہیں۔درحقیقت مَردوںکاطبقہ زمانۂ جاہلیت کے اندربھی عورتوں کا استحصال کرتاتھا،اوراب اس دورِترقی میں بھی یہی کررہا ہے۔ اور پھرمساوات کانعرہ لگاتے ہیںکہ مردجوکام کرسکتاہے وہ عورت کیوں نہیںکرسکتی، اس لئے جوکام بھی کریںدونوںمل کرکریں۔مَیںکہاکرتاہوںکہ ایساہی ہے توپھربچے جنوانے کا کام صرف عورت سے ہی کیوں لیاجاتاہے؟مَردوںکوبھی اس میںشریک کرو،لیکن دراصل یہ قدرت کی بنی ہوئی ایسی چیزہے،اس میںوہ لوگ کچھ بھی نہیںکرسکتے،یہ فطری نظام ہے، اﷲتعالیٰ نے یہ ذمہ داری عورت پرڈالی ہے اوراسی کے نتیجہ میںگھریلوذمہ داریاںبھی آتی ہیں اب گھریلوذمہ داریوںمیںان لوگوںنے چکر ڈال دیا،لیکن اِس میںوہ کیاکرسکتے ہیں؟لامحالہ بچے توعورت ہی کوجننے ہیںاوراس کی وجہ سے دوسری دشواریاں پیش آتی ہیں،اس وقت مَیںاس کی تفصیل میں جانا نہیںچاہتا۔
(ماخوذ از اصلاحی مضامین:5/124-128)

جاری

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here