جب نبیوںسے یہ عہد لیا گیا تو پھر ان کی امتوں کو کیسے اس سے آزادی حاصل ہوجائے گی ؟
مولانا شاہد معین قاسمی
اس پارے میںسب سے پہلے آیت :۲۵۳؍ تک ایک مسلمہ حقیقت بیا ن کی گی ہے کہ اللہ تبارک وتعالے نے انبیاء علیہم السلا م کو الگ الگ مرتبے دیے ہیں اور ان میں سے ایک دو کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔اس کے بعد آیت: ۲۵۴؍تک نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کرنے کو کہا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ مرنے کے بعد پھر اس کا کو ئی مو قع نہیں ملے گا۔پھر قرآن کریم کی سب سے زیادہ عظمت والی آیت: آیت الکرسی میں اللہ کی بڑائی بیان کی گئی ہے اور اللہ کا تعارف کرایا گیاہے جس کی تلاوت سے انسا ن ہر طرح کی مصیبت اور پریشانی سے(انشاء اللہ) محفوظ رہ سکتا ہے۔ پھرآیت: ۲۵۶ ؍میں یہ اعلا ن کیا گیا ہے کہ زبردستی اسلام قبول کرنا یا کرانا اللہ کے یہاں معتبر نہیں ہے کیوں کہ اسلام کی حقیقت اور اس کی خوبیاں واضح ہو چکی ہیں۔ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ اسلام لانا اوراللہ کے سچے دین کو قبول کرنا ،اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیناہے۔ ایمان لانے والا انسان عقیدے وعمل میں شک کا شکار نہیں ہو گا بل کہ وہ پختہ سے پختہ ہو تا چلا جائے گا۔اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالی اس کے دوست اور محافظ ہو جائیں گے۔اس میںاسلام کی دعوت کا کام کرنے والوں کو ایک طریقہ بھی بتلا دیا گیا کہ اسلام کی دعوت کے لئے اسلام کی خو بیوں کو بیان کرنا چاہئے۔
آیت :۲۵۸ سے ۲۶۰؍میں تین تاریخی سبق آموز واقعات کا بیان ہے پہلا واقعہ حضرت ابراہیم ؑ کے نمرود کے ساتھ بحث و مناظرے کے سلسلے میں ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نمروددنیا کے چار بادشاہوں میں سے ایک ہے جس نے چارسو سالوںتک بادشاہت کی ۔ اس نے اپنے مال ودولت اور لمبی بادشاہت کے گھمنڈ میں اپنے پید ا کرنے والے کی عبادت نہ کرکے خو د اپنی ہی ذات کو عبادت کے لائق سمجھ لیا اور اپنی ہی عبادت کرانا شروع کردی۔حضرت ابراہیم ؑ نے جب اسے اللہ کی عبادت کی طرف بلایا تو اسے بڑا تعجب ہو ا کہ خد ا تو میں ہوں آپ کس خدا کی عبادت کی بات کرتے ہیں؟اگر میر ے علاوہ بھی کو ئی خدا ہے تو پھر اس کی دلیل کیا ہے ؟حضرت ابراہیم ؑ نے جو اب دیا میرے رب مخلوق کو زندگی اور موت عطا کرتے ہیںاس نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے؟ یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں۔ میں ان دو لوگوں میںسے ایک کوقتل کردیتاہوں اور دوسرے کو زندہ رہنے کا موقع دیتا ہوں جو قتل کے مستحق ہو گئے ہوتے ہیں اس طرح میں جسے قتل کردیتاہوں گویا اسے مو ت دیتاہوں اور جسے چھوڑدیتاہوں گویااسے زندگی بخش دیتا ہوں۔حضرت ابراہیمؑ ؑنے فرمایا ٹھیک ہے ایک کام کیجیے !میرا رب سورج کو پورب سے نکالتا ہے کیا آپ اپنی طاقت اور خدائی سے اسے پچھم سے نکا ل لیں گے ؟ظاہر ہے اسے لا جواب ہو نا تھا اور وہ لاجواب ہو گیا اس کی بولتی بند ہو گئی اور حضرت ابراہیم کی فتح ہو گئی یعنی وہ اللہ کے نظام کے خلاف سورج کو پچھم سے نہیں نکال سکا اور نہ کوئی دوسرا نکال سکتاہے اس لیے وہ مناظرہ ہارگیا ۔ میرے خیال میں اللہ تعالی نے ا س آیت ِکریمہ میں حضرت ابراہیمؑ کے اس مناظرے کا ذکر فرماکر قیامت تک کے داعیان ِاسلام کو یہ تعلیم دی کہ اگر دعوتِ اسلام کے وقت انہیں بحث ومناظرے کی ناگزیر ضرورت پڑ جائے تو غصے میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے نقلی دلائل کے ساتھ ہی عقلی دلائل بھی معجزانہ انداز میں پیش کردیں جوعملی،برمحل اور برموقع ہوں۔
دوسرا واقعہ حضرت عزیرؑ کا ہے جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ جب عیسائی بادشاہ ططوس بن اسیسیسانوس رومی اور اس کے پیرو کا ر نے یہودیوں کی دشمنی میں بخت نصر باد شاہ کے ساتھ مل کر بیت المقدس کے شہر کو اجاڑ دیا اورمکانوں کی چھتیں اور دیواریں سب صحنوں اور آگنوں میں گر ی پڑی تھیں اس وقت اس زمانے کے نبی حضرت عزیر ؑ کا ادھر سے گذر ہو اتو یہ سب حالت دیکھ کر ان کے دل میں یہ بات پید ا ہوئی کہ اس شہر کی اتنی تباہی کے بعد پھر سے اللہ تبارک وتعالی اسے کس طرح اورکس انداز میں آباد کریں گے ؟یہاں پہلے جیسی چہل پہل ہو ا کرتی تھی اب وہ پھر سے کس طرح پید اہو سکے گی؟یہ سب خیالات ان کے دل میں پید ا ہورہے تھے کہ اللہ تبارک وتعالی نے خو دحضرت عزیرؑ کو ہی مو ت دیدی پھر سو سالوں بعد انہیں اسی جگہ زندہ کردیا اور پوچھا کہ کتنے دنوں تک اس مردہ حالت میں پڑے رہے ؟انہوں نے جواب دیا بس ایک آدھ دن۔اللہ تعالی نے فرما یا نہیں بل کہ آپ سو سالوں تک مردہ پڑے رہے ۔حضرت عزیرؑ اپنے ساتھ کھانے کا کچھ سامان بھی لائے تھے سوسا لوں کا زمانہ گزرجانے کے بعد بھی وہ ایسے تھے جیسے وہ آج ہی پَکے ہوں ان میں کوئی بھی خرابی یا بدلاؤ نہیں آیا تھا۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ میر ی قدرت دیکھئے کہ سوسالوں بعد کے سامان بھی اب بھی پہلے ہی کی طرح ہیں۔اسی طرح حضرت عزیر ؑکی سواری کے گدھے کو بھی اللہ تعالی نے موت دیدی تھی اور اس کے جسم کے ٹکڑے سب الگ الگ پڑے ہوئے تھے ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں جیسا کہ جانور کے مرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں۔ باری تعالی نے فرمایا اپنے گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں جو ڑ تے ہیں اور کیسے ان پے گوشت چڑھا تے ہیں چناںچہ حضرت ؑکی آنکھوں کے سامنے ہی ہڈیاں اپنی الگ الگ جگہوں سے آکر ایک ساتھ خو د بخود جڑ گئیں،ہڈیوں پے گوشت پوشت چڑھ گئے ،رگیں پیدا کر دی گئیں ،پھر فرشتے کے ذریعے گدھے میں روح پھونک د ی گئی اور اس نے بولنا شروع کردیا۔ایک تو حضرت عزیرؑ خود ہی موت کے بعددوبارہ زندہ کردیئے گیے ،دوسر ے یہ کہ انہوں نے اپنے سامان کے خراب نہ ہو نے کو اور گدھے کے مرنے کے بعد دو بارہ زندہ ہونے کے ان سارے مراحل کو جب اپنی آنکھوںسے دیکھ لیا تو فرمایا مجھے تو پہلے بھی اللہ کی قدرت پر یقین تھااور اب تو بھلا اپنی آنکھوںسے ہی مردوں کو زندہ کرتے ہوئے دیکھ لیا اور میں خود ہی مردہ ہونے کے بعدزندہ کردیا گیا تو مجھے اس بارے میں سب سے زیادہ یقین ہو گیا ۔
تیسرے واقعے کا تعلق بھی پہلے کی طرح حضرت ابراہیم ؑ سے ہے اس سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے نمرود کے ساتھ مناظرے کا تذکرہ ہو چکا ہے جس میں اللہ کی مدد سے حضرت ابراہیمؑ کی فتح ہوئی تھی لیکن ایک سوال حضرت ابراہیم کے ذہن میںیہ تھا کہ کہیں نمرود کبھی یہ نہ پوچھ دے کہ کیا آپنے کبھی اپنے رب کو کسی کومارتے اور جلاتے ہوئے دیکھا بھی ہے ؟ تومیں کیا جواب دوں گا ؟اس لئے انہوں نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ آپ ذر ا مجھے یہ دکھادیں کہ کس طرح آپ مردوں کو زندہ کرتے اور مارتے ہیں؟اللہ تعالی نے فرمایا کہ کیا آپ کو یقین نہیں کہ میں ایسا کرسکتاہوں ؟حضرت ابراہیم ؑنے جو اب دیا بالکل یقین ہے !لیکن اس میں اضافہ چاہتاہوں۔اللہ تبارک وتعالی نے کہا چار چڑیوں کو لے آئیں اور انہیں اپنے پا س رکھ کر پالیں جب وہ آپ سے قریب ہو جائیں اورآپ ان سے محبت کرنے لگیں تو انہیں ذبح کرکے ان کی بوٹیاں بنائیں پھر ان چاروں کے گوشت کو پہلے ایک جگہ ملادیں اور ان میں سے ہر ایک کے ایک ایک ٹکڑے کو ہر پہاڑ پر رکھدیںپھر انہیں آواز دیں وہ زندہ ہوکر تمہارے پا س دوڑ کر آئیں گی۔ حضرت ابراہیم نے ایسا ہی کیا اور ان میں سے ہر ایک کے سر کو ہاتھ میں لیکر انہیں آواز دی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہر ایک کا پر سے پر ،خون سے خون ،گوشت سے گوشت اورہربوٹی سے بوٹی اڑکر مل رہی ہے یہاں تک کہ ہر پر ندہ مستقل کھڑا ہو جاتاہے اور حضرت ابراہیم کی طرف اڑکے آرہا ہے یہاں تک کہ اگر حضرت ابراہیمؑ کسی پرندے کے سامنے دوسرے پر ندے کا سر پیش کرتے ہیں تووہ اس سر سے نہیں جڑتا بل کہ اپنا ہی سر ڈھونڈتا ہے اور جب اس کا اپنا سر اس کی طرف بڑھایا جاتاہے تو وہ ا س سے جڑجا تاہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی قدرت کا یہ سار ا کرشمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
اس کے بعد آیت :۲۶۱سے ۲۸۱؍ تک اللہ تبارک وتعالی مالداروں کو صدقہ و خیرات کے ذریعے اخلاص کے ساتھ کوئی احسان جتلائے بغیر غریبوں کی مدد کرنے اور اگر صدقہ نہ کرسکے تو بلا کسی سود کے قرض دینے کا حکم فرماتے ہو ئے اخلاص کے ساتھ صدقے کی فضیلت اور سود کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبا ہی کو بیان فرماتے ہیں۔آیت: ۲۸۲ ؍اور۲۸۳؍ میںلین دین کے معاملے کو لکھنے اور اس پے گواہ بنانے کا حکم فرماتے ہوئے اسے معاملے کی کامیا بی کا ذریعہ قراردیتے ہیں ۔جب کہ سورت کے اخیر تک نیت کی درستگی اور تما م انبیاء،آسمانی کتابیں ، اورملائکہ پے ایمان کی تعلیم دی گی ہے ۔
سورہ ٔ آل عمر ان کی شروع کی آیتوں میں مسلمانوںکو دین کی ان چیزوں میں(بلاضرورت شدیدہ) پڑنے سے روکا گیاہے جن میں پڑنے کا انہیں حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ ان چیزوں میں پڑنے والے ناسمجھ اور گمراہ قسم کے لو گ ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی آیت :۱۳؍ میں بدر کی لڑائی کی ایک دلچسپ حقیقت کا تذکرہ ہے کہ اس میں مسلمان اور غیر مسلمین دونو ں ہی ایک دوسرے کو دوگنی تعداد میں دیکھ رہے تھے۔آیت :۱۵ سے ۲۷؍تک دنیا کو دل میں نہ بٹھانے اور آخر ت کو سنوارنے کی تا کید کی گئی ہے ۔پھر آیت:۲۸؍ میں دشمن قوم سے دوستی کو منع فرما یا گیا ہے ،حساب ِآخرت کی فکر دلائی گئی ہے اوراللہ کے نبی کی اطاعت کو اللہ کی محبت کی نشانی بتلایا گیا ہے ۔آیت :۳۵ سے ۶۳؍تک حضرت مریمؑ کی پیدائش وتربیت ،ان کی عبادت وفضیلت ، حضرت یحییؑ کی پیدائش، اور اس زمانے میں حضرت زکریا ؑکی کیفیت، حضرت عیسی ؑکی پیدائش ، ان کی چند خاص صلاحیتو ں اور ان کے اوپر اٹھالئے جانے کا تذ کرہ ہے۔ چناں چہ آیت:۳۵ سے ۳۷؍ تک بیان کے گئے حضرت کی پیدائش کے واقعے کا خلاصہ کچھ ا سطرح ہے کہ آپ کی ماں نے اللہ تعالی سے یہ منت مان لی تھیں کہ جو میرے پیٹ میں ہے اس کی پیدائش پہ میں اسے آزاد کردوں گی ۔وہ بیت المقدس کی خدمت کرے گا ۔ پیدائش کے بعد بیت المقدس کے خادمو ں کے پاس لے گئیں اور کہنے لگیں :’’یہ لو! یہ منت کی ہے ۔اگر چہ یہ بچی ہے ۔ اور کچھ خاص دنوں میں عبادت خانے میں نہیں جائیگی ۔لیکن میں اب اسے واپس نہیں لے جاؤں گی۔‘‘ بیت المقدس کے ہر خد مت کرنے والے کی یہ ہی خو اہش ہو ئی کہ وہ اس بچی کی پرو رش کرے لیکن ان کے سگے خالو حضرت زکریا ؑ (جو اُس و قت ان سب کے سردار اور نبی ؑ بھی تھے) نے کہا کہ میں اس کا خالوہو ںاس لیے مجھے ا س کی پرو رش کا سب سے زیادہ حق ہے ۔لیکن د وسرے خادمو ں نے کہا ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ قرعہ ڈالاجائیگا۔قرعے میں بھی حضرت زکر یا ؑ کا ہی حق ٹھہرا اور حضرت زکریا ؑنے ہی ان کی پرورش کی ۔حضرت مریمؑ کے ساتھ اللہ کا ایک خاص انعام یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے آپ ان کے پاس کھانے کی عمدہ عمدہ چیزیں آجایا کرتیں۔ حضور ﷺ نے بھی حضرت مریم کی بڑی خصوصیات اور اچھائیاںبیان کی ہیں جن کے مطالعے کے لیے۔ (بخاری شریف ،کتاب الابنیا ج؍۱،ص؍۴۸۸) کو دیکھا جاسکتاہے۔
اس کے بعد آیت :۴۱ تک حضرت یحی کی پیدایش کا تذکرہ ہے جس کا مطالعہ کافی دلچسپ ہوگا پھر آیت :۵۸ تک حضرت عیسی ؑکی پیدائش ، ان کی چند بہت ہی اہم خصوصیات ومعجزات اور ان کے اوپر اٹھالئے جانے اور متعلقات کا تذ کرہ ہے۔پھر دعوت ِاسلام کا طریقہ بتلایاگیاہے، اس بات سے منع کیا گیاہے کہ کوئی انسان کسی بھی ایسے مسئلے میں پڑے یابحث ومباحثہ کرے جس کے بارے میں وہ جانتا نہ ہو ،یہ بھی بتلایاگیاہے کہ حضرت ابراہیمؑ نہ تو یہودی یا نصرانی تھے اور نہ ہی مشرک تھے بل کہ کامل ومکمل مسلمان تھے اس کے ساتھ ہی یہ ضابطہ بھی صاف صاف بیان فرمادیا گیا ہے کہ کسی بھی پیغمبر یادوسرے اللہ والے سے سچ مچ قریب صرف وہی لوگ ہوں گے جو ان کے طریقوں کو اپنائیں گے ورنہ زبردستی ان سے رشتہ جوڑنے یا ان کی جانشینی کے دعوے سے اللہ تعالی کے یہاں کچھ ملنے والا نہیں ہے، اسی طرح ان سازشوںسے بھی چوکنا کیا گیاہے جو خا ص طور سے اس وقت کے اہل کتاب نے مسلمانوں کو اسلام سے روکنے اور پھیرنے کے لیے رچی تھیں ، اہل کتاب کے امانت داروں کی تعریف کی گئی ہے اور خیانت کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے ،اپنی تصنیف کردہ چیزوں کو اللہ کی کتاب سے جوڑ نے کی پروزور مذمت کی گئی ہے اورایک خاص بات یہ بیان کی گئی ہے کہ نبیوں سے اس بات کا عہد لیاگیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی (نبوت کے شرائط پائے جانے کی صورت میں) تصدیق و حمایت کریں گے اور یہ کہ انہوں نے اسے قبول بھی کیا اور وہ اس پے گواہ بھی ہوںگے۔ اس عہد کے یہاں تذکرے کا مطلب یہ ہے کہ جب نیبوںسے یہ عہد لیا گیا اور انہوں نے اس پہ عمل بھی کیا تو پھر ان کی امتوں کو کیسے اس سے آزادی حاصل ہوجائے گی ؟بل کہ ان کی بھی یہ ہی ذمہ داری تھی کہ جب ان کے سابق نبی کے بعد دوسرے نبی آتے تووہ ان پہ ایمان لاتے اور ان کی مدد کرتے لیکن اہل کتاب نے اس پہ عمل نہیں کیا۔ساتھ ہی بہت ہی کھلے طور پے دوباتوں کا اعلان کیاگیاہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایک مسلمان کے اسلام کے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے جتنی چیزیں دوسرے انبیائؑ پے اتاری ہیں وہ ان تمام کو بھی برحق مانے، انبیا ئے کرام کے درمیان نفس مراتب میں فرق نہ کرے اور دوسری بات یہ کہ آخری پیغمبرحضرت محمدﷺ کی تشریف آ وری کے بعد اس وقت کے انسانوں سے لیکر قیامت تک کے تمام انسانوں کی نجات کے لیے ضروری ہے کہ ان کے لائے ہوئے دین اسلام،، کو قبول کریں اور بس! اور اخیر میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اگرکسی انسان نے ایسا نہیں کیا اور کافر ہی مرگیاتو اس کے عذاب سے زمین بھر سونا دیکر بھی نہیں بچ سکتا!!!(اعاذنا اللہ جمیعا منہ!)
Mashallah & Barakallah my Brother,
Have forwarded all articles on my facebook.
Ashraf Nomani +92 345 2001097
(Harbalist Researcher)
Karachi-Pakistan,