جہاد اور دہشت گردی دو متضاد اصطلاحیں !
ندیم احمد انصاری
(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
آندھراپردیش کی راجدھانی حیدرآباد، ۳
فروری ۲۰۱۳کو، ۳ طاقت ور بم دھماکوں سے دہل اٹھی، جن میں گیارہ افراد کے ہلاک ہونے کی سرکاری طور پر تصدیق ہوئی، جب کہ درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی خبریں موصول ہوئیں۔ اس سلسلے میں دیگر ذرائع سےموصول اطلاعات کے مطابق حیدرآباد کے ۳بم دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد ۲۵سے زائد جب کہ زخمیوں کی تعداد ۵۰
سے اوپر پہنچ گئی۔ اس سلسلے وار بم دھماکوں کی جانچ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے تفتیشی ایجنسیوں نے اترپردیش، بہار اور جھارکھنڈ میں بھی مشتبہ افراد کی تلاش شروع کردی، جب کہ مہاراشٹر کے نانڈیڑ اور دیگر کئی علاقوں میں کومبنگ آپریشن اور متعدد افراد سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ اُدھر حیدر آباد پولیس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے اہم سراغ ملنے کا دعویٰ اور جلد ہی کیس کو حل کرلینے کی امید ظاہر کی لیکن اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی حیدرآباد کے ’دل سکھ نگر‘ علاقے میں ہوئے اس دوہرے بم دھماکے سے متعلق، تحقیقاتی ایجنسیاں، خاطیوں کی شناخت کے متعلق کوئی ٹھوس سراغ نہیں معلوم کرسکیں۔ اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ان بم دھماکوں کے پیچھے کیا مقصد تھا؟ یہ جو کہا گیا کہ یہ واردات ’’انڈین مجاہدین‘‘ نے انجام دی ہوں گی، محض تحقیقاتی ایجنسیوں کی تھیوری ہے اور بس۔
ہماری دلی تمنا ہے کہ حیدرآباد کے ’دِل سُکھ نگر‘ کی عوام کا دل حکومت ہر طرح کے سکھ سے بھردےاور اس مذموم فعل کو انجام دینے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائےلیکن اسی کے ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ آج جب کہ ہر جگہ اس قسم کے حادثات میں مسلمانوں کو بلاتحقیق بلکہ قبل از تحقیق ’خاطی‘ قرار دے دیا جاتا ہے، اس متعصبانہ عمل سے الگ ہوکر مناسب اقدام اٹھائے جائیں۔ اکیسویں صدی کی شاید ہی کوئی تاریخ ایسی ہوگی جس میں الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا میں دہشت گردی اور دہشت پسندی کی خبریں شائع نہ ہوئی ہوں اور پھر آگے چل کر اسے اسلام اور مسلمانوں سے نہ جوڑدیا جاتا ہو۔ یہ بہت بڑی ذہنی بیماری ہے، جس میں ’’بہت کشادہ ذہن والے‘‘ بھی مبتلا ہیں۔
زمانۂ ہذا میں ہر جگہ اور ہر آن نظام ہائے سیاست کے مطابق سب سے پہلی قرار داد اور تجویز دہشت گردی سے نمٹنے کے متعلق ہوتی ہے، بہ ایں وجہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ دنیا میں دہشت گردی سے متعلق جتنی قرار دادیں وتجاویز ودفعات مرتب ہوتی ہیں، اگر صرف انھیں شائع کیا جائےتو ہر سال مستقل کتاب تیار ہوسکتی ہے، اس لیے کہ ’مرض بڑھتا ہی گیا، جوں جوں دوا کی‘ اور سچ پوچھیے تو اصالۃً آج تک ہم نے اس مرض کی صحیح دوا ہی نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے کاغذات سیاہ ہونے کے باوجود، اتنا شور وغوغہ ہونے کے باوجود ’’دہشت گردی‘‘ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی، اور حال یہ ہے کہ کہیں سے کسی زور دار آواز سن کر دلوں میں بم دھماکوں کا خوف فوراً جاگزیں ہوجاتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی اب تک کوئی جامع تعریف ہی وضع نہیں کی جاسکی اور اس جامعیت کے مفقود ہونے کے باعث تحریکِ آزادی اور جہادِ اسلام جیسے عظیم مجاہدے اور بامقصد عمل کو اسلام اور انصاف دشمن عناصر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے مساوی قرار دینے کی مذموم کوشش وجرأت کرتے ہیں اور اس کوشش کو میڈیا پورے شد ومد کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اسی کا ثمرہ ہے کہ آج لفظ ’’جہاد‘‘ ہمارے سماج میں ایک ڈراونے خواب کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جن لوگوں کی تعلیم کم ہے وہ ہی نہیںبلکہ بعض بہت پڑھے لکھے بلکہ خود کو دانشور سمجھنے والے حضرات بھی اس عربی لفظ کا استعمال کرنے میں حجاب محسوس کرنے لگے ہیں، جب کہ اسلام میں یہ اصطلاح اور مبارک عمل دنیائے انسانیت کے تحفظ، عدل ومساوات کے استحکام اور قوم کی فلاح کے نقطۂ نظر سے دیا گیا ہے۔ جہاد کے لغوی معنی ’’کوشش کرنا‘‘ ہیں اور جہاد بالسیف ہو یا جہاد باللسان یا پھر جہاد بالقلم۔۔ ہر مرحلے اور ہر زاویے پر اسلام نے اولین شرط ’’تغیرِ منکر‘‘ کی لگائی ہے، جس کی رو سے کوئی فعل یا کوئی عمل اسی وقت جہاد کہلائے گا جب کہ اس میں کسی طرح کی کوئی کجی اور ظلم وبربریت کو دیکھ کر اس کی اصلاح ودرستگی کا جذبہ کارفرما ہو اور اس کا مقصد انسانیت کی بھلائی ہو۔ اس کے برخلاف کسی شرعی اسباب وعلل اور شرائطِ جہاد کے بغیر کسی قوم یا ملک پر حملہ آور ہوجانا یا ان کے مفاد کو نقصان پہنچانا، نہ صرف یہ کہ غیر اخلاقی وغیر انسانی عمل ہے، بلکہ شریعتِ مطہرہ کی نظر میں نہایت مذموم ومغضوب بھی ہے۔ ایسے عمل اور ایسی کارروائی کو جہاد جیسے مقدس عمل سے جوڑنا جہالت وحماقت بلکہ جسارت کے سوا کچھ نہیںلیکن افسوس صد افسوس کہ آج کچھ تو ناعاقبت اندیش مسلم حکمرانوں کی بے پناہ بزدلی اور ظالمانہ ذہنیت کے سبب اور کچھ جھوٹے اور بعید از حقیقت پروپیگنڈے کی وجہ سے ’’جہاد‘‘ ظلم وجبر کی علامت کے طور پر سنا اور سمجھا جانے لگا ہے، جب کہ جہاد تو ظلم وجبر کے خاتمے ہی کے لیے مشروع ہوا ہے۔
آج واقعی ضرورت ہے کہ جہاد کے بنیادی اصول ومبادی اور اس کی اغراض ومقاصد سے دنیا کو آگاہ کیا جائے، جو کہ امتِ مسلمہ کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے، کیوں کہ اس پر دہشت گردی اور ظلم وتشدد کا لیبل چسپاں کردیا گیا ہےاور جہاد کی پاکیزہ شناخت کو سادہ لوح مسلمانوں تک کے ذہن ودماغ سے محو کردیا گیا ہے۔ نتیجۃً کل تک جو ’’جہاد‘‘ امن وامان کے استحکام کا سب سے بڑا آلۂ کار تھا، آج اسی ’’جہاد‘‘ کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جانے لگا۔ جب کہ اسلام ہر گز کسی کے ناروا خون بہانے کو حلال تصور نہیں کرتا۔ معلوم ہوا جہاد کا دہشت گردی سے یا دہشت گردوں سے پرلے درجہ کا بھی تعلق نہیںبلکہ دہشت گردی کو ختم کرنے ہی کے لیے ہی اسلام میں ’’جہاد‘‘ مشروع ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔
جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گایعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ (شریعت وقانون کے مطابق) لیا جائے یا ملک میں خرابی پیدا کرنے کی سزا دی جائےتو یہ (اتنا بڑا گناہ ہے کہ) گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو ایک انسان کی بھی جان بچالےتو یہ (اتنی بڑی نیکی ہے کہ) گویا اس نے سارے انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (المائدہ: ۳۲)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں قارئین خود ہی غور فرمائیں کہ آیا جہاد دہشت گردی کا نام ہے یا دہشت گردی کو ختم کرنے کا نام جہاد ہے؟