Maulana Riyasat Ali Bijnori, Tarana-e-darul uloom deoband ke takhleeq kaar shayer

آہ!استاذالاساتذہ
مولاناریاست علی ظفرؔبجنوری:ترانۂ دارالعلوم دیوبندکے تخلیق کارشاعر
ڈاکٹرراحت ؔ مظاہری، قاسمی،دہلی
ٓازہرہنددارالعلوم دیوبندکے مایہ ناز استاذ، استاذ الاساتذہ حضرت مولاناریاست علی ظفرؔبجنوری (اعلیٰ اللہ مقامہ )کاانتقال نہ صرف ان کے اولاد واحفاد واعزاء واقرباکے لئے ایک بڑا حادثہ ہے ، بلکہ اردوکے ایک ادنیٰ طالب علم سے لے کر عربی ادب کے بڑے بڑے سمندربھی اس طوفان غم کی سونامی سے دوچارہیں، کیونکہ موصوف بیک وقت ایک درجن سے زائد ان اوصاف نادرہ کے حامل تھے جن پر بیک وقت ایک بڑی جماعت کوبھی بسااوقات وہ دسترس و فوقیت حاصل نہیں ہوتی جن پرحضرت مرحوم کو یدطولیٰ حاصل تھا،اسی عالی دماغی اورمنتظمانہ صلاحیت کی بناپران کو علوم سے فراغت کے بعدجلدہی ہندوستانی مسلمانوںکے اعلیٰ ملّی پلیٹ فارم یعنی جمعیۃ علماء ہندکانائب صدرمنتخب کرلیاگیاتھاجبکہ اس وقت آپ کی عمرشریف اس عظیم منصب کی متقاضی بھی نہ تھی، مگرجمعیۃ کے ارباب حل وعقدکی نظربصیرت نے ان کے اندرچھپے ایک اعلیٰ منتظم کو اندرسے ڈھونڈنکالاجس کاثبوت ان کا جمعیۃ علماء ہندکے پلیٹ فارم سے ملک کے مسلمانوںکی چودہ سالہ خدمات پر مشتمل طویل فہرست ہے۔ مگرچونکہ آپ کے اندرخداکی جانب سے ودیعت رکھی ہوئی اورپوشیدہ صلاحیات نیزایک چھپافقہ وحدیث وعلوم عالیہ کافاضل و کامل استاذ ملکہ ٔدرس وتدریس کے میدان سے ہٹ کرخودکوبے کل اور غیرمطمئن سامحسوس کرتاتھا ،اس لئے آپ نے اپنے مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کی آغوش کو ترجیح دی، اوراس کے لئے وہ تمام قانونی مراحل طے کئے جن سے دارالعلوم کے ہرایک چھوٹے بڑے استاذ کوگذرناپڑتاہے۔میرے استاذ محترم حضرت مولاناحبیب الرحمٰن معصوم پوری(حفظہ اللہ) استاذاالاساتذہ وسابق مہتمم مدرسہ دارالعلوم جامع ا لہدیٰ مرادآباد جوحضرت مرحوم کے شاگر رشید ہیں، نے ایک باربیان فرمایا کہ مولاناریاست علی صاحب کابیان ہے ’’تقررکے بعد جب میں نے صبح کے درس کے لئے متعلقہ کتاب مطالعہ اورتیاری کے لئے ہاتھ میں لی توکتاب ہاتھ میںلیتے ہی میرے پاؤوں کے تلے کی زمین کھسکنے لگی، اورسرچکرانے لگا کہ مجھے تواپنی یاداشت، قابلیت اورصلاحیت پر بڑاناز تھااسی لئے میں نے جمعیۃ چھوڑکر خودکو علمی شغف اوردرس وتدریس سے جوڑنے کے مقصدسے مادرعلمی دارالعلوم دیوبندکی آغوش کے لئے تیارکیاتھا،لگاکہ طویل عرصہ جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کے بعدتعلیم وتعلّم سے دوری کی بناپر شاید میںمادرعلمی کے طلبائے کرام کے سامنے نہ چل سکوں،کیونکہ میںاس دارالعلوم کا ایک سابق طالب علم ہونے کی ناطے یہ بات اچھی طرح جانتاہوں کہ یہاںکے طلبہ سبق میںشرکت کرنے لئے کے بڑے اہتمام سے کتاب سے متعلق بڑی بڑی،ضخیم سے ضخیم اوراعلیٰ شروحات کے علاوہ اس فن کی معبتر مطوّل ومؤقر کتب کی نہ صرف عبارات حفظ کرکے آتے ہیںبلکہ ان کے بین السطور اورحاشیہ جات بھی رٹ کر شامل درس ہوتے ہیں، مگرمیںنے کتاب کے مطالعہ سے قبل اللہ تعالیٰ سے دعاکی :اے اللہ! توجانتاہے میںتیرابندہ بہت دنوںبعد درس وتدریس کی خدمت سے جڑناچاہتاہوں، تومیری خاص مدد فرماکرمجھے اس امتحان میںبھی کامیابی نصیب فرما، الحمدللہ اس کے بعد کبھی مجھے کوئی پریشانی کسی کتاب میںبھی محسو س نہیں ہوئی۔حضرت مرحوم کی یہ فکر طلباء دارالعلوم کے تئیں تب تھی جب کہ آپ اپنے تقرری انٹر ویو کے بیچ ممتحنین حضرات کو یہ چیلنج کر چکے تھے کہ آپ لوگ جس کتاب اورجس جگہ سے چاہیں مجھ سے معلوم کر سکتے ہیں ،جس پر مہتم دارالعلوم حکیم الاسلام حضر ت قاری محمدطیب صاحب ؒ نے مسکراکر سوال کیا :کیا میں بھی کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟حضرت مولانا ریاست علی صاحب ؒ نے حکیم الاسلام کے اس استفسار کا جواب دیتے ہوئے عرض کیا: نہیںحضرت آپ نہیں۔حضرت ! آپ تو مجھے قاعدہ بغدادی ہی میں فیل کر دیں گے ۔جس پر تمام حاضرین مسکرا کر رہ گئے ۔
آپ جانتے ہوںگے کہ حضرت کویہ خدشہ جب تھا کہ جب خود حضرت اسی دارالعلوم کے ہونہارطلبہ میںتھے، مجھے یاد پڑتاہے کہ میںنے حضرت والاکاشعری مجموعہ’نغمہ ٔ سحر،مدرسہ مدینۃ العلوم انجمن معاون الاسلام، سنبھل، میںغالباََ1982-83میںپڑھاتھاجس کے مقدمہ میںلکھاتھا’دارالعلوم دیوبندمیںایک سال ایک گاؤںکے دوطالب علم فرسٹ ڈویزن سے پاس ہوئے تووہ دونوں طالب علم ایک ہی گاؤںکے تھے، جن میںایک مولاناریاست علی تھے، اسی طرح ایک سال علی گڈھ میںبھی ایک سال ایک ہی گاؤںکے دو طلبہ فرسٹ ڈیویزن سے پاس ہوئے توان میںبھی ایک نام حضرت ہی کاتھا۔آپ کی علمی ودرسی خدمات کے علاوہ آپ کا دوسرااہم ومشہورمیدان کارعلمی شغف،شوق شعروادب رہاہے جس کابین ثبوت عالمی درسگاہوںکے ترانوںمیںشایدسب سے زائدمشہور ومعروف اورپڑھاجانے والاترانہ دارالعلوم دیوبند ؎
‎ یہ علم وہنرکاگہوارہ ، تاریخ کاوہ شہ پارہ ہے
جوکہ حددرجہ فصیح وبلیغ،تشبیہات،واستعارات سے مزیّن،تمام ہی شعری محاسن پر محیط اوراردوزبان وادب کاایک اعلیٰ شاہکارنیز ہزاروں شعری دیوانوں پر تنہابھاری ہے،کیونکہ اس میںشامل کچھ اشعار ومصرعے نہایت اعلیٰ تصور لفظی ومعنوی ان صنعتوںپر مبنی ہیں جن کاوجود اردوادب میںخال ہی خال نظرآتاہے، بلکہ اس کو اگرالہامی ترانہ کانام دیاجائے توشاید کچھ بیجانہ ہو،جیساکہ دارالعلوم کی دارالحدیث کی تعمیر کاوہ احاطہ جس کے لئے یہ بات مشہورترین ہے کہ جس صبح دیوبندمیں مجوزہ اراضی پردارالعلوم کی بنیاد رکھی جانی تھی، منصوبہ میںشامل ایک بزرگ نے رات کوخواب دیکھا کہ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ایک لکڑی اپنے دست مبارک میں لے کرزمین پر خط کھینچتے اوریہ فرماتے جارہے ہیں کہ یہاں بناؤ،چنانچہ صبح کو بانیین دار العلوم کی جماعت نے اس مقام پر جہاں اب دارالحدیث کی شاندارعمارت رونق افروز ہے چوطرفہ ایک لکیر نقش پائی۔ بشارت مصطفوی ﷺ کے مطابق اسی جگہ دار لحدیث کی بنیاد رکھی گئی،اس خیال کو حضرت مولاناریاست صاحبؒ نے کس خوبصورت الفاظ میںباندھاہے، داددیجئے؎
خودساقیٔ کوثرنے رکھی مے خانے کی بنیادیہاں
اسی طرح جب آپ ترانہ لکھ رہے تھے تویہ خیال بھی دامنگیررہاکہ میرے مربیّ ومشفق استاذ حضرت مولانافخرالدین مرادآبادی ؒ سے متعلق شعر ان کی شایان شان اورحضرت سے میری ازحد عقیدت وفرط محبت کے سبب عمدہ اور تاریخی ہو،اس کے لئے بھی مرحوم کے نادرونایا ب اسلوب کا ثبوت یہ مصرعہ ملاحظہ ہو؎
روشن ہے جمال انورسے پیمانۂ فخرالدین یہاں
اس کے علاوہ مادرعلمی دارالعلوم کے لئے آپ کی خدمات کی فہرست کافی طویل ہے جس کے لئے کئی سو صفحات درکارہیںمگرآپ درس وتدریس کے علاوہ دارالعلوم کے انتظامی امور میں بھی کافی حدتک دخیل رہے بطورخاص سابق مہتمم رئیس بجنورحضرت مولانامرغوب الرحمٰنؒ کے زمانے میں اکثر مسائل ومعاملات میںڈرافٹنگ کی اکثرخدمات آپ کے اشہب قلم ہی کی مرہون منّت رہی ہیں،علمی خدمات کے زمرے میں کئی کتب کے علاوہ اپنے استاذ محترم مربیّ ومشفق استاذ حضرت مولانافخرالدین مرادآبادیؒ کی تقاریر بخاری شریف پر مشتمل ایضاح البخاری کاعظیم دس جلدوںپرذخیرہ بہت بڑاقلمی وعلمی شاہکارنیز اہل علم کے لئے بے بہا تحفہ ہے۔
حوالہ جات کے مطابق آپ کی پیدائش ہندوستان کے مشہور علمی وصنعتی تاریخی شہر علی گڈھ میں/9مارچ1940کوہوئی، حالانکہ وطن اصلی ضلع بجنورکا گاؤں’حبیب والا،ہے۔ ابتدائی تعلیم دارالعلوم دیوبند کے سابق ناظم کتب خانہ،اپنے پھوپھاحضرت مولاناسلطا ن احمدؒ سے حاصل کی، 1951میںجس وقت آپ کی عمرصرف11ہی برس تھی دارالعلوم میںداخلہ پایا،یہاں/7سال تک دولت علم سے دامن بھرتے رہے اور 1958میںدورۂ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی۔1972میں دارالعلوم کی مدرسی سے سرفرازکئے گئے،مادرعلمی دارالعلوم کے علمی وادبی ترجمان جس کی ادارت کا شرف آجکل حضرت مولانامحمدسلمان بجنوری نقش بندی صاحب حفظہ اللہ کوحاصل ہے،اس کی ادارت جلیلہ کو بھی حضرت مرحوم کے نام نامی کاشرف حاصل رہاہے،آپ کی انتظامی صلاحیات سے استفادہ کی خاطر آپ کو 1405ہجری میںمجلس شوریٰ نے ناظم تعلیمات کے عہدہ رفیعہ کے لئے نامزدکیااس کے بعد1408ہجری میںآپ کو دارالعلوم انتظامیہ نے مدرسہ کے ایک اور علمی ، ادبی ڈھانچہ شیخ الہنداکیڈمی کے نگران اعلیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز کیا،گویاکہ حضرت مولاناریاست علی ظفرؔبجنوری ا زہرہنددارالعلوم دیوبندکے ایک مایہ ناز سپوت ،مسلک دیوبندکے عظیم ترجمان،استاذ، نیز استاذ الاساتذہ ،مقبول خلائق،منتظم اعلیٰ ،صاحب فکر شخصیت، خطیب بے بدل اورصاحب طرزادیب جیسے محاسن وصفات کا مجموعہ ہونے کے ساتھ ہمہ جہت،ہشت پہلوشخصیت کے مالک اورازہرہند دارالعلوم دیوبندکے انمول رتن تھے۔اللہ مرحوم کوجنت الفردوس میںاعلیٰ مقام عطافرمائے ،
ایں دعاازمن وازجملہ جہاںآمین آباد
(مضمون نگارمولاناآزادایجوکیشنل اینڈمیڈیکل آرگنائیزیشن دہلی کے جنرل سکریٹری ہیں)
9891562005

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here