Mufti Ahmed Khanpuri ki Ilmi-o-deeni khidmaat

مرشد العلماء،فقیہِ دوراںحضرت مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب دامت برکاتہم کی علمی و دینی خدمات
ندیم احمد انصاری

بڑے ذی علم کامل متقی ہیں مفتیِ احمد
ذہین و باہنر عالم ذکی ہیں مفتیِ احمد
سخن ور ہیں خطیبِ وقت ہیں خادم ہیں ملت کے
ہیں مصلح اور مخلص اور یہ واعظ ہیں امت کے
فقیہِ عہدِ حاضر مفتیِ شرعِ متیں یہ ہیں
نگہ بانِ چمن ہیں ناشرِ دینِ مبیں یہ ہیں
رکنِ شوری دارالعلوم دیوبند، مفتیِ اعظم گجرات،شیخ الحدیث و سابق صدر مفتی جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل،خلیفۂ اجل فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، معتمدِ خاص سابق مفتیِ اعظم گجرات حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاجپوریؒ، تلمیذِ رشید صدر المدرسین و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم یعنی سیدی و مرشدی حضرت مولانا مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم کے بارے میں کچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ جنھیں شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندھلویؒ نے فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کے ’اخص الخواص‘ میں شمار کیا، نیز حضرت فقیہ الامتؒ نے اپنے متعلقین کے مکتوبات میں جنھیں’مجمع الحسنات و البرکات‘ ، ’جامع الکمالات‘، ’جامع الاخلاق و الاعمال‘، ’مجمع الحسنات الظاہرہ والباطنہ‘ کے القاب سے نوازا، ان کے بارے میں مجھ جیسا بے سواد کیا عرض کر سکتا ہے۔خودداری و استغنا کے پیکر، تواضع و خورد نوازی کی عظیم مثال ہیں حضرت مفتی صاحب موصوف، جن کے مفصل حالات نثر میں آپ کے معتمد مفتی عبد القیوم راج کوٹی صاحب نے اور مختصر حالات نظم میں مولانا ولی اللہ قاسمی بستوی نے افادۂ عام کی خاطر شائع فرما دیے ہیں،سردست انھیں سے خوشہ چینی کرکے چند باتیں نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔
ولادت و طفولیت
آپ کی ولادت 27 شوال 1365ھ بہ مطابق 24ستمبر 1946ء بہ روز منگل رات کو دس بجے، خانپور میں ہوئی، جو کہ جمبوسر سے آٹھ کلو میٹر کی دوری پر ضلع بھروچ(گجرات) میں واقع ہے۔آپ کے والد گرامی کا نام ’محمد‘ تھا، وہ عالم نہیں تھے، مگر صوم و صلوٰۃ و تہجد کے پابند ایک دین دار انسان اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے بیعت تھے۔
تکمیلِ تعلیم
حضرت مفتی صاحب کی ابتدائی دینی و دنیوی تعلیم وطنِ مالوف خانپور کے ایک مکتب میں ہوئی۔ آپ کے والد صاحب ایک اسکول میں ماسٹر تھے، ان کا فیصلہ شروع ہی سے دینی تعلیم دلانے کاتھا، جس روز ناظرۂ قرآن شریف ختم ہوا، اس روز گھر میں بَہارِ مسرت چھا گئی اور با قاعدہ کھیر و حلوا پکانے کا حکم دیا، جس سے آپ کی حوصلہ افزائی مقصود تھی۔ اسکول کی پوری تعلیم ابتدا سے ساتویں کلاس تک خانپور میں ہی حاصل کی۔وہاں رہ کر قاعدہ، قرآن شریف اور اردو وغیرہ کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد جب اسکول کی تعلیم مکمل ہو گئی تو آپ کے بڑے بھائی نے آگے انگریزی پڑھانا چاہا، لیکن آپ کے والد ماجدنے فرمایاکہ ’’احمد کو میں نے اپنی آخرت کے لیے رکھا ہے‘‘۔والد صاحب کا یہ فیصلہ شاید بڑے بھائی کے لیے تو ناگواری کا باعث ہوا، مگر آج اس کی قدر بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ کافی نہیں ہے۔ ان کا یہ فیصلہ ان کے لیے تو اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام اور موجبِ ثمراتِ اخروی ثابت ہو ہی چکا اور بعد والوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موصوف کو خلقِ عظیم کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا۔خانپور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے دارالعلوم اشرفیہ( سورت) میں اکتسابِ فیض کیا اور فارسی سے دورۂ حدیث تک تکمیلِ درسِ نظامی یہیں رہ کر کی اور امتحانات میں اعلیٰ نمبرات سے کام یاب ہوتے رہے، اس طرح 18نومبر 1966ء کو کُل نو سال تین ماہ میں درسِ نظامی مکمل کر لیا۔
مفتیِ اعظم گجرات سے تعلقِ خاطر
راندیر کے قیام میں حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاج پوریؒ( مفتیِ اعظم گجرات) سے تعلق پیدا ہوا، جو روز افزوں ہوتا گیا، جس کے متعلق حضرت موصوف فرماتے ہیںـ کہـ’’احقر کو اپنے دورِ طفولیت سے حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل رہی، اسی زمانے میں حضرت کے فتاویٰ نقل کرنے کے لیے حضر ت کے دولت کدے پر روزانہ حاضر ہوتا تھا اور فراغت تک یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ حضرت بھی احقر کے ساتھ پدرانہ شفقت و محبت فرماتے تھے‘‘۔
دارالعلوم دیوبند میں
اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں حضرت موصوف نے دو سال تک اکتسابِ فیض کیا‘ پہلے سال فنون، دوسرے سال اِفتا۔فنون کی کتابوں میں معیاری نمبرات حاصل کیے، شوال 1387ھ میں افتا کے لیے درخواست دی، لیکن چوں کہ آپ نے دورۂ حدیث وہاں نہیں پڑھا تھا، اس لیے درخواست مسترد کر دی گئی، مگر مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبندحضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کی توجہ آپ پر پڑی اور ان کی خصوصی نگرانی میں افتا کا کورس مکمل کرنے اور فتاویٰ کی مشق کرنے کی آپ کو سعادت نصیب ہوئی اور حضرت فقیہ الامتؒ کا قرب اور مسلسل حاضر باشی کی سعادت میسر آئی۔
شیخ الحدیثؒ سے بیعت
افتا کے سال فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ سے حضرت مفتی صاحب کا جو رشتہ قایم ہوا، اس کے باعث حضرت فقیہ الامت کی معیت میں اسفار کی بھی سعادت میسر آئی اور ہر ہفتے جب حضرت فقیہ الامت ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ہاں تشریف لے جاتے تو ایک جمعے کے ناغے سے حضرت موصوف کو بھی ساتھ لے جاتے اور حضرت فقیہ الامتؒ نے ہی آں موصوف کو ایک دن حضرت شیخ الحدیثؒ سے عرض کرکے بیعت کروایا اور چند ہی دن بعد ذکر بھی شروع کروادیا۔آں موصوف کے متعلق حضرت شیخ الحدیثؒ نے حضرت فقیہ الامتؒ سے فرمایا تھا’’یہ تو آپ کا ہی ہے، آپ ہی اس پر توجہ فرمائیں‘‘ اور یوں آپ کو شیخ نہیں، شیخین کی توجہات حاصل رہیں۔
جامعہ ڈابھیل میں
افتا کا سال پورا ہونے پر رمضان المبارک کے بعد حضرت فقیہ الامتؒ نے 1388ھ میں تدریس کے لیے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل روانہ فرمایا یعنی فقط اکیس سال کی عمر میں۔ حضرت موصوف کی تدریسی زندگی کا باقاعدہ آغاز یہیں،شوال 1388ھ سے ہوتا ہے، جہاں آپ نے متعدد شعبہ جات میں خدمات انجام دیں اور اُس وقت سے تا دمِ تحریر آپ کی تدریسی خدمات کو پچاس سال پورے ہو رہے ہیں۔آپ جس سال جامعہ میں آئے اس وقت عمر22 سال تھی، شادی نہیں ہوئی تھی، داڑھی کا ایک بال بھی ظاہر نہیں ہوا تھا، چھریرا دبلا پتلا بدن تھا، کوئی نو وارد ظاہری حلیہ اور قامت و جسامت کو دیکھ کر بجا طور پر محسوس کرے کہ کوئی طالب ِ علم ہے، کسے معلوم تھا کہ اسی چھریرے اور نحیف جسم کی جاں نثاری سے جامعہ اسلامیہ کی ایک نئی تاریخ وابستہ ہے۔ آپ نے عربی اول سے دورۂ حدیث تک متعدد فنون کی کتابیں باربار پڑھائیں اس عرصے میں بڑے بڑے علماء کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔تدریس کے ساتھ نظامت ِ کتب خانہ اور نظامت ِ تعلیم کے میدان میں بھی زور آزمائی کی اور اپنے جوہر دکھائے۔
صدر مفتی کا عہدہ
30ذی قعدہ 1406 ھ میں آپ کو جامعہ میں ’صدر مفتی ‘کا عہدہ تفویض کیا گیا، جس میں آپ نے بڑی تن دہی سے 1437ھ تک علمی و تحقیقی خدمات انجام دیں اور اس طرح آپ کے فتاویٰ کی تعداد تقریباًچالیس ہزار سے متجاوز ہو گئی۔
اکابرین کی نظر میں
آپ کے ایک استاذِ گرامی مفتی مصلح الدین صاحب، جن سے آپ نے عربی دوم کی سب کتابیں پڑھیں، وہ آپ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ ذہانت و ذکاوت، قوتِ حافظہ کے ساتھ ساتھ صلاح و تقویٰ، مطالعہ و تکرار، نمازِ باجماعت کی پابندی، اسباق میں بلا ناغہ وقت کی پابندی کے ساتھ شرکت اور استاذ کی تقریر کو بہ غور سننا، اساتذہ کا ادب و احترام، ان کی خدمات، تواضع و انکساری، ملن ساری وغیرہ اوصاف، جو حصولِ علم کے لیے نہایت ضروری اور کسی بھی علمی و عملی کمال کے حصول کے لیے اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں، مولانا احمد خانپوری صاحب کی ذاتِ گرامی بچپن اور طالبِ علمی کے زمانے ہی سے ان کی حامل تھی۔۔۔آپ کے فتاویٰ کے مستند و معتبر ہونے کے لیے صاحبِ فتاویٰ کا نامِ نامی کافی ہے۔۔۔آپ ایک تجربے کار، سنجیدہ، کہنہ مشق، بالغ نظر مفتی ہیں، قرآنِ کریم، حدیث و فقہ پر عمیق نظر رکھنے والے بڑے صاحبِ قلم عالمِ دین ہیں۔(محمود الفتاویٰ:4/43-44)
آپ ایک طویل زمانے سے عوام الناس کے سامنے حدیث شریف کی نہایت سہل اور پُر مغز تشریح بھی فرماتے ہیں،یہ مجلس ہر سنیچر کو عشاء بعد سالہا سال سے جاری ہے، جس میں ہونے والے وعظوں کوبہت اہتمام سے شائع کیا جاتا ہے۔حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنےجب حضرت موصوف کے ان بیانات کا مجموعہ پیش کیا گیا تو انھوں نے اس پر بہ طور تقریظ رقم فرمایا: دو آتشہ شراب اور سونے پر سہاگہ والی مثل مشہور ہے، اس درس پر جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، دونوں مثالیں پورے طور پر صادق آتی ہیں، درس حدیث کا ہو اور صاحبِ درس ایک صالح، خدا ترس، پرہیزگار، وفا شعار اور عالمِ با عمل انسان ہو، جس کی طبیعت میں سادگی ہو، فکرِ آخرت ہو، دنیا سے دوری ہو اور امت و ملّت کا درد ہو، یعنی عزیزِ مکرم مولانا مفتی احمد خانپوری (سلمہ اللہ زادہ علماً و عملاً)، تو اس درس میں جتنی خوبیاں جمع ہوں، قرینِ قیاس ہے۔(حدیث کے اصلاحی مضامین:1/22)
معاصرین کی نظر میں
حضرت مفتی صاحب کو اپنے معاصرین میں بھی نہایت احترام و محبت کا مقام حاصل ہے،عالمِ اسلام کی مشہور علمی شخصیت، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم آپ کے فتاویٰ کے تعلق سے رقم طراز ہیں:حضرت مولانا مفتی احمد صاحب خان پوری (امداللہ تعالیٰ عمرہ فی عافیۃ سابغۃ) ہمارے دور کے علماے اہلِ فتویٰ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں، ان کا وجود ملت کا گراں قدر اثاثہ ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سہارنپوری قدس سرہ کی روحانی اور حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہٗ کی علمی تربیت سے انھیں علم و روحانیت دونوں کے کمالات سے حصۂ وافر ملا ہے۔ ۔۔[ان کے فتاویٰ] دیکھنے پر ہی اندازہ ہوا کہ ان میں علم اور فقہ کا بیش بہا سرمایہ موجود ہے، اندازِ فکر و استنباط اپنے اکابر کا ہم رنگ ہے۔(محمود الفتاویٰ: 4/36)
اسی طرح عالمِ اسلام کی عظیم دینی درس گاہ، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ 1387ھ کا زمانہ حضرت مفتی صاحب کے ساتھ رفاقت کے آغاز کا زمانہ تھا، جب حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہ کی خدمت میں دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے مشقِ افتاء اور استفادہ و استفاضے کی توفیق حاصل تھی، اس وقت بندہ جناب مفتی احمد صاحب کی علمی صلاحیت، استخراج اور اخذ و استنباط کے ملِکے سے مرعوب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فراغت کے بعد جہاں موصوف سے افتاء اور درسِ حدیث کی خدمت لی، وہیں بندگانِ خدا کی ہدایت اور اصلاح کے لیے بھی قبولیت سے نوازا۔ بفضلہ تعالیٰ موصوف کے وابستگان و مستفیدین کا دائرہ گجرات تک محدود نہ رہتے ہوئے افریقہ، امریکہ، ری یونین، انگلینڈ اور بہت سے ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔نیز حضرت خان پوری مدظلہ کے مکتوبات کی اشاعت پر ان کی قدر و قیمت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں: ’’کیوں کہ ان گرامی ناموں کے مکتوب الیہ حضرت مولانا مفتی احمد صاحب خان پوری جیسے سراپا اخلاص و محبت، پیکرِ سعادت، مرقعِ محبوبیت اور مجمعِ فضل و کمال کی دل آویز شخصیت ہے اور صاحبِ مکاتیب میں مرجعِ انام، فقیہ الامت، جامع شریعت و طریقت، ماہرِ علوم و فنون اور مشفق استاذ و مربی، حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی اور شیخِ اول، قطب الارشاد، حافظِ کتاب و سنت، محبوب العارفین، مصلح الامت، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہما جیسی قد آور علمی و عرفانی شخصیتیں شامل ہیں۔اس پس منظر میں ان مکتوبات کی قیمت کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے۔‘‘ (مکتوباتِ فقیہ الامت:4/19)
بیعت و اصلاح
زمانۂ دراز سے آپ کے یہاں بیعت و اصلاح کا سلسلہ بھی جاری ہے اور جن حضرات نے آپ کے دستِ مبارک پر بیعت و توبہ کی ان کا شمار ممکن نہیں، البتہ رمضان میں آپ کی خانقاہ میں آنے والے مریدین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے، جس میں ہند و پاک ہی کیا دنیا بھر سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور اس نورانی ماحول میں اپنے قلب و جگر کواللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مامور کرتے ہیں۔ حضرت مفتی اسماعیل صاحب کی عدم موجودگی میں1402ھ میں آپ نے جامعہ ڈابھیل کی مسجد میں پہلا اعتکاف کیا۔(مکتوبات فقیہ الامت:4/242) یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور واردین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس مبارک سلسلے کو عافیت کے ساتھ تا دیر جاری رکھے۔ آمین
علمی و دینی کاوشیں ایک نظر میں
حضرت خانپوری دامت برکاتہم نے شبانہ روز علمی و دینی خدمات میں مشغول ہونے کے باوجود کوئی مستقل کتاب تو تصنیف نہیں کی، البتہ کثرت سے طول و طویل مقالات و فتاویٰ وغیرہ خوب تحریر کیے ہیں، جنھیں آپ کے خدام نے کتابی شکل میں شائع بھی کر دیا ہے۔آپ کے وعظوں میں جو علم و حکمت کے موتی ہوتے ہیں، انھیں پِرونے کا کام تاحال جاری ہے، اور تادمِ تحریر آپ کی درجِ ذیل کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں:(1)حدیث کے اصلاحی مضامین، 14جلدیں۔یہ سورت میں ہفتہ وار مجلس میں ہونے والے بیانات کا مجموعہ ہے، جو تاہنوز جاری ہے(2) محمود الفتاویٰ اردو، 6جلدیں۔یہ آپ کے ہزاروں فتاویٰ میں سے انتخاب ہے، یہ سلسلہ بھی ہنوز جاری ہے(3)محمود الفتاویٰ گجراتی، 4جلدیں۔آپ چوں اردو و گجراتی دونوں زبانوں میں فتاویٰ تحریر فرماتے ہیں، اس لیے اس مجموعے میں جو فتاویٰ پیش کیے گئے ہیں، وہ اردو سے ترجمہ کیے ہوئے نہیں، بلکہ طبع زاد ہیں(4)محمود الرسائل، ایک جلد۔اس میں آپ کے بعض مختصر رسائل کو یک جا کر دیا گیا ہے(5)محمود المواعظ، ایک جلد۔مختلف موضوعات پر مختلف مقامات پر ہونے والے بیانات کا مجموعہ ہے(6)مبادیاتِ حدیث علی نہج مقدمہ مشکوٰۃ المصابیح ، 1394ھ میں آپ نے پہلی مرتبہ مشکوٰۃ شریف کا درس دیا،اس وقت فنِ حدیث اورمشکوٰۃ سے متعلق ضروری اور اہم امور پر رہنمائی فرمائی، یہ اُسی کا جدید تحقیق شدہ ایڈیشن ہے(7)تسہیل السراجی ۔یہ فنِ فرائض کی مشہور کتاب سراجی کے درس میں کی گئی تقریروں کا مجموعہ ہے، جو حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم کا پسند فرمودہ ہے،وغیرہ وغیرہ۔
الٰہی شیخ احمد کو تو عمرِ جاودانی دے
رضاے خاص کی اپنی انھیں زندہ نشانی دے
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here