ملازمت کے حقوق ادا نہ کرنے سے کمائی حلال نہیں رہتی
ندیم احمد انصاری
ملازمت کرنا کوئی عیب نہیں بلکہ جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملازمت کا تذکرہ تو خود قرآن مجید میں موجود ہے، نیز دینِ اسلام میں محنت کرکے حاصل کی گئی حلال کمائی کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے،نیز دیگر امور کی طرح اسلام نے ملازم و ملازمت کے حقوق کی بھی نشان دہی کی ہے اور جہاں ملازم کے لیے یہ تاکید کی کہ اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دی جائے، وہیں خود مزدور کو بھی اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ ملازمت کے طے شدہ اوقات میں بلا عذر کسی طرح کی کمی کوتاہی نہ کرے، یعنی جس شخص کے پاس حلال ملازمت کی جائے، اس کی جانب سے مقرر کیے گئے معاہدے کے تحت جو ذمّے داریاں سونپی گئی ہوںانھیں حسن وخوبی اور دیانت وامانت داری کے ساتھ انجام دینے کی پوری کوشش کی جائے اور اوقاتِ ملازمت میں کوئی ذاتی کام ہرگز نہ کیاے۔آج کل یہ المیہ ہے کہ سیٹھ لوگ جہاں مزدور اور کام کرنے والوں میں کیڑے نکالتے نہیں تھکتے،وہیں مزدور بھی سیٹھوں کے عیب تلاش کرنے اور انھیں بُرا بھلا کہنے کو گویا بالکل جائز سمجھتے ہیں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کرتے، ورنہ صورتِ حال ہرگز ایسی نہ ہوتی۔
یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ فی زمانہ اکثر ملازمین ملازمت کے اوقات کی پابندی نہیں کرتے، دیر سویر آتے ہیں اور وقت سے پہلے جانے کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ بعض گنتی کے گھنٹے تو پورے کر لیتے ہیں پردیانت داری و تن دہی کے ساتھ اپنی ذمّے داریاں نہیں نبھاتے، بعض تو سُستی سے کام لیتے ہیں اور بعض کام کے ساتھ اپنے فون اور واٹس ایپ وغیرہ پر بھی لگے رہتے ہیں، جس سے کام پر بُرا اثر پڑتا ہے، اسی وجہ سے بعض کمپنیوں کی طرف سے یہ تاکید کی جاتی ہے کہ موبائل فون لاکر وغیرہ میں یا بند رکھا جائے،اس سب کے باوجود لوگوں نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کام چوری کے بہت سے راست نکال رکھے ہیں اور جسے وہ سمارٹ نیس کی نشانی سمجھتے ہیں اور ذرا خیال نہیں کرتے کہ کل خدا کے سامنے ہر ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ملازمت کے اوقات یہ تمام باتیں معاہدے کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لیے باز پُرس کا سبب ہیں، جس کی وجہ سے اُن کی کمائی بھی حلال نہیں رہتی۔
قرآن مجید میں بتایا گیا کہ اجیر و ملازم میں دو دو خوبیوں کا ہونا لازمی ہے: قوت و امانت داری۔ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ۔یعنی آپ کسی سے اجرت پر کام لیں تو اس کے لیے بہترین شخص وہ ہے جو طاقت ور بھی ہو، امانت دار بھی۔(القصص:21)اس آیت میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کا اپنے والد سے مکالمہ نقل کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اجیر و ملازم کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس نے کہا: اے ابا جان! اس شخص کو اپنے یہاں اجرت پر رکھ لیجیے، اور ساتھ ہی یوں بھی کہا:اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ،کہ جسے آپ مزدوری پر رکھیں ان میں بہتر آدمی وہ ہے جو قوی بھی ہو،اور امین بھی۔ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعریف تو ہے ہی کہ یہ شخص قوت والا ہے اور امانت دار بھی، ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اپنے کام کے لیے ایسے شخص کو مزدور رکھا جائے جو اس کام کو کرسکتا ہو جس کے لیے ملازم رکھا جا رہا ہے، اور ہر عمل کی قوت علیحدہ ہوتی ہے، کسی کو پڑھانے کی قوت و صلاحیت ہوتی ہے، جس کسی کو محاسب رکھا جائے وہ حساب داں ہونا چاہیے، جس کسی سے عمارت بنوائے وہ اس کا اہل ہونا چاہیے، خواہ معمار ہو، خواہ سمینٹ بنانے والا ہو، خواہ اینٹیں اٹھا کردینے والا ہو۔ لفظ قوی، جسمانی، قلبی، دماغی سب قوتوں کو شامل ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ جسے کسی کام پر رکھا جائے وہ امانت دار بھی ہونا چاہیے، اس میں ہر قسم کی امانت داخل ہے، مال میں بھی خیانت نہ کرے، وقت بھی پورا دے اور جس کے یہاں کام پر لگے اس کے اہل و عیال کے بارے میں بھی بد نفسی سے بد نظری کے خیال سے پاک اور صاف رہے۔ آج کل لوگوں میں خیانت بہت ہے، جب کوئی شخص مزدوروں کو کام پر لاتا ہے تو جب تک سامنے رہتا ہے، اچھی طرح لگ کر کام کرتے ہیں اور جہاں وہ نظروں سے اوجھل ہوا باتیں بنانے لگے۔ عموماً دفتروں میں کام کرنے والے اور اسکولوں میں پڑھانے والے، تنخواہ پوری لے لیتے ہیں اور کام آدھا تہائی کرتے ہیں۔ آپس میں مل کر نمبر وار ایک شخص پورے مہینے غیر حاضری کرتا ہے اور رجسٹر میں حاضری برابر لکھی جاتی ہے، یہ سب خیانت ہے۔ جن لوگوں کو حکومت کے محکموں میں یا دوسرے اداروں میں ملازم رکھنے کا اختیار دیا گیا ہو اُن پر لازم ہے کہ جسے ملازم رکھیں اس کی صلاحیت بھی دیکھیں اور امانت دار ہونے کا بھی پتہ لگائیں، محض ڈگریاں دیکھنے پر اکتفا نہ کریں اور نہ رشوت لے کر کسی کو ملازم رکھیں اور نہ قرابت داری کو ملازمت پر رکھنے کا سبب بنائیں۔(دیکھیے انوار القرآن)
علما نے دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم حلال کھا رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ سود نہیں کھا رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ جُوا نہیں کھیل رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ شراب بیچ کر نہیں کما رہے ہیں، لیکن ذرا یہ تو دیکھو کہ اگر تم ملازم ہو تو کیا ملازمت کا جو وقت مقرر تھا وہ پورا وقت ملازمت کے کام میں لگایا یا نہیںیا ڈنڈی مار گئے؟ اگر پورا وقت نہیں لگایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنا وقت تم نے بیچا تھا اور جس کے بدلے میں تمھیں تنخواہ مل رہی تھی، اس میں سے جتنا وقت تم نے ملازمت کے کام میں نہیں لگایا اس کے بدلے میں جو تنخواہ تم نے وصول کی، وہ تنخواہ حرام ہو گئی اور جب تنخواہ حرام ہو گئی تو اب ان پیسوں سے جو کھانا خریدا وہ کھانا حرام ہو گیا۔ (اصلاحی خطبات) ملازمت کے لیے اگر یہ طے کیا تھا کہ میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دوں گا، اب اگر اس آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں سے کچھ چوری کر گیا اور کچھ وقت اپنے ذاتی کام میں استعمال کر لیا، تو جتنا وقت اس نے اپنے ذاتی کام میں استعمال کیا اس وقت میں اس نے امانت میں خیانت کی، کیوں کہ آٹھ گھنٹے اس کے پاس امانت تھے، اس کے لیے جائز نہیں تھا کہ اس میں اپنا کوئی ذاتی کام کرے۔ یہ اوقات بِک چُکے، اب اگر اس وقت میں دوستوں سے باتیں شروع کر دیں، یہ امانت میں خیانت ہے، اور جتنی دیر یہ خیانت کی اتنی دیر کی تنخواہ اس کے لیے حلال نہیں۔(اصلاحی خطبات) کسی زمانے میں تو دفتروں میں ذاتی کام چوری چھپے ہوا کرتے تھے، مگر آج کل دفتروں کا یہ حال ہے کہ ذاتی کام چوری چھپے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ کھلم کھلا علانیہ ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے۔ اپنے مطالبات پیش کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں کہ تنخواہیں بڑھاؤ، الاؤنس بڑھاؤ، فلاں فلاں مراعات ہمیں دو اور اس مقصد کے لیے احتجاج کرنے، جلسے جلوس کرنے اور نعرے لگانے کے لیے، ہڑتال کرنے لیے، ہر وقت تیار ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے ذمّے کیا حقوق عائد ہورہے ہیں؟ ہم ان کو ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ ہم نے آٹھ گھنٹے کی ملازمت اختیار کی تھی ان آٹھ گھنٹوں کو کتنی دیانت اور امانت کے ساتھ خرچ کیا، اس کی طرف بالکل دھیان نہیں جاتا۔یاد رکھو! ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے جو دوسرے کے حقوق میں کمی کرتے ہیں اور جب دوسروں سے حق وصول کرنے کا وقت آتا ہے تو اس وقت پورا پورا لیتے ہیں۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک ایک منٹ کا حساب ہوگا، اس میں کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔(اصلاحی خطبات)ارشادِ ربانی ہے:وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ۔ الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ۔ وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ ۔ بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی،جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کرلیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں، اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو گھٹا کردیتے ہیں۔ (الططفیف: 1-3)
تطفیف صرف ناپ تول ہی میں نہیں بلکہ حق دار کو اس کے حق سے کم دینا کسی چیز میں ہو، تطفیف میں داخل ہے۔۔۔یہاں تک کہ نماز، وضو، طہارت میں بھی اور اسی طرح دوسرے حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے، اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے۔ مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں سے وقت چرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے، وقت کے اندر جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے، اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے، اس میں عام لوگوں میں یہاں تک کہ اہلِ علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا۔(معارف القرآن:)
اللہ تعالیٰ ہم سب کی ان سب باتوں سے حفاظت فرمائے،آمین۔