Musalmano ko chahiye k apne kaamo ke aapas me baat len

 

مسلمانوں کو چاہیے کہ کا موں کو آپس میں بانٹ لیں

مولانا شاہد معین قاسمی

گیارہویں پارے کی شروع کی آیات یعنی سورۂ توبہ آیت: ۹۴سے ۹۶؍تک اللہ تبار ک وتعالی نے ان منافقین کا راز کھولا ہے جو محض اپنی جان بچانے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے تمام آسانیوں کے بعد بھی تبوک کی لڑائی میں شریک نہیں ہو ئے اور انہوں نے یہ ارادہ بنا یا کہ جب محمد ﷺ آئیں گے تو ان سے رودھو کر اپنی غلطی معاف کرالیںگے لیکن اللہ تبارک وتعالی نے آپ ﷺ کو مدینے واپسی سے پہلے ہی سب کچھ بتادیا کہ یہ آپ کے پاس آکر جھوٹی معذرت کریںگے اس لیے آپ ان سے صاف کہدیںکہ ہمیں تمہا رے ارادے کی خوب خبر ہے اب معافی مانگنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر تمہارا دعوی صحیح ہے کہ تم مخلص ہو لیکن روکاوٹ کی بنا پہ نہیں جا سکے جس کا تمہیں دل سے افسوس ہورہا ہے تو آئند ہ اخلاص کا کام کرکے دکھاؤ ۔پھر فرمایا کہ یہ لو گ سر اپا گندگی ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ان کی مغفر ت نہ ہونے کا یہ کہتے ہوئے صاف اعلان فرمادیا کہ مسلمان چاہے ان سے راضی ہوجائیں اور انہیں معا ف کردیں لیکن اللہ تعا لی ا س نافرمان قوم سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے ۔( یقینا اللہ تعالی کی طرف سے اپنی نارضگی کے اظہار کایہ بڑا ہی عجیب وغریب طریقہ ہے جسے ہم سخت اور غضبناک ترین طریقہ کہہ سکتے ہیں اوراس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اپنی ناراضگی کے ساتھ دنیا جہان کے ان تمام انسانوں سے بھی جو اللہ کو اپنا خالق ما نتے ہیں یہ فرمارہے ہیں کہ اگر میری ناراضگی کا تمہارے یہاں کوئی اعتبار ہے تو تم بھی ان سے کبھی راضی نہ ہونا اور یہ طے ہے کہ اللہ کو اپنا خالق ماننے والا کوئی بھی انسان بھلاکسی بھی ایسے انسان سے کس طرح راضی ہوسکتا ہے جسے خود ا س کے خالق نے ہی ا پنی رضامندی سے محروم کر دینے کا اعلان کردیاہو)۔ آیت: ۹۷سے ۹۹؍تک میں اللہ تبارک وتعالی نے پہلے تو وہاں کے دیہات کے رہنے والے لوگوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ ان میں سے اکثر کے دل سخت ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ زکات وغیر ہ کوعبادت کی بجائے اپنے اوپر ایک جرمانہ سمجھتے ہیںا ور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی حکومت کی طرف سے ان کے لیے سزا ہے اچھا ہوتا کہ مسلمانوں کے برے دن آجاتے اوران کا زور ٹوٹ جاتا تو ہمیں یہ تاوان نہ دینا پڑتا پھرخود ہی اس کے جواب میں فرمایا کہ تمہارے ہی برے دن آجائیں اور تم ہی ہلاک ہو ۔لیکن یہ حال سب لوگوں کا نہیں ہے بل کہ ان میں سے کچھ لوگ ایمان والے بھی ہیں ۔آیت: ۱۰۰ ؍میں صحابہ ٔ کرامؓ اور ان کے ساتھ ہی ان لوگوں کے بھی اللہ تبارک وتعالی کی نگاہ میں محبوب ہونے اور پوری دنیا کے سامنے ان تمام کے جنتی ہو نے کا اعلان ہے جوصحابہ ٔ کرام ہی کے طرز پے اخلاص کے ساتھ اللہ تبارک وتعالی کے احکام پہ چلتے ہیںخواہ وہ تابعی ہو ں یا قیامت تک کے آنے والے ان کے بعد کے تمام مسلمان ۔پھر باری تعالی فرمارہے ہیں کہ کچھ منافقین تو خود آپ کے قریب میں ہی رہتے ہیں جنہیں آپ نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیںاور ہم انہیں دوہر اعذاب دیں گے ۔دنیا میں مسلمانوں سے چاپلوسی اور ذی حضوری کا عذاب کہ انہیں ہر وقت یہ ڈرلگا رہتاتھا کہ کہیں ہمارے منافق ہونے کا مسلمانوں کو پتہ نہ چل جائے اور قیامت کے دن جہنم کا عذاب تو ہے ہی۔
آیت: ۱۰۲سے ۱۰۶؍تک ان دس بڑے ہی مخلص اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے بے پناہ محبت رکھنے والے صحابہؓ کا بیا ن ہے جن سے وقتی طورپے ایک چو ک ہو گئی کہ تمام سہولتوں کے باوجود وہ تبو ک کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔لیکن فورا بعد ہی انہیں اپنی غلطی کا ایسا احسا س بھی ہو گیا اور وہ اس قدر بے چین ہوگئے کہ انہیں ہر لمحے اپنی اس غلطی پے ندامت کا احساس رہتاتھا ۔ان میں سے ۷؍ نے تو آپ ﷺ کے مدینے پہنچتے ہی اپنی غلطی کا اقرار بھی کر لیا کہ ہم جان بوجھ کرلڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ یہی نہیں بل کہ انہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ لیا اور یہ کہا کہ جب تک اللہ تعالی ہمیں معاف نہیں کردیتے اس وقت تک ہم اسی طرح رہیں گے سبحان اللہ! اسی لیے میں نے کہا کہ وہ اللہ اور ان کے رسول ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے پھر جب اللہ تبارک وتعالی نے ان کی توبہ قبول کر لی تو ان حضراتؓ نے شکرانے میں اپنا پورا مال صدقے کے لئے پیش کردیا! اب اندازہ لگائیں کہ انہیں اللہ اور ان کے رسول ﷺ سے کتنی محبت تھی (کیا ان کے بعد کے کسی جماعت یا شخصیت میں اللہ اور رسول ﷺ سے ان جیسی محبت پائی گئی ؟اگر نہیں اور ہز ار بار یقینا نہیں! تو پھر ان کے بعدکے کسی بھی ایمان والے کو ان پہ تنقید کی بھلا کیسے ہمت ہو سکتی ہے ؟!یقینا ان حضرات کی اس چوک کے بعد ان پہ احساس ِندامت کی جو کیفیت طاری ہوئی ہے اور اللہ اور ان کے رسول ﷺکی ہوئی وقتی ناراضگی کو ختم کرنے کے لیے یہ حضراتؓ جس قدر بے تاب ہو کر تڑپنے لگے ا ن کی تفصیل صحیح احادیث وتاریخ میں پڑھنے والا کوئی بھی دردمند انسا ن ان کی حالت پے رشک کھائے اور ان کے سچے عاشقان رسول ہونے کی گواہی دیئے بغیر ہر گز نہیں رسکتا) ان میں کے تین حضرات شروع میںآپ ﷺ کے پا س آکر صاف انداز میں اپنی غلطی کا اقرار نہیں کرسکے تھے لیکن بعد میں انہوں نے بھی اپنی غلطی کا اقرار کر لیا اور اللہ پا ک نے ان سب کی بھی توبہ قبول فرما لی ۔ آیت: ۱۰۷سے ۱۱۰ ؍تک میں منافقو ںکے اس سازش خانے، ،کا بیان ہے جسے انہوں نے مسجد کا نام دیدیاتھاجس کا خلا صہ یہ ہے کہ ابو عامر نامی نصرانی جو راہب سے بھی مشہور تھا اور جس نے ہر حال میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کر نے کی حضور ﷺ کو پہلے ہی دھمکی دے رکھی تھی اور غزوۂ حنین تک وہ یہی سب کچھ کرتا بھی رہا، اسی نے مدینے کے منافقین کو یہ خط لکھا کہ میں نے روم کے بادشاہ قیصر کو مدینے پہ چڑھائی کے لئے تیا ر کرلیا ہے اب تم کو پہلے ایک مکان بنا کر اسے مسجد کا نام دیدینا ہوگا جس میں تم اپنے لوگوں کو جمع کروگے ، اسی میں ہتھیار جمع کرکے وہیں سے مسلمانوں کے خلاف تیاریاں کرو گے۔ منافقین نے یہ مکان مدینے میں مسجد قبا کے قریب بنایا اور آپ ﷺ کو اس کی ضرورت سمجھا کر آپ ﷺ سے اس میں پہلی امامت کے لئے درخواست بھی کرلی اور آپ ﷺ نے منظوری بھی فرمادی کہ تبوک سے واپسی پر ہم اس میں نماز پڑھ لیں گے لیکن تبوک سے واپسی میں ابھی مدینے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان آیتوں کے ذریعے اِس مکان کے پس پردہ اُن کے سارے گندے ارادوں سے آپ ﷺ کو مطلع فرمادیا ۔ اور اس میں نماز پڑھنے پڑھانے سے منع فرماتے ہوئے مسجد قبا اور مسجد نبوی کی فضلیت بھی بیان فرمادی ۔آ پ ﷺ نے فورا ہی اس مکان میں آگ لگو اکر وہاں سے اس کا نام ونشان مٹوادیا ۔آیت: ۱۱۱؍سے ۱۱۲؍تک مدینے کے مسلمانوں کے ساتھ تیسری مرتبہ بیعت کا بیان ہے جس میں مدینے پا ک سے سترلوگ آئے ہوئے تھے اس بیعت میں اسلام کے عقائد کے ساتھ ہی اس وقت کے ان کفار کے مقابلے میں جہاد (جن ہوں نے مسلمانوں پہ کسی بھی ظلم کو باقی نہیں رکھاتھا) اور حضور ﷺ کی مدینے تشریف آوری پر وہا ں آ پ ﷺ کی حفاظت کی ذمہ داری کا معاملہ خاص طور سے رکھا گیا ایک صحابی عبداللہ بن رواحہؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسو لﷺ یہ بیعت و معاہدے کا وقت ہے اس لئے اسی وقت ہماری تمام ذمہ داریا ں بتلا دی جائیں آپ ﷺنے فرما یا اللہ کے لئے تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم صرف اللہ پا ک کی ہی عبادت کرو اور میر ے حق میں تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم سب میری حفاظت اپنی جان ،مال اور اولا د کی طرح کرو۔ان خوش قسمت حضرات ؓنے پوچھا کہ اگر ہم لوگ یہ دونو ں کام کرلیں تو ہمیں کیا انعام ملے گا ؟اللہ کے نبی ﷺ نے فرما یاجنت ملے گی۔ یہ جواب سن کر وہ بہت خوش ہوگئے اور کہا ہم نے تو بہت ہی اچھا سودا کیا ہم خود تو اپنی طرف سے بہرحال اس سودے کو باقی رکھیں گے اور اگر ہمیں اسے توڑنے کو کہا جائے تب بھی ہم اسے پسند نہیں کریں گے۔ آیت :۱۳؍اور ۱۴؍ میں اسلام کا ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ غیر مسلم کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی جائے گی۔جب کہ آیت : ۱۱۵؍۱۱۶؍ میں دوسرا ضابطہ یہ بیا ن فرمایا گیا کہ ایک مرتبہ ہدایت دینے کے بعد کسی قوم کو اللہ تبارک وتعالی اسی وقت گمر اہ کرتے ہیںجب کہ پہلے کرنے اور نہ کر نے کی تمام چیزیں کھلے طریقے پر ان کے سامنے رکھدی جاتی ہیں اور وہ جان بوجھ کر ان میں کوتاہی کرتے ہیں ۔جب کہ آیت :۱۲۰؍ اور ۱۲۱؍ میںان صحابہ کرام ؓ کی توبہ کی قبولیت کا بیا ن ہے جو تبوک کے موقع پر شروع میں ہی تھوڑی سی سستی کا شکار ہوئے تھے لیکن پھر نکلنے کے لئے تیار ہوگئے اور ساتھ ہی ان حضرات کی توبہ کی قبولیت کا بھی اعلان ہے جو بلا عذر لڑائی میں شریک نہیں ہو ئے پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی غلطی کا اعتراف بھی بعد میں کیا لیکن بے حد اخلاص کے ساتھ توبہ کی تو اللہ تبار ک وتعالی نے ان کی بھی توبہ قبول فرمالی۔
آیت :۱۲۲؍ میں یہ بتلا یا گیا ہے کہ عام حالتوں میں جہاد تمام مسلمانوں پہ فرض نہیں ہے بل کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ کا موں کو آپس میں بانٹ لیں اور خاص کر ایک جماعت کو دین کے علوم میں مہارت حاصل کرنے میں تو مشغول رہنا ہی چاہیے ۔ (بلا شبہ یہ آیت اجتماعی ترقی کے بہت اہم اصولو ں میں سے ایک ہے کہ ہم میں سے ہر آدمی کو ہر اچھے کام کرنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے بل کہ ہمیں ایک قوم ہونے کی حیثیت سے دنیا میں موجود بے شمار تجارتی ،علمی ،صنعتی،سائنسی،سیاسی،اقتصادی ، انتظامی اوردفاعی وغیرہ میدانوں میں سے ہر ایک میں صلاحیتوں اور تقاضوں کے لحاظ سے اپنے افراد کو تقسیم کر دیناچاہیے کام کے انتخاب اور اس کے آغاز میں ہی ہمیں اپنی انفرادی اور خاندانی حیثیت سے اوپر اٹھ کر سوچنا چا ہیے اور سب سے پہلے انتہائی باریک بینی اور سنجیدگی سے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کن میدانوں میںہمارے افراد کے بالکل نہ ہونے یا براے نام ہونے کی وجہ سے ہمیں مجموعی طور پے نقصان اٹھانا پڑ رہاہے یا خدا نخواستہ آئندہ نقصان اٹھانا پڑسکتاہے یا یہ کہ ان میدانوں میں درکار خدمات میں ہماری نمائندگی نہیںہورہی ہے جب اس تحقیق سے یہ میدان متعین ہوجائیں تو ہم سب سے پہلے ان ہی میدانوں کے لیے اپنے افراد کو تیار کریں چاہے ان میدانوں میں وقتی طور پے آمدنی کم ہویا ہمیں ذاتی اور خاندانی طور پے کوئی بہت زیادہ فائدہ نظر نہ آرہاہو ۔مثال کے طور پے اگر ہم ہندوستانی سطح پے غور کریں اور ہمیں تحقیق کے ساتھ یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارے افرادخاص طور سے میدان صحافت اور اس میں بھی خا ص کر ہندی اور انگریزی صحافت میں نہ کے برابر ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو غایت درجے اہتمام کے ساتھ اس میں داخل کرنا چاہیے،اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے افرادانڈین پولس سروس میں نہ کے برا بر ہیں توہمیں اپنے بچوں کو اس میں داخل کرنے کا خوب اہتمام کرنا چاہیے،اگر ہم باریک بینی پہ مبنی غور وفکر سے اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ ہمارے افرادبری اور بحری فوج میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں تواس میدان کو اپنے لیے اجنبی اور خدانخواستہ اسلام کی روح کے خلاف سمجھنے کی بجائے اسے ملک وملت کی حفاظت کی خدمت کا بہترین ذریعہ سمجھ کر ہمیں اپنے نونہالوں میں اس کے لیے اعلی درجے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے،اگر یقین کی حدت تک ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے افرا دمعیشت کی پیداوار،اس کی حفاظت اور تقسیم کے شعبوں میں اپنی خدمات نہیں پیش کررہے ہیں تو ہمیںاب اس میں مزید تاخیرہرگز نہیں کرنی چاہیے اس مضمون کو قرآن کریم نے کئی آیتوں میں بھی اشارۃً بیان کیا ہے جو انشاء اللہ آئندہ آئیں گی)۔
علوم دین کی خاص اہمیت:جب ہم اس آیت کا ترجمہ دیکھیں گے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اس میں مسلمانوں سے یہ کہا گیا تھا کہ یہ مناسب نہیں کہ تمام مسلمان ہمیشہ جہاد کے لیے نکل جایا کریں بل کہ ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھو ٹی جماعت جہاد میں جا یا کرے اور باقی لوگ دین کی گہری سمجھ اور گہر اعلم حاصل کریں… خاص کر اس آیت کے نزول کے زمانے میں بڑی خطرناک قسم کی جنگیں مسلمانوں پے مسلط کی گئی تھیں اس لیے جہاد میں شرکت کی بڑی اہمیت تھی لیکن اس کے باوجود مسلمانوں سے یہ کہا گیا کہ تمام مسلمانوں کا ہر جہاد میں نکل پڑنا دانشمندی نہیں ہے بل کہ دوسرے کام بھی ضروری ہیں اور جس کا م کا یہا ں بڑے اہتمام کے ساتھ تذکر ہ کیا گیا ہے وہ اسلامی علوم میں گہرائی پید اکرنے ،کرانے کا کام ہے (جو دنیا میں پائے جانے والے وسیع ترین علوم میں سے ہیں اور ان کے حصول میں آسانی کے لیے مختلف طریقوں سے ان کے الگ الگ حصے کرکے انہیں الگ الگ نام دیئے گئے ہیںجیسے :فن ِتفسیر، فنِ اصولِ تفسیر ،فنِ حدیث،فن ِاصولِ حدیث،فنِ رجال،فنِ فقہ ،فنِ اصول فقہ اور فن تاریخ وسیر وغیرہ جب کہ عربی زبان کے علوم اور دوسرے اسباب وآ لات کی حیثیت رکھنے والے علوم الگ رہے )جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہارت کے ساتھ اسلامی علوم کو سیکھنے ،سکھانے والی جماعت کا ہر وقت موجود ہونا بے حدضروری ہے اور اس جماعت کا یہ کام تھوڑی دیر کے لیے بس اسی صورت میں ملتوی کیا جاسکتاہے جب کہ کسی اہم کام میں اس کی شرکت کے بغیرامت کا ظاہری وجو د(خدانخواستہ) خطرے میں پڑ سکتاہو ورنہ عام حالات میں ہروقت اِس کا اپنے اِسی کام کو اوڑھنا بچھونا بنا ئے رہنا صرف اس جماعت کی ہی کوئی ذاتی ضرورت نہیں بل کہ پوری امت کی دینی اور دنیوی اجتماعی اور امت کے ہر ہر فرد کی بھی ذاتی ضرورت ہے ورنہ اگر ایسا نہ کیا گیا اور اس جماعت کو بھی صرف اس ,,وہم،، سے کہ کبھی اس کی بھی دوسرے میدانوں میں ضرورت ناگزیر ہوسکتی ہے ،اسے بھی ہرمیدان میں گھسیٹا گیا تو پھر یہ امت کے لیے خطرنا ک ہوگااوراس کی وجہ سے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اسلام کے مٹنے اور تحریف کی زد میں آنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا!۔سورہ ٔ توبہ کے اخیر تک یہ بتلایا گیا ہیکہ دشمنوں سے لڑنے میں ترتیب ہو نی چاہئے پہلے جو قریب کے ہوں ان سے نمٹنا چاہئے ،ساتھ ہی منافقوں کی کئی طریقوں سے مذمت بیان کی گئی ہے پھر آقاﷺ کا تعارف کرایا گیا ہے اور یہ کہاگیا ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان ناحق پریشانی میں پڑ جائے وہ آپ ﷺ کو برداشت نہیں ہے جس میں خود اسلام کا تعارف بھی ہوگیا اور اب یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ ہر وہ چیز جسے انسان ناحق پریشانی میں پڑ جائے وہ اسلام کو برداشت نہیں۔
سورہ ٔ یونس کی آیت۷۰ ؍ تک اللہ تبارک نے اپنی بہت سی قدرتوں کوبیان کیا ہے، قرآن کریم پر اعتراض کرنے والوں کو یہ چیلنج کیا ہے کہ قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا کر پیش کردو اور آپ ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ نہ ماننے والوں کے سوالات اور ان کی باتوں سے آپ کو غمگین نہیں ہوناچاہیے ۔آیت ۷۳؍ تک حضرت نوح ؑکی دعوت کو نہ ماننے پر ان کی تباہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر ۷۴؍ تک یہ کہاگیا ہے کہ ہم نے نوح کے بعد بھی نبیوں کو بھیجالیکن ان کی قوموں نے بھی انہیں مان کر نہیں دیاجب کہ آیت :۹۲؍تک حضرت موسی ،حضرت ہارون اور ان کی قوم کے تذکرے کے ساتھ فرعون کے دریا میں ڈوبنے کے وقت کے واقعے کا بیان ہے کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو اس نے کہا کہ میں ایما ن لاتا ہوں لیکن اللہ تبار ک وتعالی نے فرمایا اب ایمان لانے سے کو ئی فائد ہ نہیں ہے اب بس اتنا ہوگا کہ ہم تمہارے بدن کو محفوظ کرلیں گے تا کہ قیامت تک کے لوگ اسے دیکھ کر سبق حاصل کریںچناں چہ دریا نے اس کی لاش کو کنارے پر ڈالددیا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی لاش اب تک محفوظ ہے ۔اس کے بعد آیت ۹۸؍تک اللہ تبارک وتعالی نے لوگوں کی عام حالت یہ بیان فرمائی کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس وقت انہیںاللہ کے دین کی طرف بلایا گیا اسی وقت اللہ کے دین کو قبول کرلیتے اور اللہ کی پکڑ میں آنے سے پہلے ہی اللہ تعالی سے پناہ چاہتے تو ان کو فائدہ ہوتا اور وہ عذاب سے بچ جاتے لیکن حضرت یونس ؑکی قوم کے علاوہ کسی قوم نے ایسا نہیں کیا قوم نے پکڑ میں آنے سے پہلے ہی اللہ تعالی سے معافی مانگ لی تو اللہ تبارک وتعالی نے ان کی توبہ قبول کرلی اور ان پر آنے والا عذاب ان سے ٹل گیا ۔اس کے بعد سورت کے اخیر تک اللہ تبارک وتعالی کی مختلف قدرتوں کا بیا ن ہے اور اسلام کی دعوت ہے اور یہی کیفیت سورہ ٔ ہود کے شروع میں بھی ہے اور اسی پے پارہ مکمل ہوگیا ہے ۔ �

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here