پاک دامن حضرت عائشہ ؓکی پاک دامنی کااعلان قرآن مجید کی آیتوں میں
مولانا شاہد معین قاسمی
اٹھارہویں پارے کے شروع میں سورہ ٔ مؤ منون کی آیت :۱۱؍تک اللہ تبارک وتعالی نے کامیاب ہوکر جنت میں داخل ہونے والے مسلمانوں کی کچھ خاص باتوںکوبیان کیا ہے ۔پھر آیت:۱۱سے ۱۶؍تک ماں کے پیٹ میں بچوں کی تیاری اور پرورش کے اول وآخر تمام مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے قیامت کے روز زندہ ا ٹھا ئے جانے کا بیان ہے۔ آیت :۱۷ سے ۲۲؍ میں باری تعالی نے اپنی بہت ہی واضح اور اہم قدرتوں اور احسانات کو بیان کیاہے ۔اس کے بعد آیت: ۵۰؍ تک حضرت نو ح ،حضرت ،حضرت موسی ، حضرت ہارون،حضرت مریم اور حضرت عیسی کا تذکر ہ فرماتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ ہم ایک قوم کی شرارت کے بعد دوسری قوم کو لاتے رہے۔آیت :۵۱سے ۶۱؍ میں یہ بیان کیا گیاہے کہ انبیائے کرام کو حلال اور پاکیزہ رزق کھانے کاحکم دیا گیا تھا اور تمام انسان ایک ہی جماعت تھے لیکن بعد میں وہ بٹ گئے اور فرمایاگیا کہ جن لوگوں کو ڈھیل دی جاتی ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے ساتھ ہم خیر کا معاملہ کررہے ہیں بل کہ یہ ڈھیل ان کے لئے مصیبت بنے گی جسے یہ سمجھ نہیں رہے ہیں اس کے برخلا ف جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ،ان کی نشانیوں کو مانتے ،شرک نہیں کرتے اوراللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھتے ہیں کہ انہیںاللہ سے ملناہے اور اسے آخرت کے لئے کرتے ہیں یہ ہی لوگ نیکیوں کی طر ف دوڑنے والے ہیں ۔آیت :۶۲ سے۶۷؍تک اللہ تبارک وتعالی نے یہ بیان فرمایاہے کہ کسی بھی انسان کو اللہ تعالی کسی بھی ایسے کام کا حکم نہیں دیتے جو اس کی طاقت سے باہر ہواور یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے پاس ہر انسان کے اعمال کارکارڈ موجود ہے جو خودہی بول کر یہ بتائے گا کہ کس نے کیا او رکیسا عمل کیا ؟ اس کے ساتھ ہی نافرمانوں کے عذاب کا بیان ہے ۔آیت: ۶۸ سے ۷۵؍ میں اللہ کا انکار کرنے والوں کے چند برے اعما ل کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بات تو یہ بتلائی گئی کہ اگر سچائی اور صحیح دین پر عمل کرنے کی بجائے خود صحیح دین کو ہی اپنی خواہشات کے تابع کرلیا جائے تو یہ بڑی تباہی کا ذریعہ ہے اس کی نحوست سے آسمان وزمین اور ان دونوں کے بیچ کا سارا نظام درہم بر ہم ہوجائے گا پھر حضورﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کی باتوں سے پریشان نہ ہو ں کیوں کہ دین کو پھیلا نا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا آپ کی کو ئی معاشی مجبوری نہیں ہے آپ ان سے کچھ مانگتے نہیں ہیں آپ کا کام صرف لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلانا ہے ۔آیت: ۷۶سے ۸۳ ؍تک یہ بیان فرمایاگیا ہے کہ نہ ماننے والے ہٹ دھرم عذاب کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی پہ باقی رہیں گے اور ساتھ ہی انسانوں کوبنانے اور ان کے جسم کے حصوں کومکمل کرنے جیسی اللہ تعالی کی دوسری نشانیوں کا بیان ہے جو آیت: ۸۴ سے ۹۰؍ تک سوال وجوا ب کے انداز میں بیان کی گئی ہیں۔آیت :۹۱سے ۹۲؍تک اللہ کے ایک ہونے پر ایک عجیب دلیل بیان کی گئی ہے کہ اگر اللہ کے علاوہ دوسرے بھی معبود ہوتے تو ہر معبود اپنی مخلوق پے قبضہ کرلیتا ہر ایک اپنا اپنا الگ الگ حکم چلاتااور پھر دنیا کا نظام یکسا ں نہ ہوتا ۔آیت: ۹۳سے ۹۸ ؍تک آپ ﷺکو مسائل وپریشانی کے وقت میں دعا مانگنے کو سکھایاگیا ہے اوربرائی کو اچھے سے اچھے طریقے پر دور کرنے کی وصیت فرمائی گئی ہے جب کہ آیت :۹۹؍سے سورت کے اخیر تک موت سے لیکرجہنم کے عذاب تک کاتذ کرہے کہ موت کے وقت اللہ کے صحیح دین کونہ قبول کرنے والا انسان یہ کہے گا کہ مجھے زندہ رہنے دیجئے میںزندہ ر ہ کر اچھے اعمال کروںگا اور اپنی کمی اور کوتاہی کی تلافی کروںگا لیکن اسے مہلت نہیں ملے گی ، یہ لو گ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے۔سورہ ٔ نور کی آیت: ۳؍ تک میں زناکی سزا اور اس سے متعلق احکام کابیان ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ (غیر شادی شدہ ) زنا کرنے والے مردو عورت کو سو سو کوڑے مارے جائیں اور اس سلسلے میںکوئی نرمی نہ برتی جائے زانی اور زانیہ کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہواور یہ بھی بتلایا گیا کہ زناکرنے والے مردوعورت (جو توبہ نہ کرے ان)سے نکاح حرام اور گناہ کا کا م ہے ۔
پاک دامن حضرت عائشہ ؓکی پاکدامنی کااعلان:
اس کے بعد آیت: ۱۱سے۲۶؍تک حضرت عائشہ صدیقہ پر لگائے گئے جھوٹے الزام کی سخت تردید کی گئی ہے اور حضرت عائشہ کی پاکدامنی کا اعلان کیا گیا ہے جسے ہم حضرت عائشہ کی زبانی ہی پڑھتے ہیں آپ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’نبی ﷺ کی عاد ت یہ تھی کہ آپ سفر پہ جاتے وقت اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالاکرتے اورجس کا نام قرعے میں نکلتا اسے اپنے ساتھ سفر میں لیجاتے ایک غزوے میں میرا نام نکلا اور میںآپ ﷺکے ساتھ سفر پہ گئی اور یہ واقعہ پرد ے کے حکم کے بعد کاہے۔میں اپنے ہود ج میں بیٹھی رہتی ۔جب قافلہ کہیں رکتا تو میرا ہودج اتارلیا جاتا۔حضور ﷺ غزوے سے فارغ ہوگئے اور ہم واپس مدینے کے قریب پہنچ آئے۔رات کو چلنے کی آو از لگائی گئی اور میں ضرورت پوری کر نے کے لیے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دو ر جاکر اپنی ضرورت سے فارغ ہوکر واپس لوٹ آئی۔لشکر کے قریب آکر گلے کو ٹٹولا تو میرا ہار گلے میں نہ تھا ۔میں واپس اس کی تلاش میں نکلی اور تلاش کرتی رہی اور ادھر لشکر چل پڑا۔جو لو گ میرا ہو دج اٹھا تے تھے انہو ںنے یہ سمجھ کر کہ پہلے ہی کی طر ح میں ہودج میں بیٹھی ہوئی ہوںمیرا ہودج اٹھاکر اوپر رکھدیا اور چل پڑے۔اس وقت عورتیں کچھ ایسا کھاتی پی تی نہیں تھیں اور بھاری بدن و الی نہیں ہو تی تھیںاس لیے میر ے ہودج کے اٹھانے والے کو میرے ہودج میں نہ ہو نے کا بالکل ہی شک نہ ہوااور میں ابھی کم ہی عمر کی تھی بہت دیر کے بعد جب ہارمل گیا اور و اپس آئی تودیکھا کہ یہاں کو ئی نہیں ہے ۔ میں نے کہا کہ جب ان لوگوں کو میرے نہونے کی جانکاری ہو گی تو و ہ خو دہی مجھے ڈھو نڈنے کے لیے آئیں گے اس لیے میں وہی بیٹھ گئی جہاں ہمارا اونٹ بیٹھا یا گیا تھا۔اتفاق سے بیٹھے بیٹھے وہیں نیند آگئی ۔پھر( حضرت )صفوا ن بن معطل سلمی جن کا کام یہ تھا کہ وہ قافلے کے پیچھے رہتے اور پچھلی رات کو چلتے تھے۔سوتے ہوئے آدمی کودیکھ خیال آنا ہی تھا۔ جب غورسے دیکھا تو چوں کہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے دیکھے ہو ئے تھے اس لیے دیکھتے ہی پہچان گئے۔اور ان کی زبان سے زور سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا۔ان کی آو از سنتے ہی میری نیند کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منھ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی۔انہوں نے فورا ہی اپنا اونٹ بیٹھا یااور ا س کی ٹانگ پر اپنا پاؤں رکھا۔میں اٹھی اور ا ونٹ پر سو ار ہو گئی اور انہوں نے اونٹ کوکھڑاکیا اور اسے بھگاکر لے آئے۔خد ا کی قسم نہ وہ مجھ سے بولے اور نہ میں نے ان سے کچھ کلام کیا اور سو ائے انا للہ وانا الیہ راجعون کے ان کے منھ سے دوسراکوئی لفظ نہ سنا۔دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے ۔بس اتنی سی بات کاہلاک ہو نے و الوں نے بتنگڑ بنادیا ۔ان سب کا بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والا عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر بیماری میں رہی۔ نہ میں نے کچھ سنا اور نہ کسی نے مجھ سے کچھ بتایا۔باہر جوکچھ غل غپاڑہ ہوتا تھا اس سے میں بے خبر تھی ۔لیکن میرے جی میں یہ ضرور آتاتھا کہ حضورﷺ کی مجھ سے محبت میں کمی ہوئی ہے ؟آپ ﷺ جس طرح پہلے میری بیماری میں مجھ پہ شفقت فرماتے تھے و ہ بات اِس مرتبہ نظر نہیں آرہی تھی۔اس لیے مجھے غم تو بہت تھا۔ لیکن کوئی و جہ معلوم نہ تھی۔ حضور ﷺ گھر میں تشریف لاتے سلام کرکے خیریت معلوم کرتے اورچلے جاتے ۔اس سے زیادہ بات نہ کرتے ۔اس وجہ سے مجھے بڑاصدمہ تھا۔مگربہتان بازوںکی بہتان بازی سے میں بالکل ہی بے خبر تھی۔اس وقت تک گھر و ںمیں بیت الخلا بنے ہوئے نہ تھے اور عرب کی پرانی عادت کے مطابق ہم لوگ گھر سے باہر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے جایا کرتے تھے۔عادت کے مطابق ام مسطح بنت ابی رہم ابن عبد المطلب بن عبد مناف کے ساتھ ضرورت پوری کرنے کے لیے گئی ۔جو میرے ابا جان کی خالہ تھیں۔ان کے لڑکے کا نام مسطح تھا۔واپسی میں حضرت ام مسطح کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بے ساختہ ان کے منھ سے نکلامسطح غارت ہو۔مجھے بہت برالگا۔میں نے کہا تم نے بہت برا لفظ بولا۔ توبہ کرو تم اسے گالی دیتی ہو جو بدر کی لڑائی میں شر یک تھا۔ ام مسطح نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلو م ؟ میں نے کہا کیا بات ہے ؟انہو ںنے کہا وہ بھی ان لوگوں میں ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھر تے ہیں۔مجھے بہت حیر ت ہوئی! میں ان کے پیچھے پڑگئی کہ کم ازکم مجھے پورا واقعہ تو بتاؤ!اب انہوں نے بہتان بازوں کا پورا واقعہ مجھے سنایا ۔میری حالت خراب ہوگئی! رنج وغم کے پہاڑ مجھ پہ ٹوٹ پڑے!اور میں اور زیادہ بیمار ہو گئی۔بیمارتو پہلے سے تھی ہی اس خبر نے تو نڈھال ہی کردیا۔ جوں توں کرکے گھر پہنچی۔اب صرف خیال تھا کہ کسی طرح اپنے میکے( ماں باپ کے گھر) جاکر اچھی طرح معلوم کرلوں کہ کیا سچ مچ ایسی افواہ میرے بارے میں پھیلا ئی گئی ہے۔اور کیا کیا مشہورکیا جارہاہے ۔اتنے میں حضور ﷺ تشریف لائے سلام کیا او ر معلو م کیا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تواپنے میکے ہوآؤں۔آپ نے اجازت دیدی۔یہاں آئی اور اپنی ماں سے پوچھا کہ امی جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں ؟انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو بہت عام بات ہے ۔تم اپنا دل بھاری مت کرو!۔کسی شخص کی اچھی بیوی ہو جو اسے پسند ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں و ہاں ایسی باتوں کا کھڑاہونا طے ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ !کیا حقیقت میں لوگ میرے بارے میں ایسی افواہیں اڑارہے ہیں؟اب تو مجھے رنج وغم نے اس طرح گھیرا کہ بیان سے باہر ہے۔اس وقت سے جو روناشروع ہوا تو خدا کی قسم ایک دم بھر کے لیے میرے آنسو نہیں تھمے۔میں سرڈال کر روتی ہی رہی ۔کیسا کھانا پینا ؟ کیسا سونابیٹھنا؟اور کہاں کی بات چیت۔دکھ وغم رونا اور میں تھی۔ساری رات اسی حالت میں گذری کہ آنسو کے لڑی نہ تھمے۔دن کو بھی یہی حال رہا ۔آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اور اسامہ بن زید کو بلایا ۔وحی آنے میں دیر ہوئی۔ خدا کی طرف سے آپ کو کچھ معلوم نہ ہو ا اس لیے آپ نے ان دونوں لوگوں سے مشورہ لیا کہ آپ مجھے الگ کردیں یا کیا؟اسامہ نے صاف کہا یا رسول اللہ ہم آپ کی گھروالیوں پر کوئی برائی نہیں جانتے۔ہمارے دل ان کی محبت ،عزت اور شرافت کی گواہی دینے کے لیے حاضر ہیں۔حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ خدا کی طرف سے آپ پہ کوئی تنگی نہیں ہے۔عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں ۔اگر آپ گھر کی خادمہ (کام کر نیوالی ) سے پوچھیںتو آپ کو صحیح بات معلوم ہو سکتی ہے۔آپ نے اسی وقت گھر کی خادمہ( حضرت )بریرہ ؓ کو بلایا اور فرمایا کہ عائشہ کی کوئی بھی بات کبھی بھی شک و شبہ والی دیکھی ہوتو بتلاؤ۔بریرہ نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے۔میں نے ان میں کوئی بھی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی۔ہاں اتنی بات ضرورہے کہ کم عمر ی کی وجہ سے کبھی کبھی ایسا ہوجاتاہے کہ گندھا ہو آٹا یوں ہی رکھا رہتاہے اور سوجاتی ہیںتو بکری آکر کھا جاتی ہے ۔ا س کے سوامیں نے ان کا کوئی قصور نہیں دیکھا ۔
چوں کہ کوئی ثبوت ا س واقعہ کا نہ ملا اس لیے حضور ﷺ اسی دن ممبر پہ کھڑے ہوئے اور مجمع سے تقریر کر تے ہوئے فرمایا کون ہے جو مجھے اس شخص کی تکلیف سے بچائے جس نے مجھے تکلیف پہنچاتے پہنچاتے اب تو میرے گھر و الیو ں میں بھی مجھے تکلیف پہنچانا شروع کردی ہے۔اور خدا کی قسم جہاں تک میں جانتاہوں مجھے اپنے گھر والیو ں میں بھلائی کے سو ا کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی ہے ۔جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں میر ی جانکاری میں اس کے بارے میں بھی سو ائے بھلائی کے اورکچھ نہیں۔وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا۔یہ سنتے ہی حضرت سعد بن معاذ کھڑے ہوئے او رکہا یا رسول اللہ میں موجود ہو ں اگر وہ اَوس خاندان کا ہے تو ابھی میں اس کی گردن اس کے بدن سے الگ کرتاہوں۔اور اگر ہمار ے خزرج بھائیوں میں سے ہے توبھی جو آ پ حکم دیں ہمیں اس پر عمل کرنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی ۔ یہ سنکر حضرت سعد بن عبادہ ؓ جو تھے تو بڑے ہی نیک مگر سعد بن معاذ کی بات سے انھیں اپنے خاندان کے بارے میں تکلیف ہوگئی اور خاند ان کی طرف داری کرتے ہوئے حضرت سعدبن معاذ سے کہنے لگے کہ نہ تو آپ اسے قتل کر یں گے اور نہ اس کی آپ میں طاقت ہے اگر وہ آپ کے خاندان کا ہوتا تو اس کا قتل کرنا آپ کبھی پسند نہ کرتے ۔ یہ سن کر اُسَید بن حُضَیر ؓ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے اے سعد بن عبادہ آپ جھوٹ کہتے ہیں ہم اسے ضرور ماریںگے آپ منافق آدمی ہیںآپ منافقوں کی طرف داری کررہے ہیں اب دو نوں خاندا ن کے لوگ ایک دو سرے کے خلاف بولنے لگے اور قریب تھا کہ دونوں خاندانوں میں لڑائی ہوجائے حضور ﷺ نے ممبر سے ہی چپ کراناشروع کیا دو نوں طرف کے لوگ چپ ہوگئے اور آپ ﷺ بھی ۔یہ سب تو باہر ہورہا تھا اور میرا حال یہ تھا کہ میرا یہ دن بھی پورا کا پورا رونے میں ہی گزرامیرے اس رونے نے میرے باپ ماں کی بھی حالت خراب کررکھی تھی وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ میرا یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا ۔دونوں ہی پریشان بیٹھے تھے اور مجھے تو رونے کے سو ا کوئی کام نہیں تھا کہ انصار کی ایک عورت آئیں اور میرے ساتھ وہ بھی رونے لگیں اتنے میں حضور ﷺ تشریف لائے اور سلام کرکے میرے پاس بیٹھ گئے ۔
خدا کی قسم جب سے یہ بہتان بازی شروع ہوئی تھی آج تک آپﷺ کبھی میرے پاس نہیں بیٹھے تھے پورا مہینہ گزرگیا اورحضور ﷺ کی یہی حالت تھی کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہوسکے آپ نے بیٹھتے ہی پہلے تو تشہد پڑھا او رپھر امابعد فرما کر فرمایا اے عائشہ’’ تمہارے بارے میں مجھے یہ خبر ملی ہے اگر تم واقعی پاکدامن ہوتواللہ تعالی تمہاری پاکیزگی بیان فرمادیںگے اور اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تواللہ سے توبہ استغفار کرو اللہ تعالی معاف فرمائیںگے بند ہ جب گناہ کرکے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ خدا کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی مانگتاہے تو اللہ تعالی اسے بخش دیتے ہیںآپ اتنا فرماکر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رو نا بند ہوگیا آنسو تھم گئے یہاں تک کہ آنسو کا ایک قطر ہ بھی نہیںنظر آتاتھا تو میں نے اپنے ابا جان سے درخواست کی کہ میری طر ف سے رسول اللہ کو جواب دیدیجئے! لیکن انہوں نے کہا قسم خدا کی میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں حضور ﷺ کوکیا جواب دو ں؟پھر میں نے اپنی ماں سے کہا کہ آپ جواب دیجئے! انہوں نے بھی یہی کہا کہ مجھے بھی نہیں سمجھ میں آتا کہ میں کیا جواب دوں؟پھر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا۔ میری عمر کچھ بڑی بھی نہ تھی اور نہیں کچھ زیادہ قرآن حفظ یاد تھامیں نے کہا آپ سب نے ایک بات سنی اسے اپنے دل میں بٹھا لی اور گویا سچ سمجھ لی اب اگر میں کچھ کہوں کہ میں اس سے بالکل پاک ہو ں اور اللہ خو ب جانتے ہیں کہ میں سچ مچ اس سے بالکل پاک ہو ں لیکن آپ لو گ نہیں مانیں گے ہاں اگر میں کسی بات کا اقرار کرلوں اور اللہ تعالی خو ب جانتے ہیں کہ میں بالکل بے گناہ ہوں توآپ لوگ ابھی مان لیںگے میری اور آپ لوگوں کی مثال بالکل حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ بات ہے ’’فصبر جمیل و اللہ المستعان علی ماتصفون ‘‘بس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کریں۔اتنا کہکر میں نے کروٹ پھیر لی اور بستر پہ لیٹ گئی ۔
خدا کی قسم ! مجھے یقین تھا کہ چوں کہ میں پاک ہوں اس لیے اللہ تعالی میرے پاک ہونے کی بات اپنے رسول ﷺکو ضرور بتلا دیں گے لیکن یہ تو میر ے گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ تعالی میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل کریں گے میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم سمجھ تی تھی کہ میرے بارے میں اللہ کے کلام کی آیتیں نازل ہوںزیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتاہے کہ خواب میں اللہ تعالی رسول اللہ ﷺکومیرا پاک ہونا دکھادیں گے خدا کی قسم ابھی تو نہ رسو ل اللہ ﷺاپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھروالوں میں سے کو ئی باہر نکلاتھاکہ حضور ﷺ پر وحی اترنا شرو ع ہو گئی اور چہرے پر و ہی نشان ظاہر ہوئے جووحی کے وقت ہو تے تھے پیشانی مبارک سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیںسخت ٹھنڈی میں بھی وحی آنے کی یہی حالت ہو ا کر تی تھی جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ حضور ﷺ کا چہر ہنسی سے کھِل رہا ہے سب سے پہلے آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ عائشہ خو ش ہو جاؤ! اللہ تعالی نے تمہاری پاکی بیان کردی اسی وقت میر ی امی نے کہابچی حضور ﷺ کے سامنے کھڑی ہو جاؤ میں نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نہ تو آپﷺ کے سامنے کھڑی ہوں او رنہ سوائے اللہ کہ کسی اور کی تعریف کروں اسی نے براء ت اور پاکیزگی ظاہر کی ہے،،۔ (بخاری ،کتاب التفسیر، ان الذین جائو بالافک عصبۃ الخ ،ج؍۲،ص؍۶۹۶ تا۶۹۸)اللہ تبارک وتعالی نے ان آیتوں میں جھوٹے منافقو ں کا راز فاش کیا اور ان پہ لعنت فرمائی ،غلطی سے اس الزام پہ اعتماد کرلینے والے مسلمانوں سے یہ فرمایا کہ انہیں بدگمانی کا شکار ہونے کی بجائے اپنے حسن ظن کوبحال رکھنا چاہئے تھا اور ان افواہوں میں نہ پڑکراپنے دامن کو بچا ئے رکھنا چاہئے تھا۔اور ایک بڑی فیصلہ کن بات یہ بیان فرمائی کہ حضرت عائشہ نبی ﷺ کی بیوی ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے شریف انسا ن ہیں تو ان کی بیوی بھی شریف ترین عورتوں میں سے ہوں گی کسی نبی کی بیوی کسی اخلاقی کمی کا شکار نہیں ہوسکتی کیوں کہ جو جیسا ہوتاہے ویسے ہی کو پسند کرتا ہے ۔اس کے بعد سور ت کے اخیر تک اسلامی آداب معاشرت بیان فرمائے ہیں جو کسی بھی صالح معاشرے کے قیام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،جیسے غیر محرموں سے پردے کا مکمل اور تفصیلی نظام واحکام ،دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب ،نکاح کے احکام ،اپنے محرم رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ کھا نا وغیر ہ لینے ،ان کے گھروں سے کھانے کی اجازت اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا بیان ہے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمان اگر اسلام پہ دل سے عمل کریں تو یہ ہی دنیا کے حکمراں ہوںگے اور آخری آیتوں میں اجتما عی کاموں میں منافقوں کی بدن چوری اور آپ ﷺ کی مجلس سے چبکے سے کھسک لینے جیسی بری عادتوں کی مذ مت اور مسلمانو ں کی آقاﷺ کی مجلسوں اور اجتماعی کاموں میں جمے رہنے اور کہیں ضرور ت سے جانے کے لئے آپ ﷺسے اجازت طلب کرنے جیسی اچھی عادتوں کی تعریف کی گئی ہے۔جب کہ سورہ ٔفرقان کے دونوں رکوع میں قر آن پاک اور آ پ ﷺ کی نبوت پہ کئے گئے بے معنی اعتراضات کے جوابات دئے گئے ہیں اور جنت وجہنم کے تذکرہ پہ پارہ مکمل ہو گیا ہے۔��