قربانی سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں
ندیم احمد انصار
(اسلامی اسکالر و صحافی)
بہت سے لوگ باوجود وسعت کے قربانی نہیں کرتے، خاص کر دیہات کے لوگ اس میں بہت غفلت کرتے ہیں، حالاں کہ حدیث شریف میں ہے کہ من وجد سعۃً، فلم یضح فلا یقربن مصلانا۔ جو صاحبِ وسعت قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئےاور یہ معلوم ہے کہ عید گاہ میں وہ لوگ جاتے ہیں، جو مسلمان ہیں اور عید گاہ سے بے تعلقی اور بُعد انھیں کو ہے، جو کافر ہیں۔ اب غور کرنا چاہیے کہ حدیث شریف میں قربانی نہ کرنے والوں کے لیے کس قدر تہدید اور وعیدِ شدید ہے۔
بعض لوگ بدھیہ (خصّی) جانور کی قربانی درست نہیں سمجھتے، سو یہ ان کی غلطی ہےبلکہ بدھیہ جانور کی تو اور زیادہ فضیلت ہے۔ ہمارے پیغمبرﷺ نے بدھیہ (خصی) دُنبے کی قربانی فرمائی ہے۔
اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ مُردوں کی طرف سے قربانی کریں یا نہیں اور اگر کریں تو کیوں کر کریں؟ تو قربانی مُردوں کی طرف سے بھی جائز ہے، ماں، باپ، پیر، استاد حتیّٰ کہ حضرت نبی کریمﷺ کی طرف سے بھی کر سکتے ہیں، مگر ایک حصہ کئی مُردوں کی طرف سے درست نہیں۔ اب رہی یہ بات کہ جب مُردوں کی طرف سے قربانی جائز ہے تو گوشت کا کیا کیا جائے؟ اس میں یہ تفصیل ہےکہ اگر مُردہ وصیت کرکے مرا ہے کہ میرے مال میں سے قربانی کر دیجیو، مثلاً: ذی قعدہ میں کوئی مرااور اس نے یہ وصیت کی، تو اس کی قربانی کے گوشت کو تو خیرات کرنا واجب ہے اور اگر اس کے مال سے نہیں کی، خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، تو اس کے گوشت کا وہی حکم ہے، جو اپنے مال سے قربانی کرنے کا ہے۔
بعض لوگ گابھن جانور کی قربانی کے درست ہونے میں شبہ کیا کرتے ہیں اور پوچھا کرتے ہیں کہ کیا گابھن کی قربانی درست ہے؟ جواب یہ ہے کہ جائز ہے، پھر اگر بچّہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کر دینا چاہیے۔گابھن جانور کی قربانی جائز ہے لیکن مستحسن یہی ہے کہ اس کو ذبح نہ کیا جائے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر آدمی جانور کو لیتے اور اس میں حصّے دار بنتے ہیں، سب کو ذبح کے وقت ’بسم اللہ، اللہ اکبر‘ کہنا ضروری ہے، اگر ایک بھی اس تکبیر و تسمیہ سے رہ جائے گا یعنی نہ کہے گا، تو قربانی نہ ہوگی۔۔۔یہ بالکل غلط ہے، صرف ذابح یعنی ذبح کرنے والے کو کہنا ضروری ہے۔
کتابوں میں قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کی ایک دعا لکھی ہوئی ہے،بعض لوگ قربانی کے لیے اس دعا کو پڑھنا ضروری سمجھتے ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر اس دعا کے بھی قربانی جائز ہو جاتی ہے، یہ دعا صرف مستحب ہے، ضروری نہیں۔
عام طور پر قصاب جانور کو ذبح کرنے کے بعد ٹھنڈا نہیں ہونے دیتے، کھال کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنا حرام ہے، خوب یاد رکھیں! جب جانور خوب ٹھنڈا ہو جائے، اس وقت کھال کھینچنا چاہیے۔
اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے کسی عزیز کی طرف سے قربانی کرتے ہیں اور اس کو اطلاع نہیںہوتی، اس صورت میں قربانی ادا نہیں ہوتی۔اس میں بڑی احتیاط ہونی چاہیے، اس لیے کہ اگر مشترکہ قربانی میں ایسی کوئی صورت پیش آجائے گی کہ جس سے ایک حصّے کی قربانی صحیح نہ ہو تو کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔ اس لیے کہ قربانی نام ہےاراقۂ دم کا اور وہ قابلِ تقسیم نہیں، جیسے ایک کنواں مشترک ہو اور ایک شریک کہے کہ ہم تو اپنے کنویں میں پیشاب کریں گے، ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے سارا ہی کنواں ناپاک ہو جائے گا۔
اسی طرح ایک حصّے میں کسی نے دو شخص کی نیت کر لی تو اس کا حصہ تو گیا ہی تھا، اس کے ساتھ سب کا ہی ضائع ہو گیا، جیسے ایک نبی کا انکار سب انبیاء کا انکار ہے، اسی طرح قربانی کا اگر ایک حصہ بھی فاسد ہو گا تو تمام حصّے فاسد ہو جائیں گے اور قربانی کسی کی بھی درست نہ ہوگی۔
اکثر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ اگر کئی شخصوں کے حصے ہوں تو سب کو بدوں تقسیم کیے ہوئے یا بعض کو تقسیم کرکے اور بعض کو مشترک تصدق کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو سن لو کہ جائز ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ کچھ مشترک تصدق ہو گیا اور بقیہ کو تقسیم کر لو، مگر انداز سے بانٹنا حرام ہے۔اکثر لوگ گوشت کو بے وزن کیے تقسیم کر لیتے ہیں، یہ بالکل غلط ہے، جائز نہیں، اگرچہ سب شرکا راضی ہوں۔
بعض لوگ قربانی کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ جانور شریعت کی رُو سے مِلک طیب ہے یا خبیث، تو بعض دفعہ مِلکِ خبیث ہوتی ہے، وہ خدا کے یہاں مقبول نہیں، گو واجب اتر جاتا ہے اور بعض دفعہ مِلک ہی نہیں ہوتی، جیسے چَرائی کا بکرا کہ سال بھر میں ایک دفعہ زمین دار کو دیا جاتا ہے، یہ آمدنی حرام ہے کہ لینے سے بھی اس کا کوئی مالک نہیں ہوتا اور وجہ یہ ہے کہ گھا س کسی کی مِلک نہیں، سب کا حق ہے۔ وہ دو طرح مِلک ہو سکتی ہے؛ کاٹنے یا کھیت کی طرح سینچنے سے، مگر جو ہزاروںبیگے کا رقبہ پڑا ہے، وہاں کون آب پاشی کرتا ہے؟ تو وہ کسی کی مِلک نہیں ہے، اس سے سب کو انتفاع جائز ہے، تو اس گھاس کے چَرانے کے عوض جانور لینا ہر گز جائز نہیں اور اگر کسی نے لے لیا تو وہ اس کی ملک میں نہیں آیابلکہ اسی کا ہے، جس نے دیا ہے، لینے والے کو اس میں کسی قسم کا تصرف جائز نہیں اور اگر اس کی قربانی کی، تو ادا نہیں ہوگی۔
آج کل بعض پولیس یا ہفتہ وصولی کرنے والے اگر جانوروں کے مالک سے اس طرح زبردستی کوئی جانور حاصل کر لیں،یا ان کے ڈر سے کوئی بظاہر اپنی رضامندی سےانھیں جانور پیش کردے، اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔(نون الف)
عموماً قربانی کرنے والےقربانی کے جانور میں لاز م سمجھتے ہیں کہ پائے حجام کا حق ہیں اور سِرّی سقّے کاحق ہے، اسی طرح عقیقے میں حجام و سقّے وغیرہ نے اپنے حقوق لازم کر رکھے ہیں، اس کو دینے والا اور لینے والا ضروری سمجھتے ہیں، وگرنہ وہ شکایت اور مذمّت و ہجو کرتے پھرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ لوگ بلا اجازتِ مالک کے یہ چیزیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ پس سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت میں اس لزوم کی کوئی دلیل نہیں بلکہ اس میں بڑی خرابی لازم آتی ہے ۔ چوں کہ عُرف کی بنا پر ایسا ہوگا، جیسا کہ ان لوگوں سے شرط ٹھہرائی گئی ہو کہ تم ہمارا فلاں کام کیا کرو، تم کو اس کے معاوضے میں فلاں چیز دیں گے، تو وہ چیز اس صورت میں اجرت ہوگی اور اجرت کام لینے والے کے ذمّے دَین ہے، تو گویا اس شخص نے قربانی کے اجزا سے اپنا دَین ادا کیا اور یہ حکمِ بیع میں ہے اور حرام اور باطل ہے، اسی طرح کھال کو یہ سمجھنا کہ مؤذن کا حق ہے، اس میں بھی بعینہ وہی خرابی ہے۔
بعض لوگ ذبح سے پہلے ہی کھال فروخت کر دیتے ہیں، سو یاد رہے کہ ذبح سے پہلے کھال فروخت کر ڈالنا حرام ہے۔کھال فروخت کرنے کا مسئلہ تو یوں ہے کہ قربانی کے بعد بھی اسے بیچنا جائز نہیں، یا تو اپنے استعمال میں لے آئے یا کسی کو بلا معاوضہ ہدیہ کر دے اور اگر کسی نے اسے بیچ ہی ڈالا تو اب اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔
بعض لوگ گرا پڑا، دُبلا پتلا، بے ڈھنگا، سَستا جانور قربانی کے لیے تجویز کرتے ہیں، سو یاد رہے کہ قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ خوب صورت ہو، کانا، اندھا، لنگڑا، ٹُنڈا دُبلا نہ ہو۔
بعض عام سے سُنا گیا ہے کہ جو شخص قربانی کا حصہ لے ، اس کو ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے گوشت کھانا بند کر دینا چاہیے ، سو شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔اسی طرح بعض لوگ یکم ذی الحجہ سے قربانی تک بیوی سے ملاقات کو شرعاً منع اور گناہ سمجھتے ہیں، یہ بھی غلطی ہے، شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)