رمضان المبارک کا دیا ہوا سبق یاد رکھیں!
ندیم احمد انصاری(اسلامی اسکالر و صحافی)
تمام مہینوں کاسردار،ماہِ رمضان اپنی برکتیں اور رحمتیں سمیٹ کر آخر ہماری زندگیوں سے رخصت ہو ہی گیا۔اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں بار بار اس ماہ کو لائے اور ہمیں اس کی برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹنے کی توفیق دیتا رہے۔آمین
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک خاص نظام قایم کیا ہے،جس کے مطابق تمام چیزیں یکساں اور برابر درجے کی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات کو بعض مقامات پر،بعض اوقات کو بعض اوقات پر،بعض دنوں کو بعض دنوں پر،بعض راتوں کو بعض راتوں پراور بعض مہینوں کوبعض مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔بیت اللہ میں نماز پڑھناایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(صحیح البخاری،سنن ابن ماجہ)مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پچاس ہزارنمازوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(مسند احمدابن حنبل)عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتاہے۔(ترمذی،مسلم)شبِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(سورۃ القدر) رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی)اس میں نیکیوں کا ثواب ستر گنا تک بڑھا دیا جاتاہے۔اس ماہ میں کی گئی نفل عبادات ،دیگر ایام کے فرضوں کے برابر ثواب رکھتی ہے۔(ابن خزیمہ)
یہ سب خدا کی رحمت ہے،جو اپنے بندوں پر بارش کے قطرات کی طرح برستی ہے۔یہاں غور کا مقام یہ ہے کہ دیگرمہینوں کے مقابلے میں اس ایک ماہ کو اتنی فضیلت سے آخر کیوں نوازا گیا۔ذرا سی توجہ دیں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت ہی کریم ہے،وہ جانتا ہے کہ میرے بندے سال بھراس قدر مشقت برداشت نہیں کر سکتے،اس لیے اس نے صِرف ایک مہینے کو روزوں اور مخصوص احکامات کے لیے چنا اور سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حلال روزی اور حلال کھانے پینے کی اجازت دے دی۔
سال میں ایک مہینے کے روزے بھی اسی لیے فرض کیے گئے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے؛ (رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں،بندوں کی) اس امیدپر کہ شاید وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں!(سورۃالبقرہ)یعنی اگر اس ایک ماہ میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول کی کامل اتباع کر لی،اس مبارک مہینے میں خدا و رسول کا حکم سمجھ کر حلال چیزوں سے رْک گئے تو اب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ باقی گیارہ مہینے خدا و رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں سے رک سکیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے! ہم نے تو یہ سمجھ لیا کہ اس ایک مہینہ میں چوکچھ نیکی ہو سکے کرلو،اس کے بعد اللہ اللہ خیر سے اللہ۔یاد رکھیے ایسا کرنا گویا کہ رمضان المبارک کی ناقدری کرنا ہے، اس لیے کہ رمضان المبارک کا مہینہ تو ہمیں تقوے کا سبق سکھانے آیا تھا، اس کے گزرتے ہی اس سبق کو بھول جانا ہرگز درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فقط ایک ماہ چند رسمی سی عبادتوں کے کر لینے سے ہم ساری ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہو سکتے!
’رمضان کے عبادت گزاروں‘ کو سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔یہ نہیں کہ ستائیس رمضان ،یا چاند رات ،یا عید کی نماز تک اللہ اللہ کرکے اس کے بعدسنیما ہال میں جابیٹھیں،مسجدوں کو خیرباد کہہ دیں،جمعہ جمعہ نماز پڑھنے کو کافی سمجھیں۔یہ تو نہایت مہلِک شیطانی دھوکہ ہے۔نماز ہردن رات میں پانچ وقت فرض ہے لیکن کیا کیجیے ! رمضان میں تراویح اور تہجد پڑھنے والے بھی نہ جانے کتنے ہیں جو غیررمضان میں فرض نمازوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔شاید انھیں شیطان یہ فریب دیتا ہے کہ اب تو تیرے گناہ معاف ہو گیے،’طاقت بھر رمضان میں عبادت بھی کر چکا‘اب ذرا دنیا کے کام کاج سنبھال۔پہلی بات تو یہ سوچنے کی ہے کہ ہم رمضان میں کتنی عبادت کرتے ہیں؟تراویح کی جلدی جلدی کچھ اٹھک بیٹھک یا کھانے کا نظام دوپہر اور رات کی بجائے صبح و شام کو کرنے کے سوا ہماری زندگی میں اور کیا تبدیلی آتی ہے؟اگر آپ ایمان داری کے ساتھ اپنے معمولات کا جائزہ لیں گے،تو معلوم ہوگا کہ ہمیں رمضان بھر رمضان ،رمضان چِلّانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
رمضان تو ہماری زندگیوں میں خوش گوار انقلاب لانے،اللہ تعالیٰ سے کمزور ہوئے ہمارے رشتے کو مضبوط کرنے ،ہمارے گناہوں کو جلاکر خاکستر کرنے،ہمارے سینوں میں غریبوں اوربھوکوں کے درد کا احساس پیدا کرنے 133کے لیے آیا تھا۔ رمضان ہمیں یہ سبق دینے کے لیے آیا تھا کہ جس طرح ہم رمضان میں حلال روزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خاطر مقررہ وقت میں رکے رہے،اسی طرح سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے رکے رہیں۔جس طرح روزے کی حالت میں ہم نے اپنی بیوی سے اپنی ضرورت پوری نہیں کی،اسی طرح سال کے باقی گیارہ مہینوں میں کسی حرام جگہ میں اپنی شہوت پوری نہ کریں۔جس طرح ہم رمضان میں نیند کے غلبہ کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بستہ کھڑے رہے،اسی طرح رمضان کے علاوہ بھی، جب اللہ تعالیٰ کا منادی ہمیں آواز دے،تو ہم بستروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔رمضان ہمیں یہ پیغام دینے آیا تھاکہ جس طرح ہم رمضان میں رات ودن، اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے،اسی طرح ہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی یاد میں بَسرہولیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جس طرح آج کے نام نہاد مدرسہ وکالج سے فارغ التحصیل طلباء کتابوں کی طرف رْخ کرنا پسند نہیں کرتے،ایسے ہی ہم رمضان کے بعد مسجد کا رْخ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور انعام کے طور پر نہیں گزارتے بلکہ ایک تہوار کی طرح گزارتے ہیں،جب کہ رمضان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اختتام پر زندگیوں کا رخ صحیح ہو جائے۔رمضان میں ایک ماہ تک تقویٰ کا کورس کرنے والوں کو اگر اس کے گزرنے کے بعد اْس کا سکھایا ہوا سبق یاد نہ رہے، تو یہ تو ایسا ہے کہ یہ پورا کورس ہی بے فائدہ رہا۔اس لیے اب رمضان المبارک تو گزگیالیکن ہمیں اس کا دیا ہوا سبق یاد رکھنا ہے ،اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں کو قبول فرمائے،ہماری تراویح کو قبول فرمائے،ہماری نیکیوں کو قبول فرمائیاور ہم سب کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے۔آمین