Roza Faisla-e-khudawandi par razamandi ka behtareen zariya

روزہ فیصلہ خداوندی پر رضامندی کا بہترین ذریعہ
ساجد حسین ندوی

رمضان المبارک اسلامی سال کانواں مہینہ ہے۔یہ مہینہ رحمت وبرکت کے اعتبار سے تمام مہینوں سے افضل ہے۔ اللہ رب العزت نے اسی ماہ مبارک میں انسانیت کی رشدوہدایت کے لیے قرآن کریم جیسی لاثانی کتاب نازل فرمائی۔ اس ماہ مبارک میں رحمت خداوندی بارش کی طرح برستی ہے اور بنجر زمین کو لالہ زار اور سر سبز وشاداب کردیتی ہے، بہت سے نافرمان بندے اس ماہِ مبارک میں اطاعت و فرماں برداری کا کامل ثبوت پیش کرتے ہیں، پنج وقتہ نماز اور تراویح میں مساجدمسلمانوں کی اجتماعیت کاثبوت پیش کرتی ہے۔ ہرطرف انوار وبرکات کا ظہور ہوتاہے،ہر مؤمن بندہ اس ماہِ مبارک کے ایک ایک لمحے کو قیمتی تصور کرتے ہوئے عبادت وتلاوت میں مشغول رہتاہے ۔اس ماہِ مبارک کی سب سے اہم ترین عبادت روزہ ہے۔
روزہ در اصل عبادت کی نیت سے صبح صادق سے لیکر غرو بِ آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کانام ہے۔روزہ ایک مقدس عبادت ہے ، جس کا سب سے گہرا اثر جسم، دل اور روح پر پڑتاہے جسے بآسانی محسوس کیا جاسکتاہے، یہ انسان کے اندرون میں تبدیلی، اور زندگی میں سرد وگرم کی مشقت کو برداشت کرنے اور فیصلۂ خداوندی پر راضی رہنے کی مشق کراتاہے۔ روزہ دل پر دستک دیتاہے، نگاہ میں اخلاص، نظر میں بصیرت ، قوت میں توازن اور کردار میں پختگی پیداکرتاہے، روزہ بندے کے اندر ملکوتی صفات پیداکرتے ہوئے تقویٰ اور پرہیزگاری کا سبق سکھاتاہے۔ ہمدردی اور مساوات کا پیغام دیتاہے، اعتدال اور سنجیدگی، شرافت اور انسانیت کا درس دیتاہے، سب بڑی بات یہ کہ روزہ انسان کو اپنی خواہشات قربان کرکے رب کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھاتاہے۔ اگر روزہ سے یہ صفات پیدا نہ ہوں تو پھر روزے دار کا بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
احادیث مبارکہ میں رمضان کے روزے کی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں سب بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ماہ میں انسان کے اعمال کو ایک سے سات سو گنا تک بڑھا دیتاہے، جیساکہ حدیثِ پاک میں آیا ہے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کے ہر ( نیک ) عمل کا ثواب بڑھا کر دیا جاتا ہے ، کسی ایک نیکی کے ثواب میں دس سے سات سو گنا تک اضافہ کیا جاتا ہے ، لیکن اللہ تعالی فرما تے ہیں کہ یہ روزہ کے علاوہ اعمال کے لیے ہے ، روزہ تو صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا ، کیونکہ وہ اپنی خواہشات اور کھانے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتاہے۔(صحیح مسلم)
اس ماہ مبارک میں بندہ کامل طور پر عبدیت کا حق ادا کرتا ہے اور اس کو اجر کی امید صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، کیونکہ روزے کے علاوہ ساری عبادتیں ایسی ہیں کہ چھپائے بھی چھپ نہیں سکتی، اگر آپ انھیں چھپ کر اداکرتے ہیں پھربھی لوگوںکو معلوم ہوجائے گا اور ادانہ کریں تب بھی لوگوں کوخبر ہوہی جائے گی۔اس کے برخلاف روزہ ایسا ہے جس کا گواہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہوتاہے اس کے سوا کسی کے سامنے اس کی حقیقت نہیں کھل سکتی ۔ ایک شخص سب کے ساتھ مل بیٹھ کر سحری کھاتاہے اور افطارتک ظاہر ی طور پر کچھ نہ کھائے مگر چھپ چھپا کر پانی پی لے یا کچھ کھا لے تو اللہ کے سوا کسی کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی ، سارے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں صاحب روزے سے ہیں لیکن حقیقت میں وہ روزے سے نہیں ہوتا۔ روزے دارکو اللہ پر اور آخرت پر اس قدر یقین ہوتاہے کہ سخت گرمی میں بھی جب حلق خشک ہو جاتاہے ، پیاس کی شدت اسے بے چین کردیتی ہے ، بھوک سے وہ تڑپتاہے اس حالت میں بھی اس کے سامنے انواع و اقسام کی چیزیں ہوتی ہیں اگر وہ کھاہی لے تو کون اسے دیکھ رہاہے ؟ لیکن اس کے باوجود وہ ان کو ہاتھ نہیں لگاتااور دل میں یہ کہتاہے کہ اگر مجھے اس بندکوٹھری میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے ، ہم اوروں کی نظروں سے اوجھل ہوسکتے ہیں لیکن اس کی نظروں سے کیسے بچ پائیں گے جو باریک بیں ہے جس کی نگاہیں ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہیں ،اسی یقین کی بنیادپر اللہ کی حکموں کو بجالاتاہے سحرسے لے کر سورج کے ڈوبنے تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکتاہے صرف اس لیے کہ اس کا رب اس سے یہی چاہتاہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ جاتے جاتے تقویٰ وطہارت، عبادت وریاضت، عفت وپاکدامن، ذوقِ عبادت، شوقِ تلاوت، تزکیۂ نفس، توبہ و استغفار، انابتِ الی اللہ، فکرِ آخرت ، معاصی ومنکرات سے اجتناب اور رضاء الٰہی کی جستجوکا درس دے کرجاتاہے ۔ ہم اس ماہِ مبارک سے جو درس لیتے ہیں وہ دراصل درسِ زندگی ہے ، جو کچھ عبادتوں اور نیکیوں کا اہتمام ہم اس مہینہ میں کرتے ہیںرب کی منشاء یہ ہے کہ یہی ہماری پوری زندگی بن جائے ، ہروقت تقویٰ وطہارت، عبادت وریاضت اور معاصی ومنکرات سے اجتناب ہمارا شیوہ ہوجائے، ہمارا کوئی بھی قدم حکمِ خداوندی اور فرمانِ نبوی کے خلاف نہ اٹھے، ہم صحیح معنوں میں’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘ کا مصداق بن جائیں ۔ اگر ہم نے پوری زندگی رمضان کے تقاضے کے مطابق گزار لی تو یقین جانیے آخرت کی زندگی عیدکی طرح ہوگی ۔رمضان کی تمام عنایات وبرکات کے علاوہ اللہ رب العزت نے عید کی رات کو انعام واکرام یعنی لیلۃ الجائزہ قراردیاہے ، چنانچہ ہمیں اس رات کے فضائل وبرکات سے مستفید ہونے کے لیے ویساہی اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ ہم نے رمضان کی راتوں میں کیاتھا۔
عید الفطر اسلام کی طرف سے عطاکردہ خوشی ومسرت کے ان لمحات کانام ہے جس میں بندہ بارگاہِ ایزدی میںسجدہ ریز ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کرتاہے۔ ساتھ ہی زبانِ حال سے یہ پیغام بھی دیتاجاتاہے کہ خوشی کے لمحات میں بھی حقِ بندگی اداکرنا ہمارا طرۂ امتیاز ہے جبکہ دوسرے اقوام ایسے مواقع پر نازیبا حرکات ، ناچ گانااور شراب وشباب میں مست ہوکر ہروہ عمل کرگزرتے ہیں جو سراسر منشاء خداوندی کے خلاف ہوتاہے۔لفظ عید عاد یعود عودا سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے او رباربار آنے کے ہیں ۔ عید کو عید اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ پر مسرت دن باربار لوٹ کرآتاہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لاتاہے ۔
(ایڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ ، چنئی)
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here