شان تھی جس کی نرالی، شیخ یونسؒ آپ ہیں!
ندیم احمد انصاری
16شوال 1438ھ یعنی 11جولائی 2017ء کی صبح سے ہی کچھ خبریں موصول ہو رہی تھیں، تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ طویل علالت کے بعد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ کے علم کے سچـے امین، حضرت مولانا شیخ یونس صاحب جونپوری ربِ حقیقی سے جا ملے۔اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عنایت کرے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔ آپ کے انتقال کی خبر سے علمی حلقوں میں ہر سو غم چھایا ہوا ہے، یقیناً آپؒ کی وفات ایک عظیم خسارہ ہے، اللہ تعالیٰ امتِ مرحومہ کو نعم البدل عنایت فرمائے۔ (آمین) حضرت مولانامحمدیونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابن جناب شبیراحمدصاحب 25رجب 1355ھ مطابق12اکتوبر1937ء، شنبہ کے دن جونپور (یوپی)کے ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ آپ فقط 5سال 10ماہ کے تھے کہ والدہ ماجدہ کاانتقال ہو گیا(یاد کریں حضور صلی اللہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا جب انتقال ہواتواس وقت آپ کی عمرمبارک بھی تقریباً یہی تھی)۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن کے مکاتب میں حاصل کی ،فارسی سے سکندرنامہ تک اورابتدائی عربی سے مختصرالمعانی،مقاماتِ حریری،شرح وقایہ،نورالانوارتک کی تعلیم مدرسہ ضیاء العلوم مانی پور( جون پور)میں ہوئی اور اکثرکتابیں حضرت مولاناضیاء الحقؒاورحضرت مولاناعبدالحلیم ؒصاحبان سے پڑھیں۔15شوال1377ھ5مئی1958ء، دوشنبہ کو مظاہرِعلوم میں وارد ہوئےاورمختصرالمعانی ،شرح وقایہ، قطبی،مقامات حریری، نورالانوارکاامتحان میں کامیابی حاصل کر یہاں 1378ھ میں پہلے سال میں جلالین ،ہدایہ اولین،میبذی اورسراجی وغیرہ سے تعلیم کاآغاز کیا۔1379ھ میں بیضاوی،میرقطبی،ہدایہ ثالث ،مشکوٰۃ،مقدمہ مشکوٰۃ،شرح نخبۃ الفکر،سلم العلوم اورمدارک پڑھیں۔1380ھ میں بخاری، مسلم، ترمذی،طحاوی،نسائی، ابوداؤد،ابن ماجہ، مؤطاامام محمدؒ،مؤطاامام مالکؒ اورشمائل ترمذی پڑھ جماعت میں اول مقام حاصل کیا۔آپؒ نے بخاری شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی،ابوداؤدحضرت مولانا محمداسعد اللہ (ناظم مظاہرعلوم)،مسلم حضرت مولانامنظوراحمدخان،اورترمذی ونسائی حضرت مولانا امیر احمد کاندھلوی رحمہم اللہ سے پڑھیں۔آپ کے رفقا میں حضرت مولاناسیدمحمدعاقل سہارنپوری ،حضرت مولاناشجاع الدین حیدرآبادی،حضرت مولانا اجتباء الحسن کاندھلوی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہیں۔ مظاہرعلوم کے زمانۂ طالب علمی میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ ناظم مظاہرعلوم نے آپ کی سرپرستی اورکفالت فرمائی،شفقت وکرم کاوہ معاملہ جوایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ رکھتاہے حضرت مفتی صاحبؒنے آپ کے ساتھ فرمایا،جس کا تذکرہ خودحضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کبھی کبھی خصوصی مجلسوں میں فرماتے رہتے تھے۔فراغت کے بعدبھی حضرت مفتی صاحبؒکی توجہات میسر آئیں اور آپ کو 1381ھ میں 7روپئے مشاہرے پر عارضی طور پر معین مدرس بنادیا گیا، جہاںیکم ربیع الثانی1382ھ کو آپ مستقل استاذہوگئے اوریکم شوال1384ھ کوبہ مشاہرہ ساٹھ روپے مدرس وسطیٰ بنائے گئے۔ 1384ھ میں جب آپؒ کے استاذحضرت مولاناامیراحمدکاندھلویؒ کا وصال ہوگیاتوآپ کو استاذِحدیث بنادیا گیا، جس کے متعلق بہ قلم خود رقم طراز ہیںکہ ذی الحجہ 1384ھ میں حضرت استاذی مولاناامیراحمدصاحب نوراللہ مرقدہ کے انتقال ہوجانے کی وجہ سے مشکوٰۃ شریف استاذی مفتی مظفرحسین، ناظم اعلیٰ مظاہرعلوم کے یہاں سے منتقل ہوکر آئی، جوباب الکبائرسے پڑھائی، پھرآیندہ سال شوال 1385ھ میں مختصرالمعانی ،قطبی،شرح وقایہ، مشکوٰۃشریف مکمل پڑھائی اورشوال 1386ھ میں ابوداؤد،نسائی، نورالانوارزیرِتعلیم رہیں اورشوال1387ھ سے مسلم، نسائی،ابن ماجہ، مؤطین زیرِدرس رہیں۔ اس کے بعدشوال1388ھ میں بخاری شریف ومسلم شریف وہدایہ ثالث پڑھائی۔(الیواقیت الغالیۃ:19-20) یوں تو آپ بچپن ہی سے نیک وصالح تھے، اس لیے آپ کی ذات حضراتِ اساتذہ کی دعاؤں اورتوجہات کا خصوصی مرکزرہی،چناں چہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ نے آپ کو بیعت فرمایاتو5محرم الحرام1396ھ کومناظرِاسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ صاحبؒنے خلافت سے سرفراز فرمایااورفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین نوراللہ مرقدہ تو گویاباپ کے درجے میں رہ کر آپ کی ہرممکن راحت کاخیال فرماتے رہے۔ آپؒ کے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ نے پورے پچاس پہلے نہایت وثوق سے تحریر فرمایا تھا:ابھی کمس ہیں وہ کیا عشق کی باتیں جانیں عرضِ حالِ دل بے تاب کو شکوہ سمجھے ابھی تدریسِ دورہ کا پہلا سال ہے اور اس سیہ کار کو تدریسِ دورہ کا اکتالیسواں سال ہے اور تدریسِ حدیث کا یہ سینتالیسواں سال ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھاری عمر میں برکت دے اور مبارک مشغلوں میں تا دیر رکھے، جس سینتالیسوی پر پہنچ جاؤگے تو ان شاء اللہ مجھ سے آگے ہوںگے۔ فقط زکریا (27رجب 1387ھ) زمانے نے دیکھا کہ حضرت شیخ الحدیث کی پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ آپؒ نے تقریباً پچاس سالوں تک خصوصیت کے ساتھ احادیثِ مبارکہ کا درس دیا اور اس طویل عرصے میں فضلاےمظاہرعلوم کے ہزارہا طلبہ نے آپ کے سامنے زانوے تلمذی طے کیا، جن میں سے بہت سے مرکزی اداروں میں شیوخِ حدیث اوراعلیٰ مرتبوں پر فائزہیں۔آپ سے اصاغر ہی استفادہ نہیں کرتے تھے بلکہ اکابر بھی احادیث کی تحقیق سلسلے میں آپ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ ملک وبیرونِ ملک کےکبار علمانے اس قسم کے جو استفسار آپ سے کیے اور آپ نے اس کے جو محقاقانہ جوابات عنایت فرمائے آپ سے وقتاًفوقتاًجوعلمی سوالات کئے اورآپ نے ان کے محققانہ جوابات تحریرفرمائے وہ ’الیواقیت الغالیہ فی تخریج احادیث العالیہ‘ اور ’ نوادرالحدیث‘وغیرہ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں،اس کے علاوہ بھی آپ سے کئی علمی یادگار ہیں۔آپ کی شان میں بہ جا طور پر کہا گیا؎شان ہے جس کی نرالی، شیخ یونس آپ ہیںآج جس کی ذات عالی، شیخ یونس آپ ہیںکس زباں میں کروں تعریف حضرت کی بیاںآپ کی ہستی تو خود ہی ہے زمانے پر عیاںصاحبِ کشف و کرامت اور بزرگوںکا نشاںاب جو ہے شانِ مظاہر، شیخ یونس آپ ہیںشیخ کے قدموں میں دنیا ہے پڑی دیکھو مگرپھر بھی حضرت شیخ یونس دنیا سے ہیں بے خبراب جدائی شیخ سے ہوتی ہے، روتا ہے جگرشفقتیں جس کی ہیں ہم پر، شیخ یونس آپ ہیںشیخ یونس کی نصیحت میٹھی، کیا گفتار ہےسنبل و بلبل چنبیلی اور کیا عطار ہےدرس میں رحمت برستی اور کیا انوار ہیںجو مقامِ مجتہد پر شیخ یونس آپ ہیں