طلاق کے سوا، کوئی غم نہیں زمانے میں؟
ندیم احمدانصاری
مودی حکومت نے اقتدار پر آنے کے لیے جتنی باتیں کی تھیں وہ سب چناوی جملے ثابت ہوئے، یہ تو ہر کس و ناکس بہ خوبی جان چکا ہے۔ ہندستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار کسی نے اپنے وعدوں سے یوں سرِ منہ انحراف نہ کیا ہوگا، شاید کوئی اور کرتا تو یوں خاموشیوں کا سماں بھی نہ بندھتا ، لیکن خدا جانے یہ کون سے اچھے دن ہیں کہ حکومت کچھ بھی کرے اسے ٹوکنے روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا،تِس پر اسے مودی لہر کا نام دینا تو بالکل غلط ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ سوا سو کروڑ عوام کی ترقی و بہبود کی پلاننگ کے بجائے اکثر کو مذہب کے نام پر متنوع مسائل میں الجھا کر رکھا گیا ہے، کثیر تعداد میں غریبوں و کسانوں کی پروا کے بجائے جانوروں کے لیے ایمبولنس اور آدھار کارڈ وغیرہ کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ افسوس اس پر بھی ہے کہ جسے دیکھو مفکر اور مصلح بننے کے لیے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر کمنٹ اور اِدھر اُدھر کی بات کرنے میں مزہ محسوس کر رہا ہے، اور اپنی اس دھنیگا مشتی کے لیے انھوں نے موضوع چُنا ہے، اسلامیات یا اسلام کے عائلی قوانین۔حال یہ ہے کہ اسلام کے کامل ترین نظام پر اُن لوگوں نے انگلیاں اٹھائی ہیں جو ناک بلکہ سروں تک برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ للعجب!
اطلاع ہے کہ مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آئندہ ستمبر سے تین طلاق کے معاملے پر جلسے اور سیمیناروں کا انعقاد شروع کرے گی۔یہی نہیں، خبر ملی ہے کہ طلاقِ ثلاثہ، حلالہ اور کثرتِ ازدواج کے خلاف مرافعات کی سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے سماعت شروع ہونے سے عین قبل سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ عبد الرحمان نے طلاقِ ثلاثہ پر آل انڈیا مسلم لابورڈ کے موقف کے خلاف مفادِ عامہ کی ایک عرضی داخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بورڈ مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ نہیں اور ملک کے 80 فی صد نیم خواندہ اور ناخواندہ مسلمانوں کو بورڈ کی موجودگی اور ان کی اپنی زندگی پر اس کے اثرات کا پتا نہیں،نیز عدالتِ عظمیٰ میں بورڈ کا داخل کردہ جوابی حلف نامہ نہ صرف متضاد بیانات کا حامل ہے بلکہ ایک کتابی حوالہ بھی غلط دیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ اطلاع ہے کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق، تعددِ ازدواج اور حلالہ کے معاملے میں مدعا علیہ بنانے اور فن کے ماہر کے طور پر تسلیم کرنے سے متعلق سینئر وکیل اور سابق وزیرِ قانون سلمان خورشید کی درخواست قبول کر لی ہے۔انھوں نے چیف جسٹس جگدیش سنگھ کیہر کی صدارت والی بنچ کے سامنے اس معاملے کا خاص طور سے ذکر کرتے ہوئے کہا ہےکہ وہ مسلمانوں میں تین طلاق، تعدد ازدواج اور نکاح و حلالہ کے معاملوں میں غیر جانب دارانہ خیالات پیش کرنا چاہتے ہیں، عدالت سے انھیں اس کے لیے اجازت چاہیے، جس پر عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ اس معاملے میں تحریری طور پر مواد داخل کرنے کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ مسٹر خورشید نے عدالت سے جب صرف دو دن دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طے شدہ وقت کے اندر اندر ہی اپنا موقف تحریری طور پرپیش کر دیں گے، تو عدالت نے ان کی درخواست قبول کر لی۔ واضح رہے کہ اس معاملے کی پانچ رکنی آئینی بنچ 11 مئی سے باقاعدہ سماعت کرےگی۔
اب چوں کہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلنے والا ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ وغیرہ اس معاملے میں نمائندگی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان حالات میں مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اتنا عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ مع حکومت تمام نام نہاد مسلمان آخر اس وقت مسلمانوں کے دیگر مسائل سے قطعِ نظر صرف طلاق و دیگر عائلی مسائل ہی پریشانہ کیوں سادھے ہوئے ہیں؟یاد رکھیے کہ اسلام کی رو سے نکاح ایک عظیم دینی معاملہ ہے، جسے بعض لوگوں نے صرف جسمانی ضرورت یا ثقافتی امر سمجھ رکھا ہے، جب کہ یہ خیال اسلامی شریعت کی رو سے درست نہیں، اور اسلام و شریعتِ اسلام پر اعتراض کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یا تو مذہبِ اسلام کو بنیادی ذرائع سے جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی یا محض بغض و عناد کی خاطر جان بوجھ کر معددے چند واقعات پر نگاہیں ٹکائے رکھی جاتی ہیں، جس کی بہ دولت اسلامی قوانین پر شرحِ صدر نہیں ہو پاتا۔ دوسروں کی تو کیا بات کریں ہماری ہی صفوں میں بعض ایسے معمـّر افراد بھی موجود ہیں جن کی زندگیاں مسلم گھرانوں میں بیت گئیں اور وہ اب تک طلاقِ ثلاثہ کو محض مسلکی غلو کے نام پر اخبارات میں چپھوا کر شہرت بٹورنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یاد رکھیے شریعتِ اسلامی کی روح کو سمجھے بغیر اور اس میں درک حاصل کرنے سے قبل مسلم پرسنل لا بورڈ پر اعتراض یا الزامات عائد کرنا سنگین معاملہ ہے، جس کے لیے اِس دنیا کے بعد اُس دنیا میں بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔
ایسے لوگوں کے متعلق گجرات کے مفتیِ اعظم (حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب)نے ایک موقع پر بہت خوب فرمایا تھاکہ ہماراملکی قانون اوردستورپوراموجودہے اور تمام اصول باقاعدہ ترتیب دیے گئے ہیں، دستورکی کسی دفعہ کی تشریح اوراس قانون کی وضاحت کرنے کاحق مجھے اورآپ کو نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے مستقل ایک جماعت ہے جس کو وُکلا کہاجاتاہے اور ان کے اوپر جج ہوتے ہیں اور پھر ججوں کے بھی الگ الگ درجے ہوتے ہیں،جیسے کہاجاتاہے کہ گجرات ہائی کورٹ کا ایک اہم ریفرنس آیاہے،کوئی اہم اور خاص فیصلہ اورججمنٹ آیاہے۔مطلب یہ ہوا کہ ملک کے دستورمیںیہ چیزذرامبہم تھی اور ہر مبہم چیزکی وضاحت کرنی پڑتی ہے،جب کورٹ کے اندرکوئی کیس جاتا ہے اورکیس چلتا ہے تودونوںطرف سے دلائل چلتے ہیںاور دونوں کے دلائل سننے کے بعدجج اپنے فیصلے کے اندرایک بات طے کرتاہے،ایسے فیصلے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیںاورآئندہ جاکروہ بھی قانون کاایک جزوبن جاتے ہیں،قانون کے ماہرین اس چیز کو سمجھیںگے۔پھر آئندہ جب دوسرے کیس لڑے جاتے ہیں تووکیل اسی فیصلے کودلیل کے طورپرپیش کرتے ہیںکہ فلاںسن میں فلاںہائی کورٹ یاسپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا اوراس کایہ مطلب بیان کیاتھا، لہٰذااب یہی مطلب ماننا پڑے گا۔انسانوںکے بنائے ہوئے قانون کے اندرجب اتنے مختلف پہلو اورمطلب نکل سکتے تھے اوران میںسے کون سا مطلب قابلِ قبول اورکون سامطلب قابلِ رد ہے اس کافیصلہ ہرآدمی کے ہاتھ میں نہیں دیاگیا،بلکہ اس کے لیے مخصوص ادارے قائم کیے گئے اوران اداروںمیںجوشخص تیارہو،اسی کویہ حق دیاگیاکہ وہ اس میںکوئی کلام کرے،اب وہاں مَیںاورآپ یہ نہیںکہتے کہ کیاہم انسان نہیں؟ہم یہاں کے شہری نہیں؟ وہاںکسی کی ہمت نہیںہوتی،بڑے بڑے دانشور بھی وہاںخاموش رہتے ہیںاور کہتے ہیںکہ بھائی! یہاںتوجج صاحب ہی بول سکتے ہیں، اور جب قرآن وحدیث کی بات آتی ہے توہرایک کی زبان کھل جاتی ہے،حالاں کہ قرآن وحدیث سے مسائل کونکالنے کے لیے کن کن علوم وفنون سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے وہ کتابوں میں تفصیل سے بتلایا گیاہے، اس سے ان کوکوئی واسطہ نہیںہوتا،پھربھی کہتے پھرتے ہیںکہ کیاہمیںیہ حق نہیںپہنچتاکہ ہم اس بارے میںکچھ کہیں؟(ملخصاً)
آخر میں یہاں طلاق سے متعلق ایک غیر مسلم صحافی خاتون کا تجزیہ بھی بعینہ نقل کیا جاتا ہے جو چند دنوں قبل سوشل میڈیا پر گردش میں رہا۔ پرینکا چترویدی نے ہندستان میں مسلم سماج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انڈیا میں 17 کروڑ مسلمان ہیں، جس میں نصف یعنی 8.5کروڑ عورتیں ہیں، 43% مسلم عورتیں یعنی 3.6کروڑ عورتیں شادی شدہ ہیں، اور طلاق کی شرح 1000 شادیوں پر 5 ہے یعنی 2 لاکھ۔ ان 2 لاکھ مطلقہ مسلم عورتوں میں سے؛ (1) تمام مسلمان تین طلاق پر یقین نہیں رکھتے(2) تمام طلاق مردوں کی جانب سے شروع نہیں کیے جاتے ہیں (بلکہ خود عورتیں خلع بھی لیتی ہیں(3) تمام طلاق فوری طور پر نہیں دیے جاتے ہیں ۔فرض کیجیے ان میں سے آدھے یعنی 1 لاکھ فوری تین طلاق ہوتے ہیں۔آئیے اب ہندو سماج کا تجزیہ کریں:انڈیا میں 100کروڑ ہندو ہیں،جن میں آدھی یعنی 50 کروڑ ہندو عورتیں ہیں،43% یعنی 21.5کروڑ ہندو عورتیں شادی شدہ ہیں،علیحدگی کی شرح ہر 1000 شادیوں پر 5.5% ہے ، یعنی 12لاکھ غیر تصفیہ شدہ علیحدگی کی شرح ہر 1000شادیوں پر 3.7%ہے، یعنی 8 لاکھ ہندو عورتوں کے غیر تصفیہ شدہ علیحدگی کے 8 لاکھ معاملا ت میں:(1) کورٹ میں طلاق کے معاملات زیرِ التوا ہیں (2) علیحدگی کی ابتداعورتوں کی جانب سے بھی ہوسکتی ہے (3) تمام غیر تصفیہ شدہ علیحدگی میں بیوی سے کنارہ کشی نہیں ہوتی۔ پھر بھی فرض کیجیے ان میں سے آدھے معاملات میں بیوی سے کنارہ کشی ہوتی ہے (جیسا کہ مودی کا معاملہ) یعنی 4 لاکھ معاملات ہندو سماج کا تجزیہ اگر 1 مسلم عورت تین طلاق سے متاثر ہوتی ہے، تو کم از کم 4 ہندو عورتیں جسودابین جیسے نصیب سے دوچار ہوتی ہیں، بلکہ ہندو عورتوں کی حالت ان سے زیادہ بری ہوتی ہے؛ کیوں کہ ایک مسلمان عورت تو دوسری شادی کرکے بہتر شوہر پاسکتی ہے، لیکن ایک ہندو عورت منجدھار میں پھنس جاتی ہے، وہ نہ دوسری شادی کرسکتی ہے اور نہ ہی نارمل زندگی گزار سکتی ہے، بلکہ وہ بیوہ عورت جیسی ہوجاتی ہے۔ آپ اس کو سمجھیں، ہندوستان کے موجودہ دستور اور موجودہ عدالتی نظام میں عورتوں کو کس طرح کے حالات سے جوجھنا پڑتا ہے، لیکن آپ کو ان عورتوں کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ شاید اس سے آپ کو یہ احساس ہوجائے گا کہ کیا واقعی میڈیا عورتوں کی فلاح وبہبود کے سلسلہ میں سنجیدہ ہے یا وہ محض ایک سیاسی ایجنڈہ کو آگے بڑھا رہا ہے؟ یعنی سماجی اصلاح کے نام پر تمام مسلمانوں کو بدنام کرنے کا ایجنڈہ!(انگلش سےاردوترجمہ پرینکاچترویدی کانگریس کی قومی ترجمان ہیں)
اس تجزیے کو آپ بار بار پڑھیے اور غور سے پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ حکومتِ ہند کیا کر رہی ہے؟آپ خود دیکھ لیں کہ اس ملک میں مسلمان خواتین کرب میں ہیں یا ہندو؟ اس کے باوجود بھی مسلم خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام کے عائلی نظام و قوانین پر حملے کرنا کیوں کر درست کہا جا سکتا ہے؟ پھر اگر یہ کہا جائے کہ طلاقِ ثلاثہ کے راستے سے حکومت ہندوتو تھوپنے یا اس کا راستہ ہم وار کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے، تو آپ نھتنے پھول جاتے ہیں، آواز کرخت ہو جاتی ہے، پیشانیوں پر بَل پڑ جاتے ہیں،کاش کہ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے!
[email protected]