Zakat kis maal par farz hoti hai aur kis par nahi ? Nadeem Ahmed Ansari


زکوٰۃ کس مال پر فرض ہوتی ہے اور کس پر نہیں؟ ندیم احمد انصاری

زکوٰۃ کس مال پرفرض ہوتی ہے؟
کسی مال پر زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے مندرجۂ ذیل شرطوں کا ہونا ضروری ہے:
(۱) مال بقدر نصاب ہو یعنی سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ، یا ان کی قیمت کے برابر روپیے یا مالِ تجارت وغیرہ۔موجودہ زمانے میں رائج اوزان کے اعتبار سے چاندی کا نصاب 612گرام،360ملی گرام اور سونے کا نصاب 87 گرام،480ملی گرام ہوتا ہے۔(جدید فقہی مسائل)
(۲) ملکیتِ تام ہونا، لہٰذا مال اپنے قبضے میں نہ ہو تو سرِدست اس پر زکوٰۃ نہیں ۔
(۳)نصاب ضرورتِ اصلی سے زائد ہونا، استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ نہیں۔ البتہ! کسی کی ملکیت میں نصاب کے بقدر سونے چاندی کے استعمالی زیورات ہوں اور اس کے علاوہ نقد روپیہ وغیرہ کچھ بھی نہ ہو، تب بھی ان زیورات پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
(۴) نصاب قرض سے خالی ہونا، اگر کسی کا قرض یا ضروری حق صاحب ِ نصاب پر باقی ہو تو پہلے اس رقم کو نصاب میں سے نکالنا پڑے گا۔
(۵)مالِ نامی ہونا یعنی ایسا مال جس میں بڑھنے کی صلاحیت ہو، خواہ وہ اپنی خلقت کے اعتبار سے ہو، جیسے: سونا، چاندی یا عملی اعتبار سے، جیسے: مالِ تجارت ۔(در مختار)

کس مال پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی؟
درجِ ذیل اشیا پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، خواہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو:
(۱)رہنے کی نیت سے خریدے گئے گھر۔
(۲) استعمال کے کپڑے وغیرہ۔
(۳) گھر کا سامان؛ فرج، اے سی،واشنگ مشین وغیرہ۔
(۴) سواریاں؛کار،بائک وغیرہ ۔
(۵) غلام، باندیاں؛ جو خدمت پر مامور ہوں۔
(۶) حفاظت کی نیت سے رکھے گیے ہتھیار۔
(۷) گھر میں رکھا ہوا کھانے پینے کے سامان کا ذخیرہ ۔
(۸) سجاوٹ کے برتن۔
(۹) ہیرے، جواہرات۔
(۱۰) کتابیں، جب کہ اس کا اہل ہو۔
(۱۱) کاریگروں کے لیے اوزار و مشین، کارخانے اور فیکٹریاں وغیرہ، نیز وہ تمام سامان جو تجارت کی غرض سے نہ خریدا گیا ہو۔ (ہندیہ، بزازیہ)

مغصوبہ مال کی زکاۃ
مالِ حرام کے سلسلے میں اصل حکم تو یہ ہے کہ اگر اصحابِ مال تک رسائی ممکن ہو تو ان کو واپس کیا جائے ، یہ ممکن نہ ہو تو کُل کا کُل مال فقرا پر خرچ کر دیا جائے اور صدقہ اور ثواب کی نیت بھی نہ کی جائے اور وہ اس کی حلال کمائی سے ممتاز ومشخص ہو تو اس میں زکاۃ واجب نہیں،اس لیے کہ زکاۃ تو اس مال میں ہے جس کا وہ مالک ہو اور یہ شخص اس مال کا مالک ہی نہیں،لیکن یہ حرام مال حلال مال کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہو گیا کہ حساب و کتاب محفوظ نہیں رہا،یہاں تک کہ اس کی تمیز ممکن اور باقی نہ رہی تو گویا اس مال کا ’استہلاک‘ ہے،استہلاک کی وجہ سے امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک وہ اس مال کا ضامن قرار پاتا ہے،اس لیے اس مال پر اب اس کی ملکیت ثابت ہو جاتی ہے اور جب وہ اس مال کا مالک ہو گیا تو ظاہر ہے،اب اس پر اس کی زکاۃ بھی واجب ہوگی۔(جدید فقہی مسائل بتغیر)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here