اعتکاف سے متعلق ضروری مسائل
ندیم احمد انصاری
لغت میں اعتکاف کے معنی ٹھہرنا ہیں، یعنی کسی جگہ میں ٹھہرنا اور اپنے آپ کو اس میں روکنا، اور شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف کے معنی مسجد میں ثواب کی نیت سے ٹھہرنا ہیں، یعنی مردکا ایسی مسجد میں جس میں با جماعت نماز ہوتی ہو، یا امام اور مؤذن مقرر ہوں اور عورت کا اپنے گھر کے کسی حصےمیں ثواب کی نیت سے ٹھہرنا۔
اعتکاف کیوں؟
نبوت سے کچھ عرصہ قبل ہی حضرت نبی کریم ﷺ کے دل میں خلوت اور گوشہ نشینی کا شوق پیدا کر دیا گیا تھا، تاکہ آپ ﷺ کا دل، دماغ اور روح، نبوت کی اس عظیم ذمے داری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے جو عنقریب آپ ﷺ کے سپرد کی جانے والی تھی۔ آپ ﷺ نے گوشہ نشینی کے لیے غارِ حرا کا انتخاب کیا، تاکہ زندگی کی مشغولیاں ترک کرکے اور مخلوق سے الگ رہ کر اپنی فکری قوتوں، روحانی جذبات، دلی احساسات اور عقل وشعور کو یک جا کرسکیں اور کائنات کے بے مثال خالق وموجد سے مناجات کے لمحات میسر آسکیں۔ (سیرۃ النبی للصلابی)یہی وجہ ہے کہ بعض وعظ وارشاد والے لوگ خلوت اختیار کرتے ہیں، جس میں وہ ذکرِ الٰہی اور عبادت کا خاص اہتمام کرتے ہیں، تاکہ ان کا دل منور ہو، دل کی ساری تاریکیاں ختم ہوجائیں اور وہ غفلت وشہوت اور بے راہ روی سے پاک ہوجائیں۔ (ایضاً)رسول اللہ ﷺ نے مدینہ تشریف آوری کے بعد تادمِ حیات اس پر مواظبت فرمائی اور اس کا سبب یہ ہے کہ اعتکاف میں بندہ اپنے رب کے حضور تقرّب حاصل کرتا ہے، کیوں کہ وہ اعتکاف میں اپنے گھر اور دنیا کے دیگر مشاغل سے اعراض کرکے اپنے رب سے لولگاتا ہے اوراللہ جل شانہ سے رحمت طلب کرتا ہے، گویا وہ اپنے رب کے در پر آپڑتا ہے کہ جب تک مغفرت و رحمت کا اعلان نہ ہوجائے میں یہاں سے نہیں جائوں گا، اور اس عمل میں خالص عبودیت کا اظہار ہے۔ (بدائع الصنائع، تحفۃ الفقہاء)
معلوم ہوا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی سنت ہے کہ آپ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اس لیے ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ ہم ان آلودگیوں سے پاک وصاف ہوجائیں جو دل ودماغ میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اپنے حالات وواقعات کو کتاب وسنت کی روشنی میں درست کرنا چاہیےاور اس سے قبل کہ ہمارا محاسبہ ہو، ہمیں خود اپنا محاسبہ کرلینا چاہیے۔(سیرت النبیﷺ للصلابی ،بتغیر)
اعتکاف کا حکم
رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت ِمؤکدہ علی الکفایہ ہے، بستی میں سے بعض لوگوں کے کرلینے سے سب کے ذمے سے ادا ہوجاتا ہے اور اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے۔
وقیل سنۃ علی الکفایۃ حتی لوترک أہل بلدۃ بأسرہم یلحقہم الاساء،والا فلا کالتاذین۔(مجمع الانہر)
اعتکاف کے لیے بہترین جگہ
فتاویٰ عالمگیری وغیرہ میںہےکہ سب سے افضل یہ ہے کہ مسجدِ حرام میں اعتکاف کرے، اس کے بعد مسجدِ نبو یؐ میں، اس کے بعد بیت المقدس میں، ان تینوں مساجد کے بعد کسی جامع مسجد میں اور اس کے بعد محلّے کی مسجد میں، البتہ عورت اپنے گھر کی مسجد یا گھر کا کوئی حصہ متعین کرکے اس میں اعتکاف کرے گی۔(ہندیہ، خانیہ)
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: واجب، سنت(مؤکدہ علی الکفایہ) اور مستحب (نفل)۔
واجب:نذر کا اعتکاف واجب ہے، مثلاً؛ کسی نے منت مانی کہ اللہ کے لیے اس ہفتے تین روز کا اعتکاف کروں گا یا اسی طرح کچھ کہا۔
سنتِ مؤکدہ:رمضان المبارک کے آخری عشرے میں دس دن کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ ہے، جس کی ابتدابیس رمضان کی شام یعنی غروبِ آفتاب سے ہوتی ہے اور عید کا چاند نظر آتے ہی اس کا وقت ختم ہوجاتا ہے، خواہ چاند انتیس رمضان کو دکھائی دے یا تیس رمضان کو، دونوں صورتوں میں سنت ادا ہوجائے گی۔
مستحب:واجب اور سنت ِمؤکدہ کے علاوہ سب اعتکاف مستحب ہیں اور سال کے تمام دنوں میں جائز ہے۔(الدرالمختارمع الرد)
اعتکاف درست ہونے کی شرطیں
اعتکاف کے درست و صحیح ہونے کے لیے درجِ ذیل چند شرطیں ہیں:
(1) مسلمان ہونا۔
(2) عاقل ہونا۔
(3) نیت کرنا ۔
(4) جنابت سے پاک ہونا۔
(5) عورت کے لیے، حیض و نفاس سے پاک ہونا ۔
(6) مرد کے لیے مسجد اور عورت کے لیے مسجدِ بیت ہونا۔
(7) واجب اور مسنون اعتکاف کے لیے روزہ ہونا بھی شرط ہے۔(ہندیہ،الدرالمختارمع الردالمحتار)
اعتکاف کے مستحبات و آداب
اعتکاف میں مندرجۂ ذیل باتوں پر عمل کرنا مستحب ہے:
(1) اعتکاف کے لیے افضل ترین مسجد کا انتخاب کرنا ۔
(2) نیک اور اچھی باتیں کرنا۔
(3) قرآن شریف کی تلاوت کا التزام کرنا۔
(4) علومِ دینیہ پڑھنا؍ پڑھانا ۔(ہندیہ)
اعتکاف میں مباح چیزیں
درجِ ذیل کام حالتِ اعتکاف میں کرنا جائزہے:
(1) مسجد میں کھانا پینا وغیرہ ۔
(2) کوئی حاجت کی چیز خریدنا، بہ شرط یہ کہ وہ چیز مسجد میں موجود نہ ہو۔
(3) نکاح کرنا یا نکاح کی مجلس میں شرکت کرنا۔
(4)دینی کتابیں/رسالے پڑھنا یا دینی مجلس میں بیٹھنا۔(ہندیہ)
کن عذروں کی بنا پر معتکف مسجد سے نکل سکتا ہے؟
جن باتوں کی وجہ سے معتکف کا مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے، وہ درجِ ذیل ہیں:
طبعی ضروریات: طبعی ضروریات کی وجہ سے متعکف کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے، مثلاً: پیشاب، پاخانہ وغیرہ۔وحرم علیہ الخروج الا لحاجۃ الانسان طبیعیۃکبول وغائط وغسل الخ۔(الدرالمختار مع الرد،ہندیہ)
شرعی ضروریات: شرعی ضرورت مثلاً جمعے کی نماز پڑھنے کے لیےمسجد سے باہر نکلنا جائز ہے، جب کہ معتکف کی مسجد میں جمعہ نہ ہوتا ہو،ایسے میں معتکف کو چاہیے کہ زوال کے بعد یا اتنی دیر پہلے مسجد سے نکلے کہ جامع مسجد یعنی جہاں جمعے کی نماز ہوتی ہو، وہاں پہنچ کر خطبے سے قبل چار رکعت سنت پڑھ سکے اور جمعے کے فرض کے بعدچار یا چھ رکعت سنت ادا کرکے لوٹ آئے۔ویستن بعدہا اربعا أو ستاً علی الخلاف۔(الدر المختار مع الرد،ہندیہ)
اضطراری حالت: اضطراری حا لت مثلاًخدا نہ کرے مسجد میں آگ لگ جائے، مسجد گرجائے، مسجد میں کوئی موذی جانور گھس جائے یااس طرح کا اور کوئی حادثہ رو نما ہو جائے تو اس صورت میں معتکف کو باہر نکلنا درست ہے، اور اسے چاہیے کہ جلد از جلد قریب کی کسی مسجد میں چلا جائے اور اپنا اعتکاف خراب ہونے سے بچا لے۔(ہندیہ)
اعتکاف کے مکروہات
وہ باتیں، جن سے اعتکاف مکروہ ہوجاتا ہے، درجِ ذیل ہیں:
(1) خاموشی کو عبادت سمجھ کر مستقل خاموش رہنا۔
(2) فضول اور لا یعنی باتیں کرنا۔
(3) بلا ضرورت خرید و فروخت کا سامان مسجد میں لانا۔ (ہندیہ)
اعتکاف کو فاسد کرنے والے امور
وہ باتیں جن سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، درجِ ذیل ہیں:
(1) بلا عذر مسجد سے باہر نکلنا، خواہ عمداً ہو یا سہواً یعنی جان بوجھ کر نکلے یا بھول سے۔
(2) جماع کرنا، خواہ عمداً ہو یا سہواً، انزال ہو یا نہ ہو، مسجد میں ہو یا باہر۔
(3) بیوی سے دل لگی کے دوران انزال ہوجانا۔
(4) جان بوجھ کر روزہ توڑدینا ۔
(5) مرتَد ہو جانا ۔
(6) پاگل ہوجانا، جب کہ اس حالت میں کوئی روزہ فوت ہوجائے۔
(7) ایسا بے ہوش ہوجانا کہ کوئی روزہ فوت ہوجائے ۔
(8) عورت کو حیض یا نفاس جاری ہوجانا ۔
(9) کسی عذر سے باہر نکل کر ضرورت سے زائد ٹھہر جانا، جیسے استنجا کے لیے گیا اور فارغ ہوکر کچھ دیر باہر ٹھہرا رہا ۔
(10) بیماری یا خوف کی وجہ سے مسجد سے نکلنا۔(ہندیہ)
اعتکاف کن صورتوں میں توڑا جا سکتا ہے؟
بعض صورتوں میں انسان ہونے کے ناطے معتکف کو اعتکاف ختم کرنے کی نوبت آجاتی ہے، من جملہ ان کے بعض صورتوں کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جن میں شرعاً باہر نکل جانے کی گنجائش ہےاور ان شاء اللہ معتکف گنہ گار نہیں ہوگا،البتہ بعد میں کم از کم ایک دن کی قضا کر لے۔
m اعتکاف کے دوران کوئی ایسا مرض لاحق ہوگیا کہ اس کا علاج مسجد میں رہ کر ممکن نہ ہو یا کوئی دوا لانے والا نہ ہو، یا اتنا سخت بیمار ہوگیا کہ گھر جائے بغیر چارہ نہ ہو، یا معتکف تو ٹھیک ہو لیکن اس کے متعلقین میں سے کوئی سخت بیمار ہو جائے، اور اس کے سوا کوئی اور تیمار داری کرنے والا نہ ہووغیرہ۔
m کسی وجہ سے رو زہ توڑنا پڑ گیا، اس صورت میں بھی اعتکاف ختم ہوجائے گا، کیوں کہ مسنون اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے۔
m معتکف کو مسجد میں جان ومال کا خطرہ لاحق ہوجائے، یا وہ محفوظ ہو،لیکن اس کی عدم موجودگی میں اس کے گھر والوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرہ لاحق ہوجائے، جس کا تدارک مسجد میں رہ کر ممکن نہ ہو، مثلاًحکومت کی طرف سے گرفتاری یا عدالت میں پیشی کا وارنٹ وغیرہ جاری ہو جائے، وغیرہ وغیرہ۔
m کسی ڈوبتے یا جلتے ہوئے وغیرہ انسان کی جان بچانے کی نوبت آنا۔(فتاوی شامی، البحر الرائق، احکام اعتکاف)
اعتکاف کی قضا
اگر معتکف بلا عذر تھوڑی دیر کے لیے بھی مسجد سے نکلے گا، خواہ بھول کر ہی کیوں نہ ہو، اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا اور اسے اس کی قضا کرنی ہوگی اور واجب اعتکاف میں روزہ بھی رکھنا ہوگا اور ماہِ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے، عذر کی بنا پر توڑ دیا جائے یا بھول سے ٹوٹ جائے، تو جس دن کا اعتکاف ٹوٹا ہے اس دن کے اعتکاف کی قضا روزہ سمیت لازم ہے، لیکن احتیاطاً اختلاف سے بچنے کے لیے رمضان کے بعد دس دن روزہ سمیت قضا کرلے تو بہتر ہے۔(فتاویٰ رحیمیہ)
اعتکاف کا فدیہ
جس اعتکاف کی قضا واجب تھی اگر کوئی شخص اس پر قادر ہی نہ ہو سکا اور انتقال کر گیا،تو کوئی حرج نہیں،لیکن اگر اعتکاف کی قضا واجب ہونے کے بعد قضا کرنے کی اس نے استطاعت تو پائی، پھر بھی قضا نہیں کی ،یہاں تک کہ زندگی سے مایوس ہوگیا،تو اب اس کے ذمے ہے کہ ہر دن کے اعتکاف کے بدلے ایک مسکین کو دووقت پیٹ بھر کر کھنا کھلائے، یا قریباً پونے دوکلو گیہوں یا اس کی قیمت صدقہ کر دے،یا اپنے ورثا کو اس کی وصیت کر دے۔یہ وصیت اس کے تہائی حصے میں جاری ہوگی اور وصیت نہ کرنے کی صورت میں ورثہ کی صوابدید پر ہوگا کہ اس کی طرف سے فدیہ ادا کریں یا نہ کریں،البتہ ادا کر دینا ان کے حق میں بہتر ہے۔(بدائع الصنائع)