اعتکاف ایک عظیم نبوی سنت، اسے حقیر نہ سمجھیں

اعتکاف ایک عظیم نبوی سنت، اسے حقیر نہ سمجھیں!
ندیم احمدانصاری

اعتکاف یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کی خاطر مسجد میں رکے رہنا ایک عظیم ترین عبادت ہے، جس کا ثبوت خود حضرت نبی کریمﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ملتا ہے، اس کے باوجود خود کو دین دار سمجھنے والے بعض لوگ اس سنتِ نبوی کا استخفاف کرتے نظر آتے ہیں، وہ گویا اس دائمی سنتِ نبوی کو دیگر سنتوں کے ہم پلّہ نہیں سمجھتے، اس لیے جو لوگ اعتکاف یا ہر سال اعتکاف کرتے ہیںیہ حضرات اُن کی اس عظیم عبادت کو اپنے زعم میں حقیر سمجھتے ہیں جب کہ سنت کو حقیر سمجھنا نہایت مذموم فعل ہے۔ کچھ تو عملاً اس گناہ کے مرتکب ہیں اور کچھ قولاً کہ زبان درازی تک سے گریز نہیں کرتے۔ رہے وہ حضرات جنھیں اس عمل کا سنت ہونا ہی معلوم نہیں یا جنھیں سِرے سے سنت و شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں، اس وقت وہ ہمارے مخاطب نہیں، ہمارے مخاطب وہ لوگ ہیں جو جہلِ مرکب میں مبتلا ہوکر اس ربانی عمل کو رہبانی عمل سے تعبیر کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

تفسیرِ عزیزی میں ہے: من تھاون بالآداب عوقب بحرمان السنۃ ومن تھاون بالسنۃ عوقب بحرمان الفرائض ومن تھاون بالفرائض عوقب بحرمان المعرفۃ۔

یعنی جو شخص آداب میں سُستی کرتا ہے وہ سنت سے محرومی کی بلا میں گرفتار کیا جاتا ہے اور جو سنت میں سُستی کرتا ہے اور اسے ہلکا سمجھتا ہے وہ فرائض کے چھوٹنے کی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور جو فرائض میں سُستی کرتا ہے اور ان کو ہلکا سمجھتا ہے وہ معرفتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے۔(تفسیرِ عزیزی،فتاویٰ رحیمیہ)

سنت کو ترک کر دینا اور اس پر عمل نہ کرنا الگ مسئلہ ہے اور سنت کو ہلکا سمجھنا دوسرا مسئلہ ہے۔ سنت کو ترک کر دینا اور اس کا عادی بن جانا موجبِ فسق ہے موجبِ کفر نہیں، یعنی ترکِ سنت کا عادی بن جانا عمل کی خرابی ہے یہ فسق کا سبب بن جاتا ہے، اور دوسری چیز یہ ہے کہ سنت کا ہلکا سمجھنا، اس کا استخفاف اور اس کی حقارت کرنا، یہ عقیدے کی خرابی ہے، جو موجوبِ کفر ہے۔

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
لو قال بطریق الاستخفاف سمعناہ کثیراً یکفر۔
اگر کسی نے کوئی جملہ استخفاف اور حقارت سے کہا، تو بہت سے علما نے اسے موجبِ کفر کہا ہے۔(مستفاد از مجموعۂ مقالات)

اعتکاف کی حیثیت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ کی ہے کہ محلّے کا کوئی بالغ مَرد بھی اگر مسجد میں اعتکاف کر لے تو سب کے سب بری الذمہ ہو جاتے ہیں، لیکن قابلِ غور یہ ہے کہ رسول اللہ حضرت محمدﷺنے مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد اس مبارک عمل کو کبھی ناغہ نہیں کیا اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابۂ کرام بھی اعتکاف کرتے تھے۔ (بخاری)

سیرتِ نبوی کا جس نے کچھ بھی مطالعہ کیا ہوگا اس پر یہ بات بھی مخفی نہ ہوگی کہ مکہ مکرمہ میں جس طرح آپ پریشان خاطر رہے، مدینہ منورہ ہجرت کے بعد بھی آپ کو چین و سکون سے رہنا نصیب نہیں ہواکہ آپ یہاں بھی دین کے استحکام و حفاظت اور اس کی دعوت و تبلیغ میں ہمہ وقت مشغول رہتے تھے، اس کے باوجود احادیثِ مبارکہ کے مطابق آپ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف ضرور کرتے تھے، اس لیے کہ خود تعلیم و تربیت وغیرہ کا گہوراہ ہوتا،اور آپ کا یہ معمول وفات تک برقرار رہا۔شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی عادتِ شریفہ اعتکاف کی ہمیشہ رہی ہے، اس مہینے میں تمام مہینے کا اعتکاف فرمایا اور جس سال وصال ہوا ہے اس سال بیس روز کا اعتکاف فرمایا تھا، لیکن اکثر عادتِ شریفہ چوں کہ اخیر عشرے ہی کے اعتکاف کی رہی ہے، اس لیے علما کے نزدیک سنتِ مؤکدہ وہی ہے۔ (فضائلِ رمضان)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک یوں تو پورا کا پورا عبادتِ الٰہی اور طاعتِ الٰہی میں خصوصی توجہ چاہتا ہے، لیکن اس کے آخری ایام میں بالکلیہ باری تعالیٰ کے دربار میں آکر پڑ جانا محبوب و مطلوب ہے، جس میں بہت سے گناہوں سے حفاظت بھی ہے اور ہر وقت کی نیکی کا ثواب بھی۔ جیسا کہ علما نے اعتکاف کے فوائد شمار کرتے ہوئے لکھاہے:
(۱) اعتکاف کرنے والا گو یا اپنے تمام بدن اور تمام وقت کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کردیتا ہے۔
(۲) دنیا کے جھگڑوں اور بہت سے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔
(۳) اعتکاف کی حالت میں اُسے ہر وقت نماز کا ثواب ملتا ہے، کیوں کہ اعتکاف سے اصل مقصود یہی ہے کہ معتکف ہر وقت نماز اور جماعت کے اِنتظار اور اِشتیاق میں بیٹھا رہتا ہے۔
(۴) اعتکاف کی حالت میں معتکف فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے کہ ان کی طرح ہر وقت عبادت اور تسبیح و تقدیس میں رہتا ہے۔
(۵) مسجد چوں کہ خداتعالیٰ کا گھر ہے، اس لیے اعتکاف میںمعتکف خداتعالیٰ کا پڑوسی بلکہ اس کے گھر میں مہمان ہوتا ہے ۔ (مستفاد از تعلیم الاسلام)

نیز اعتکاف میں چوں کہ آنا جانا اور اِدھر اُدھر کے کام بھی کچھ نہیں رہتے اس لیے عبادت اور کریم آقا کی یاد کے علاوہ اور کوئی مشغلہ بھی نہ رہے گا، لہٰذا شبِ قدر کے قدر دانوں کے لیے اعتکاف سے بہتر صورت نہیں۔ حضرت نبی کریم ﷺاول تو سارے ہی رمضان میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام اور کثرت فرماتے تھے، لیکن اخیر عشرے میں کچھ حد ہی نہیں رہتی تھے۔ (فضائلِ رمضان)

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ نصیب فرمائے اور سنت کی توقیر اور اس پر عمل کی توفیق سے نوازے۔آمین
mmmm

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here