دینی تعلیم پر اجرت جائز نہیں؟

مفتی ندیم احمد انصاری

[قسط اوّل]

سوشل میڈیا پر ایک نوجوان عالم کی ویڈیو وائرل ہے، ان کا کہنا ہے کہ دینی تعلیم پر اجرت لینا جائز نہیں۔ دین سے برگشتہ مسلمان جو پہلے سے مولویوں کے در پئے آزار ہیں انھیں ایک نئی بحث کا موضوع ہاتھ لگ گیا۔ کتابوں سے دوری اور سوشل میڈیا کے اس دور میں عوام کے درمیان ان کے فہم سے اونچی یا آدھی ادھوری بات کرنا بڑے فتنوں کو جنم دیتا ہے، اس لیے نہایت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ عمل کے لیے تو اسوۂ رسول اور اسوۂ صحابہ سے ایک مثال بھی کافی ہے اور حضرت ابوبکرؓ کے درجِ ذیل ایک واقعے سے اصل مسئلہ واضح ہو جاتا ہے، پھر بھی خواص و عوام کے لیے یہاں اجرت علی التعلیم پر پر علمی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔

حضرت ابوبکرؓ کا ارشاد

سب سے اول حضرت ابوبکرؓ کا ارشاد ملاحظہ فرما لیں، جس کی راوی ام المؤمنین حضرت عائشہؓہیں۔ بخاری شریف میں ہے: حضرت عائشہؓنے فرمایا: جب حضرت ابوبکر صدیقؓخلیفہ بنائے گئے تو ارشاد فرمایا: میرا پیشہ اہل و عیال کی کفالت کے لیے ناکافی نہ تھا، لیکن اب میں مسلمانوں کے کاموں میں مشغول ہوگیا ہوں تو ابوبکرؓکی اولاد بیت المال سے کھائےگی اور ابوبکرؓمسلمانوں کے کاموں کی نگہبانی کرےگا۔[بخاری]

قرآن کے عوض دنیا کمانا

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ؀﴾ اے ایمان والو ! (یہودی) احبار اور (عیسائی) راہبوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کر کے رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتےان کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔[التوبہ]

آیت میں مسلمانوں کو مخاطب بنا کر یہود و نصاریٰ کے علما و مشائخ کے ایسے حالات کا ذکر ہے جن کی وجہ سے عوام میں گم راہی پھیلی، مسلمانوں کو مخاطب کرنے سے شاید اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ حالات یہود و نصاریٰ کے علماو مشائخ کے بیان ہو رہے ہیں لیکن ان کو بھی اس سے متنبہ رہنا چاہیے کہ ان کے ایسے حالات نہ ہوجائیں۔اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہود و نصاریٰ کے بہت سے علما و مشائخ کا یہ حال ہے کہ باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور اللہ کے سیدھے راستے سے ان کو روکتے ہیں۔[معارف القرآن]

نیز سورہ آلِ عمران میں ارشاد فرمایا:﴿وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ؁﴾اور بےشک اہلِ کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے آگے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اس کتاب پر بھی جو تم پر نازل کی گئی ہے، اور اس پر بھی جو ان پر نازل کی گئی تھی، اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی سی قیمت لے کر بیچ نہیں ڈالتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں، بےشک اللہ حساب جلد چکانے والا ہے۔[آلِ عمران]

سورہ بقرہ اور سورہ مائدہ میں ارشاد فرمایا گیا:﴿وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا﴾ اور میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو۔ [البقرۃ،المائدۃ]حضرت ابوالعالیہ سے روایت ہے، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر اجرت نہ لی جائے۔[تفسیر ابن کثیر]

بعض کج فہموں نے آیت کے الفاظ سے یہ مطلب نکالا کہ اس میں تھوڑی قیمت لینے کو منع کیا گیا ہے لیکن اگر منھ مانگی یا زیادہ قیمت ملے تو لی جا سکتی ہے، جب کہ آیت کا مفہوم واضح ہے کہ اس کے مقابلے میں دنیا کے تمام خزانےنہایت قلیل ہیں اور ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔

سورۂ نحل میں فرمایا گیا:﴿وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ؀﴾ اور اللہ کے عہد کو تھوڑ سی قیمت میں نہ بیچ ڈالو، اگر تم حقیقت سمجھو تو جو (اجر) اللہ کے پاس ہے وہ تمھارے لیے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ [النحل]

اس آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒفرماتے ہیں:یہاں تھوڑی سی قیمت سے مراد دنیا اور اس کے منافع ہیں، وہ مقدار میں کتنے بھی بڑے ہوں آخرت کے منافع کے مقابلے میں ساری دنیا اور اس کی ساری دولتیں بھی قلیل ہی ہیں، جس نے آخرت کے بدلے میں دنیا لے لی، اس نے انتہائی خسارے کا سودا کیا ہے کہ ہمیشہ رہنے والی اعلیٰ ترین نعمت و دولت کو بہت جلد فنا ہونے والی گھٹیا قسم کی چیز کے عوض بیچ ڈالنا کوئی سمجھ بوجھ والا انسان گوارا نہیں کرسکتا۔[معارف القرآن]

پوری دنیا کی ساری نعمتوں کا قلیل ہونا اگلی آیت میں اس طرح بیان فرمایا:﴿مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ۭ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ؀﴾جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ سب ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے، اور جن لوگوں نے صبر سے کام لیا ہوگا ہم انھیں ان کے بہترین کاموں کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔ [النحل]

سورہ ہود میں ارشاد فرمایا:﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ؀ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ؀﴾ جو لوگ (صرف) دنیوی زندگی اور اس کی سج دھج چاہتے ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ اسی دنیا میں پورا پورا دے دیں گے اور یہاں ان کے حق میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا کچھ نہیں ہے، اور جو کچھ کارگزاری انھوں نے کی تھی وہ آخرت میں بےکار ہوجائے گی اور جو عمل وہ کر رہے ہیں( آخرت کے لحاظ سے) کالعدم ہیں۔ [ہود]

عن قریب ایسے لوگ آئیں گے

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺہماری مجلس میں تشریف لائے، ہم قرآن پڑھ رہے تھے ، ہم میں اعرابی بھی تھے اور عجمی بھی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پڑھتے رہو ، سب ٹھیک ہے، عن قریب ایسے لوگ آئیں گے جو اسے ( قرآن کو ) ایسے سیدھا کریں گے جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے، وہ اس کا اجر جلد لینا چاہیںگے( یعنی دنیا ہی میں ) اور ( آخرت تک ) مؤخر نہیں کریں گے ۔[ابوداود]

حضرت سہل بن سعد ساعدیؓسے روایت ہے، ایک دن رسول اللہ ﷺہمارے پاس تشریف لائے، ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : الحمداللہ! اللہ کی کتاب ایک ہے، اور تم لوگوں میں اس کی تلاوت کرنے والے سرخ، سفید، سیاہ سب طرح کے لوگ ہیں، تم اسے پڑھو، قبل اس کے کہ ایسے لوگ آ کر اسے پڑھیں جو اسے اسی طرح درست کریں گےجس طرح تیر کو درست کیا جاتا ہے، مگر اس کا بدلہ دنیا ہی میں لے لیا جائے گا اور اسے آخرت کے لیے نہیں رکھا جائےگا۔[ابوداود]

حضرت عمران بن حصینؓسے منقول ہے، وہ ایک قاری کے پاس سے گزرے جو قرآن پڑھ رہا تھا، پھر اس نے ان سے کچھ مانگا تو انھوں نے ﴿اِنَّا لِلہ وَاِنَّآ اِلَیہ رَاجِعُون﴾ پڑھا، پھر حدیث بیان کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے، آپﷺ نے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے اسے چاہیے کہ اللہ سے سوال کرے، اس لیے کہ عن قریب ایسے لوگ آئیںگے جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے سوال کریںگے۔[ترمذی]

حضرت عمرؓ نے فرمایا: قرآن پڑھو اور قرآن کے ذریعے اللہ سے سوال کرو، اس سے پہلے کہ ایک قوم ایسی آئےگی جو لوگوں سے قرآن کے واسطے سے مانگاکرےگی۔[مصنف ابن ابی شیبہ]

قرآن کو کھانے کمانے کا ذریعہ نہ بناؤ

حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قرآن پڑھو، اس کو کھانے اور مال بڑھانے کا ذریعہ نہ بناؤ، نہ اس میں غلو کرو،نہ اس میں بے وفائی کرو، قرآن پڑھو کیوں کہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔[طبرانی اوسط]

جس نے دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنایا

حضرت اسماء بنت عمیس خثعمیہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کتنا برا ہے وہ بندہ جس نے اپنے آپ کو اچھا سمجھا اور تکبر کیا اور بلند وبالا ذات کو بھول گیا، وہ بندہ بھی بہت برا ہے جو لہو ولعب میں مشغول ہو کر قبروں اور قبر میں گل سڑ جانے والی ہڈیوں کو بھول گیا، وہ بندہ بھی برا ہے جس نے سرکشی و نافرمانی کی اور اپنی ابتداے خِلقت اور انتہا کو بھول گیا، وہ بندہ بھی برا ہے جس نے دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنایا، وہ بندہ بھی برا ہے جس نے حرص کو راہ نما بنالیا، وہ بندہ بھی برا ہے جسے اس کی خواہشات گم راہ کردیتی ہیں، وہ بندہ بھی برا ہے جسے اس کی حرص ذلیل کردیتی ہے۔[ترمذی]

(دوسری اور آخری قسط آیندہ ہفتے ان شاء اللہ)

[کالم نگار الفاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here