زکوٰۃ کے ضروری احکام و مسائل

زکوٰۃ کے ضروری احکام و مسائل، ندیم احمد انصاری

لفظ’زکوٰۃ‘ لغت میں پاک ہونے اور بڑھنے کو کہتے ہیں اور زکوٰۃ کو اسی لیے زکوٰۃ کہتے ہیں کہ یہ اپنے ادا کرنے والوں کو گناہوں سے پاک کرتی اور مال میں اضافہ کرتی ہے۔ شرعاً زکوٰۃ کے معنی ’اپنے مخصوص مال کا کسی مخصوص شخص کو مالک بنا دینا ہے‘ یعنی اللہ کے حکم کے مطابق اپنے مال کا مخصوص حصّہ، اس کے صحیح مصرف میں صَرف کرنا۔ زکوٰۃ میں کُل مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فی صد ادا کرنا فرض ہوتا ہے۔ (تبیین الحقائق)

زکوٰۃ کس پر فرض ہوتی ہے؟
کسی بھی شخص پر مندرجۂ ذیل شرطوں کے پائے جانے پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے:
(۱) مسلمان ہونا، کافر پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
(۲) عاقل ہونا، پاگل و مجنون پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
(۳) بالغ ہونا، نا بالغ پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
(۴) زکوٰۃکی فرضیت کا علم ہونا، خواہ حکماً ہو؛ جیسے: اسلامی ماحول میں رہنا۔
(۵) آزاد ہونا، غلام؍ باندی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔(شامی، بدائع الصنائع)
نوٹ: خیال رہے ہندوستان میں غلامی کا وجود نہیں، یہاں حقیقتاً قیدی بھی آزاد ہیں اور ملازمِ سرکار و غیر سرکاربھی، اگر یہ لوگ مالک ِنصاب ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (کفایت المفتی:)

زکوٰۃ کب فرض ہوتی ہے؟
جب کسی کے پاس بقدرِ نصاب مال یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت کا کوئی مال ہو اور اس پر ایک سال پورا گذر جائے تو اس شخص پر اس مال کی زکاۃ فرض ہوجاتی ہے۔ زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اسے جلد از جلد ادا کردینا چاہیے، بلا عذر تاخیر سے گنہگار ہوگا،نیززکوٰۃ کو ادا کرنے میں قمری سال کا اعتبار کیا جائے گا، نہ کہ شمسی سال کا۔ (ہندیہ)

نصاب پر سال گزرنے کا مطلب
نصاب پر سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ قمری ماہ کی جس تاریخ میں صاحبِ نصاب ہوئے تھے، ہمیشہ وہی تاریخ آپ کی زکوٰۃ کے حساب کے لیے متعین رہے گی۔ اس تاریخ میں آپ کے پاس سونا، چاندی، مالِ تجارت اور نقدی جو کچھ بھی ہو، خواہ ایک ہی روز قبل مِلا ہو، سب پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔زکوٰۃ کا حساب ہمیشہ اسی تاریخ میں ہوگا، ادا جب چاہیں کریں۔ اگر درمیان سال میں بہ قدرِ نصاب مال نہیں رہا مگر متعین تاریخ میں نصاب پورا ہو گیا تو بھی زکوٰۃ فرض ہے، البتہ اگر درمیان میں مال بالکل نہ رہا تو اب پھر جس تاریخ میں صاحبِ نصاب ہوں گے وہ متعین ہوگی۔ اگر صاحبِ نصاب بننے کی قمری تاریخ یاد نہ ہو تو غور و فکر کے بعد جس تاریخ کا ظنِ غالب ہو، وہ متعین ہوگی۔ اگر کسی تاریخ کا بھی ظنِ غالب نہ ہو تو خود کوئی قمری تاریخ متعین کر لیں(اور آیندہ اس کو یاد رکھیں)۔ (احسن الفتاویٰ)

زکوٰۃ کی ادایگی کی شرطیں
زکوٰۃ کی ادایگی میں مندرجۂ ذیل شرائط کا خیال رکھا جانا ضروری ہے:
(۱) زکوٰۃ کا مال علاحدہ کرتے وقت یا وکیل کے حوالے کرتے وقت زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت کر لی جائے، اگر زکوٰۃ بغیر نیت کے ادا کردی پھر زکوٰۃ کی نیت کرلی تو اگر وہ مال فقیر کے پاس قائم ہے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی ورنہ نہیں، ہاں زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے، اسے بھی یہ علم ہو کہ یہ زکوٰۃ کا مال ہے بلکہ اہلِ تعلق کو زکوٰۃ نہ کہہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(۲) زکوٰۃ کو اپنے مال سے محض الگ کردینے سے ذمّہ ادا نہیں ہوتا بلکہ جس قدر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے وہ کسی مستحق کو اللہ کے لیے دے دینے اور مالک بنا دینے سے ادا ہوگی، کسی خدمت یا کسی کام کی اجرت میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں بلکہ اس طرح زکوٰۃ ادا ہی نہیںہوگی اور پھر سے ادا کرنی ہوگی اور اگر یہ شخص اسی حالت میں مر گیا تو اب اس صورت میں اس کے مال میں وراثت جاری ہوگی۔(مراقی الفلاح،ہندیہ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here