رمضان کے روزوں میں نہ تو کمی ہونی چاہیے اور نہ زیادتی

رمضان کے روزوںمیں نہ توکمی ہونی چاہیےاور نہ زیادتی
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
روزوں کے سلسلہ میں شریعت نے ایک مقداراور کمیت یعنی تعداد مقررکی ہے اس میں بھی کوئی ایسی شکل اختیارکرناجس کی وجہ سے تعدادکے اندر زیادتی ہو، شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔اسی لیے رمضان سے ایک دو دن پہلے سے روزہ رکھنے کو منع فرمایاہے۔ہاں ! اگر عادت ہے جیساکہ اوپر بتلایاگیاتوکوئی حرج کی بات نہیں۔ اسی طرح رمضان ختم ہونے کے بعد توعیدہی ہے ،اورعیدکاروزہ شریعت نے حرام قرار دیاہے۔ معلوم ہواکہ دونوں طرف پابندی لگادی،گویارمضان کی جو تعداد مقررکی ہے اس میں نہ توکمی ہونی چاہیےاور نہ زیادتی ہونی چاہیے۔یہ بات تو کمیت کے اعتبار سے ہوئی۔اورکیفیت کے اعتبارسے بھی یہی حکم ہے، جیساکہ آگے آئے گا کہ افطار جتنا جلدی ہووہ پسندیدہ ہے،اگر سورج غروب ہوگیاتو اب روزہ کھولنے میں دیرنہیں کرنی چاہیے، تویہاں بھی دیکھیےکہ روزہ کا ایک وقت مقررتھاتو اس کو زیادہ لمبانے کو پسندنہیں کیاگیاہے۔اسی طرح سحری میں جتنا لیٹ کرو کہ بالکل روزہ شروع ہونے سے پہلے پہلے سحری پوری کرو؛وہ زیادہ پسندیدہ ہے۔ توروزہ کاجووقت متعین کیاگیاہے اس میں اُدھربالکل اخیرمیں کھائیں اور اِدھر فوراًافطار کرلیں، گویاجتناوقت شریعت نے دیاہے اتناہی استعمال کرنااچھا ہے ۔
اپنی مرضی پرچلنے کانام عبادت نہیں
کہنےکاحاصل یہ ہےکہ یہ سارے جواحکامات دیے گئے ہیں اوران چیزوں کی جوتاکیدکی گئی ہے وہ دراصل دین کے معاملہ میں غلو سے بچنے کے لیے ہے کہ دین کےمعاملہ میںحدسے آگے بڑھنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔اس لیے آپ ایسا مت کیجیے کہ آدھی رات کو سحری کرکے سوگئے اورروزہ بجائے ایک دن کارکھنے کے ڈیڑھ دن کارکھنے لگے۔یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ایک تویہ ہے کوئی آدمی اپنی سستی کی وجہ سے ایسا کرتاہے کہ رات کوہی کھاکر سوجاتاہے ،تواس میں گناہ تونہیں ہے لیکن پسندیدہ طریقہ بھی نہیں ہے۔اوراگرکوئی آدمی ضروری سمجھ کر ایساکرے گاتوگنہ گار ٹھہرے گا، لہٰذا شریعت دین کے معاملہ میں غلوکی اجازت نہیں دیتی۔اس لیے کہ عبادت نام ہے اللہ اور رسول کےحکم کوبجالانے کا،اپنی مرضی کے اوپرچلنے کانام عبادت نہیں ہے۔
یوم الشک کےروزہ کابیان
عن أَبي اليقظان عمارِ بن يَاسِرٍ؆قَالَ:مَنْ صَامَ اليَوْمَ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ ، فَقَدْ عَصَى أَبَا القَاسِمِ ﷺ. (رواه أَبُو داود والترمذي ، وقال: حديث حسن صحيح )(ریاض الصالحین:۱۲۲۷)
حضرت عماربن یاسر؆سے منقول ہے کہ جس نےیوم الشک کاروزہ رکھااس نے ابوالقاسم یعنی نبیٔ کریم ﷺکی نافرمانی کی۔
یوم الشک یعنی شعبان کی تیسویں تاریخ کہ اس سے اگلی شب میں چاندنظرآنے کے امکانات تھے لیکن بادل ہونے کی وجہ سے چاند نظرنہیں آیا، ہوسکتا ہے کہ چاندہواہو،اورنہ بھی ہواہو۔ توچوںکہ چاند نظر نہیں آیااس لیے رمضان شروع نہیں ہوا،لیکن شعبان کاتیسواں دن ہے اس کے متعلق یہ بھی احتمال ہے کہ ہوسکتا ہےکہ یہ پہلی رمضان ہو،ایسے موقع پر بعض لوگ یہ کرتے ہیںکہ احتیاط کے طورپر رکھ لو؛ توشریعت نےاس سے منع کردیاہے۔جب بادل کی وجہ سے چاندنظرنہیں آیااور رمضان ثابت نہیں ہوا؛تواحتیاط کیسا؟جب رمضان آیا ہی نہیں تو دل میں رمضان کا خیال رکھ کر روزہ کیوں رکھتے ہو؟ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی،یہی یوم الشک کا روزہ کہلاتاہے۔
ہاں!اگرآپ کی عادت کادن ہے،مثلاًآپ ہرپیرکوروزہ رکھتے ہیں اورآج پیرہےتووہ روزہ رکھ سکتے ہیں،یاآپ پکی نفل کی نیت کرتے ہیں(ڈاوانڈول اور تذبذب والی بات نہیںکہ اگراعلان ہوگیاتورمضان کاہوجائےگا،ورنہ نفل توکہیں گیاہی نہیں؛تواس کی تواجازت نہیں ہے) اوردل میں دوسراارادہ بالکل بھی نہ ہو؛یہی لوگ خواص کہلاتے ہیں اورانھیں کوروزہ رکھنےکی اجازت ہے۔فقہ کی کتابوں میں خواص کی تعریف یہی کی گئی ہے کہ جواپنی نیت پر کنٹرول رکھ سکتاہو،تووہ روزہ رکھ سکتاہے۔ اور جس کے دل میں ڈاوانڈول اورتذبذب ہوتواس کواس دن روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ویسے مسئلہ یہ ہے کہ بعد میںجاکر کہیں سے گواہی آگئی اورثابت ہوگیاکہ یہ دن پہلی رمضان کاہے توان لوگوں نے جونفل روزہ رکھاتھااوران کی پکی نیت نفل کی ہی تھی؛ ان کاوہ روزہ رمضان ہی کا ہوجائے گا،لیکن نیت میں ڈاوانڈول اورتذبذب والے آدمی کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here